پہلا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، اسی نے اپنے مخلص بندوں کو نعمتِ اخلاص اور برکت سے نوازا ہے۔ میں صدقہ خیرات کو فضیلت عطا کرنے پر اللہ کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں، اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اللہ تعالی نے مشرکوں اور کافروں کا ٹھکانا آگ بنایا، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے جادوگروں کا پردہ چاک فرمایا۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور فضائل مہارت رکھنے والے صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہو؛ کیونکہ ہمہ قسم کی بھلائی تقوی کے زیر سایہ ہے، تقوی خوشحالی کی اساس ہے، ہمارے لیے جنت کا راستہ تقوی کے تقاضے پورے کرنے پر کھلتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران – 102
اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔
اللہ تعالی نے اس دھرتی کو لوگوں کے لیے زندگی گزارنے کی جگہ بنایا ، اس میں برکتیں ڈالیں اور اسے مال و دولت سے بھر دیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا
فصلت – 10
اللہ نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے، زمین میں برکت ڈالی اور اس کا صحیح تخمینہ لگایا۔
اللہ تعالی نے انبیائے کرام کو اپنی چنیدہ شخصیات بنایا ، پھر ان کی زندگی اور کارکردگی دونوں میں برکت بھی ڈال دی، جیسے کہ اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
يَانُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ
ھود – 48
اے نوح! اتر جا ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تجھ پر اور تمہارے ہمراہ امتوں پر نازل ہوئی ہیں۔
ایسے ہی اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ
مریم – 31
اور میں جہاں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت بنایا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی برکت بھی ثابت شدہ ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی آنکھوں سے اس برکت کا مشاہدہ کیا تھا۔
قرآن کریم میں بھی برکت ہے، جو کہ قرآن کریم پر عمل کر کے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر حاصل ہوتی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
الانعام – 155
برکت اضافے اور خوشحالی کا نام ہے؛ جب کسی تھوڑی سی چیز میں برکت ہو تو اسے زیادہ کر دیتی ہے، اگر برکت کسی جگہ ہو تو وہاں برکت کے اثرات واضح اور عیاں نظر آتے ہیں، جس چیز میں برکت ہو تو بہت سے لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مال و دولت، وقت، علم، اولاد، علم، کارکردگی اور اعضا ہر چیز میں برکت کے اثرات رونما ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالی نے بیت اللہ اور مدینہ طیبہ کو بابرکت بنایا، مسجد اقصی اور اس کے آس پاس والے علاقے کو مبارک بنایا، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ
آل عمران – 96
بیشک سب سے پہلا گھر جو مکہ میں ہے وہ لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ بابرکت اور جہان والوں کے لیے ہدایت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
اَللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِيْنَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ
یا اللہ! مکہ میں جتنی برکت فرمائی ہے اس سے دگنی برکت مدینہ میں فرما۔
اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا
الاسراء – 1
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصی کی سیر کروا ئی اس کے ارد گرد ہم نے برکت فرمائی، تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔
اللہ تعالی نے نبی ﷺ کی امت کو بابرکت بنایا تو یہ امت تمام امتوں سے آگے نکل گئی، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (درختوں میں ایک ایسا درخت بھی ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے ، اس کے اوصاف مسلمان جیسے ہیں، مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟) راوی کہتے ہیں کہ لوگ جنگلوں اور صحراؤں کے درختوں میں تلاش کرنے لگے، تو صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ آپ ہی بتلائیے وہ کون سا درخت ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ کھجور کا درخت ہے) بخاری
مسلمان برکت کی جستجو میں رہتا ہے تا کہ وہ جہاں بھی ہو اس کے جسم، اولاد، زندگی اور آس پاس کی ہر چیز میں برکت ہو جائے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب موسمی پھل لایا جاتا تو آپ فرماتے:
اَللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْ مَدِيْنَتِنَا، اَللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْ صَاعِنَا، اَللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْ مُدِّنَا، اَللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْ مَدِيْنَتِنَا، اَللَّهُمَّ اجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ.
یا اللہ! ہمارے مدینے میں برکت فرما، یا اللہ! ہمارے صاع میں برکت فرما، یا اللہ! ہمارے مد میں برکت فرما، یا اللہ! ہمارے مدینے میں برکت فرما، یا اللہ! ہر برکت کے ساتھ دہری برکت فرما دے۔صحیح مسلم
مومن اپنے گھر کے لیے بھی برکت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کیلیے مومن گھر میں اللہ کا ذکر کرنے کی پابندی کرتا ہے اور گھر میں سورت البقرہ کی تلاوت کا اہتمام کرتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہو اور گھر میں داخل ہوتے وقت، کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر بھی کرے، تو شیطان [اپنے چیلوں سے ]کہتا ہے: تمہارے لیے یہاں نہ رات کے کھانے کا انتظام ہے نہ رات گزارنے کا) مسلم
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (سورت بقرہ کی تلاوت کیا کرو؛ کیونکہ سورت بقرہ کی تلاوت برکت ہے، اسے چھوڑنا باعث حسرت ہے، اور باطل لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے) مسلم، باطل لوگوں سے مراد جادو گر ہیں۔
استغفار کی پابندی سے بھی برکت حاصل ہوتی ہے، جیسے کہ سیدنا نوح علیہ السلام کی دعا اللہ تعالی نے بتلاتے ہوئےفرمایا:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا
نوح – 10/12
تو میں [نوح علیہ السلام]نے کہا: تم اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو، بیشک وہی بخشنے والا ہے (10) وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا (12)وہ دولت اور نرینہ اولاد کے ذریعے تمہاری امداد فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات بنا کر تمہارے لیے نہریں بہا دے گا۔
مومن شخص نماز فجر با جماعت ادا کر کے بھی برکت تلاش کرتا ہے؛ کیونکہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے، صبح کے وقت میں برکت رکھ دی گئی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (اَللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِيْ فِيْ بُكُوْرِهَا، [یا اللہ! میری امت کیلیے صبح کے وقت میں برکت فرما دے])، اسی لیے جس وقت رسول اللہ ﷺ کسی لشکر یا سریہ کو روانہ فرماتے تو انہیں اول وقت میں روانہ کرتے تھے، نیز صخر بن وداعہ غامدی رضی اللہ عنہ تاجر تھے وہ اپنی تجارت کے قافلے صبح کے وقت بھیجتے تھے تو ان کی دولت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔ ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا، نیز ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
برکت کی دعا سے بھلائی اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں، چنانچہ عقیل بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : “انہوں نے بنو جشم کی ایک لڑکی سے شادی کی تو لوگوں نے انہیں دعا دیتے ہوئے کہا: “خوشحال رہو اور نرینہ اولاد پاؤ” یہ سن کر عقیل رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسے مت کہو، تو لوگوں نے کہا: ابو زید! تو پھر کیا کہیں؟، اس پر انہوں نے کہا: تم کہو: (بَارَكَ اللهُ لَكُمْ وَبَارَكَ عَلَيْكُمْ، [اللہ تعالی تمہارے لیے اس شادی میں برکت فرمائے، اور تم پر برکت نازل فرمائے[یعنی بابرکت اولاد سے نوازے] ہمیں [شادی کے موقع پر ]ایسی دعا دینے کا حکم دیا جاتا تھا)” مسند احمد، اس کی سند صحیح ہے۔
پابندی کے ساتھ ایک دوسرے کو سلام کرنے سے بھی برکت ملتی ہے، سلام کرنا اس بابرکت امت کا خاصہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً
النور – 61
پس جب تم گھروں میں داخل ہو جاؤ تو اپنے آپ پر سلام کہو، یہ اللہ تعالی کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔
تجارت میں اگر سچ بولیں اور ہر چیز واضح کریں تو اس سے برکت پیدا ہوتی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (دو خرید و فروخت کرنے والے جب تک جدا نہ ہوں اس وقت تک با اختیار ہیں -یا آپ ﷺ نے فرمایا: یہاں تک کہ وہ جدا ہو جائیں- چنانچہ اگر وہ سچ بولیں اور [عیوب] واضح کر دیں تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور اگر جھوٹ بولیں اور [عیوب] چھپائیں تو ان کی بیع سے برکت مٹا دی جاتی ہے) بخاری، مسلم
صلہ رحمی سے بھی عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور رزق میں برکت ہوتی ہے، چنانچہ بخاری اور مسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جس شخص کو اچھا لگتا ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ کر دیا جائے اور اس کی زندگی لمبی کر دی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے)۔
باہمی الفت اور اتحاد حصول برکت کا باعث ہیں، رسول اللہ ﷺ اسی لیے ہر حال میں اپنے صحابہ کرام کو باہمی اتحاد سے رہنے اور اختلافات سے بچنے کی تلقین کرتے تھے، چنانچہ ایک بار نبی ﷺ سے صحابہ کرام نے شکایت کی: “ہم کھانا تو کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تم کھانا کھاتے ہوئے اکٹھے بیٹھتے ہو یا الگ الگ؟) انہوں نے کہا: “ہم الگ الگ بیٹھتے ہیں ” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تم کھانا کھاتے ہوئے اکٹھے ہوجاؤ اور اللہ کا نام لو، اللہ تعالی تمہارے لیے برکت فرما دے گا) ابن حبان نے اسے روایت کیا ہے۔
مسلم معاشرے کے کمزور افراد کی مدد در حقیقت متلاشیاں برکت کے لیے وسیع میدان ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (تمہارے کمزور افراد کی وجہ سے ہی تمہاری مدد کی جاتی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے) بخاری
ایک روایت میں ہے کہ : (مجھے تم کمزور لوگوں میں تلاش کرو، بیشک تمہیں کمزور لوگوں کی وجہ سے روزی دی جاتی ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے) ترمذی نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
جب مسلمان کی زندگی میں برکت آ جائے تو اللہ تعالی اسے پختہ عقل عطا فرما دیتا ہے، اسے سمجھ بھی دیتا ہے، اس کا دل علم اور ایمان سے منور ہوتا ہے، جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: “ایک بار نبی ﷺ قضائے حاجت کیلیے گئے تو میں نے آپ کے وضو کا پانی رکھ دیا، آپ ﷺ واپس آئے تو پوچھا: (یہ وضو کیلیے پانی کس نے رکھا ہے؟) تو آپ کو میرا بتلا دیا گیا، اس پر نبی ﷺ نے دعا فرمائی:
اَللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ
یا اللہ! اسے دین کا فقیہ بنا دے۔ صیح البخاری
اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی دعا کو قبول فرمایا اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما دین کے فقیہ بن گئے۔ تو پھر کسی نے اپنا عینی مشاہدہ ذکر کرتے ہوئے کہا: “میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا آپ سے ہزاروں طلبۂ حدیث علم حاصل کر رہے تھے”۔
مسلمان کی زندگی میں برکت کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ اسے بہت زیادہ کام کرنے اور کامیابیاں حاصل کرنے توفیق ملتی ہے، تھوڑے سے وقت میں اتنا زیادہ کام کر دکھاتا ہے کہ اس کے ساتھی اس سے پیچھے رہ جاتے ہیں، یہ خاص نوعیت کی برکت انسان کیلیے اطاعت گزاری اور مثبت عملی اقدامات کے لیے ممد اور معاون ثابت ہوتی ہے۔
لمبی زندگی کے ساتھ زبانی اور بدنی نیکیاں بھی ہو تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے کامیاب لوگوں کو عطا کردہ برکت ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (برکت تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے) صحیح ابن حبان
مسلمان کی زندگی میں برکت کی صورت یہ بھی ہے کہ انسان کو نیک، ماں بننے والی اور محبت کرنے والی بیوی مل جائے، اور نیک صالح اولاد عطا ہو، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (عورت سے شادی چار چیزوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے: عورت کے مال، حسب نسب، خوبصورتی اور دین ۔تم دین دار کو اپنا لو وہ تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی) بخاری، مسلم۔ دیندار بیوی گھرکی برکت میں اضافہ کر دیتی ہے؛ کیونکہ در حقیقت مٹی [جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے یہ ]اضافے اور افزائش کی علامت ہے۔
اگر اللہ تعالی اپنے بندے پر مال کے دریا بہا دے پھر اسے نیکی اور رفاہی کاموں میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دے تو یہ واضح برکت اور اللہ تعالی کی طرف سے احسان ہے۔
اللہ کی ناراضی کا باعث بننے والے کاموں میں دولت اڑا کر اللہ تعالی کا حق ادا نہ کیا جائے تو اس سے برکت مٹ جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
البقرۃ – 276
اللہ تعالی سود مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ کسی بھی گناہ گار کافر سے محبت نہیں کرتا۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اس کی حکمت بھرئی نصیحتوں سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
لا تعداد اور بے پناہ حمد و ثنا اللہ کے لیے ہے، اللہ پاک ہے وہ اپنے کسی ولی کو رسوا نہیں فرماتا، اور اللہ سے دشمنی روا رکھنے والا کبھی معزز نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے علاوہ ہمارا کوئی رب نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور چنیدہ رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، تمام صحابہ کرام اور آپ کے پیروکاروں پر روزِ قیامت تک رحمتیں نازل فرمائے ۔
حمد و صلاۃ کے بعد: میں تمام سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں۔
تمام مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے ملکوں ، سماج اور اقوام میں برکت تلاش کریں، برکت کے اسباب اور ذرائع پیدا کریں، اس کے لیے سب سے مؤثر ترین ذریعہ یہ ہے کہ اللہ کی دھرتی پر اللہ کا نظام رائج ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
الاعراف – 96
اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کی کارستانیوں کی وجہ سے پکڑ لیا۔
کوئی بھی عقل مند اس بات کا انکار نہیں کرتا کہ منہجِ الہی سے اعراض برکت ختم ہونے کا سبب ہے، اس طرح خیر و بھلائی ختم ہوتی ہے، اللہ تعالی نے ہمارے لیے قوم سبا کا واقعہ بتلایا جنہیں عطا کردہ نعمتوں اور برکتوں کو جڑ سے نیست و نابود کر دیا گیا تھا، فرمانِ باری تعالی ہے:
لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتَانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمَالٍ كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ (15) فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ
سبأ – 15/16
قوم سبا کیلیے ان کے علاقے میں نشانی ہے، دو باغات دائیں اور بائیں [ان کے لیے تھے] تم اپنے پروردگار کا عطا کردہ رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، یہ [تمہاری رہائش کیلیے]پاکیزہ شہر ہے اور پروردگار بخشنے والا ہے۔ تو انہوں نے اعراض کیا ، پھر ہم نے ان پر بہت بڑا سیلاب بھیج دیا ، اور ہم نے ان کے دونوں باغوں کو ایسے دو باغوں سے بدل دیا جو بد مزہ پھلوں، جھاؤ اور معمولی سی بیریوں پر مشتمل تھے۔
رسولِ ہُدیٰ پر درود پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الأحزاب – 56
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجو۔
اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، نیز اپنے رحم ، کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، نیز اپنے رحم ، کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! کافروں کے ساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! تیرے اور دین دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔ یا رب العالمین!
یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعاء!
یا اللہ! پوری دنیا میں کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کی مدد، نصرت اور حمایت فرما، یا اللہ! کمزور مسلمان بھوکے ہیں ان کے کھانے پینے کا بندوبست فرما، ننگے پاؤں ہیں انہیں جوتے فراہم کر، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے، ان کا بدلہ چکا دے، یا رب العالمین! یا قوی! یا متین!
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی بھلائی مانگتے ہیں چاہے کوئی جلدی ملنے والی یا دیر سے، یا اللہ ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی برائی سے پناہ مانگتے ہیں چاہے چاہتے وہ جلد آنے والی ہے یا دیر سے ۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!
یا اللہ1 ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ فرما، یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ فرما، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف نہ ہو، یا اللہ! ہماری رہنمائی فرمائی اور ہمارے لیے راہ ہدایت پر چلنا بھی آسان فرما، یا اللہ! ہم پر زیادتی کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ! ہمیں تیرا ذکر، شکر، تیرے لیے مر مٹنے والا، تیری طرف رجوع کرنے والا اور انابت کرنے والا بنا۔
یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہماری کوتاہیاں معاف فرما، ہماری حجت کو ٹھوس بنا، اور ہمارے سینوں کے میل کچیل نکال باہر فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے شروع سے لیکر آخر تک، ابتدا سے انتہا تک ، اول تا آخر ہر قسم کی جامع بھلائی مانگتے ہیں، نیز تجھ سے جنتوں میں بلند درجات کے سوالی ہیں۔
یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال، تیری طرف سے ملنے والی عافیت کے خاتمے، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہمہ قسم کی ناراضی سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم پر اپنی برکتوں، رحمتوں ، فضل اور رزق کے دروازے کھول دے۔ یا رب العالمین!
یا اللہ! ہماری زندگی ، کارکردگی میں برکت فرما، ہماری بیویوں ،اولاد اور دولت میں برکت فرما، یا اللہ! ہم جہاں بھی ہوں ہمیں برکت سے نہال رکھنا، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے خاتمہ بالخیر اور ماضی میں ہونے والے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان پر رحم فرما، تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، اور ہمارے معاملات سنوار دے، یا رب العالمین! یا اللہ!ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کی تیری رضا اور رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کے ولی عہد کو ہر خیر کے کام کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! تمام مسلمان حکمرانوں کو کتاب و سنت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
الأعراف – 23
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
الحشر – 10
اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
البقرة – 201
ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو ۔
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔
ترجمہ: شفقت الرحمن مغل