31دسمبر 2019 کو ایک عیسائی اسکالر “بشپ مائیکل کری”(Bishop Michael Curry) سے میڈیا پروگرام سی بی ایس دز مورننگ میں سوال کیا گیا کہ کرسمس کا اصل معنی کیا ہے؟، تو اُس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ :
The real meaning of Christmas is that God made a decision to show us what we mean to God. There is a text in the New Testament John’s Gospel: God so loved the world that he gave his son (his only son) that’s the key to the meaning of Christmas.) (John, 3: 16)
“کرسمس حقیقی معنی یہ ہے کہ خدا نے ایک فیصلہ کیا۔ یہ دکھانے کے لئے کہ ہم اس کے نزدیک کتنی حیثیت رکھتے ہیں ۔اور عہد نامہ جدید یوحناباب 3 میں متن ہے:” کیونکہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی محبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بَیٹا بخش دِیا”۔کرسمس کے معنی کو سمجھنے لیکن یہی بنیادی بات ہے ۔”
بشپ مائیکل کری کی گفتگو دیئے گئے لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
https://youtu.be/LnPI1XyTBuA
یہی جواب معروف مسیحی ویب سائٹ www. gotquestions.com پر بھی دیا گیا ہے اور وہاں پر بھی عہد نامہ جدید یوحنا باب کا حوالہ دیا گیا ہے۔1 ان حوالوں سے یہ بات بڑی واضح ہو گئی ہے کہ کرسمس عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا تہوار ہے، اس کے پیچھے فکر یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور 25 دسمبر کو اللہ تعالیٰ نے اپنا بیٹا اس دنیا میں بھیجا ۔ معاذ اللہ۔
اسے یول ڈے نیٹوئی (پیدائش کا سال)اور نوائل (پیدائشی یا یومِ پیدائش)جیسے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ کرسمس کے مروجہ ناموں میں سے ایک نام بڑا دن بھی ہے۔
لفظ كرسمس تقریبا ً چوتھی صدی میں پایا گیا۔ اس سے قبل اس لفظ کا کوئی وجود نہیں تھا ۔کرسمس جو ہر سال 25 دسمبر کو منائی جاتی ہے۔ پوری عیسائی مذہبی لٹریچر اور اناجیل عہدنامہ جدید اور بائبل میں اس رومن کیتھولک اور پروسٹنٹ کلیسائیں 25 دسمبر کو ، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسا 6 جنوری کو اور ارمنی کلیسا 19 جنوری کو حضرت مسیح علیہ السلام کی یومِ ولادت مناتی ہے۔کا کوئی تذکرہ نہیں اور نہ ہی 25 دسمبر حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہے۔
عیسائیوں میں کچھ حقیقت پسند لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ 25 دسمبر حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کا دن نہیں ہے بلکہ دیگر بت پرست اقوام سے لی گئی بدعت مانتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ تاریخ کلیسا میں کرسمس کی تاریخ کبھی ایک نہیں رہی کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ ِولادت کسی بھی مستند دلیل، شواہد یا ذریعے سے ثابت نہیں۔
نہ صرف مسیح علیہ السلام کی تاریخ پیدائش بلکہ سن پیدائش کے حوالے سے بھی مسیحی علماء میں شدید اختلافات پایا جاتا ہے۔ عام خیال ہے کہ سن عیسوی مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے مگر قاموس الکتاب اور دیگر مسیحی کتابوں کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسیح علیہ السلام کی ولادت 4 یا 6 ق م میں ہوئی ۔ قاموس الکتاب میں تاریخِ پیدائش 4 ق م دی گئی ہے جبکہ مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ (The Hundred) میں 6 ق م کو تاریخ ولادت تسلیم کیا ہے ۔ تاریخ ولادت کے ساتھ ساتھ یوم ولادت کے حوالے سے بھی شدید اختلافات ہے ۔ جبکہ قرآن اور اناجیل میں عیسی ٰعلیہ السلام کی پیدائش کے معلوم واقعات کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ کی ولادت موسم گرما میں ہوئی، جو جولائی یا اگست کا مہینہ ہے۔
قرآن پاک میں ولادت مسیح کا تذکرہ
سورۃ مریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا ﴿٢٣﴾ فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا ﴿٢٤﴾ وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا
مریم – 23/24/25
پھر درِد زه ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔ اتنے میں اسے نیچے سے ہی آواز دی کہ آزرده خاطر نہ ہو، تیرے رب نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے۔اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، یہ تیرے سامنے تر و تازه پکی کھجوریں گرا دے گا۔
قرآن مجید کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کر دیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت 25 دسمبر کو نہیں بلکہ کھجوریں پکنے کے مہینے میں یعنی جولائی یا اگست کے دنوں میں ہوئی تھی جبکہ دسمبرکا مہینہ موجودہ فلسطین میں سخت سردی اور بارشوں کا مہینہ ہوتا ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ اس علاقے میں موسم گرما کے وسط یعنی جولائی اور اگست میں ہی کھجوریں ہوتی ہیں۔
اس کے باوجود حضرت مسیح علیہ السلام کا یومِ ولادت 25 دسمبرکو متعین کی گیا ۔ کیونکہ عیسائیت کو تحفظ دینے والے اہلِ روم کے مشرک اپنے سورج دیوتا کا جنم دن 25 دسمبر کو ہی منایا کرتے تھے اور مصر کے فرعون اپنی مشہور دیوی آئسس(Isis ) کے بیٹے ہورس ( Horus ) دیوتا کا جنم دن بھی 25 دسمبر کو منایا کرتے تھے۔
کرسمس ڈے كوعید کے طور پر 25 دسمبر کو منانے کا رواج تاریخ میں سب سے پہلے بابل کی تہذیب سے ملتا ہے کیونکہ اہلِ بابل 25دسمبر کو شہر کے بانی نمرود بادشاہ کی سالگرہ منایاکرتے تھے۔ قاموس الکتاب کے مطابق 25 دسمبر کو پہلی بار اٹلی میں بطور مسیحی تہوار مقرر کیا گیا، اس وقت کے ایک غیر مسیحی تہوار جشن زحل کو جو سورج کے رأس الجدی پر پہنچنے کے موقع پرمنعقد ہوتا تھا ،اس تهوار كو پس ِپشت ڈال کر اُ س کی جگہ مسیح علیہ السلام کی سالگرہ منائی گئی۔2
سابق پادری گلزار احمد کا کہنا ہے کہ کرسمس کے تہوار 25 دسمبر کو ہونے کا ذکر پہلی مرتبہ شاہ قسطنطین کے عہد میں 325 عیسوی کو ہوا۔ یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں کہ اولین کلیسائیں بڑا دن مناتی تھیں یا نہیں۔ لیکن جب سے یہ تہوار شروع ہوا ہے بڑا مقبول رہا ہے۔ اگرچہ بعض رسومات جو مسیحی رسومات نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسیحی عقیدہ ہے۔ کرسمس سے منسوب کر دی گئی ہیں ،مثلاً کرسمس ٹری ، کرسمس کارڈ وغیرہ ۔ حلانکہ اس کا مسیحی دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔( گلزار احمد سابق پادری)
کینن فیرر نے بھی اپنی کتاب ’’ لائف آف کرائسٹ ‘‘ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے یومِ ولادت کا کہیں بھی پتہ نہیں چلتا ۔ انجیل سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیدائش والی رات گڈریے بھیروں کو لیکر بیت اللحم کے کھیتوں میں موجود تھے۔3
لیکن انسائیکلو پیڈیا برناٹیکا میں کرسمس ڈے پر آرٹیکل لکھنے والے نے تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دسمبر کا مہینہ تو ریاست یہودیہ (فلسطین) میں سخت بارشوں کا مہینہ ہے ، ان دنوں بھیڑیں یا گڈریے کس طرح کھلے آسمان تلے رہ سکتے ہیں؟۔
چار صدیوں تک 25 دسمبر حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ ولادت نہیں سمجھی جاتی تھی ۔ 530 ء میں ایک راہب جس کا نام ڈایونیس ا کسیگز تھا ۔اُس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ ولادت 25 دسمبر مقرر کی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوتھی صدی کے شروع میں روم کے ایک پادری نے ایک مشعل فروخت کرنے والے سرمایہ دار کے ساتھ ساز باز کرکے اُس کے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے 25 دسمبر336ء کو گرجا گھر میں موم بتیاں جلا کر لوگوں سے مخصوص طریقہ پر دُعا کروائی، اور پہلا کرسمس ڈے منایا اور پھر اس دن سے موم بتیاں جلانے کا رواج چل پڑا۔
کرسمس کا تہوار ابتدا میں صرف مذہبی تھا، پھر اس میں موسیقی آئی، پھر ڈانس اور آخر میں شراب، شراب داخل ہونے کی دیر تھی کہ یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیار کر گیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ کرسمس کے دن لڑائی جھگڑے، آبروریزی وزیادتی اور قتل وغارت کے ریکارڈ مقدمات وجود میں آتے ہیں۔
مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش بیت اللحم میں ہوئی۔ جو فلسطین کی ایک بستی کا نام ہے ۔ حضرت داؤد اور سلیمان علیہ السلام کی قبریں بھی یہیں ہیں۔ فلسطین کی اس بستی کو بیت اللحم نام رکھنے کی ایک توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قدیم آرامی زبان میں ’’بیت ‘‘ کا معنی خبز یعنی روٹی کو کہتے ہیں، چونکہ اس علاقہ میں گھاس پھوس اور پھل وغیرہ زیادہ تھے، جس سے جانور وغیرہ سیر ہو جاتے تھے تو اس وجہ سے اس بستی کا نام ’’بیت لحم‘‘ پڑ گیا۔
جبکہ بعض دیگر محققین کی تحقیق کے مطابق اس شہر کو کنعانیوں نے بنایا تھا، اور اس کا نام ” بیت ایلو لاہاما“ تھا یعنی “لاہاما” خدا کا گھر، اور “لاہاما” خدا کنعانیوں کے نزدیک کھانے اور غذا کا منتظم تھا، چونکہ یہ شہر ہرا بھرا تھا۔ انسان اورجانور اس میں سیر ہوجاتے تھے تو ان کے باطل خدا کے نام پر ”بیت لحم“ پڑگیا، جس میں غذا کا معنی موجود ہے۔ بعض دوسرے محققین کا کہنا ہے کہ یہ اصل میں ”بیت لخم“ تھا۔ ’’لخم‘‘ عرب کا ایک قبیلہ تھا، جو یمن سے ہجرت کرکے بیت المقدس آیا تھا، چنانچہ اس قبیلہ کے نام پر اس بستی کا یہ نام پڑگیا، پھر عام لوگوں نے اس کو ”بیت لحم کہنا“ شروع کردیا۔ بعد ازاں قسطنطینہ کے بادشاہ نے عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش پر ایک محل بنایا جس کا نام ”بیت اللحم“ رکھا، لہذا اب عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ’’بیت اللحم‘‘ سے مشہور ہے۔
جو لوگ کرسمس کے دن عیسائیوں کی عید میں شرکت کرتے ہیں یا خوشی کا کیک کاٹتے ہیں یا انہیں تحفے دیتے ہیں وہ تمام معاملات میں رسول اللہ ﷺکی مخالفت کرتے ہیں. اس کے متعلق قرآن کریم کی سخت وعید حسب ذیل ہے:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
النور – 63
جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائیں یا انہیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا
الفرقان – 72
اور رحمن کے نیک بندے وہ ہیں جو جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے اور جب کبھی بے ہودہ (مجالس) کے پاس گزرتے ہیں تو کریمانہ انداز میں گزرجاتے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: ’’ ابو العالیہ طاؤس، محمد بن سیرین، ضحاک، ربیع بن انس اور دیگر اہل علم نے کہا ہے کہ ’’زُور‘‘ سے مراد مشرکین کی عیدیں ہیں۔4
کرسمس یہود و نصاری کی نقالی ہے
لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَن قَبْلَكُمْ شِبْرًا بشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بذِرَاعٍ، حتَّى لو سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ، قُلْنَا: يا رَسُولَ اللَّهِ، اليَهُودَ وَالنَّصَارَى؟ قالَ: فَمَنْ؟
صحیح البخاری – 3456
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” تم ضرور اپنے سے پہلی امتوں کی بالشت در بالشت اور ہاتھ در ہاتھ پیروی كرو گے، یہاں تک كه اگر وه گوه كے سوراخ میں داخل هوں گے تو تم بھی اس میں داخل ہوں گے ۔ صحابہ کرام نے پوچھا: یا رسول اللہ! پہلی امتوں سے مراد یہود و نصاری ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر اور کون ؟۔
اسلامی عقیدے کے مطابق اللہ تعالٰ کی کوئی اولاد نہیں ہے ۔ سورہ اخلاص میں اللہ تعالیٰ نے واضح انداز میں ارشاد فرمایاکہ :
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
الاخلاص – 1/2/3
کہہ دو الله ایک ہے.الله بےنیاز ہے،نہیں جنا اس نے (کسی کو) اور نہ ہی وہ (خود) جنا گیا،اور اس کا کوئی بھی ہمسر نہیں ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ﴿٨٨﴾ لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ﴿٨٩﴾ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ﴿٩٠﴾ أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا ﴿٩١﴾ وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا
مریم – 88/92
اور مشرکین کہتے ہیں کہ رحمن نے کسی کو اپنی اولاد بنا رکھا ہے۔ یقینا تم لوگوں نے ( یہ کہہ کر) بہت بھاری گناہ کیا ہے۔قریب ہے کہ اس بات سے آسمان پھٹ جائیں، اور زمین میں شگاف پڑجائے اور پہاڑوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔اس بات پر کہ انہوں نے رحمٰن کے لئے اولاد کا دعویٰ کیا، حالانکہ رحمٰن کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔
اللہ تعالیٰ کےشایاں اس لئے نہیں کہ اولاد باپ کی نہ مخلوق ہوتی ہے نہ مملوک بلکہ اس کی شریک اور ہم جنس ہوتی ہے۔ اور اللہ ایسے تمام نقائص سے مبرا ہے نہ اس کا کوئی ہم جنس ہے نہ شریک۔ سب اسی کی مخلوق، مملوک اور اس کے عاجز بندے اور غلام ہیں۔ علاوہ ازیں اسے اولاد کی ضرورت بھی نہیں۔ اولاد سے جو جو مفادات وابستہ ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کی بھی اسے احتیاج نہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
الانعام – 101
وہ آسمانوں اور زمین کو ایجاد کرنے والا ہے۔ اس کے اولاد کیسے ہوسکتی ہے جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اسی نے تو ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
اللہ کی اولاد قرار دینا اللہ کو گالی دینے کے مترادف ہے۔جو لوگ کرسمس منانے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں، وہ اس حدیث قدسی کو غور سے پڑھیں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، وَشَتَمَنِي وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ: لَنْ يُعِيدَنِي، كَمَا بَدَأَنِي، وَلَيْسَ أَوَّلُ الخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِهِ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ: اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا وَأَنَا الأَحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لِي كُفْئًا أَحَدٌ
صحیح البخاری – 4974
ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا۔ مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ (ابن آدم) کہتا ہے کہ میں اس کو دوبارہ نہیں پیدا کروں گا حالانکہ میرے لیے دوبارہ پیدا کرنا اس کے پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں۔ اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ کہتا ہے کہ اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے “ حالانکہ میں ایک ہوں۔ بے نیاز ہوں نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ کوئی میرا ہم سر ہے۔
اس حدیث میں گالی دینے سے مراد یہ ہے کہ جو چیز کسی کے لائق نہ ہو اس کی طرف نسبت کرنا گالی ہی ہے جیسے کسی غیر شادی شدہ کی طرف اولاد کی نسبت کی جائے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹے کو ثابت کرتے ہیں جیسے قرآن میں ہے کہ’’ یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے“۔ عرب کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کو گالی دینا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی شان میں تنقیص ہے اور اسے مخلوق کی جگہ پراتارنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بیهوده باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میں بالکل اکیلا ہوں، اپنی ذات اور صفات میں، ہر طرح کے نقص سے پاک ہوں، تمام صفاتِ کمال کے ساتھ متصف ہوں۔ جو کسی کا محتاج نہیں، اس کے علاوہ ہر ایک اس کا محتاج ہے، وہ ذات جو شرافت اور بادشاہت میں کامل ہے۔ میں کسی کا باپ نہیں ہوں۔ نہ میں کسی کا بیٹا ہوں، اس لیے کہ وہ اول ہے اس کی کوئی ابتداء نہیں، اسی طرح وہ آخر ہے اس کی کوئی انتہاء نہیں۔ میرا کوئی ہم مثل اور نظیر نہیں۔ ہمسری کی نفی کرنا باپ ہونے، بیٹا ہونے اور بیوی ہونے وغیرہ تمام چیزوں کو شامل ہیں۔
کرسمس ڈے منانا دین میں مبالغہ اور غلوہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
المائدۃ – 77
اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! تم لوگ اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، جو اس سے پہلے خود گمراہ ہوگئے اور بہتوں کو گمراہ کیا، اور راہ راست سے بھٹک گئے۔
یعنی اتباع حق میں حد سے تجاوز نہ کرو اور جن کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے، اس میں مبالغہ کرکے انہیں منصب نبوت سے اٹھا کر مقام الوہیت پر فائز مت کرو، جیسے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معاملے میں تم نے کیا۔ غلو ہر دور میں شرک اور گمراہی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ انسان کو جس سے عقیدت ومحبت ہوتی ہے، وہ اس کی شان میں خوب مبالغہ کرتا ہے۔ وہ امام اور دینی قائد ہے تو اس کو پیغمبر کی طرح معصوم سمجھنا اور پیغمبر کو خدائی صفات سے متصف ماننا عام بات ہے، بدقسمتی سے مسلمان بھی اس غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ انہوں نے بعض ائمہ کی شان میں بھی غلو کیا اور ان کی رائے اور قول، حتیٰ کہ ان کی طرف منسوب فتویٰ اور فقہ کو بھی حدیث رسول (ﷺ) کے مقابلے میں ترجیح دے دی۔
اسی سے متعلقہ مضمون : کرسمس کی حقیقت اور اس کی قباحتیں
کرسمس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ یہ دین اسلام میں اضافہ ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کی عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ کوئی عید نہیں ہے اور ہفت روزہ عید جمعہ کا دن ہے، چنانچہ ان کے علاوہ کوئی بھی جشن ، تہوار اسلام میں منع ہے. حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان كرتے ہیں كہ :
قدمَ رسولُ اللهِ ﷺ المدينةَ ولَهم يومانِ يلعبونَ فيهما فقالَ ما هذانِ اليومانِ قالوا كنَّا نلعبُ فيهما في الجاهليَّةِ فقالَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ إنَّ اللهَ قد أبدلَكم بِهما خيرًا منهما يومَ الأضحى ويومَ الفطرِ
صحیح ابی داؤد – 1134
جب رسول كریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ کے کھیل کود کے لیے دو دن مقرر تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایاکہ یہ دو دن کیا (اہمیت رکھتے) ہیں؟ صحابہ عرض گزار ہوئے: اے الله كے رسول! ہم ان دو دنوں میں ایامِ جاہلیت میں کھیلتے کودتے تھے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے تمہیں ان دو دنوں كی جگہ ان سے بہتر عید الفطر اور عید الاضحی كے دو دن عطا فرمائے ہیں۔
جب اس جشن اور تہوار کو قربِ الہی کیلئے منایا جائے تو اس صورت میں یہ بدعت ہے ۔ جیسے: عید میلاد النبی منانا بدعت ہے۔بدعت کی تعریف یہ ہے کہ دین میں کسی ایسی نئی بات کا اضافہ کرنا جس کی آپ ﷺ کی زندگی میں کوئی دلیل نہ ہو۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَن أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ، فَهو رَدٌّ
صحیح البخاری – 2697
جو شخص ہمارےاس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے گا جو دین میں موجود نہیں ہے تو وہ مردود ہوگی۔
ایک اور مقام پرام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ
صحیح مسلم – 1718
” جس نے کوئی ایسا عمل کیا، جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں، تو وہ مردود ہے “
ان احادیث سے واضح ہوگیا کہ دینی معاملات میں اجروثواب کی نیت سے اوراللہ کا قرب تلاش کرنے کی غرض سے جو نیا کام کیا جائے گا وہ بدعت ہوگا اوردینی معاملات میں اپنی طرف سے اضافہ بدعت ہوگا اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ يہ دونوں حديثيں بدعت كے ابواب ميں اصل شمار ہوتى ہيں اورعلماء كرام نے ان پر ہى بدعت كى تعريف اور اس كى حدود و قيود اور ضوابط كى بنیاد قائم کی ہے۔
بعض لوگ جہالت سے کہہ دیتے ہیں کہ موٹر کار، عینک اور ٹوپی وغیرہ یہ بھی نئی چیزیں ہیں تو کیا یہ بھی بدعت ہیں؟ یہ چیزیں اس لئے بدعت شمار نہیں ہوں گی کہ یہ دین میں اضافہ نہیں اور کوئی بھی شخص ان چیزوں کے استعمال میں ثواب نہیں ڈھونڈتا اور نہ ہی انہیں قربِ الہی کا ذریعہ سمجھتا ہے اس لئے کہ یہ ضروریاتِ زندگی میں سے ہیں جنہیں دین میں زیادتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس بیناد پر اگر کوئی شخص کسی نئے کام کو بدعت قرار دیتا ہے جیسے مروجہ میلاد وغیرہ تو وہ صحیح موقف اختیار کرتا ہے۔ كیونکہ میلاد النبی کو ثواب اور قربِ الهی كا ذریعہ سمجھ کر منایا جاتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہی کہ جب اس تہوار یا جشن کو رسم و رواج کے طور پر منایا جائے تو اس صورت میں ایک حرام عمل کا ارتکاب لازم آئے گا چونکہ خود ساختہ تہوار منانا اہل کتاب کا شیوہ ہے جبکہ ہمیں ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے پھر جب عام تہوار منانا ان سے مشابہت ہے اور اہلِ کتاب کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے تو اہلِ کتاب کے ساتھ مختص تہوارمنانا اور ان میں شرکت کرنا بالاولی حرام ہوگا۔
کیونکہ رسول کریم ﷺ نے کئی مختلف موقعوں پر دینی معاملات كے متعلق یہ ارشاد فرمایا:
خالِفوا اليهودَ والنَّصارى فإنَّهم لا يُصَلُّون في خِفافِهم ولا في نِعالِهم
صححه شعيب الأرناؤوط في تخريج صحيح إبن حبان – 2186
یہودیوں اورعیسائیوں کی مخالفت کرو، كیونکہ وہ اپنے موزوں اور جوتوں میں نماز نہیں پڑھتے۔
ایک اورحدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
خَالِفُوا المُشْرِكِينَ؛ وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ
صحیح البخاری – 5892
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مشرکوں کی مخالفت کرو ، مونچھیں اچھی طرح تراشو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔‘‘
ایک اورحدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
جُزُّوا الشَّوارِبَ، وأَرْخُوا اللِّحَى خالِفُوا المَجُوسَ
صحیح مسلم – 260
مونچھوں کو کترواؤ، ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔
کرسمس کی قباحتوں میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ اس میں نصاری کی مشابہت پائی جاتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿٣٠﴾ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
التوبة – 30/31
اور یہود نے کہا کہ عزیراللہ کے بیٹے ہیں اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، یہ ان کے منہ کی بکواس ہے، یہ ان لوگوں کے قول کی مشابہت اختیار کرتے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا تھا، اللہ انہیں ہلاک کردے، کس طرح حق سے پھر ےجا رہے ہیں ۔ان لوگوں نے اپنے عالموں اور اپنے عابدوں کو اللہ کے بجائے معبود بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔
اور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ وَلَا بِالنَّصَارَى فَإِنَّ تَسْلِيمَ الْيَهُودِ الْإِشَارَةُ بِالْأَصَابِعِ وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الْإِشَارَةُ بِالْأَكُفِّ
السلسلة الصحیحة – 1662
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے علاوہ كسی اور كی مشابہت كی وہ ہم میں سے نہیں، یہودونصاریٰ كی مشابہت نہ كرو۔ یہودیوں كا سلام انگلیوں كے اشارے سے ہے اورعیسائیوں كا سلام ہتھیلی كے اشارے سے ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن تشبَّهَ بقومٍ فهوَ منهم
صحیح ابی داؤد – 4031
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ مسلمانوں کے لئےجائز نہیں کہ وہ کفار کی عیدوں، موسمی تہواروں اور عبادات میں ان کی مشابہت اختیار کریں۔5
اس مشابہت کا نتیجہ اور نقصان یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ دل میں کافروں کی طرف میلان اور رغبت پیدا ہوگی جوواضح طور پر قرآن کے حکم کی خلاف ورزی ہے اور یہ ممنوع ہے: چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ
ھود – 113
اور تم لوگ ان کی طرف نہ جھکو جنہوں نے ظلم کیا ورنہ جہنم کی آگ تمہیں پکڑ لے گی، اور اللہ کے علاوہ کوئی تمہارا مددگار نہ ہوگا، پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کی طرف مائل نہ ہوں جنہوں نے شرک و معاصی کا ارتکاب کر کے ظلم کی راہ اختیار کرلی ہے، اس لیے کہ یہ ان کے مشرکانہ اعمال سے راضی ہونے کی دلیل ہوگی، ظلم کرنے والوں کو تقویت ملے گی اور حق پر رہنے والے کمزور ہوتے جائیں گے۔
غیر مسلموں کی مشابہت ان سے محبت کی علامت ہے، جو شرعاً ممنوع ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر نبی کریم ﷺ کی اُمت کو کفاراوریہود اور نصاریٰ سے دور رہنے کی تلقین کی ہے: چنانچہ فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
المائدۃ – 51
اے ایمان والو ! یوہد و نصاری کو اپنا دوست مت بناؤ، وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں، اور تم میں سے جو کوئی انہیں اپنا دوست بنائے گا وہ بے شک انہی میں سے ہوجائے گا، بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ہے۔
اس آیت میں یہود ونصاریٰ سے موالات ومحبت کا رشتہ قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اس پر اتنی سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے سمجھا جائے گا۔ قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا مشاہدہ ہر شخص کرسکتا ہے کہ یہود ونصاریٰ کا اگرچہ آپس میں عقائد کے لحاظ سے شدید اختلاف اور باہمی بغض وعناد ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔
کرسمس ڈے عیسائیوں کا ایک مقدس تہوار ہے اور ان کے ہاں یہ عبادت کے طور پر منایا جاتا ہے ہماری شریعت میں یہ حکم ہے کہ یہود و نصاریٰ کی عبادات میں مخالفت کی جائے اور ان کی مشابہت سے اجتناب کیا جائے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يصومُ يومَ السَّبتِ ويومَ الأحَدِ أكثرَ ممَّا يصومُ من الأيَّامِ، ويقولُ: إنَّهما يوما عيدِ المُشرِكينَ، فأنا أُحبُّ أنْ أُخالِفَهم6
یعنی رسول اللہ ﷺ دیگر دنوں کی نسبت ہفتہ اور اتوار کا روزہ رکھتے تھے اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے : ’’ دو دن مشرکین کے لئے عید کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ ان کی مخالفت کروں۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کفار و مشرکین کی عیدوں میں ان کی مخالفت کر نے کو پسند کرتے تھے۔
کرسمس کے وقت گھروں کو غباروں سے مزین کرنا ،کفار کی عید میں کھلم کھلاشرکت کا اظہار ہے۔اور ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ ان ایام کو جشن، زیب وزینت، اور کھانے پینے کیلئے مختص مت کرے، وگرنہ وہ بھی کفار کے تہوار میں شریک تصور ہوگا، اور یہ کام حرام ہے، جس کی حرمت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اسی طرح مسلمانوں پر کرسمس کی مناسبت سے تقاریب کرنا، تحائف کا تبادلہ ، مٹھائیوں کی تقسیم ، کھانوں کی تیاری، اور تعطیل عام کرتے ہوئے کفار کے ساتھ مشابہت اپنانا حرام ہے، کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ : (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم ‘‘ میں لکھا ہے کہ: کفار کے کچھ تہواروں میں شرکت سے انہیں اپنے باطل نظریات پر قائم رہنے کی خوشی محسوس ہوتی ہے، اور بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے مواقع کا غلط فائدہ اٹھا کر کمزور ایمان لوگوں کو بہکا دیں”۔
ایسا کام کرنے والا شخص گناہگار ہے، اور اس میں کسی کا دل رکھنے کیلئے ، یا دلی چاہت کی بنا پر یا کسی سے حیا کرتے ہوئے شرکت کرنے والے سب لوگ گناہگار ہونگے، کیونکہ یہ عمل دینِ الہی کے باری میں ناقابل برداشت سستی ہے، اور کفار کے لئے اپنے گمراہ عقائد پر مضبوط ہونے کی دلیل ہے، وہ مسلمانوں کی شرکت سے اپنے دین پر فخر محسوس کریں گے۔7
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اللہ کے دشمنوں سے ان کے تہوار میں اجتناب کرو ، غیر مسلموں کے تہوار کے دن اُن کی عبادت گاہوں میں داخل نہ ہو، کیونکہ ان پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے۔8
اگر مشرکوں کے معبد خانوں میں سیر و سیاحت یا کسی اور غرض سے جانا منع ہے کہ وہاں اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے، تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جو خود کفار کے شعائر میں سے اللہ کی ناراضگی کا باعث بننے والا عمل سر انجام دیتا ہے؟
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
من مر ببلاد الأعاجم فصنع نيروزهم ومهرجانهم وتشبه بهم حتى يموت وهو كذلك حشر معهم يوم القيامة9
غیر مسلموں کی سرزمیں میں رہنے والا مسلمان اگر ان کے نوروز(نیو ائیر) اور ان کے عید کو ان کی طرح منائے اور اسی حالت وکیفیت پر اس کی موت آئے تو قیامت کے دن وہ ان غیر مسلموں کے ساتھ ہی اٹھایا جائے گا۔
شیخ الاسلام علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ فرماتے ہیں:
موسم سرما میں دسمبر کی 25 تاریخ کو لوگ بہت سے کام کرتے ہیں۔عیسائیوں کے خیال میں یہ دن حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا دن ہے۔اس میں جتنے بھی کام کیے جاتے ہیں مثلاًآگ روشن کرنا، خاص قسم کے کھانے تیار کرنا اور موم بتیاں وغیرہ جلانا سب کے سب مکروہ کام ہیں۔ اس دن کو عید سمجھنا عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ اسلام میں اس کی کوئی اصلیت نہیں اورعیسائیوں کی اس عید میں شامل ہونا جائز نہیں۔10
شیخ الاسلام کے شاگرد علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کفار کو ان کے کسی تہوار پر وہی شخص مبارکباد دیتا ہے جس کے ہاں دین إسلام کی کوئی قدر وقیمت نہیں اور نہ ہی اسے اپنے کیے کی قباحت کا اندازہ ہے۔11
لہذاکسی بھی مسلمان کیلئے عیسائیوں کے مخصوص اعمال میں ان کی مشابہت اختیارکرنا جائز نہیں ہے، مثلا ان جیسے کھانے بنانا، لباس پہننا، نہانا، آگ جلانا، شمعیں روشن کرنا، عام تعطیل کرنا وغیرہ سب منع ہیں، کھانے کی دعوت کرنا، تحائف دینا، اور ان تہواروں کے لئے معاون بننے والی اشیاء فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ بچوں کو ان کی عید کے دنوں میں ان کے جیسے کھیل کود کی اجازت دینا، اور زیب و زینت اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو حق بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…