پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اُس اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس نے آسمانِ رفعت و بلندی کو اُس کے چمکتے ستاروں اور چاند کی روشنی سے آراستہ کیا ، جس نے سعادت مندی کے باغ میں تر و تازہ پھول اُگائے اور باہمت لوگوں کو قیمتی چیزوں میں سرمایہ کاری کرنے کے سوچ و فکرعطا کی۔ میں اُس کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں، اُس کے ابرِ کرم  پرکہ جس کے بہتے دریا سے ایک مخلوق سیراب ہوتی ہے۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مبودِ برحق نہیں، وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ زمین وآسمان کا بادشاہ ہے اور اُس کے نظام کو چلانے والا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ نبی اکرم ﷺ اور اُن کے آل و اصحاب پر ایسے پھول برسیں کہ جن کی خوشبو سے کائنات معطر ہوجائے۔

حمد وصلوٰۃ کے بعد!

اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ کیونکہ کامیاب صرف وہ ہی  شخص ہے جو دین داری اور اطاعت گزاری اور تقویٰ شعاری میں بلندی کی چوٹیوں کو سر کرتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔

اے مسلمانو! بلندیوں تک پہنچنے کی کوشش کرنا۔ ہرعالی ہمت ،مستقل مزاج،محنتی اور اونچے ہدف والے انسان کی علامت ہے جس کی بلند ہمتی ستاروں سے ٹکراتی ہے۔اور جس کا ہدف بادلوں کو چھوتا ہے۔وہ مشکل ترین منزلیں طے کرتاہے۔وہ فضائل و مناقب ،اچھے اخلاق اور اپنے اہداف کو پانے کے لئے مسلسل جدوجہد کرتاہے۔کوئی بھی رکاوٹ نہ اُسے ہدف سے روک سکتی ہے اور نہ موڑ سکتی ہے۔غیر مستقل مزاج شخص بلندیوں کو نہیں پہنچ سکتا ۔ کیونکہ وہ کبھی اطاعت کرے گا اور کبھی نافرمانی کرے گا۔

بلندیوں کا حصول مشکل کام ہے جو آرام پسندی ،سستی اور کاہلی ،بے بسی ،غیر مستقل مزاجی اور ہچکچاہٹ کے ساتھ کبھی انجام نہیں پاسکتا۔شاعر کہتا ہے:

جو شخص بغیر مشقت کے بلندیوں کو پہنچنے کا خواہاں ہے
گویا وہ ایک ناممکن چیز کے پیچھے اپنی تمام عمر برباد کررہا ہے۔

عربوں کی ایک کہاوت ہے: انسان کی قدر و قیمت ،اُس کی محنت و کوشش ، گھوڑے کی قدرو قیمت اُس کی سبک رفتاری اور تلوار کی قدر و قیمت اُس کی تیز دھارکی بنیاد پر ہوتی ہے۔تو جو عزمِ مصمم اور پختہ اِرادے کے ساتھ بلند مرتبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ کامل عقل والے اورراست باز لوگوں کے مرتبے کو حاصل کرے گا۔جب انسان کی کوشش ہدف کے مطابق ہوتی ہے توانسان کا ہدف ناممکن نہیں ہوتا۔

مستقل مزاجی کے ساتھ معاملات کو سرانجام دینے والا شخص اپنی رائے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ اپنے ارادے سے دست بردار نہیں ہوتا اور ارادہ و تمنا کرلینے کے بعد اپنے ہدف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ اور بلندیوں کا حصول اور آرزؤوں کی تکمیل لگاتار آگے بڑھتے رہنے ،منصوبہ بندی کرنے اور صبر و استقامت و اپنانے سے ہی ہوسکتی ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو علم کے خواہاں ہیں لیکن وہ کچھ پڑھتے ہی نہیں،کتنےایسے لوگ ہیں جو کھیتی باڑی کا خواب دیکھتے ہیں لیکن کچھ بوتے ہی نہیں،کتنے ایسے ہیں جو صدقہ جاریہ اور نیک عمل کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اُس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔اس سب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ سب سُستی ،ہچکچاہٹ ،عظم ،حوصلےاور اِرادے کی کمزوری کا شکار ہیں۔ درحقیقت یہ سب سُست کاہل ،پست ہمت ،تردد اور تذبذب کے شکار لوگوں کی عادتیں ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: بلند ہمتی کے فوائد


اے مسلمانو! لوگوں کے رتبے اور درجے بھی اُن کے عظائم و مقاصد کے بقدر ہوتے ہیں۔ چنانچہ بلند ہمتی سے آراستہ شخص لوگوں سے اس قدر آگے نکل جاتا ہے کہ نہ اُس کے قریب پہنچا جاسکتا ہے اور نہ اُس کا پیچھا کیا جاسکتا ہے۔جبکہ پست ہمتی کا حامل شخص آرزوئیں کرتے ہوئے اپنا وقت ضائع کردیتا ہے اور کوتاہی سے نکل نہیں پاتا۔دراصل لوگ حالات کا عکس ہوتے ہیں۔چنانچہ آدمی اگر سطحی اور کمتر بن جائے تو اُس کا مقام و مرتبہ بھی گھٹ جاتا ہے۔ لیکن اگر وہی شخص آگے بڑھ کر اپنے آپ کو بڑا ثابت کر کے دکھا دے تو اُس کا مقام و مرتبہ بھی بُلند ہوجاتاہے۔اور ہر انسان کی قدر و قیمت وہ ہی ہوتی ہےجو وہ حاصل کرتاہے۔

کیا جو بدرِ کامل کی طرح مختلف مراحل سے گذرتا ہے اور ستاروں کی طرح اپنی مزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے اور جو اپنے اوقات کو لہو و لعب ،سستی ،گمنامی اور سونے میں ضائع کرتاہے،کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں۔شاعر کہتا ہے :

یہ مت سمجھو کہ بُلندیاں آسان ہیں اور بُلندیوں کا حصول سہل ہے۔
جو بغیر محنت کے بُلندیوں کا خواہاں ہےاُسے بتادوں کہ وہ ناممکن چیز کی اُمید لگائے بیٹھا ہے۔

سب سے اعلیٰ ہمت وہ ہے جس میں انسان کا مقصد یہایت بُلند اور عظیم ہوتاہے۔اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور جنت کا حصول،چنانچہ جس کی ہمت بلند ہوتی ہے وہ کوشش کرتاہے اور جو اپنے رب سے ملنے کی یاد کو تازہ کئے رکھتا ہے۔ اور اُس کی تیاری میں لگا رہتا ہے اور اُس کی ہمت پست ہوتی ہے اور وہ عمل کرنا چھوڑ دیتا ہےاور بحث و تکرار کو اپنا مشغلہ بنا لیتاہے ،سنتوں کو فراموش کردیتا ہے اور دنیا کو آخرت پر مقدم رکھتا ہے۔

آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ : کچھ لوگ نیک کام سے مسلسل پیچھے رہتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اُن کو پیچھے کردیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ

آل عمران – 133

اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے

یعنی بخشش جنت میں داخلے کے اسباب کے لئے ایک ووسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو،جیسے میدانِ مقارنہ میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہو۔ اورابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: طاقت ورمومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے جبکہ  خیر دونوں میں موجود ہے۔ لہٰذا جس چیز سے تمہیں نفع پہنچے اُس کی کوشش کرواور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگواور کمزور نہ پڑو۔صحیح مسلم۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہاں قوت سے مراد اُخروی معاملات میں عظم ،حوصلہ و عقلمندی سے کام لینا ہے۔ اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بُلند و بالیٰ اورقدرومنزلت والے معاملات کو پسند فرماتا ہےاور ذلیل و رذیل معاملات کو ناپسند کرتا ہے۔ سنن الطبرانی

اور علم بُلندیوں میں سب سے اعلیٰ اور فضائل میں سب سے اشرف ہے۔ جس کی ہمت بُلند ہوتی ہےوہ جہالت کو چھوڑ کر علم کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اور شریعت کو علم ہی اصل مقصود ہے جو زوال سے پرے ہے اور اُس کے آثار و ذخائر ختم نہیں ہوسکتے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو قرآن کا علم حاصل کرتا ہے اُس کی قیمت بڑھ جاتی ہے، اور جو فقہ میں کلام کرتا ہے اُس کی قدر بڑھ جاتی ہے۔جو حدیث لکھتا ہے اُس کی قدوت و دلیل قوی و مضبوط ہوجاتی ہے۔جو زبان و ادب سے لگاؤ رکھتا ہے تواُس کی طبیعت میں رقت آجاتی ہے۔اور جو علمِ حساب میں غور و فکر کرتا ہے اُس کی رائے مضبوط و ٹھوس ہوجاتی ہے۔اور جس نے اپنی انا کو محفوظ نہ کیا تو اُس کے لئے اُس کا علم نفع بخش نہ ہوگا۔

بدیع الزماں حمدانی رحمہ اللہ نے اپنے بھانجے کو علم کی ترغیب اور اُسے ترک کرنے پر ڈانٹ پلاتے ہوئے لکھا: “تم میرے بیٹے ہو جب تک مدرسہ اور قلم و قرطاس سے جڑے رہو گے۔اور اگر تم نے کوتاہی برتی(اور میرا خیال نہیں کہ تم ایسا کرنے والے ہو)تو تمہارا ماموں پھرمیں نہیں بلکہ کوئی اور ہوگا”۔

ایجادات و اختراعات کے زمانے میں جب کہ بہت سارے ممالک فضاؤں کے سینے چاک کر کے آسمانوں میں کمندیں ڈال چکے ہیں،ایسے میں ہم اسلامی ممالک کے باکمال و باصلاحیت ،ذہین و فطین افراد کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ وہ اِن علوم میں بھی مہارت پیدا کریں جو زندگی گزارنے اور نظامِ عالم کو چلانے ،ملکوں کے عروج و ترقی کے لئے ناگزیر ہیں۔ جیسےعلمِ نباتات، شعبہ صنعت، شعبہ طب، کیمسٹری ،فزکس ،علم ریاضیات،فلکیات ،ارضیات ،سیکیورٹی اور ہوائی سسٹم ، ملٹری انڈسٹریز،ٹیکنالوجی ،ڈیجیٹلائیزیشن،الیکٹرانک مینجمنٹ ہیں۔

آج بین الاقوامی مسابقتی ماحول کا ہم سے یہی تقاضہ ہے۔ اور انسانی ضروریات کی تکمیل اور دنیاوی امور میں سہولیات کی فراہمی اور مشکلات پر کنٹرول کے  لئے ناگزیر بھی ہیں۔ یہ اوراِن جیسے دیگر علوم میں مہارت پیدا کرنے کی ضرورت اس لئے ہےکہ اگر کوئی ملک ایسے پیشوں سے منسلک افراد سے خالی ہوجائےاور ایسے علوم  و فنون سے خالی ہوجائےتو وہ مشکلا ت میں پڑ جائیں گے ۔اُن کی ضروریات بھری رہ جائیں گی مواقع معطل ہو کر رہ جائیں گےاور ملکی ترقی اور علوم کی ترویج کی رفتار سست پڑ جائےگی۔ایک شاعر کہتاہے :

ہر وہ ملک جو علم کو گلے لگاتا ہےتو وہاں کی زمین زرخیز ہوتی ہے
اور اُس میں سے عزت و شرف کے پھول کھلتے ہیں۔

ہم سعودیہ عرب کے سائنسدانوں،ریسرچ اسکالروں اور مؤجدیں کےہراول دستے کو سراہتے ہیں جن کے آباء و اجداد نے علم و حکمت کے میدان جھنڈے گاڑے تھے اورآج ہمارے یہ نوجوان بھی اپنے ملک کی عظمت و عزت میں چار چاند لگا رہے ہیں۔اور یکے بعد دیگرے کامیابی و کامرانی کو چھو رہے  ہیں۔ اور مختلف ممالک کے با صلاحیت اور بُلند پایا افراد کو مسابقے میں مات دے رہے ہیں، گویا وہ زبانِ حال سے کسی قدیم شاعر کے اس شعر کو گنگنا رہے ہیں:

بے شک میں اس زمانے میں سورج کی طرح چمک رہا ہوں
جب لوگ روپوش ہوچکے ہیں۔

لہٰذا ہمارے نوجوانوں کے اندر مزید خود اعتمادی پیدا کریں ،اُن کی مہارتوں کو جلابخشیں ،اُن کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور اُن کی حوصلہ افزائی کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کریں تاکہ وہ ہر میدان کے شہسوار بن سکیں۔ اور ایسا کرنا ہمارے لئے ممکن ہے۔ کیونکہ یہ ملک ذہانت و فطانت ،فہم و فراست  اور علم ،حکمت و دانائی کا سرچشمہ اور آخری رسالت کا گہوارہ ہے۔اور اپنی مرکزیت ، عظمت و تقدس میں تمام ملکوں پر فوقیت رکھتا ہے ،اور کوئی بھی ملک شرافت و عظمت میں اس کا ہم پلہ نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ میرے اورآپ کے لئے قرآن ِ عظیم کو با برکت اور اُس کی آیات او ر ذکرِ حکیم کو بابرکت و نفع بخش بنائے ۔اِسی پر اکتفا کرتے ہوئے میں اپنے ،تمہارے اور تمام مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں تو آپ بھی اُسی سے بخشش طلب کریں بلاشبہ وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اُس اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس کی طرف پناہ لینے والے پناہ لیتے ہیں اور وہ پناہ دیتا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ رب العالمین کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ  ہی بیماروں کا علاج کرتاہے ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔جو ان کی اطاعت کرے وہ ہدایت پر ہوتا ہے اور جو اُن کی نافرمانی کرے وہ خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے گمراہ ہوجاتاہے۔

درود و سلام نازل ہوآپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے تمام آل و اصحاب پر ،ایسا درود و سلام جو قیامت تک باقی رہے۔

حمد و ثنا کے بعد!

اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرواوراُس کا تقویٰ اختیار کرواوراُس کی نگرانی کا احساس اپنے دل میں قائم رکھو۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا

الاحزاب – 70

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو۔

اے مسلمانو! سب سے بُرا آدمی وہ ہے جو پستِ ہمت ہو، اُس کے عظم و ارادے میں کمزوری ہو،کسی بھی کام میں کاہلی اور سُستی کا مظاہرہ کرتاہو اور اپنی راہ پر اچٹتی نگاہ ڈال کررہ جاتا ہو۔کاہل و گھٹیا اور بے کار افراداور بُرا شگن لینے والوں کی صحبت میں رہتا ہو، حقیر چیز پر راضی ہوجاتاہو۔ اور حقیر چیز سے وہی راضی ہوتا ہے جو خود حقیر ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ کے بندوں پست اور حقیر چیز سے راضی مت ہونا اور چھوٹی چیز پر ہی قناعت مت کرو اور راہ کی مشقت اور تکلیف کی وجہ سے ہتھیار مٹ ڈالوبلکہ ہمیشہ اوپر کی طرف اُڑان بھرنے کی کوشش کرو۔ اور علم حاصل کرو،عزت و شرف کے باغیچے میں چہچہاتے رہو۔ مایوسی اور قنوطیت کو اپنے پا س بھٹکنے نہ دو ۔ یہ نئی صبح کی نوید ہے لہٰذا خوابِ غفلت سے بیدار ہوجاؤ۔ یہ موسمِ بہار کی ہریالیاں ہیں لہٰذا سرپٹ دوڑو۔ یہ شام کا جام تیار ہے لہٰذا اُسے پینے کے لئے آگے بڑھواور شرف و بُلندی کی طرف اپنے ہاتھوں کو بڑھاؤاور فضیلت و شرف کی معراج کو پہنچو۔ اور اعلیٰ اخلاق و کردار سے لیس ہوجاؤ۔

بُلند و بالا ہمتی سے ہی بُلندی تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اور جو جس قدر بُلند ہمت ہوتا ہے وہ اُسی قدر لوگوں میں نمایاں ہوتا ہے۔ اور جوشخص تقدم سے پیچھے رہ جاتا ہے وہ کبھی آگے نہیں بڑھ پاتا۔

ہماری طرف سے نبی کریم ﷺ اور اُن کے اہلِ خانہ اور اصحاب  پر لاتعدا د و بے شمار درودو سلام ہو۔

اے اللہ ! تو محمد ﷺ پر اور اُن کی آل پر اسی طرح برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابرھیم علیہ السلام پر اور اُن کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں۔

اے اللہ تو اپنی رحمتیں اپنی برکتیں سید المرسلین،امام المتقین خاتم النبین ،اپنے بندے اور رسول ﷺ پر نازل فرما جو خیر کے امام اور خیر کے قائد ہیں رسول ِ رحمت ہیں ۔

اے اللہ ! جو لوگ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کررہےہیں،اے اللہ ! تو اُن کو طرح طرح کے عذاب و آزمائشوں سے گھیر لےاور اُن کو عذاب سے دوچار کئے رکھ۔

 اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین جو ہدایت کے پیشوا و امام تھے۔  ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیامت تک اُن کی پیروی کریں ۔یاکریم یا وہاب۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دینِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! تو فلسطین کی اور اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔تو تم اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرو اور وہ تمہارا ذکر کرے گا۔اورتم اُس کی تعمتوں پر شکر کرو تو وہ تم کو زیادہ دے گا۔ اور یاد رکھو! جو کچھ تم کرتے ہو اُس سے اللہ تعالیٰ خوب آگاہ ہے۔

خطبة الجمعة مسجدِ نبوی ﷺ : فضیلة الشیخ صلاح بن محمد البدیر حفظه اللہ
تاریخ 18 ذی القعدة 1443هـ بمطابق 17جون 2022

فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ

مسجد نبوی کے ائمہ و خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ صلاح بن محمد البدیر کا ہے جو متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور امام مسجد نبوی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ جج بھی ہیں۔

Recent Posts

منہجِ سلف سے کیا مراد ہے؟

منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…

7 hours ago

یا محمد ﷺ کہنا یا لکھنا کیسا ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…

1 day ago

ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد!؟

اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…

4 days ago

داتا اور مشکل کشا کون؟

اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…

4 days ago

مشکلات اور پریشانیوں کےحل کےلیے نسخہ؟

قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…

1 week ago

جنتی فرقہ کونسا ہے؟

فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…

1 week ago