پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں،جس نے اپنے بندوں پر فضل وکرم کرتے ہوئے انہیں مختلف بشارتیں سنائیں، میں اس کی نعمتوں، اور جودو سخا کی بناپر اُسی کا ثناء خواں اور شکر گزار ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے، وہ ہر ڈھکی چھپی بات کو جانتا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، جس نے بھی ان کی اتباع کی وہ جنت کی طرف بڑھتا جا ئے گا،اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل پر، اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائےجو کہ صاحبِ فضل و بصیرت تھے۔
حمد و ثناء کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں ، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران – 102
اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں ہی آئے۔
بشارت کی تعریف:
“بشارت” “بشری” اور “مبشرات” ایسے کلمات ہیں جن سے امیدکی کرنیں پھوٹتی ہیں، جوش و جذبہ کو نئی زندگی ملتی ہے، یہ الفاظ نا امیدی اور مایوسی کا علاج کرتے ہیں، یہی کلمات اللہ کے کئے ہوئے وعدوں پراعتماد کا سبب بنتے ہیں، جن سے تمام پریشانیاں زائل ہوجاتی ہیں۔
جب مطلق طور پر لفظ “بشارت” بولا جائے تو اسکا مطلب اچھا ہی ہوتا ہے، لیکن اگر اس سے اُلٹ معنی مراد ہو تو کسی قید کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے، قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر بشارت کی مختلف صورتیں ہیں، کیونکہ قرآن بشارتوں کا وسیع میدان ہے۔
بشارت کی مختلف صورتیں :
سب سے پہلی ہمارے لئے بشارت یہ کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کو ہر چیز کے متعلق راہنمائی کے لئے نازل فرمایا،:
وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ
النحل – 89
اور یہ قرآن اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے۔
يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا
الاسراء – 9
یہ قرآن تو وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور جو لوگ ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں انھیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔
قرآنی آیات مؤمن کے لئے تسکینِ قلب کا باعث ہیں، دل میں ان بشارتوں کو سن کہ ٹھنڈ پڑ جاتی ہے، جبریل علیہ السلام نے ہمارے پیارے پیغمبر ﷺ سے فرمایا: “یہ جو دروازہ آج آسمان میں کُھلا ہے ، اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا”، اُس سے ایک فرشتہ نیچے اترا، تو جبریل نے اس فرشتے کے بارے میں کہا: “یہ فرشتہ زمین پر جو نازل ہوا ہے، آج سے پہلے کبھی زمین کی طرف نہیں آیا” اُس فرشتے نے سلام کیا ، اور کہا: “آپ دو نوروں کے ملنے پر خوش ہو جائیں، یہ نور آپ سے پہلے کسی نبی کو عنائت نہیں کئے گئے، اور وہ ہیں، سورہ فاتحہ، اور سورہ بقرہ کی آخری آیات، آپ ان میں سے جو کچھ بھی پڑھیں گے اللہ تعالی آپ کو عنائت فرمائے گا” مسلم
ہمارے رسول ﷺ بھی مبشر ہیں، وہ خوشخبری دیتے ہیں اور ڈراتے بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
الفرقان – 56
اور (اے نبی) ہم نے تو آپ کو بس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے۔
نبی ﷺ نے خوشخبری دینے کی ترغیب بھی دی اور نفرتیں پھیلانے سے منع فرمایااور کہا: (خوشخبریاں سُنانا ، نفرتیں مت ڈالنا، آسانی پیدا کرنا ، تنگی میں مت ڈالنا) اور اپنے صحابہ کرام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: (تم دونوں! لوگوں کو دعوت دینا، اور خوشخبری سنانا، نفرتیں مت ڈالنا، آسانیاں پیدا کرنا، اور تنگی میں مت ڈالنا)
ڈرانے اور خوشخبری دینے کے درمیان توازن قائم رکھنا سید المرسلین کا طریقہ ہے، یہی بہترین منہج ہے، کہ ہم اللہ کی رحمت سے پر امید رہیں، اور ساتھ ساتھ اس کے عذاب سے بھی ڈریں۔
کسی بھی خوشخبری سننے کے بعد نیکی ، اور اطاعت کے جذبات میں ولولہ پیدا ہوجاتا ہے؛ عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (آج کے بعد عثمان چاہے کوئی عمل نہ بھی کرے، اسے کبھی نقصان نہیں ہوگا) چنانچہ اس خوشخبری کے سننے کے بعد ان میں نیکی اور تقوی مزید بڑھتا چلا گیا۔
کسی کو خوشخبری دینے سے معنوی طور پر مضبوط قسم کی ڈھارس باندھی جاتی ہے، اس کی مثال خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ میں نظر آتی ہے جس میں انہوں نے اپنے خاوند ﷺ سے کہا تھا: “آپ خوش ہوجائیں! اللہ کی قسم ، اللہ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرےگا”۔
کتنی اچھی بات ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے ایسی بات سنیں!، ایک فوجی اپنے کمانڈر سے، ایک ملازم اپنے افسر سے، ان الفاظ کے ساتھ خوف حراس اور مایوسی کی دیوراوں کو توڑا جا سکتا ہے۔
جو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ان کے لئے اللہ نے خوشخبری سنائی ہے، فرمایا:
وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى
الزمر – 17
اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ان کے لئے بشارت ہے لہذا میرے بندوں کو بشارت دے دیجئے۔
متقی افراد کے لئے کامیابی کی بشارت دی گئی ہے ، فرمایا:
الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (63) لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ
یونس – 63/64
جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔ ان کے لئے دنیا میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔
مجاہدین کے لئے رحمتِ الہی اور رضائے الہی کی خوشخبری دی گئی ہے، فرمایا:
الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (20) يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ
التوبة – 20/21
جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، اللہ کے ہاں ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔ ان کا پروردگار انہیں اپنی رحمت اور رضا مندی کی خوشخبری دیتا ہے اور ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کی نعمتیں دائمی ہیں۔
جبکہ صبر کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
البقرة – 155/157
اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔ کہ جب انہیں کوئی مصیبت آئے تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں کہ : ہم (خود بھی) اللہ ہی کی ملکیت ہیں۔اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی طرف سے عنایات اور رحمتیں برستی ہیں ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوتے ہیں۔
مساجد کی طرف پیدل چل کر جانے والوں کے لئے رسول اللہ ﷺ نے خوشخبری دی اور فرمایا: (اندھیروں میں مساجد کی طرف چل کر جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی خوشخبری دے دو)
جو شخص کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے تو اس کے لئے نبی ﷺ نے فرمایا: (خوش ہوجاؤ، اس لئے کہ اللہ نے فرمایا: “یہ میری آگ ہے میں اپنے مؤمن بندے کے آخرت والے حصے کو دنیا ہی میں اُس پر مسلط کر دیتا ہوں”)
اور نبی ﷺ کو حکم دیا گیا کہ خدیجہ کو جنت میں ایسے محل کی خوشخبری دے دیں ، جو موتی سے بنا ہوا ہے، وہاں کوئی شور شرابا نہیں ہوگا اور نہ ہی تھکاوٹ ہوگی۔
رسول اللہ ﷺ نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو خوشخبری دی اور فرمایا: (عمار خوش رہو! تمہاری شہادت ایک باغی جماعت کی وجہ سے ہوگی) اولیاء اللہ کے لئے دونوں جہانوں میں خوشخبری ہے فرمایا:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (63) لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ
یونس – 62/64
سن لو ! جو اللہ کے دوست ہیں انھیں نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔ ان کے لئے دنیا میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔
مؤمن کے لئے ابتدائی خوشخبری ہوتی ہے کہ لوگ اس کے چھپے ہوئے کاموں کی تعریف کریں کہ اس نے چھپانے کی کوشش کی تھی لیکن اللہ نے لوگوں کے سامنے واضح کردیا، چنانچہ ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: “اس شخص کے بارے میں بتائیں جو نیکی کا کام کرتا ہے اور لوگ اس کے اس عمل پر تعریفیں کرنے لگ جاتے ہیں”آپ نے فرمایا: (یہی تو مؤمن کے لئے ابتدائی خوشخبری ہے)
اچھے خواب بھی بشارتوں کی ایک شکل ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (نبوت میں سے صرف مبشرات ہی باقی رہ گئی ہیں) صحابہ نے عرض کیا: “مبشرات ” کیا ہیں؟آپ نے فرمایا: (اچھے خواب مبشرات ہیں) بخاری ، مسلم
نرینہ اولاد کے حصول پر خوش ہونا اور دوسروں کو مبارک باد دینا مسنون ہے، جبکہ بیٹی کو اپنے لئےبوجھ سمجھنا اور اسے منحوس جاننا ، اللہ کے ہاں مذموم فعل ہے، اس لئے کہ :
يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا
الشوریٰ – 49/50
وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے جسے چاہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہے لڑکے۔ یا لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے۔
اور بیٹی کے بارے میں مشرکین کے مذموم فعل کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ (58) يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
النحل – 58/59
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ اور دی ہوئی خبر سے عار کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے کہ) آیا اس لڑکی کو ذلت کے باوجود زندہ ہی رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے؟ دیکھو یہ لوگ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں۔
ہواؤں کے چلنے کو بھی مبشرات میں سے شمار کیا گیا، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
الروم – 46
اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہواؤں کو خوشخبری دینے والی بنا کر بھیجتا ہے اور اس لئے کہ تمہیں اپنی رحمت سے لطف اندوز کرے، نیز اس لئے کہ اس کے حکم سے کشتیاں رواں ہوں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو۔
اولیاء اللہ اور اس کے خاص بندوں کے لئے کچھ علامتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ان کے بارے میں اچھائی کا فیصلہ کرچکا ہے، مثلاً: جس شخص کو زندگی میں آسودگی، کامیابیاں ، آسانیاں، اور مشکلات سے نجات ملے امید ہے کہ وہ ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہو، اس لئے کہ اللہ تعالی نے اسی بارے میں فرمایا:
فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى (5) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (6) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَ
اللیل – 5/7
پھر جس نے (اللہ کی راہ میں) مال دیا اور پرہیز گاری اختیار کی۔ اور بھلی باتوں کی تصدیق کی۔ تو ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی سہولت دیں گے۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
الطلاق – 4
اور جو شخص اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کےلئے اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔
چنانچہ جب آپ کو اپنے معامالات آسان نظر آنے لگیں ، اور اللہ کی طرف سے خیر کا معاملہ ہو، تو واقعی یہ ایک خوشخبری ہےچاہےآپ کو اللہ سے اس کی امید ہو یا نہ ہو۔
اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ : تکالیف اور مصائب کو سکون میں تبدیل کردیا جائے، تنگی کو آسانی کا پیش خیمہ ثابت کیا جائے، حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید نے انبیاء اور اولیاء کے بارے میں یہی انداز اختیار کیا ہے، جب بھی انہیں حالات نے تنگ کیا، اور مشکلات میں پھنس گئے، تو اللہ کی طرف سے مشکل کشائی ہوئی، فرمایا:
وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ
البقرة – 214
ان پر اس قدر سختیاں اور مصیبتیں آئیں جنہوں نے ان کو ہلا کے رکھ دیا۔ تاآنکہ رسول خود اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟(اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا) سن لو!اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔
مؤمن کے لئے کچھ بشارتیں، حالتِ نزاع،موت کے وقت، تکفین و تجہیز کے وقت بھی رو نما ہوتی ہیں، چنانچہ دنیا سے کوچ کرتے ہوئے بشارت کے متعلق اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (27) ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (28) فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (29) وَادْخُلِي جَنَّتِي
الفجر – 27/30
اے اطمینان پانے والی روح۔ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی۔ تو میرے (نیک) بندوں میں شامل ہوجا۔ اور میری جنت میں داخل ہوجا۔
مؤمن کے لئے بڑی خوشخبری یہ بھی ہے کہ اس کی توبہ قبول ہو جائے، جیسے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ کے واقعہ میں ہے، کہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں میں سے تین افراد کے ساتھ مدنی معاشرے میں 50 دنوں کے سوشل بائیکاٹ کیا گیا اس کے بعد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اسی حالت میں بیٹھا تھا جیسا کہ اللہ تعالی نے ہمارے بارے میں قرآن مجید میں بیان کی ہے کہ دل میں اتنی گھٹن محسوس ہوتی تھی کہ زمین بھی مجھ پر تنگ ہونے لگی ۔
میں نے کسی کی بلند آواز سنی وہ سلع پہاڑ پر کہہ رہا تھا: “کعب بن مالک! خوش ہوجاؤ!!” کعب کہتے ہیں: میں فوراً سجدے میں جا گرا، اور سمجھ گیا کہ سوشل بائیکاٹ ختم ہوگیا ہے، اس کے بعد لوگ بڑی بڑی ٹولیوں کی شکل میں آکر ملنے لگے اور میری توبہ قبول ہونے پر مجھے مبارکباد دینے لگے، وہ مجھے کہتے تھے: “مبارک ہو!! اللہ نے تمہاری توبہ قبول کی “۔
کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے آکر رسول اللہ ﷺ کو سلام عرض کیا تو آپ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا، آپ نے فرمایا: (خوش ہوجاؤ! جب سے تمہاری ماں نے تمہیں جنم دیا ہے ابھی تک تمہاری زندگی میں ایسا دن نہیں آیا) کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے آپ سے استفسار کیا: “اللہ کے رسول یہ آپ کی طرف سے ہے ، یا اللہ تعالی کی طرف سے؟” آپ نے فرمایا: (نہیں یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے)
آپ ﷺ جب خوش ہوتے تو ایسے لگتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہے، اور اللہ تعالی نے کعب اور ان کے ساتھیوں کے متعلق سورہ توبہ کی یہ آیات نازل فرمائیں:
لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
التوبة – 117
اللہ تعالیٰ نے نبی، مہاجرین اور انصار پر مہربانی کی جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت اس کا ساتھ دیا تھا اگرچہ اس وقت بعض لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہوچلے تھے۔ پھر اللہ نے ان پر رحم فرمایا کیونکہ اللہ مسلمانوں پر بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کے لئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جوتمام راز اور ظاہری باتیں جانتا ہے،میں اسی کی تعریف بیان کرتا ہوں اور اسی سے مدد کا طلب گار ہوں ، اور اسی پر توکل کرتا ہوں، میں اس کے قریب کرنے والے تمام کاموں میں کامیابی کا سوال کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ کا مقام سیرت و صورت کے لحاظ سے تمام مخلوقات سے بلند ہے، اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر سلامتی اور درود نازل فرمائے۔
حمدو ثناء اور نبی ﷺ پر درود و سلام کے بعد!
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
الاحزاب – 70/71
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو۔ (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔
مبشرات میں سے یہ بھی ہے کہ تھوڑے عمل پر زیادہ ثواب سے نوازا جائے، جیسے کہ ، یوم عاشوراء کا روزہ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اللہ سے امید ہے کہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا) مسلم
اور ایک روایت میں فرمایا: (اگر آئندہ سال تک زندہ رہا تو نو محرم کا بھی روزہ رکھوں گا)مسلم
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے انکا قول ثابت ہے کہ : “ایک دن دس محرم سے پہلے اور ایک دن بعد میں روزہ رکھو”۔
اللہ کے بندوں!
رسولِ ہُدیٰ پر درود وسلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتابِ عزیز میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔
یا اللہ اپنے بندے، اور رسول محمد ﷺ پر درود و سلام بھیج، یا اللہ! خلفائے اربعہ ابو بکر ، عمر ، عثمان، اور علی سے راضی ہوجا، تمام اہل بیت اور صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! ان کے ساتھ ساتھ اپنے رحم و کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما،کافروں اور کفر کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے ۔
یا اللہ! ہرجگہ مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ ! غلبہ دین کے لئے کوشش کرنے والوں کی مدد فرما، یا اللہ! جو اسلام اور مسلمانوں کو رسوا کرنا چاہے تو اسے ذلیل کردے، یا اللہ! اپنے دین، قرآن، سنت نبوی، اور اپنے مؤمن بندوں کو غالب فرما۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لئے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے یا رب العالمین!۔
یا اللہ ! ہم تجھ سے ہدایت ، تقوی، پاکدامنی، اور غنی کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کوغلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لئے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔
یا اللہ!ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے،ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریاں ختم کردے۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اور نیکی و تقوی کے لئے اس کی مکمل راہنمائی فرما، اس کے تمام کام اپنی رضا کے لئے بنا لے، یا اللہ رب العالمین۔
یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کی شریعت نافذ کرنے کی توفیق دے، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور تیری رضامندی کا سوال کرتے ہیں، اور تیری ناراضگی اور جہنم سے پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! تمام فوت شدگان پر رحم فرما، مریضوں کو شفا یاب فرما، قیدیوں کو رہائی نصیب فرما، تمام تنگیاں اور ترشیاں ختم فرما دے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے بارش کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عنائت فرما، یا اللہ! رحمت والی بارش ہو، عذاب، تباہی ، اور غرق کرنے والی نہ ہو، یا اللہ! رحمت والی بارش ہو، عذاب، تباہی ، اور غرق کرنے والی نہ ہو، یا اللہ! رحمت والی بارش ہو، عذاب، تباہی ، اور غرق کرنے والی نہ ہو۔
یا اللہ! اپنے بندوں کو بارش مہیا فرما، جس سے علاقے سیراب ہوں، اور سب لوگ اس پانی سے مستفید ہوں، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! حجاج کرام کی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں ہمہ قسم کے شر اور گناہوں سے بچا، یا اللہ! انہیں امن و سلامتی اور حج مقبول کے ساتھ وطنوں کو واپس لوٹا، یا اللہ! ان کے حج کو مبرور بنا، ان کی نیکی کے لئے کوششوں کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت نواز، اور ان کے تمام اعمالِ صالحہ بھی قبول فرما، یا ارحم الراحمین! یا رب العالمین، یا کریم! یا رحیم! یا ودود! یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
البقرة – 201
اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی, اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
الاعراف – 23
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
الحشر – 10
اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔،
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اوہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی چیز ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔