سیدنا امام مسلم رحمہ اللہ اپنی صحیح میں اللہ کے نبیﷺکی یہ حدیث لائے ہیں کہ :
’’احب البلاد الی اللہ مساجدھا وابغض البلاد الی اللہ اسواقھا‘‘
یعنی: اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین مقام ،مسجدیں ہیں اور مبغوض ترین مقام ،بازار ہیں ۔
حدیث مبارک کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ بازار جانا حرام ہے بلکہ خرید و فروخت کیلئے جایا جا سکتا ہے۔ ہاں !انسان کا دل بازار ہی سے معلق ہو، بغیر کسی مقصد کے محض بازار کی رونق سے لطف اندوز ہونے کیلئے ہر وقت بازار جانے کیلئے مستعد رہتاہو، ایسا رویہ عند اللہ مبغوض ہے۔ مزید تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
بازار کی اہمیت:
اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے:
وَقَالُوا مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِ
الفرقان – 7
یعنی: اور انہوں نے کہا یہ کیسا رسول ہے؟ کہ کھانا کھاتا ہےاور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر تیسیر القرآن ج3 صفحہ 303 میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ اور کسب معاش یا خرید و فروخت کی خاطر وہ بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے ، کھانا پینا یا بازاروں میں چلنا پھرنا ، بزرگی یا نبوت کے منافی نہیں۔‘‘
اسی طرح حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اسی آیت کی وضاحت کرتے ہوئے تفسیر احسن البیان صفحہ 1043 میں رقمطراز ہیں۔
’’یعنی رزق حلال کی فراہمی کیلئےکسب تجارت بھی کرتے تھے، مطلب اس سے یہ ہےکہ یہ چیزیں منصب نبوت کے منافی نہیں جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں وارد بازار میں داخل ہونے کی دعا بھی بازار کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور خرید فروخت کے غرض سے بازار جانے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’لا اله الا اللہ وحدہ لا شریک له له الملک وله الحمد یحیی و یمیت وھوحی لا یموت بیدہ الخیر وھو علی کل شئی قدیر‘‘
بازار کی اہمیت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اس عمل سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ وہ خرید و فروخت کے مقصد کے بغیر محض امورِ دینیہ کی انجام دہی یا امور دینیہ کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرانے کیلئے بازار کا رخ کرتے تھے چناچہ دو مثالیں پیشِ خدمت ہیں :
(1)سیدنا امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح کی ’’کتاب العیدین فضل العمل فی ایام التشریق‘‘ میں لائے ہیں کہ :
’’وكان ابن عمر، وأبو هريرة: «يخرجان إلى السوق في أيام العشر يكبران، ويكبر الناس بتكبيرهما‘‘
یعنی عبد اللہ بن عمر و اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما عشرۃ ذی الحج میں بازار کی جانب نکل کر تکبیرات کہتے اور لوگ بھی ان کی آواز سن کر تکبیرات کہنے لگ جاتے ۔[3]
اسی طرح مؤطا سیدنا امام مالک بن انس رحمہ اللہ میں یہ واقعہ موجود ہے کہ:
أن الطفيل بن أبي بن كعب أخبره أنه كان يأتي عبد الله بن عمر , فيغدو معه إلى السوق، قال: فإذا غدونا إلى السوق، لم يمر عبد الله بن عمر على سقاط، ولا صاحب بيعة، ولا مسكين، ولا أحد إلا سلم عليه، قال الطفيل: فجئت عبد الله بن عمر يوما , فاستتبعني إلى السوق، فقلت له: وما تصنع في السوق؟ وأنت لا تقف على البيع، ولا تسأل عن السلع، ولا تسوم بها، ولا تجلس في مجالس السوق؟ قال: وأقول:اجلس بنا هاهنا نتحدث، قال: فقال عبد الله بن عمر:يا أبا بطن، وكان الطفيل ذا بطن، إنما نغدو من أجل السلام، نسلم على من لقينا.
ترجمہ: تابعی طفیل بن ابی بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے پاس جاتا، وہ مجھے بازار لیکرجاتے اور وہ جس کے پاس سے بھی گزرتے، اُسے سلام کرتے ، ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو حسبِ عادت انہوں نے مجھے بازار چلنے کو کہا، میں نے عرض کی کہ بازار جاکر کیا کرنا ہے ؟ آپ نہ کوئی چیز خریدتے ہیں نہ بھاؤ معلوم کرتے ہیں تو بازار جانے کا کیا فائدہ ؟ ہم گھر بیٹھ کر ہی گفتگو کر لیتے ہیں ، تو انہوں نے فرمایا:’’ہمارا بازار جانا صرف اس لئے ہے کہ ہمیں بازار میں جو بھی ملے ہم اسے سلام کریں گے ۔‘‘[4]
معلوم ہوا خرید و فروخت یا امور دینیہ/ امور خیر کی انجام دہی کیلئے بازار جانا معیوب نہیں ہے۔
عہد رسالت کے بازار
اگر کتبِ احادیث کی ورق گردانی کی جائے اور عہد رسالت کے بازار کے متعلق وارد احادیث کا جائزہ لیا جائے تو بازار میں احکام شرعیہ کے نفاذ کے حیرت انگیز واقعات سے واقفیت ہو جاتی ہے اور آدمی دنگ رہ جاتا ہےکہ اس دور میں بھی نفاذ شریعت کا کس قدر اہتمام تھا۔ چند واقعات ملاحظہ ہوں :
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
کنا فی زمان رسول الله ﷺ نبتاع الطعام فیبعث علینا من یأمرنا بانتقاله من المکان الذی ابتعناہ الی مکان سواہ قبل ان نبیعه
یعنی ایک( خاص قسم کی) بیع کو حکمِ نبوی کے مطابق بنانے کیلئے اللہ کے رسول ﷺم ایک شخص کو (بازار) بھیجتے اور وہ لوگوں کو اس چیز کا حکم دیتا رہتا ۔[5]
جبکہ صحیح مسلم ہی میں یہ حدیث بھی موجود ہے، صحابی فرماتے ہیں کہ:
قدر رأیت الناس فی عھد رسول اللہ ﷺ اذا یبتاعوا طعاما جزافا یضربون
یعنی عہد رسالت ﷺ میں خلافِ حکم نبوی بیع کرنے پر لوگوں کو سزا دی جاتی تھی۔
مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمہ ا للہ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وفی قوله: ’’یضربون‘‘ دلیل علی ان مشروعیة تادیب من یتعاطیٰ العقود الفاسدۃ واقامة الامام علی الناس من یراعی احوالھم فی ذٰلک
یعنی اس حدیث میں موجود یہ لفظ ’’یضربون ‘‘ اس بات پر دلیل ہے کہ جو شخص کسی بیع فاسدہ کا ارتکاب کرے اس کے خلاف تادیبی کاروائی ہونی چاہئے اور امام کو چاہئے کہ وہ ایسے اشخاص کی تقرری کرے جو اس حوالے سے عوام الناس کی نگرانی کریں ۔[6]
عہد رسالت میں تو بعض اوقات خود اللہ کے نبیﷺ بازار نکل جاتے اور تجار کو خصوصی نصائح فرماتے کہ تم سے دوران تجارت کو تاہیاں سرزد ہو جاتی ہیں لہٰذاتم صدقہ کیا کرو تا کہ یہ صدقہ تمہاری ان کوتاہیوں کا کفارہ بن جائے جبکہ سنن اربعہ میں یہ واقعہ بھی موجودہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے نبی ﷺ بازار تشریف لے گئے اور ایک جگہ ایک شخص کے پاس رک گئے ، وہ کوئی چیز ڈھیر کی صورت میں فروخت کر رہا تھا ، اللہ کے نبی ﷺ نے ڈھیر میں اپنا مبارک ہاتھ ڈالا اور باہرکھینچا تو آپ ﷺ کے مبارک ہاتھ پر تری لگ گئی یعنی وہ شخص اس چیز کو اندر سے گیلا اور باہر سے خشک کرکے فروخت کر رہا تھا ، اللہ کے پیغمبر ﷺ نے اسی موقع پر اس شخص کی سخت سرزنش کی۔
عہد رسالت میں بازار کی اس قدر نگرانی، یہی وجہ تھی کہ اس دور میں بازار کا ماحول انتہائی ایماندارانہ بنتا چلا گیا، ایک مثال ملاحظہ ہو :
حبان بن منقذ بن عمرو نامی ایک تاجر کسی غزوہ میں اللہ کے نبیﷺ کے ہمراہ شریک ہوا،دوران قتال اسے سر میں چوٹ آئی جس سے اس کے دماغ اور زبان پر بڑا اثر پڑا ، واپسی پر اللہ کے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی کیفیت بتائی اور تجارت میں خدع کے خدشہ کا اظہار کیا صحیح مسلم میں ہے کہ آپ ﷺم نے اسے ایک اصول سمجھایا کہ تم جب بھی خرید و فروخت کرو تو یہ جملہ کہہ دیا کرو کہ ’’ولا خلابۃ‘‘ یعنی میرے ساتھ دھوکہ نہیں ہونا چاہئے ( اس لئے کہ میں معذور ہوں )
یعنی یہ لفظ بازار میں اس کیلئے دھوکہ و فریب سے حفاظت کی علامت بن گیا ۔
سبحان اللہ ! عہد رسالت کے بازار کا ماحول کس قدر صافی و پاکیزہ تھا ۔
یہ پیارے پیغمبر ﷺ کی تربیت کا اثر تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بازار جاکر باقاعدہ خریدو فروخت کے متعلق وارد ا حادیث پر بازار ہی میںعمل کرتے تھے اور ان احادیث کا تعارف کراتے تھے۔ دو واقعات پیشِ خدمت ہیں ۔
صحیح مسلم میں وارد رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث میں کوئی چیز خرید کرکے وہیں پڑے پڑے اس چیز کو آگے فروخت کرنے سے منع اور اس چیز کو اٹھا کر اس کی جگہ منتقل کرنے کا حکم وارد ہے ، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس حدیث پر کس طرح عمل پیرا ہوتے ؟ان کے شاگردراوی کہتے ہیں :
کان یشتری الطعام جزافا فیحمله الی اھله
یعنی : وہ چیز خریدتے اور خود اس چیز کو اٹھاکر اپنے اہل کی طرف منتقل کرتے۔[7]
شیخ صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے اس طرزِ عمل پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں :
اما ما کان یفعله ابن عمر من نقل الطعام الی اھله فکان من غایة التزامه و تمسکه بلفظ الحدیث
یعنی رہا عبد اللہ بن عمر کا بذاتِ خود طعام (سامان)کو بازار سے اہل کی طرف منتقل کرنا تو یہ ان کی طرف سے الفاظِ حدیث کے ساتھ غایت درجہ کا التزام و تمسک تھا ۔[8]
اسی طرح صحیح مسلم ہی میں ایک اور حدیثِ مبارک ہے جس میں بیع کو پختہ کرنے کیلئے خریدار اور فروخت کرنے والے کو ایک دوسرے سے جدا ہو جانے کی شرط کا ذکر ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بازار میں اس حدیث پر کس طرح عمل کرتے ؟ ملاحظہ ہو :
فکان اذا بایع رجلا فاراد ان لا یقیله قام فمشیٰ ھنیئة ثم رجع الیه
یعنی : عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی سے بیع کر لیتے اور اس بیع کو پختہ کرنے کا ارادہ کرتے اور چاہتے کہ وہ شخص بیع فسخ نہ کرے تو وہاں سے اٹھتے تھوڑا آگے چلے جاتے پھر واپس اس شخص کی طرف لوٹ آتے۔[9]
قارئین کرام ! یہ تھی قرونِ اولیٰ کے بازار کی ایک جھلک کہ وہاں کس قدر احکامِ دینیہ نافذ تھےاور اس دور کے لوگ کس ذوق و شوق سے بازار ہی میں ان احکام پر عمل کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہاں نہ دھوکہ ، فریب کا ڈر تھا نہ لوٹ مار کا خوف ۔ اب آئیے ذراعصر حاضر کے بازار کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجئے۔
عہد حاضر کے بازار
مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ نے منۃ المنعم ج 1 ص422 میں عصر حاضر کے بازار کی بڑی درست و بجا منظر کشی کی ہے۔ ملاحظہ ہو:
لا نھا محل الغش والخداع والدس والغرر والربا والایمان الکاذبة و اخلاف الوعد والجفاء والشر والاعراض عن ذکر اللہ‘
یعنی: بیشک بازارملاوٹ ، دھوکے ، مغالطے ، فریب ، سود، جھوٹی قسموں ، وعدہ کی خلاف ورزی ، سختی و ظلم ، برائی اور اللہ کے ذکر سے اعراض کی جگہ ہے۔
جی ہاں ! عصر حاضر کے بازار میں یہی کچھ بلکہ اس سے بھی زیادہ نافرمانیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے ذرا تفصیل ملاحظہ ہو :
بے پردگی و فحاشی:
عصر حاضر کے بازار کا طرۂ امتیاز ہے کہ بے پردہ خواتین بازار کا رخ کرتی ہیں اور وہاں غیر محرم دوکانداروں سے بڑی نرم ولچھے دار گفتگو کرتی ہیں ، حالانکہ بے پردہ گھر سے نکلنا اور غیر محرم سے نرم لہجہ میں گفتگو ، دونوں شرعاً ممنوع ہیں، ایک حدیث اور ایک آیت ملاحظہ ہو: اللہ کے نبی ﷺم کا فرمان ہے:
وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا
یعنی (اہل جہنم کی دو قسموں میں سے دوسری قسم) ان عورتوں کی ہے جو لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی، وہ (اجنبی مردوں کو اپنی طرف) مائل کرنے والی اور خود (ان کی طرف) مائل ہونے والی ہوں گی ، ان عورتوں کے سر ( کے بال) بختی اونٹوں کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوں گے، وہ عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبوپا سکیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جاسکتی ہے۔[10]
عصر حاضر کے بازار کی رونق ایسی ہی عورتوں سے بحال ہے۔ نعوذباللہ من ذلک
اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے:
فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ
الاحزاب – 32
یعنی:پس نرم لہجہ میں بات مت کرو پس طمع بٹھا لے گا وہ شخص جس کے دل میں مرض ہے۔
یہاں اللہ تبارک تعالیٰ امہات المؤمنین جو کہ پاک اور پاکیزہ ہیں ، کو حکم دے رہا ہےکہ وہ اجنبی مردوں سے نرم لہجہ میں گفتگو نہ کریں جبکہ عصر حاضر کے بازار میں بے پردہ نکلنے والی عورتوں کا شیوہ ہی یہی ہےکہ وہ دوکانداروں سے بڑے ہی نرم وملائم لہجے میں گفتگوکرتی ہیں تا کہ اشیاء کم قیمت میں خریدسکیں ۔ ایک عالم دین خواتین کو خطاب کر رہے تھے ، خطاب میں فرمانے لگے جس طرح تم بازار میں دوکانداروں سے نرم و ملائم لہجہ میں گفتگو کرتی ہو اگر اسی لہجہ میں گھر میں اپنے خاوند سے گفتگو کر لیا کرو تو کا فی حد تک گھر کا ماحول خوشگوار ہوجائے ۔
گانا بجانا،مزمارو موسیقی یا شرکیہ قوالی ، نعتیںو نظمیں
عصر حاضر کے بازار کی ایک خرابی یہ بھی ہے ،تقریباً ہر دوکان سے فحش و بے ہودہ مکالموں پر مبنی گانوں کی آواز آرہی ہوتی ہےیا شرکیہ اور بد عقیدگی پر مبنی نعتوں و نظموں کی آواز ۔دونوں ہی آوازیں معاشرے کے بگاڑ کا اولین سبب ہیں ۔ یہی موسیقی ہے جو دل میں اس طرح نفاق اُگاتی ہے جس طرح پانی فصل اُگاتا ہے، اسی موسیقی کی وجہ سے روز محشرموسیقی سننے والوں کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا ۔اور شرکیہ قوالی و نعتیں و نظمیں عقیدہ کے بگاڑ کا باعث ہیں ۔
فحاشی کے اڈے اور عاملوں (جادوگروں ) کے آستانے :
ہمارے ملک میں ایسے بازاروں کا وجود بھی ہے جہاں فحاشی کے اڈے اور جادوگروں کے آستانے موجود ہیں حالانکہ شرعاً یہ ایسے جرائم ہیں جن پر کوڑوں ، رجم اور قتل کی سزائیں مقرر ہیں اور احادیث میں ایسی کمائی سے قطعی طور پر منع کیا گیا ہے اور اسے حرام قرار دیا گیا ہے ۔ صحیح مسلم میں اللہ کے نبی ﷺم کی حدیث ہے :
ان رسول اللہ ﷺ نھی عن ثمن الکلب و مھر البغی و حلوان الکاھن
یعنی : ’’رسول ﷺم نے کتے کی قیمت ، زانیہ کی کمائی اور کاہن (عامل) کی مٹھائی (نذرانہ ) سے منع فرمایا ۔‘‘
صحیح مسلم میں ایک اور حدیث موجو د ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
شر الکسب مھر البغی
زانیہ کی خرچی بد ترین (حرام ) کمائی ہے۔
شراب خانے:
ہمارے ملک میں بازاروں میں شراب خانے بھی قائم ہیں ، جہاں باقاعدہ شراب کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ مسلم نوجوان بھی شراب کے خریداربن کر اس کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتے ہیں ، حالانکہ شرعاً جہاں شراب پینا حرام ہے وہاں شراب کی بیع بھی حرام ہے ۔جب سورۃ مائدۃ کی آیات
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ
المائدة – 90/91
نازل ہوئیں ، جس میں شراب کو نجس ، عملِ شیطان۔ دشمنی و بغض کا بیج، ذکر اللہ و نماز سے روکنےوالا قرار دیکر اس سے اجتناب کرنے اور رک جانے کا حکم دیا گیا ہے، تواللہ کے نبی ﷺم نے ارشاد فرمایا :
ان اللہ تعالیٰ حرم الخمر فمن ادرکته ھٰذہ الآیة و عندہ منھا شیٔ فلا یشرب ولایبع
یعنی : بے شک اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام قرار دے دیا ہے لہذا جسے یہ آیت معلوم ہو جائے اور اس کے پاس شراب میں سے کچھ موجود ہو تو وہ نہ توپیئے اور نہ ہی فروخت کرے۔[11]
اسی طرح صحیح مسلم کی ایک اور حدیث ہے، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں :
ان رجلااھدی لرسول اللہ ﷺم راویة خمر فقال له رسول اللہ ﷺ: ھل علمت ان اللہ تعالیٰ قد حرمھا، قال: لا، فسار انسانا فقال له رسول اللہ ﷺ بم ساررته، فقال امرته ببیعھا، فقال: ان الذی حرم شربھا، حرم بیعھا‘
یعنی: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مشکیزہ شراب تحفتاً لایا، آپﷺ نے اسے فرمایا :کیا تیرے علم میں نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے حرام قرار دے دیا ہے، وہ کہنے لگا: جی نہیں میرے علم میں تو نہیں، پھراس شخص نے ایک آدمی کے کان میں کوئی سرگوشی کی، رسول اللہﷺ کے استفسار پر اس نے بتایا کہ میں نے اس کے کان میں، شراب کو فروخت دینے کا کہا ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ذات جس نے شراب پینا حرام قرار دیا ہے اسی نے شراب فروخت کرنا بھی حرام قرار دیا ہے۔‘‘
کفار کی مذہبی اشیاء کی خرید و فروخت:
ہمارے ملک کے بازاروں کے مسلم دوکاندار اپنی دوکان میں فروخت کیلئے یہود و نصاریٰ اور ہندو کے مذہبی تہواروں یا اہل بدعت کے ایام خوشی و غمی میں استعمال ہونے والی ایسی اشیاء بھی رکھتے ہیں جن کی پوجا پاٹ ہوتی ہے یا جن اشیاء کے ذریعے اس غیر شرعی خوشی و غمی کا اظہار ہوتا ہے، حالانکہ ان تمام اشیاء کی خرید و فروخت ممنوع و حرام ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان موجود ہے کہ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
انه سمع رسول اللہ ﷺ یقول عام الفتح وھوبمکه ان اللہ و رسوله حرم بیع الخمر والمیتته والخنزیر والاصنام
یعنی :’’ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فتح مکہ والے سال مکہ میں فرما رہے تھے کہ بیشک اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے شراب ، مردار، خنزیر اور بتوں کی خرید و فروخت حرام قرار دے دی ہے ۔‘‘
مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فاشتمل الحدیث علی تحریم ثلاثة اجناس: مشارب تفسد العقول و مطاعم تفسد الطباع، وتغذی غذا خبیثا و أعیان تفسد الأدیان وتدعو الی الفتنة والشرک
کہ یہ حدیث تین قسموں کی اشیاء کی تحریم پر مشتمل ہے: پینے کی اشیاء جو عقل کو فاسد کردیتی ہیں اور کھانے کی اشیاء جو طبیعتوں کو فاسد کر دیتی ہیں اور جسم کو غذاء خبیث (حرام و ناپاک) فراہم کرتی ہیں اور ایسی چیزیں جودین کو فاسد کر دیتی ہیں اور فتنہ وشرک کی دعوت دیتی ہیں ۔[12]
معلوم ہوا ایسی چیزیں جو دین میں بگاڑ کا باعث بن سکتی ہوں یا فتنہ و شرک کی طرف دعوت دینے کا باعث ہوں اور کفار کے مختلف تہواروں کے تعارف کا سبب بنتی ہوں ، فروخت کی غرض سے دوکان پر رکھنا حرام ہے، لیکن اس چیز کا ارتکاب عصر حاضر کے بازار میں خوب ہوتا ہے ۔ تجار کی نگاہ سیزن سے بھرپور فائدہ اٹھانے پر ہوتی ہے ،مفاسد پر نہیں ۔
سودی لین دین
عصر حاضر کےبازار میں خوب ہوتا ہے ، یہ لین دین کرنے والے نتائج کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ ہم اس سودی لین دین کی وجہ سے ملعون ٹھہریں گے اور ہماری دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی ، نہیں ، ان کی نظر محض ظاہری سہولت و آسانی پر ہوتی ہے جو اس سودی لین دین سے مل رہی ہوتی ہے ۔ حالانکہ اللہ کے نبی ﷺ نے کتنے اشخاص پر اس سود کی وجہ سے لعنت کی ہے،صحیح مسلم کی حدیث ملاحظہ ہو :
لعن رسول اللہﷺ آکل الرباو موکله و کاتبه وشاھدیه وقال ھم سواء
یعنی : رسول اللہ ﷺ نے سود لینے ، دینے والے ، کاتب اور دونوں گواہوں پر لعنت کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ (سب حرام کا ارتکاب کرنے میں ) برابر ہیں ۔
جھوٹ یا جھوٹی قسموں کے ذریعہ کاروبار
عصر حاضر کے بازار میں یہ رویہ بھی معمول کی چیز ہے فروخت کنندہ ہو یا خریدار ، دونوں اس عادتِ بد میں خوب مبتلا ہیں، حالانکہ یہ عادت نفع تو درکنار، خسارہ اور خوب بے برکتی کا باعث بنتی ہے۔
جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺم کا ارشاد ہے :
فان صدقا وبیّنا بورک لھما فی بیعھما وان کذبا و کتما محقت برکة بیعھما
اگر خریدنے والا اور فروخت کرنے والا دونوں سچ بولیں اور اپنی قیمت اور اشیاء کے عیب کو بیان کر دیں تو یہ چیزان کیلئے باعثِ برکت ہے اور اگر کذب بیانی اور کتمان سے کام لیں گے تو یہ چیز ان کی بیع کی برکت کو مٹا دے گی ۔[13]
اسی طرح بیع میں قسمیں اٹھانے کے بارے میں اللہ کے نبی ﷺ کی ایک حدیث ہے :
الحلف منفعة للسلعة ممحقة للربح
یعنی : قسم اٹھانے سے سامان تو فروخت ہو جاتا ہے البتہ نفع (برکت)ختم ہو جاتی ہے ۔[14]
اسی حوالہ سے ایک اور حدیث ہے :
ایاکم و کثرۃ الحلف فی البیع فیانه ینفق ثم یمحق
یعنی ـ : بیع میں زیادہ قسمیں اٹھانے سے بچو اس لئے کہ یہ عادت سامان تو فروخت کرا دیتی ہے لیکن برکت کو ختم کر دیتی ہے ۔[15]
ناپ تول میں کمی
عصرِ حاضر کے بازار میں اس کبیرہ گناہ کا بھی خوب ارتکاب کیا جاتا ہے۔ اس حوالہ سے چند نصوص ملاحظہ:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ
الرحمٰن – 9
یعنی انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کم نہ دو۔
ایک اور مقام پر یوں فرمایا:
أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ ﴿١٨١﴾ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ﴿١٨٢﴾ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
الشعراء – 181/183
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ ﴿١﴾ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ﴿٢﴾ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ
المطففین – 1/3
یعنی ہلاکت ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے کہ جب لوگوں سے ناپ کرلیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ا نہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ ’’جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم مسلط کردیا جاتا ہے۔ ‘‘[16]
قارئین کرام ! یہ اور ان جیسی کئی اور بیوع، جن میں دھوکہ ہے ، فریب ہے ، بے ایمانی ہے، حرام کا ارتکاب ہے۔ عصر حاضر کے بازار میں ،ان کا چلن عام ہے اور بازار بھی وہ جہاں بے پردگی ہے ، فحاشی و بے ہودگی ہے۔ گانے نغمے اور موسیقی ہے، دین و شریعت کے ساتھ استہزاء کو فروغ دینے والے مقامات ہیں، ایسی اشیاء کی خرید و فروخت ہے جو یہود و نصاریٰ ، ہندو اور دیگر کفار کے تہواروں اور ان کے باطل عقائد و نظریات کے تعارف و پہچان اور شہرت کا باعث ہیں ۔
اگر ہم اپنی دولت ، عزت ، شہرت ، تجارت، دنیا و آخرت پُر امن اور باحفاظت بنانا چاہتے ہیں تو اپنے بازاروں کو شرعی خطوط کے تحت چلانا ہوگا اور قرونِ اولیٰ کے بازاروں کا سانظام ، اپنے بازاروں میں رائج کرنا ہوگا۔ ورنہ ہر قسم کے نقصان ، خسارہ اور گھاٹہ سے بچنادشوار ہوگا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔
[2] جامع الترمذی 5/291 ، حاکم 538۔ امام البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
[3] بخاری، کتاب العیدین، باب فضل العمل فی ایام التشریق
[4] مؤطا امام مالک، باب جامع السلام، ج2، ص961، تحقیق فواد عبد الباقی
[5] صحیح مسلم
[6] منۃ المنعم ج3 ص14
[7] مسلم، کتاب البیوع
[8] منۃ المنعم ج3 ص 14′
[9] صحیح مسلم : کتاب البیوع
[10] صحیح مسلم: کتاب اللباس و الزینۃ، باب النساء الکاسیات العاریات المائلات الممیلات
[11] صحیح مسلم، کتاب البیوع
[12] منۃ المنعم ج3 ص 53
[13] صحیح مسلم ۔ کتاب البیوع
[14] صحیح مسلم ۔ کتاب البیوع
[15] صحیح مسلم ۔ کتاب البیوع
[16] ابن ماجہ ح 4019 ذکرہ الالبانی فی الصحیحۃ