اگر آپ نماز جیسی عظیم عبادت بجا لانے سے محروم ہیں تو ان گزارشات کو اپنے پلے باندھ لیں!
1- نماز دین اسلام کا بنیادی رکن ہے کہ جو اسلام اور کفر کے درمیان فرق کرنے والا عمل ہے، نماز چھوڑ دینا انتہائی قبیح جرم ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت اسلامیہ میں سب سے بڑا جرم شرک ہے، اگر مشرک بغیر توبہ کیے مرگیا تو اس کی کوئی معافی نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ کے لیے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے، لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ نماز نہ پڑھنا بھی مشرکین ہی کا شیوہ ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وأقیموا الصلاۃ ولا تکونوا من المشرکین
(سورۃ الروم: 31)
اور نماز قائم کرو اور شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” آدمی کے درمیان اور شرک و کفر کے درمیان ترکِ صلوٰۃ (کا فرق) ہے۔ 1“
مسند احمد اور دیگر کتب احادیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ” جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔”
2- جب اہل جنت اہل جہنم سے سوال کریں گے کہ تمہیں کس چیز نے جہنم میں ڈالا؟ تو وہ اپنا پہلا جرم یہی بیان کریں گے کہ “ہم نماز ادا کرنے والوں میں سے نہیں تھے”۔ 2 بلکہ مسند احمد کی روایت کی روشنی میں بے نمازی قیامت کے روز قارون، فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ (عذاب میں مبتلا) ہوگا۔ (اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے، آمین)
3- قرآنی فیصلے کی رو سے بے نمازی شخص نہ تو اسلامی برادری میں شامل ہے اور نہ ہی اسے اخوت دینی کا مقام حاصل ہوسکتا ہے، جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے: ’’پھر اگر وہ (کفر سے) توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو دین میں تمھارے بھائی ہیں۔ 3
4- جہنم کی ایک وادی کا نام “ویل” ہے، منافقین نمازیوں کے بارے میں کہا گیا کہ “ان نمازیوں کے لیے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے۔ جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔” 4 یہ تو ان کا حال ہے کہ جو نماز میں سستی کرتے تھے، اور آج جو سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتے، ان کا کیا حال ہوگا؟
5- اس فریضہ کی کیا اہمیت ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ منافقین باوجود اپنے نفاق میں پکے ہونے کے، بھاری بوجھل قدموں کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد جایا کرتے تھے کہ کہیں ان کا نماز سے پیچھے رہ جانا مسلمانوں کو اس یقین میں مبتلا نہ کردے کہ یہ منافق ہیں بلکہ صحابہ کرام بھی نمازوں سے پیچھے رہ جانے والوں کو منافق ہی تصور کیا کرتے تھے، فرق یہی ہے کہ اس دور کے منافقین بھی نمازی تھے اور آج کا مسلمان بھی بے نمازی ہے، یہ لمحہ فکریہ ہے!
6- آخرت میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہونا ہے، 5 اگر وہ اس حساب میں ہی ناکام ہوگیا ، تو اس کے بارے میں جہنم کے ایندھن بننے کے سوا کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟ لہذا اگر آپ بے نمازی ہیں، اور آپ کو اس عظیم نعمت کے چھن جانے پر کوئی افسوس بھی نہیں ہے اور نہ ہی آپ اسے کوئی فکر والی بات سمجھتے ہیں تو خدارا اس دھوکہ سے باہر نکلیں اور یہ چند باتیں ذہن نشین کرلیجیے کہ:
1- بے نمازی بعض علماء قدامی اور علماء معاصرین کے فتاوی کی روشنی میں کافر ہیں! چاہے آپ کا نام عبداللہ ہو کہ عبدالرحمن ، اس فتویٰ کی روشنی میں آپ مسلمان کہلوانے کا کوئی حق نہیں رکھتے، کیونکہ مسلمان تو بے نمازی نہیں ہوتا اور نہ بے نمازی مسلمان ہوتا ہے!
2- صحت کی نعمت ہونے کے باوجود اگر آپ نماز نہیں پڑھتے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ آپ کی نظر میں اللہ تعالی کے حکم کی کوئی حیثیت نہیں ہے، (معاذاللہ) اگرچہ آپ زبان سے اس بات کا اقرار نہ بھی کرتے ہوں، لیکن آپ کا عمل یہی ثابت کرتا ہے، کیونکہ یہ نمازیں اللہ تعالی نے ہی فرض فرمائی ہیں، اس فریضہ کو چھوڑنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اظہار بغاوت ہے، لہذا اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ آپ بدترین بدمعاش اور باغی ہیں!
3- اگر آپ فارغ اوقات میں کبھی کبھی نماز پڑھ لیتے ہیں یا ہفتے میں ایک دن نماز جمعہ کے لیے مسجد چلے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی مصروفیات کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے حکم یعنی نماز کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں، جان لیں کہ آپ یہ نماز پھر بطور عبادت قطعا نہیں پڑھ رہے! “جب تک سانس ہے، چانس ہے!” زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، اپنی اصلاح کیجیے، قبل اس کے کہ زندگی ختم ہوجائے، اور آپ یوں ہی بے نمازی اس دنیا سے اٹھا دیے جائیں، عقل مند وہی ہے کہ جو اپنی اس مختصر زندگی کو آخرت پر قربان کردے، ماضی میں جو کچھ ہوا، اس پر ندامت کے چند آنسو بہاتے ہوئے صدق دل سے توبہ کریں، توبہ کا دروازہ ہر قسم کے گناہوں کے لیے کھلا ہے، اللہ کی بارگاہ میں سچی توبہ پچھلے تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑائیں اور نماز جیسی عظیم عبادت کی توفیق کا سوال کریں اور عملاً بھی اپنے دعوے کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کریں۔
خبردار! جب آپ توبہ کا ارادہ کریں تو اپنے آپ کو ان دو شیطانی وسوسوں سے دور رکھیں۔
1- “ابھی تو زندگی باقی ہے، ایک بار ہی سچی توبہ کروں گا۔” نہیں، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، اس لیے توبہ میں جلدی کریں، اللہ تعالیٰ کو بھی ایسے بندے پسند ہیں کہ جو بار بار غلطی کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں، یہ بات یاد رکھیں کہ توبہ کرنا بھی مستقل عبادت ہے، لہذا جتنی بار بھی کریں گے، اس پر اجر ہی کے مستحق ٹھہریں گے۔
2- “توبہ کروں گا تو ساری نمازوں کی قضاء دینی پڑے گی، یوں ساری زندگی نمازیں ہی پڑھتا رہ جاؤں گا۔” جبکہ معاملہ ایسا نہیں ہے، جو نمازیں آپ نے قصدا چھوڑی ہیں، ان پر قضاء نہیں بلکہ سچی توبہ ہے، لہذا توبہ کیجیے اور آئندہ نمازیں نہ چھوڑنے کا عزم کیجیے، اور ہمیشہ کے لیے نمازی بن جائیں!
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائے! آمین
- (صحیح مسلم)
- (سورۃ المدثر: آیت 43)
- (سورۃ التوبہ، آیت:11)
- ( سورۃ الماعون آیت: 5-4)
- (سنن نسائي، حدیث: 467)