الحمدللّٰہ والصلاة والسلام علی رسول اللّٰہ وعلیٰ آله وصحبه ومن والاه ۔ وبعد !
جیسے جیسے دنیا بدلی ہے لوگوں کا طر ز تعامل وطریقہ ہائے تجارت بھی بدل گئے ہیں ہر آئے دن نت نئ شکلوں اور صورتوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ اور لوگ اس امر کےمحتاج ہوتے ہیں کہ انہیں ان پیش آمدہ مسائل کی بابت شرعی حکم سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی تجارت کو دائرہ حلال تک محدود رکھیں اور حتی الامکان دائرہ حرام سے بچ کر رہیں ۔
بروکری کاپیشہ یوں تو ایک قدیم پیشہ ہے لیکن فی زمانہ کاروبار کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرچکاہے ۔ اور اس کی بہت سی نئی صورتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ پراپرٹی کے کاروبار سبزی منڈی فروٹ منڈی کی خریدو فروخت اور سٹاک مارکیٹ اور کموڈیٹی ایکسچینج میں بروکر کے بغیر خرید وفروخت کا تصور بھی محال ہے ۔ لہٰذا اس امر کی ضرورت ہے کہ بروکری سے متعلقہ جملہ مسائل کا جائزہ لیکر ان کی شرعی حیثیت کو بیان کیاجائے تاکہ نبی پاک ﷺ کے اس فرمان کے تابع ہوکر زندگی گذاری جا سکےکہ:
إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، والْحَرَامَ بَيِّنٌ، وبَيْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُھَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ، وعِرْضِهِ، ومَنْ وقَعَ فِي الشُّبُھَاتِ وقَعَ فِي الْحَرَامِ، كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يَقَعَ فِيهِ، أَلَا وإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا وإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وهِيَ الْقَلْبُ
بیشک حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے پس جو شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو کسی دوسرے کی چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے، تو قریب ہے کہ جانور اس چراگاہ میں سے بھی چر لیں خبردار رہو ہر بادشاہ کے لئے چراگاہ کی حد ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ کی حد اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں آگاہ رہو جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ سنور گیا تو سارا بدن سنور گیا اور جب وہ بگڑ کیا تو سارا ہی بدن بگڑ کیا آگاہ رہو کہ وہ دل ہے۔1
تو باب متشابہات کی معرفت بہت ضروری ہے کہ اس سے بچا جائے تاکہ حرام میں ملوث ہونے سے بچا جاسکے ۔
بروکری کیا ہے؟
بروکری کو عربی زبان میں’’السمسرة‘‘ کہا جاتاہے ۔
شرعی اصطلاح میں الموسوعہ الفقہیہ کے مطابق بروکری کی یہ تعریف منقول ہے :
هي التوسط بين البائع والمشتري، والسمسار هو: الذي يدخل بين البائع والمشتري متوسطاً لإمضاء البيعِ، وهو المسمى الدلال، لأنه يدل المشتري على السلع ، ويدل البائع على الأثمان
خریدار اور فروخت کنندہ کے مابین واسطہ بننا بروکری کہلاتاہے ۔ سمسار وہ ہے جو خریدار اور بیچنے والے کے درمیان واسطہ بنتےہوئے سودا مکمل کرواتاہے ، اسے عرف عام میں’’دلال ‘‘ بھی کہاجاتاہے ، کیونکہ وہ خریدار کی سودے کیلئےاور بیچنے والے کی قیمت کے حوالے سے رہنمائی کرتاہے ۔2
مختلف شعبہ ہائے کاروبار میں بروکری کیلئےاستعمال کئے جانے والے نام:
- آڑھتی ( سبزی فروٹ اور غلہ منڈی کے بروکر)
- دلال ( مویشی منڈی کے بروکر )
- ڈیلر ( پراپرٹی کاروبار میں )
- جبکہ بروکر سٹاک اور کموڈیٹی ایکسچینج میں واسطہ بننے والے کو کہاجاتاہے ۔3
بروکری کا شرعی حکم
بنیادی طور پر دین اسلام میں بروکری اور کمیشن ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کی کوئی ممانعت نہیں بلکہ متعدد نصوص سے اس کا جواز ثابت ہوتاہے ۔ چنانچہ سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے قیس بن ابی غرزۃ فرماتے ہیں :
كنَّا نسمَّى في عَھدِ رسولِ اللّٰهِ صلَّى اللّٰه عليْهِ وسلَّمَ السَّماسِرةَ فمرَّ بنا رسولُ اللَّهِ ﷺ فسمَّانا باسمٍ هوَ أحسنُ منْهُ فقالَ يا معشرَ التُّجَّارِ إنَّ البيعَ يحضرُهُ الحلِفُ واللَّغوُ فشوبوهُ بالصَّدقةِ
’’ عہد رسالت میں ہم لوگوں (سوداگروں) کو سماسرہ (یعنی دلال) کہا جاتا تھا۔ پھر رسول اللہ (ﷺ) ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ نے ہمارا پہلے سے بہتر نام تجویز فرمایا۔ (آپ نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا) اے تاجرو! تجارت میں بیکار باتیں اور قسما قسمی ہوتی ہے لہٰذا اپنی تجارت کو صدقہ کے ساتھ ملاؤ۔ ‘‘4
اور صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
نَھَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَلَقَّی الرُّکْبَانُ وَلَا يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ قُلْتُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَا قَوْلُهُ لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ قَالَ لَا يَکُونُ لَهُ سِمْسَارًا
’’ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا قافلہ والوں سے آگے جا کر نہ ملو اور شہری دیہاتی کے لئے بیع نہ کرے، طاؤس کا بیان ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا، شہری دیہاتی کے لئے نہ بیچے، اس کا کیا مطلب ہے، انہوں نے جواب دیا کہ دلالی نہ کرے‘‘۔5
فقیہ امت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر کمیشن کے جواز کا عنوان قائم کیاہے اوران لوگوں کی تردید کی ہے جو اس کو جائز نہیں سمجھتے ۔6
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
فان مفھومه: أنه يجوز أن يكون سمسارا في بيع الحاضر للحاضر
’’اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شہری شخص کسی دوسرے شہری کا ایجنٹ اور دلال بن سکتاہے‘‘ ۔7
یہاں مراد یہ ہے کہ امام بخاری حافظ ابن حجر ودیگر فقہاءکرام اس حدیث سے یہ استدلال لیتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کمیشن پر لین دین کی صرف ایک خاص صورت سے روکا ہے ۔ اور وہ یہ کہ شہری صحراء نشینوں کو کمیشن پر خرید وفروخت کرائے ۔ کیونکہ اس طرح کے لوگ انتہائی ضرورت کے تحت اور محدود پیمانے پر خرید وفروخت کرتے ہیں جس سے ایسے لوگوں سے کمیشن وصول کرنے میں ظلم کا پہلو نمایاں ہوتاہے اسی بنا پر شرعاً شہری لوگوں کو ایسے دیہاتیوں اور صحراء نشینوں کو کمیشن پر لین دینے کرنے سے روکا ہے ۔
البتہ جو بعض تابعین سے کمیشن پرخرید وفروخت کے حوالے سے کراہت منقول ہے وہ کمیشن کی چند مخصوص صورتیں ہیں جن میں فقہاء کرام کے ہاں اختلاف ہے ۔ان روایات میں سے ایک روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں حماد کے حوالے سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں :’’وہ کمیشن کی اجرت کو مکروہ سمجھتے تھے الا کہ اس کی مدت معلوم ہو ‘‘۔8
تو حماد کا کمیشن کی اجرت کومکروہ سمجھنا اس وجہ سے تھا کہ ایسا کمیشن جس کی مدت مجہول ہو وہ مکروہ ہے نہ کہ وہ اصل کمیشن کی اجرت کو مکروہ سمجھتے تھے ۔ اسی معنیٰ ومفہوم میں امام سفیان سے کراہت منقول ہے چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں سفیان سے منقول ہے کہ ’’ کمیشن ایجنٹ کے کام کو مکروہ جانتے تھے ‘‘۔9
امام ابن سیریں رحمہ اللہ سے بھی ایک اثر منقول ہے کہ ’’ آپ دلال کی اجرت کو مکروہ جانتے تھے ‘‘۔10جبکہ صحیح بخاری میں ابن سیریں سے کمیشن کی اجرت کا جواز منقول ہے ۔
الغرض جن تابعین سے کمیشن ایجنٹ کی اجرت کی کراہیت کے آثار منقول ہیں اس کی دو ہی وجوہات ہیں وجہ اول کا بیان اوپر گذر چکا جبکہ دوسری وجہ اس سے مراد کراہت تنزیہ بھی ہوسکتی ہے کیونکہ کمیشن کے کاروبار میں لغو اور قسم کا استعمال بکثرت ہونا ہے ۔ (عین ممکن ہے اسی باعث وہ اس کی کراہت تنزیہ کےقائل ہوں )۔11
امام مالک رحمہ اللہ سے سمسار کی اجرت کا پوچھا گیا تو آپ فرمانے لگے:
لا بأس بذلك
المدونة: 466/3
اور امام بخاری رحمہ اللہ نےصحیح بخاری میں ایک مستقل باب قائم کیاہے جس میں انہوں نےصحابہ وتابعین سے تعلیقا آثار نقل کئے ہیں کہ بروکری کا پیشہ اور اس کی اجرت جائز ہے چنانچہ فرماتے ہیں :
باب اجر السَّمسرة،ولم ير ابن سيرين وعطاء وإبراهيم والْحسن بأجر السِّمسار باسًا۔ وقال ابن عباس:لا باس ان يقول: بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فھو لك
وقال ابن سيرين:إذا قال بعه بكذا فما كان من ربحٍ فھو لك،أو بيني وبينك فلا باس به،وقال النبِي ﷺ:( المسلمون عند شروطھم
فتح الباري: 415/4
ابن سیرین ، عطاء ابراہیم اور حسن نےبروکری کی اجرت کے بارے میں کہا کہ کوئی حرج نہیں ۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی کسی کو کہے کہ :’’ یہ کپڑا بیچ دو اتنے سے زیادہ میں بکا تو اس سے جو بھی زیادہ رقم ہے وہ تمہارے لیے ہے ‘‘۔
اور ابن سیرین فرماتے ہیں :اگر کوئی یہ کہے کہ اسے اتنے میں بیچ دیں اس سے زائد جو بھی منافع ہوا وہ آپ کا ہے یا اس میں ہم دونوں شریک ہیں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
اور نبی ﷺ فرماتے ہیں : ’’ مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہوتے ہیں ۔‘‘
فقہی قاعدے سے استدلال
جواز کے دلائل میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ’’ معاملات میں اصل جواز اور اباحت ہے اور حرمت کیلئے دلیل درکار ہوتی ہے ۔ لہٰذا قرآن وحدیث میں کہیں بھی کمیشن پر اجرت کی ممانعت ثابت نہیں اس بنا پر یہ معاملہ جائز ہوا۔
سعودی عرب کی مستقل فتویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ ’’ ایک شخص ہے جس کا کمرشل آفس ہے وہ بعض کمپنیوں کی پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کے لئے بحیثیت بروکر کام سرانجام دیتے ہیں ۔ وہ کمپنیاں اپنی تیار کردہ پروڈکٹ اسے ارسال کرتی ہیں وہ اسے بازار میں تاجروں کے سامنے پیش کرتاہے اور انہیں کمپنی کی قیمت پر چیز فروخت کردیتاہے کمپنی اسے اس کے عوض طے کردہ کمیشن دیتی ہے ، کیا ایسا کرنے میں کوئی گناہ ہے ؟
فتویٰ کمیٹی نےجواب دیتے ہوئے لکھا:
إذا كان الواقع كما ذكر جاز لك أخذ تلك العمولة، ولا إثم عليك
اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیساکہ سوال میں بیان کیاہے تو آپ کیلئے یہ کمیشن لینا جائزہے اس میں آپ پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ‘‘۔12
حاجت وضرورت کا قاعدہ :
کمیشن کا کاروبار اس وجہ سے بھی جائز ہے کہ لوگوں کو اس کی اشدضرورت ہے۔کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو خرید و فروخت کے گُرنہیں جانتے، سودے بازی اور بھاؤ تاؤ کے طریقوں سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس تجارت وکاروبار کیلئے فرصت نہیں ایسے حالات میں بروکری انسان کیلئے انتہائی سود مند ثابت ہوتی ہے ۔ جس سے بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں مستفید ہوسکتے ہیں علاوہ ازیں دیکھا گیاہے آبادی کی وسعت کے باعث بیچنے والا یا خریداراسی طرح کرائے پر مکان یا دوکان کے حصول کا خواہشمند شخص اصل مالک تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا جس کی وجہ اس سے شناسائی نہ ہونا اور یہ معلوم نہ ہونا کہ آیا کوئی اس علاقے میں اپنی جائیداد فروخت کرنے یا کرائے پر دینے کا خواہشمند بھی ہے یا نہیں لہٰذا ان ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے لازم ہوجاتاہے کہ ایک دلال یا بروکر علاقے میں موجود ہو جہاں بائع اور مشتری دونوں رابطہ کرکے اپنی چیز بیچ اور خرید سکیں اور اپنی ضرورت کی جگہ کرائے وغیرہ پر حاصل کرسکیں ۔ لہٰذا اگر محض اس ضرورت کو ہی مد نظر رکھ لیا جائے تو کمیشن کی اجرت کے جواز کے لئے کافی ہے ۔ کیونکہ معاملات کے باب میں شریعت سماحت اور نرمی وآسانی کوملحوظ رکھتی ہےکہ جہاں لوگوں کی زندگی میں کسی معاملے کی وجہ سے حرج آرہا ہو تو شریعت اس میں استثناء اور جواز کی گنجائش پیدا کرتی ہے جیساکہ بیع سلم، عقد استصناع ، بیع عرایا وغیرہ میں بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتاہے ۔انہی دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ بروکری کرنا یا دلال بننا اور کمیشن ایجنٹ کی حیثیت سے اجرت لینے میںکوئی ممانعت نہیں اور شرعاً ایک جائز پیشہ ہے ۔ شریعت کے عمومی نصوص اس کے جواز پر دلالت کرتے ہیں ۔
البتہ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ جس طرح مسلمانوں میں دیگر معاملات میں بہت سی کمزوریاں اور بے راہ رویاں آچکی ہیں اسی طرح یہ پیشہ بھی ایک لحاظ سے مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بن چکاہے ۔ جہاں حلال وحرام کے ضابطوں کی تمیز کیے بغیر محض متاع دنیا اور نفع عاجل کو مطمع نظر بناتے ہوئے شرعی حدود وقیود کو پامال کیا جاتاہے ۔ اور اس پیشے میں بھی کئی نئی ناجائز صورتیں در آئی ہیں جن کی ہم اللہ کی توفیق سے آئندہ سطور میں نشاندہی کریں گے ۔ ان شاء اللہ ۔
بروکری کا کام کرنے والوں کیلئےشرعی اصول و ہدایات
جو بھی شخص کمیشن ایجنٹ اور بروکر کی حیثیت سے کام کرتاہے اس کیلئے درج ذیل امور کا شرعاََ لحاظ رکھنا لازمی ہے :
۱ول : جس معاملے میں وہ ایجنٹ کی حیثیت میں کام کر رہاہےاسے اس کام کا ماہر اور تمام داؤ پیچ کا عالم ہونا چاہئے یہ نہ ہو کہ فریقین میں سے کسی ایک کو اس کی لاعلمی اور عدم مہارت کے باعث نقصان اٹھانا پڑے ۔
دوم : بروکر صادق اور امین ہونا چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ ایک فریق سے زیادہ منافع اینٹھ کر دوسرے فریق کی کسی لحاظ سے طرفداری کرے یا اسے اضافی مالی فائدہ پہنچائے۔ بلکہ اسے چاہیئے کہ وہ چیز کی خامیاں وخوبیان مکمل طور پر واضح کرکےبیان کردے ۔
سوم : ہر قسم کی دھوکہ دہی سے چاہے وہ بائع کے ساتھ ہو یا خریدارکے اجتناب کرے ۔
چہارم : کمیشن ایجنٹ اپنے کام سے قبل بائع یا مشتری جس کے لئے وہ بطور ایجنٹ کام کر رہاہے اپنی اجرت طے کرلے کہ وہ کتنی ہوگی اور کس صورت میں ہوگی،تاکہ تنازعات سے بچا جاسکے ۔ اوراپنی من مانی سےرقم لینے کی صورت میں وہ ایک دوسرے مسلمان بھائی کی رقم ناحق کھانے والا ہوگا جوکہ شریعت میں حرام عمل ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ
البقرۃ – 188
’’ اور تم اپنے مال آپس میں باطل طریقوں سے ہڑپ نہ کرو ‘‘ ۔
پنجم : کسی بھی ایسے معاملے میں ایجنٹ نہ بنے جوکہ حرام ہو یااس سے کسی حرام کام میں اعانت ہو رہی ہو۔ جیسے بینکوں کے کاروبار ہوں ، سود پر مشتمل سودے ہوں ، یا شراب ، جوا ، موسیقی کے آلات وغیرہ کے سودے ہوں ۔ لہٰذا جہاں بھی ایجنٹ کو پتہ چل جائے کہ وہ جو سودا کروا رہاہےاس کا مقصد حرام اوروہ ظلم پر مبنی ہے تو ایسے کام میں کسی بھی طرح کی معاونت وسہولت کاری انجام نہ دے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
المائدۃ – 2
’’ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو ‘‘
ششم : کسی بھی بروکر کیلئے یہ روا نہیں کہ وہ خود غرض لالچی ہو جو محض اپنے مفاد کو سامنے رکھے ۔ بلکہ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے ۔ کمیشن لینے میں ، سودا کرانے میں عدل واخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے ۔ جہاں کچھ نرمی اور آسانی کا تقاضا ہو وہاں نرمی اور آسانی کا معاملہ کرے ۔ ‘‘
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
رحم اللّٰه رجلاً سمحاً إذا باع وإذا اشترى وإذا اقتضى
’’ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو فیاض ہوجب کہ بیچے اور جب خریدے اور جب اپنے حق کا تقاضا کرے‘‘۔13
حافظ ذوالفقار اپنی کتاب معیشت وتجارت کے اسلامی احکام میں لکھتے ہیں: ’’ کمیشن ایجنٹ کے لئے یہ از حد ضروری ہے کہ وہ قابل اعتماد اور صادق وامین ہونے کے ساتھ ساتھ اس شعبہ میں مکمل مہارت بھی رکھتا ہوکیونکہ لوگ انہی اوصاف کو مد نظر رکھ کر اپنی گراں قدر جائیدادوں کی خرید وفروخت کیلئے ان کی خدمات حاصل کرتے ہیں لہٰذا خریدار کو حقیقت حال سے آگاہ کرنا اور چیز کو اس کی مارکیٹ قیمت پر بیچنا کمیشن ایجنٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ علاوہ ازیں حکومت وقت کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسا ضابطہ اخلاق وضع کرے جس کی پابندی ہر کمیشن ایجنٹ پر لازم ہو اور ملک کے تمام کمیشن ایجنٹس کا پورا ریکارڈ حکومت کے پاس موجود ہوتا کہ جائیداد کی خرید وفروخت کے معاملات میں دھوکہ دہی کا سد باب کیا جاسکے اور فراڈ کی صورت میںایجنٹ کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جاسکے۔‘‘14
بروکری کی کچھ ناجائز صورتیں:
کمشین ایجنٹ کا کام اگرچہ شرعاََ ایک جائز اور حلال پیشہ ہے لیکن فی زمانہ حلال وحرام سے ناواقفیت ، خود غرضی اور لالچ جیسی صفاتِ مذمومہ کے نفوس میں استحکام کے بعد اس پیشے میں بھی متعدد ایسی صورتیں در آئی ہیں جو سراسر ناجائز اور غلط ہیں ۔ ان امور میں جو شرائط ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کی ہیں ان میں اگر کسی شرط کے منافی عمل کیا جائے گا تو یقینا وہ غیر شرعی صورت ہوگی لہٰذا ان شرائط کی پابندی کا لحاظ کیا جائے ۔ البتہ کچھ مزید صورتیں ہیں جن سے چند ایک کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتاہے ۔
بیعانہ ضبط کرنا یا ڈبل کرکے واپس کرنا ۔
پراپرٹی ودیگر کاروبار میں لوگوں میں یہ طریقہ رائج ہے، خریدار بیچنے والے کو بیعانہ ادا کرتاہے اور بقیہ قیمت دینے کیلئے وقت لیتاہے ۔ اب اگر وہ مقررہ وقت پر قیمت ادا نہیں کرسکتا بائع اس کا بیعانہ ضبط کرلیتاہے ۔ اور اگر بائع اپنی چیز نہ بیچنا چاہ رہاہو یا اسے کہیں سے اس سے اچھی قیمت مل رہی ہو تو وہ سودا منسوخ کرکے لیے ہوئے بیعانے کی رقم کو ڈبل کرکےخریدار وکواپس کردیتاہے ۔
یہاں مسئلہ مذکورہ کی دو صورتیں ہیں:
اول: کیا بائع خریدار کے سودے سے پیچھے ہٹنے کی صورت میں اس کا دیا ہوا بیعانہ ضبط کرسکتاہے یا نہیں ۔ ؟ یہ صورت اہل علم کے ہاں مختلف فیہ رہی ہے ۔ جمہور علماء کرام اس کے عدم جواز کے قائل ہیں جبکہ امام احمد ودیگر فقہائے حنابلہ امام ابن سیرین امام سعید بن مسیب اور عصر حاضر کے محقق علماء کرام اس کے جواز کے قائل ہیں جن میں علامہ ابن باز علامہ ابن عثیمین وغیرہ شامل ہیں ۔
دوم: بائع کا خریدار کو بیعانہ ڈبل کرکے واپس دینا ۔
یہ بات محل نظر ہے اور اکثر اہل علم اس کے عدم جواز کے قائل ہیں البتہ بعض علماء کرام نےحالات کے پیش نظر انتہائی محدود پیمانے پر اس کا بھی جواز دیاہے ۔ اس حوالے سے علامہ عبد الستاحماد صاحب کا تفصیلی فتویٰ فتاویٰ اصحاب الحدیث میں منقول ہے قارئین کے فائدے کے لئے ہم اسے یہاں نقل کرتے ہیں ۔
سوال : السلام عليكم ورحمة اللّٰه وبركاته خرید و فروخت کر تے وقت جب سودا طے کر لیا جا تا ہے تو خریدار، فروخت کنندہ کو کچھ رقم موقع پر ادا کر دیتا ہے تاکہ فروخت کنندہ اس چیز کوآ گے فروخت نہ کرے، اس وقت فریقین یہ شرط طے کر تے ہیں کہ اگر خریدار نے بقیہ رقم ادا کر کے یہ چیز اپنے قبضہ میں نہ لی تو اس کی پیشگی ادا کر دہ رقم ضبط کر لی جائے گی اور اگر فروخت کنندہ اس سے منحرف ہوا تو اسے پیشگی رقم کا دوگنا ادا کرنا ہو گا ، اس طرح جو رقم پہلے ادا کی جا تی ہے اسے بیعانہ کہتے ہیں، اس خرید و فروخت کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
جواب : الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللّٰه وبرکاته!
الحمد للّٰه، والصلاة والسلام علىٰ رسول اللّٰه، أما بعد!
اس شرط پر خرید و فروخت کرنا کہ اگر بقیہ رقم ادا کر کے چیز کو اپنے قبضہ میں نہ لیا گیا تو پیشگی دیا ہو ابیعانہ مار لیا جائے گا، جائز نہیں ہے ۔ اس قسم کی خرید و فروخت کو شرع نے حرام قرار دیا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عربان سے منع فرمایا ہے۔حدیث میں بیع عربان کی وضاحت بایں طور کی گئی ہے کہ آدمی کسی چیز کا سودا کرے اور فروخت کنندہ کو کچھ رقم پیشگی ادا کر کے کہے ’’اگر میں نے یہ چیز لے لی تو ٹھیک بصورت دیگر ادا کر دہ پیشگی رقم تیری ہو گی ۔ ‘‘ اس قسم کی خرید و فروخت کے متعلق اگرچہ فقہا کا اختلاف ہے تاہم ہمارا رجحان یہ ہے کہ نا جائز شرط اور دھوکے کی وجہ سے اس قسم کی خرید و فروخت ناجائز اور حرام ہے اور یہ کسی کا مال نا جائز طریقہ سے کھانے میں شامل ہے۔ نیز بیع فسخ ہو نے کی صورت میں بیچنے والا جو رقم ضبط کر تا ہے اس کے عوض وہ خریدار کو کوئی مال یا فائدہ مہیا نہیں کر تا اور بغیر معاوضے کے کسی کا مال لینا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں کسی معقول وجہ کی بنیاد پر بیع واپس لینا ثواب کا کام ہے ، جیسا کہ حدیث میں ہے :’’جو شخص کسی مسلمان کی بیع واپس کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ معاف فرما دے گا۔ ‘‘ اس حدیث کی سند کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
لیکن بیعانہ کی شرط اس لیے عائد کی جا تی ہے کہ خریدار ، خریدی ہوئی چیز واپس نہ کر دے، اگر ایسا کر تا ہے تو اس کی پیشگی ادا کر دہ رقم ضبط کر لی جا تی ہے ، ایسا کرنا نیکی سے پہلو تہی ہے جسے کسی بھی صورت میں اچھا نہیں کہا جا سکتا، لیکن یہ بھلے وقتوں کی بات ہے جب لوگ سادہ مزاج اور امانت دار تھے، اب ہمارے اس پُر فتن دور میں جھوٹ ، فریب، دغا بازی، ہوشیاری اور چالاکی لو گوں کے رگ و ریشہ میں رچی بسی ہے ، اکثر طور پر اس سلسلہ میں درج ذیل صورتیں سامنے آ تی ہیں:
- رحمہ اللہ ایک آدمی کسی سے تین ماہ تک رقم کی ادائیگی پر کوئی چیز خرید لیتا ہے اور فروخت کنندہ کو زر بیعانہ بھی ادا کر دیتا ہے تاکہ وہ اس چیز کو آگے فروخت نہ کرے لیکن ایک ماہ بعد اس چیز کا بھاؤ چڑھ جاتا ہے ، اتفاق سے اسے کوئی گاہک بھی میسر آ جا تا ہے ، وہ اپنے پہلے وعدے سے منحرف ہو کر دوسرے گاہک کو چیز فروخت کر دیتا ہے اور زر بیعانہ دوگنا کر کے پہلے شخص کو ادا کر دیتا ہے، اس کے باوجود اسے بچت ہو جا تی ہے۔
- بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہےکہ کوئی تیسرا آدمی خریدار کو خراب کرنا چاہتا ہے ، وہ فروخت کنندہ کے پاس آ کر کہتا ہے کہ تم اتنی قیمت میں وہ چیز مجھے دے دو، میں تمہیں پہلے خریدار کا زر بیعانہ بھی ادا کر دیتا ہوں حالانکہ پہلے خریدار کو وہی چیز اس سے ارزاں نرخ پر ملتی تھی لیکن وہ اپنے وعدے پر قائم ہے، اس طرح خریدار کو نقصان ہوتا ہے ۔
- ایک آدمی نے کسی دوسرے شخص کو کوئی چیز فروخت کی ، دو تین ماہ تک اس کی قیمت وصول کر نے کی شرط کر لیتا ہے اور خریدار سے کچھ زر بیعانہ بھی وصول کر لیتا ہے ، اس دوران خریدار کو وہی چیز کسی دوسرے سے ارزاں قیمت پر مل جا تی ہے تو وہ اپنے زر بیعانہ کی پر وا کیے بغیر اپنے وعدے سے منحرف ہو کر کسی دوسرے شخص سے وہ چیز خرید لیتا ہے۔
- بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ کوئی تیسرا آدمی فروخت کار کو خراب کرنا چاہتا ہے ، وہ خریدار کے پاس آ کر کہتا ہے کہ میں تجھے وہی چیز اس سے ارزاں قیمت پر مہیا کر تا ہوں، تم اپنا زر بیعانہ میرے کھاتے میں ڈال کر مجھ سے وہ چیز خرید لو، اس طرح وہ اپنے وعدے سے منحرف ہو جا تا ہے حالانکہ فروخت کنندہ کو اس دوران فروخت کر دہ چیز کی زیادہ قیمت ملتی تھی، لیکن وہ اپنے وعدے پر قائم رہا، اس طرح فروخت کنندہ کو نقصان ہو تا ہے۔
- ایسے حالات میں کیا کیاجائے ؟ آیا خریدار یا فرخت کار کو اس طرح دھوکہ، فراڈ اور ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جائے یا ان کا کوئی با عزت حل نکالا جائے تاکہ مظلوم اور ستم زدہ انسان کے نقصان کی کچھ نہ کچھ تلافی ہو۔ حالات کے تبدیل ہو نے سے احکام بھی بدل جا تے ہیں، ہمارے رجحان کے مطابق ایسے حالات میں جب ایک دوسرے پر ظلم ہو رہا ہو ، خریدار کا بیعانہ ضبط ہونا چاہیے ، اسی طرح فروخت کنندہ سے دو گنا زر بیعانہ وصول کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر کسی مجبوری کی وجہ سے سودا فسخ کرنا پڑے تو فریقین کو فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ’’اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو فروخت کر تے وقت نرمی کر تاہے ، خریدتے وقت نرمی کر تا ہے اور جب تقاضا کر تاہے تو بھی نرمی کر تا ہے۔‘‘ فروخت کار کی نرمی یہ ہے کہ اگر خریدار اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے سودا فسخ کرنا چاہے تو وہ اس کا زر بیعانہ فراخ دلی کے ساتھ واپس کر دے ۔، ’’بحق نقصان‘‘ ضبط نہ کرے، اسی طرح خریدار کی طرف سے نرمی یہ ہے کہ اگر حالات سے مجبور ہو کر فروخت کنندہ اس بیع کو ختم کرنا چاہے تو فراخدلی کے ساتھ اس سودے کو ختم کر دے اور اس سے دو گنا زر بیعانہ کا مطالبہ نہ کرے بلکہ صرف اپنی دی ہوئی رقم ہی واپس لے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے کاروباری معاملات صحیح طریقہ سے چلانے کی توفیق دے۔ آمین15
ایجنٹ کا بیعانہ اداکرے فائل کو آگے بیچ دینا ۔
عصر حاضر میں ریئل اسٹیٹ میں یہ صورت بھی عام نظر آتی ہے کہ اسٹیٹ ایجنٹ بائع کو بیعانہ کی رقم دے کر دو تین ماہ کا وقت لے لیتاہے اس وقت کے دوران وہ اس فائل کو آگے کسی تیسرے فریق کو بیچ کر اس سے ایک ماہ کا ٹائم دیتاہے جب اس سے رقم ملتی ہے تو وہ منافع رکھ کر بقیہ قیمت اصل مالک کو ادا کردیتاہے ۔ ایسا کرنا بھی جائز نہیں ۔
ریئل اسٹیٹ ایجنٹ کے کاروبار میں رائج ایسی ہی قباحتوں کے حوالے سے مجلس التحقیق الاسلامی کے تحت قائم کردہ محدث فورم پر ایک فتویٰ شائع ہوا جوکہ انتہائی مفید ہےبالخصوص پراپرٹی ایجنٹ جو اس کاروبار میں کرتے ہیں ان کی جملہ صورتیں سوال میں ذکر کرکے مدلل جواب دیا گیا ہے افادہ عام کیلئے یہ فتویٰ یہاں نقل کیا جاتاہے ۔
عنوان : کمیشن ایجنٹ کی کمائی کا حکم
سوال:السلام عليكم ورحمة اللّٰه وبركاته ریئل اسٹیٹ بزنس سے متعلق چند فتاویٰ درکار ہیں۔ اگر آپ برادران کے لئے ممکن ہوکہ محدث فتویٰ فورم سے وابستہ علمائے کرام سے ترجیحی بنیادوں پر درج ذیل جوابات فراہم کرسکیں تو احقر ممنون ہوگا ۔پہلے چار سوال تو ریئل اسٹیٹ بزنس میں معمول کے ہیں جبکہ اسی سے متعلق پانچواں سوال اس وقت کراچی کے لاکھوں لوگوں سے متعلق ہے۔ عام روٹ سے ہٹ کر آپ منتظمین کی معرفت سوال کرنے کا مقصد یہی ہے کہ جواب فوری طور پر مل سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو یہ کام فوری طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
- رحمت اللہ ریئل اسٹیٹ بزنس میں ایجنٹ ’’مڈل مین‘‘ کا کردار ادا کرتا ہے۔ یعنی جائیداد کا مالک (فروخت کنندہ) کوئی اور ہوتا ہے اور خریدار کوئی اور۔ اس بزنس میں ایجنٹ دونوں پارٹیوں کے درمیان سودا طے کرواتا ہے اور سودا ہوجانے کی صورت میں ہر فریق سے سودے کی مالیت کا دو فیصد کمیشن لیتا ہے۔ کیا اس طرح کا بزنس جائز ہے کیونکہ احادیث میں مالک اور خریدار کے درمیان’’بروکری‘‘ کو ناپسند کیا گیا ہے۔
- سودا طے پاجانے کی صورت میں خریدار مالک کو سودے کی مالیت کا چند فیصد بطور زر بیعانہ فوری طور پر ادا کرتا ہے اور یہ اقرار کرتا ہے کہ فلاں تاریخ تک بقیہ رقم ادا کرکے جائیداد خرید لے گا۔ اگر کسی وجہ سے معینہ تاریخ تک خریدار بقیہ رقم ادا نہیں کرتا تو سودا از خودمنسوخ سمجھا جاتا ہے اور مالک زر بیعانہ ضبط کرلیتا ہے۔ اسی طرح اگر بیعانہ لینے کے بعد جائیداد کا مالک کسی بھی وجہ سے یہ سودا منسوخ کردیتا ہے تو اُسے خریدار کو وصول شدہ زربیعانہ اور اس کے مساوی اضافی رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ کیا اس طرح زر بیعانہ ضبط کرنا یا دگنا زربیعانہ واپس کرنا جائز ہے۔ واضح رہے کہ یہ عمل اس بزنس کا معمول ہے اور سب کے علم میں ہے۔
- اکثر و بیشتر یہ بھی ہوتا ہے کہ ایجنٹ مالک سے پوچھتا ہے کہ آپ اپنی جائیداد کتنی رقم میں بیچنا چاہتے ہیں۔ مالک جائیداد کی مطلوبہ قیمت بتلا دیتا ہے۔ اب اگر ایجنٹ کو کوئی ایسا خریدار مل جاتا ہے جو مالک کی مطلوبہ ڈیمانڈ سے زائد قیمت میں جائیداد خریدنے کو تیار ہو تو ایجنٹ اس بات سے مالک کو آگاہ کئے بغیر سودا کروا دیتا ہے اور مالک کی مطلوبہ قیمت سے زائد رقم خود رکھ لیتا ہے۔ ایجنٹ دونوں سے اپنا کمیشن الگ لیتا ہے۔ کیا مالک کی مطلوبہ قیمت سے زائد ملنے والی رقم ایجنٹ کے لئے جائز ہے۔(1) اگر اس نے اس بات یہ بات مالک سے چھپائی ہو (2) اگر اس نے یہ بات مالک کو پیشگی بتلا دی ہو کہ آپ کی ڈیمانڈ سے زائد ملنے والی رقم میری ہوگی۔ واضح رہے کہ عموماً ایجنٹ یہ بات مالک کو نہیں بتلاتا البتہ اس بزنس میں اس بات سے سب ہی واقف ہیں کہ ڈیمانڈ سے زیادہ قیمت پر اگر کوئی ایجنٹ سودا کرواتا ہے تو اضافی رقم ایجنٹ ہی لے گا۔ اور یہ ایک عام چلن ہے۔
- اکثر ایجنٹ یہ بھی کرتے ہیں کہ اگر کہیں اُسے کوئی جائیداد نسبتاً سستی مل رہی ہو تو وہ اسے’’خریدنے کا سودا‘‘ کرکے مالک کو زربیعانہ اپنی جانب سے ادا کردیتا ہے اور مقررہ تاریخ تک ’’بقیہ رقم‘‘ ادا کرنے کا وعدہ کرلیتا ہے۔ اس کے بعد ایجنٹ کوئی حقیقی خریدار یا دوسرا ایجنٹ تلاش کرتا ہے جو یہی سودا زیادہ قیمت پر خریدنے پر رضامند ہو۔ پھر پہلا ایجنٹ خریدار یا دوسرے ایجنٹ سے یہ’’اضافی رقم‘‘ بطور زر بیعانہ وصول کرکے اُسے بقیہ رقم معینہ مدت تک ادا کرنے کو کہتا ہے۔ بعض صورتوں میں یہ سلسلہ ایجنٹ در ایجنٹ چلتا ہے۔ کیا کسی ایجنٹ کے لئے اس طرح کی ’’اضافی آمدنی‘‘ جائز ہے۔ واضح رہے کہ ریئل اسٹیٹ بزنس میں یہ ایک عام معمول ہے اور مالک جائیداد اور حقیقی خریدار بھی اس’’مارکیٹ ٹرینڈ‘‘ سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ تاہم ایجنٹ کسی بھی ڈیلنگ کے دوران مالک یا خریدار کو بطور خاص یہ نہیں بتلاتا کہ ہم آپ کے کیس میں بھی ایسا کر رہے ہیں۔ گو اس طرح مالک کو اپنی ڈیمانڈ کے مطابق رقم مل جاتی ہے اور خریدار کو اپنی پسند کی قیمت پر جائیداد مل جاتی ہے لیکن اگر انہیں ایجنٹ کی اس ’’انڈر دی ٹیبل کاروائی‘‘ کا پتہ چل جائے تو شاید مالک اضافی رقم بھی مانگنے لگے یا خریدار ایجنٹ کی زیادہ ڈیمانڈ کی بجائے اصل مالک کی کم ڈیمانڈ والی رقم ہی دینے پر راضی ہو۔
سوال: پاکستان کی معروف ہاؤسنگ سوسائٹی ’’بحریہ ٹاؤن‘‘ نے حال ہی میں کراچی میں اپنی ہاؤسنگ اسکیم لانچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پہلے مرحلہ میں سوسائٹی نے ’’ کراچی بحریہ ٹاؤن کی ممبرشپ‘‘ کا آغاز کیا ہے۔ یہ ’’ممبرشپ‘‘ مبلغ پندرہ ہزار روپے میں جاری کی گئی ہے۔ مستقبل قریب میں جب ’’بحریہ ٹاؤن کراچی‘‘ میں پلاٹس برائے فروخت کے لئے پیش کئے جائیں گے تو صرف ’’ممبر شپ‘‘ حاصل کرنے والے افراد ہی پلاٹ خریدنے کے لئے فارم جمع کرانے کے ’’اہل‘‘ ہوں گے۔ چونکہ ممبر شپ حاصل کرنے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہیں، لہٰذا پلاٹ قرعہ اندازی کے ذریعہ الاٹ ہوں گے۔ قرعہ اندازی میں پلاٹ حاصل نہ کرسکنے والے اپنی ممبرشپ کی فیس میں سے دس ہزار واپس لینے کے اہل ہوں گے جبکہ پانچ ہزار روپے پیشگی اعلان کے مطابق ناقابل واپسی ہوگی۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاته!
الحمد للّٰه، والصلاة والسلام علىٰ رسول اللّٰه، أما بعد!
آپ کا سوال متعدد پہلووں پر مشتمل ہے،جن کا ترتیب وار جواب درج ذیل ہے۔ رحمہ اللہ مڈل مین کو عربی میں سمسار کہا جاتا ہے، جو خریدار اور بائع کے درمیان واسطے کا کام کرتا ہے۔ جمہور فقہاء کرام نے مڈل مین کے کام اور اس کی اجرت کو جائز قرار دیا ہے۔لیکن شرط یہ ہے کہ اجرت پہلے طے کر لی جائے،اور مجہول نہ رکھی جائے،اور بائع ومشتری کے ساتھ سودے یا قیمت کے حوالے سے کوئی جھوٹ نہ بولا جائے،یہ بھی مزدوری ہی کی ایک قسم ہے۔عبداللہ بن عباس سے ایسا ہی مروی ہے، ابن جریر، عطاء، نخعی، ابوثور، ابن منذر کا قول بھی یہی ہے اور یہی مسلک شوافع اور حضرات موالک و دیگر کا بھی ہے16
مشروعیت کے دلائل:
ارشاد باری تعالی ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
المائدۃ – 2
وجہ استدلال: دو افراد اگر کوئی معاملہ کرتے ہیں اور وہ معاملہ غیر شرعی نہیں ہے۔ اب کوئی دلال ان کے درمیان معاملہ کی تکمیل کے لیے واسطے کا کام کرے۔ تو واسطے کا یہ عمل جائز منفعت میں شمار ہوگا، اور اس کا یہ عمل تعاون علی البر بھی کہلائے گا۔
سیدناقیس بن ابوغرزہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
كُنَّا نَبْتَاعُ الْأَوْسَاقَ بِالْمَدِينَةِ، وَكُنَّا نُسَمَّى السَّمَاسِرَةَ، قَالَ: فَأَتَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمَّانَا بِاسْمٍ هُوَ أَحْسَنُ مِمَّا كُنَّا نُسَمِّي بِهِ أَنْفُسَنَا، فَقَالَ:’’يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ إِنَّ هَذَا الْبَيْعَ يَحْضُرُهُ اللَّغْوُ، وَالْحَلِفُ، فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ
’’کہ ہم لوگ مدینے میں پیمانے (اوساق) خرید رہے تھے اور خود کو ”سماسرہ“ بولتے تھے کہ رسول گرامیﷺ ہمارے پاس آئے اور ہمیں اس سے اچھے نام سے یاد کیا، فرمایا: اے تاجروں کی جماعت: فروختگی میں لغو باتیں اور قسم (کیا کچھ نہیں) شامل ہوجاتا ،اس لیے تم اسے صدقہ سے ملا لو، (یعنی اس گناہ کو صدقہ سے مٹاوٴ)۔‘‘17
وجہ استدلال: حدیث کی عبارت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کام کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے رسول اللہﷺ نے ”سماسرہ“ کا کام درست سمجھا البتہ(بغیر انکار کئے) ایک دوسرا نام پسند فرمایا اور انہیں ”تجار“ کے لقب سے یاد کیا۔امام خطابی نے تو باقاعدہ ”سمسار“کو ”تاجر“ سے بدل دینے کی خوبی پر بھی گفتگو کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ”سمسار“ عجمی لفظ ہے اور ان میں اکثر خرید وفروخت کرنے والے عجمی تھے یہ نام انہی عجمیوں سے اخذ کردہ ہے جسے رسول اللہﷺ نے ”تاجر“ سے بدل دیا ہے اور یہ ایک عربی نام ہے۔
عموما لوگوں کو دلالی کی سخت ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بہت سارے ایسے ہیں جو خرید و فروخت کے بارے میں نہیں جانتے، سودے بازی اور مول بھاوٴ سے وہ بھلی بھانت واقف نہیں ہوتے۔ کتنے ایسے ہیں کہ انہیں کچھ خریدنا پڑ جائے تو اشیاء کی پرکھ اور چیزوں کے عیوب جاننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ کچھ ایسے بھی ملیں گے جنہیں خریدو فروخت کی فرصت ہی نہیں ہوتی ان حالات میں دلالی ایک نفع بخش عمل کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ جس سے خریدنے والے، بیچنے والے اور دلال سب ہی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ اس لیے دلالی کرنا اور اس پر اجرت لینا غیرمشروع نہیں۔
وقت پر ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں بیعانہ واپس نہ کرنا ،یا سودا منسوخ کر کے ڈبل بیعانہ واپس کرنا،دونوں ہی حرام ہیں،کسی کو کسی کا مال حرام طریقے سے کھانے کی اجازت نہیں ہے،۔ارشادباری تعالی ہے۔:
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ
البقرۃ – 188
’’اورتم اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاو۔‘‘
اگر تو بائع کے ساتھ اتفاق ہو جائے کہ اتنی قیمت سے زیادہ کی رقم میری ہو گی تو تب جائز ہے ،امام بخاری نے سیدنا ابن عباس کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کہے:
لا بأس أن يقول: بع هذا الثوب، فما زاد على كذا وكذا، فھو لك
آپ یہ کپڑا فروخت کریں اور جو اس قیمت سے زیادہ رقم ہو گی وہ تیری ہے۔تو یہ سودا درست ہے۔18
لیکن اگر طے نہ ہو تو خاموشی سے اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے۔یہ حرام اور چوری کے زمرے میں شمار ہو گا،اگرچہ پہلے سے معروف ہی کیوں نہ ہو۔
بیعانے پر آگے فروخت کرنا درست نہیں ہے کیونکہ آپ نے اسے قبضے میں نہیں لیا اور کوئی بھی چیز قبضہ میں لئے بغیر اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں کچھ سامان خریدتا ہوں تو اس میں میرے لئے کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے ؟ آپ نے فرمایا:
إِذَا اشْتَرَيْتَ بَيْعًا فَلاَ تَبِعْهُ حَتَّى تَقْبِضَهُ
رواہ احمد والبیھقی وابن حبان باسناد حسن
جب تم کوئی چیز خریدو تو اس کو نہ بیچو یہاں تک کہ اس پر قبضہ کر لو۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
وَكُنَّا نَشْتَرِى الطَّعَامَ مِنَ الرُّكْبَانِ جزَافًا فَنَھَانَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ نَبِيعَهُ حَتَّى نَنْقُلَهُ مِنْ مَكَانِهِ
اورہم تاجروں سے غلے کو اٹکل سے خریدتے تھے تو رسول اللہ ﷺنے ہمیں اس کو بیچنے سے منع فرمایایہاں تک کہ ہم اسے اس کی جگہ سے منتقل کردیں ۔19
اور علامہ سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وليس هذا خاصا بالطعام بل يشتمل الطعام وغيره
یہ صرف غلے کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہ غلہ اور اس کے علاوہ دوسری چیزوں کو بھی شامل ہے ۔20
معلوم ہوا کہ کسی بھی سامان کو اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے بیچنا درست نہیں ہے ۔
بحریہ ٹاون کی ممبر شپ ایک جوا ہے،جس کے ذریعے پلاٹ حاصل کرنے کی لوگ کوشش کر رہے ہیں،اب بعض تو اس کو حاصل کر لیں گے اور بعض اس سے محروم رہ جائیں گے،اور یہ صورت جوا میں ہی ہوتی ہے۔پھر ان کا صرف دس ہزار روپے واپس کرنا ،اور باقی واپس نہ کرناسراسر ظلم اور زیادتی ہے،وہ لوگوں کا مال ناجائز اور حرام طریقے سے کھا رہے ہیں۔(اگر وہ لوگوں کو فری ممبر شپ دیتے تو جائز تھا۔)اسی طرح پلاٹ کے لئے ممبر شب کی شرط لگانا ایک بیع میں دو بیعوں کی شکل ہے ،جو شرعا حرام ہے۔
ھذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب
- صحیح البخاری،حدیث:52، صحیح مسلم:1599
- الموسوعة الفقھية:10/151
- معیشت وتجارت کے اسلامی احکام ملخصاً ص۔115
- سنن ابي داؤد : كتاب البيوع ، باب في التجارة يخالطها الحلف واللغو
- صحيح البخاري :كتاب الإجارات ، باب أجر السمسرة
- معیشت وتجارت کے اسلامی احکام ازحافظ ذوالفقار طاہرعلی: ص 119
- فتح الباري :( 4/452)
- مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب البیوع والأقضية ، باب أجر السمسار(2105)
- مصنف ابن ابی شیبہ کتاب البیوع والأقضية ، باب أجر السمسار:2109
- مصنف ابن ابی شیبہ کتاب البیوع والأقضية ، باب اجر الدلال:3276
- الوساطۃ التجاریہ فی المعاملات المالیۃ ص 69
- فتاوى اللجنة الدائمة:13/125
- صحیح البخاری کتاب البیوع، باب السھولة والسماحة فی الشراء والبیع
- معیشت وتجارت کے اسلامی احکام ص 118
- فتاویٰ اصحاب الحدیث ج 4 ص 247
- البحر الرائق:7/72، التاج والاکلیل:6/573، المجموع:9/91، المغنی:5/72
- مسند احمد:16135
- صحیح البخاری:باب فی أجر السمسرۃ
- صحيح البخاري:2/ 747،صحيح مسلم : 3/ 1160
- فقه السنة :3؍240