عصر حاضر کے جدید مسائل میں سے اقتصادی معاملات کی اہمیت کا انکار کسی ذی عقل کیلئے ممکن نہیں اور اقتصادی معاملات میں ایک اہم ترین معاملہ بینکوں کی طرف سے جاری کردہ ’’ضمانت‘‘ کا [1]ہے جس کی حیثیت قانونی، معاشرتی اوربھروسہ کی ہوتی ہے ۔اس نوعیت کی ضمانت کا شرعی جائزہ اس امر کا متقاضی ہے کہ اس ضمانت کامکمل تصوراور مفہوم جاننا بہت ضروری ہے جو اس امر کی وضاحت پر مبنی ہو کہ اس قسم کی ضمانت کی ممکنہ مشتملات وجزئیات کیا ہو سکتی ہیں؟ اس ضمانت کو کن اصولوں کے مطابق جاری کیا جاتا ہے ؟ اس کی میعاد کتنی ہو سکتی ہے ؟ اور کیا اس کی تجدید ممکن ہے؟ اور سب سے اہم ترین امر یہ کہ احکامِ شریعت کی رو سے اس کے مکمل خدوخال کیا ہو سکتے ہیں۔
موضوع کی مناسبت سے بحث کو دو ابواب میں بیان کیا جا رہا ہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے :
پہلا باب درجِ ذیل نکات پر مشتمل ہے :
٭ بینک گارنٹی کی تعریف٭ مستفید کی نوعیت ٭ گارنٹی کا مقصد
٭گارنٹی اجراء کا طریقہ کار٭گارنٹی کی انواع واقسام
دوسرا باب :بنک گارنٹی کی شرعی حیثیت
پہلا مبحث : بینک گارنٹی [2]بینک گارنٹی لیٹر کی حقیقت
گارنٹی لیٹر ایک ایسا قطعی وعدہ ہےجو محدود وقت کے لیے ناقابل واپسی ہے اور جو بینک کی جانب سے اس وقت جاری کیا جاتا ہے جب کوئی کاروباری فریق دوسرے فریق کے ساتھ مالی یا لین دین کے معاملات طے کرتے وقت ضمانت طلب کرتا ہے۔ یہ ضمانت کسی ٹینڈر کے حوالے سے ہو یا کسی منصوبہ کے آغاز کے حوالے سےاس میں دونوں شامل ہیں اور اس کا اصل مقصد مستفید کے لیے معاہدہ کی پابندی کروانا ہے تاکہ اگر کلائنٹ یعنی فریق اول طے شدہ معاہدہ کی پابندی کرنے میں کوتاہی سے کام لے یا منصوبہ کی تکمیل کے حوالے سے قوانین کی پابندی نہ کرے تو ایسی کیفیت میں بینک فریق اول سے اس معاہدہ کی پابندی کرواتا ہے ۔
بینک گارنٹی کے ارکان
(1) بینک: جس کی حیثیت ضامن کی ہے ۔ اور ضامن وہ ہوتا ہے جو کسی غیر کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لے ۔
(2) کلائنٹ: وہ فریق جس کی ضمانت دی جا ئے ۔
(3) مستفید: وہ فریق جس کو ضمانت دی جائے ۔
(4) مالیت ضمانت : وہ مالیت جس کی ضمانت دی جا رہی ہو۔
بینک گارنٹی کی اصطلاح عمومی طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے یہ چار عناصر ہی مرادہوتے ہیں ۔
کلائنٹ : جس کی ضمانت دی جا ئے ۔
عمومی طور پر کلائنٹ کوئی کمپنی بھی ہو سکتی ہے اورایسا ادارہ بھی جس کی قانونی حیثیت فاؤنڈیشن کی حیثیت سے ہولیکن اس کے معاملات طے کرنے کے لیے کسی منیجرکا ہونا ضروری ہے ۔ جسے منیجنگ ڈائریکٹربھی کہا جا سکتا ہے ۔
مستفید
عمومی طور پر کوئی قابلِ اعتبار شخصیت ہوتی ہے جیسا کہ گورنمنٹ انٹرسٹ ہو فاؤنڈیشن یا کوئی معروف کمپنی ہوشخصی اعتبار سے کوئی فرد شاذونادر ہی ہوتا ہے ۔
اہداف و مقاصد
درحقیقت بینک ضمانت اُس فریق کے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے جس نے اسے طلب کیا ہوتا ہے خواہ اس کی حیثیت حکومتی ہو یا کمپنی کی ہو،چونکہ اس کا مقصد منصوبوں پرعمل درآمد کو یقینی بنانا یا خرید کردہ اشیاء کی کوالٹی ، ورائٹی ،ڈیلیوری ٹائمنگ ، کیلئے انشورنس کرانا ہوتا ہے ۔لہٰذا اس میں مستفید کیلئے اس ضمانت کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کسی بھی نوعیت کی کمی ، کوتاہی اور ناکامی کی ذمہ داری کلائنٹ یعنی فریق اول پر ہو گی جس کے بارے میں ضمانت دی جا رہی ہے۔ اس عمل میں بینک بھی اس وقت تک کسی قسم کی ضمانت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا جب تک اسے مکمل تسلی نہ ہوجائے کہ جس کی وہ ضمانت دے رہا ہے وہ مکمل طور پر مالی اور معنوی حیثیت سے اس معاہدے کی پاسداری کااہل ہے ۔لہٰذا بینک گارنٹی کے معاہدے میں ایک اضافی ضمانت بھی فراہم ہوجاتی ہے کہ منصوبوں اور ٹینڈرز میں صرف اور صرف وہی شخص شرکت کرسکتا ہے جو یہ اہلیت رکھتا ہو کہ وہ اپنے ذمہ لئے گئے تمام معاہدات کو پورا کرنے پر قادر ہے ۔
بینک ضمانت جاری کرنے کا طریقہ کار
عمومی طور پربینک ضمانت اس وقت جاری کی جاتی ہے جب کوئی فریق اسے بینک سے طلب کرتا ہے اور وہ فریق اپنی اس طلب میں ضمانت کی رقم اور اس کی مدت کا تعین کرتا ہے اور اس امر کا بھی ذکر کرتا ہے کہ یہ کس مد میں لی جار رہی ہے۔
ضمانت جاری کرنے والے بینک کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ ضمانت دیتے وقت وہ کلائنٹ کے بارے میں مکمل طور پر مطمئن ہو کہ وہ واقعتاً مالی اور معنوی طور پرحسب ضرورت عند الطلب اس کی ادائیگی کرسکتا ہو بلکہ بوقت ضرورت اس کی مدت صلاحیت میں توسیع بھی کر سکتا ہو۔اور جب ضمانت کی رقم بڑی ہو تو اس صورت میں بینک عموما کچھ تامینات یعنی ضمانت کے طور پر کلائنٹ سے چند مالیت والیچیزیں بطور گروی طلب کرتا ہے جیسا کہ کوئی رجسٹرڈ رئیل اسٹیٹ یا مختلف کمپنیوں میں حصص کے پیپرز بینک میں جمع کرائے ، کہ اگر بینک سے کفالت کی رقم طلب کی جائے تو وہ باآسانی گروی شدہ چیزوں کو نقد میں تبدیل کروا سکے۔ یہ چیزیں گروی رکھوانے کے ساتھ گروی رکھنے والے کلائنٹ سے اس معاہدے پر دستخط لئے جاتے ہیں کہ بوقت ضرورت وہ ان چیزوں سے دست بردارہوجائے یا پھر وہ اس پر راضی نہیں تو کسی اورمعروف بینک کی کفالت جمع کرائے۔
بینک گارنٹی میں عمومی طور پر بینک کلائنٹ سے ضمانت کی 25% فیصدنقد رقم بطور انشورنس اپنے پاس جمع کرتا ہے۔ بسا اوقات منصوبے کی نوعیت اور کلائنٹ کی مالی ومعنوی پوزیشن دیکھتے ہوئےاس رقم میں کمی و بیشی بھی ممکن ہوتی ہے ۔لہٰذا ان تمام ضروری مراحل کے بعد بینک گارنٹی لیٹر کا اجراء کر دیتا ہے ۔
بینک ضمانت کی اقسام
اول : ابتدائی ضمانت(bid bond):یہ ضمانت کسی پروجیکٹ یا ٹینڈر کی بولی میں شرکت کیلئے دی جاتی ہے ۔ اور اس کی مالیت ٹینڈرز کی طے شدہ مالیت کا ایک فیصدیا اس سے کچھ زیادہ ہوتی ہے ، یہ ضمانت ایک مخصوص مدت کیلئے ہوتی ہے عمومی طور پر اس کی مدت تین ماہ ہوتی ہے۔
یہ بینکنگ معاہدہ کلائنٹ دوسرے فریق کو پیش کرتا ہے جس میں کوئی ذمہ دار حیثیت اس پر ضامن ہوتی ہے ۔ تاکہ فریق اول کیلئے ٹینڈرز کی بولی میں شریک ہونا ممکن ہوسکے ۔ لہٰذا ابتدائی ضمانت کی حیثیت ایک طرح سے ابتدائی گروی کی ہے جو اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ کلائنٹ اس ٹینڈر میں شرکت کا اہل ہے ۔ اور اس لیٹر کو کالعدم کرنا کسی طرح جائز نہیں ہوتا الاکہ قانونی طور پر مستفید اس کا مطالبہ کرے۔
دوم : نہائی ضمانت(performance bond ) : بنک ضمانت کی اس قسم کا تعلق طے شدہ معاہدہ کی عملی تطبیق سے ہے اور اس امر سے بھی کہ دوران معاہدہ منصوبہ یا ٹینڈرز کی کسی بھی طے شدہ شق کی مخالفت نہ ہونے پائے۔اور اس کی مالیت ہمیشہ منصوبہ یا ٹینڈرز کے 5 %فیصد کے برابر ہوتی ہے اور اس کی مدت ایک سال کی ہوتی ہے جس میں اضافہ بھی ممکن ہوتا ہے۔لہٰذا مقررہ شرائط وصفات میں اگر کلائنٹ کی جانب سے کمی پائی گئی تو مستفید مذکورہ ضمانت کی رقم سے اس کی تلافی کرے گا ۔ لہٰذا اس کی حیثیت بوقت ضرورت گارنٹی کی ہے ۔ اور یہ کسی بھی صورت میں ختم یا منسوخ نہیں کی جا سکتی سوائے یہ کہ مستفید یعنی دوسرا فریق اس کا مطالبہ کرے۔
سوم : منصوبے اور ٹینڈر کے اخراجات کے لئے ایک فل مارجن (FULL MARGIN)پر ضمانت لیٹر حاصل کرنا۔
یعنی کلائنٹ بینک کو بطور ایڈوانس موجودہ منصوبہ کی مد میں اتنی مالیت کی ضمانت دیتا ہے جو دوسرے فریق یعنی مستفید کے مالی حقوق کے تحفظ کی خاطر ہو اور اس کا مقصد بھی ضمانت کی سابقہ قسم کی طرح ہی ہے۔
چہارم : ضمانت کالیٹر ( Shipping Guarante ) بینک گارنٹی کی مذکورہ تین اقسام کے علاوہ ایک چوتھی قسم بھی ہے جو بینک شپنگ کمپنیوں یا اسٹیمرز ایجنسیز (Steamers agencies ) کے حوالے سے وضع کرتا ہے۔ اس کا اجراء بینک اس وقت کرتا ہے جب درآمد کیا گیا سامان تو معینہ بندرگاہ تک پہنچ جاتا ہے لیکن دستاویزات وقت پر نہیں پہنچ پاتیں جن کا تعلق درآمد شدہ سامان کی مالیت اور قیمت سے ہوتا ہے ۔بسا اوقات اس میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ یہ سامان اگر اسی طرح بندرگاہ پر کچھ عرصہ پڑا رہا تو خراب یا ضائع ہوجائے گا۔ لہٰذا مذکورہ بالا ضمانت میں بینک یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ مال سے متعلق تمام دستاویزات فورا اسٹمیرز کے ایجنٹس کے حوالے کردے گا ۔ بینک کی ا سضمانت کی بنیاد پر درآمد کرنے والا (شپنگ کمپنی سے ) اپنا سامان وصول کرلیتا ہے۔
اس ضمانت کے اجراء کیلئے امپورٹر بینک کو درخواست دیتا ہے اور اس کے ساتھ اس درآمدی ضمانت (Import L/C) کی تمام قیمت بھی ادا کردیتا ہے جو کہ درآمد شدہ سامان کی قیمت کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کےبعد بینک کلائنٹ کے نام گارنٹی جاری کرد یتا ہے ۔ اور کلائنٹ جاری کردہ ضمانتی خط کو جہاز راں کمپنیوں کے مخصوص ایجنٹوں کے حوالے کردیتا ہے ۔
گارنٹی لیٹر کے اجراء سے بینک کو حاصل ہونے والا فائدہ
یہ وعدہ یا معاہدہ جس کی بناء پر بینک نے کلائنٹ کی ذمہ داری کو اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ کلائنٹ کی طرف سے مستفید کو گارنٹی لیٹر معاہدہ اور اس کی شرائط کی رو سے لاگو ہونے والی رقم کی ادائیگی کرے گا اس تمام عمل کے پیچھے بینک کو حاصل ہونے والا مالی فائدہ کارفرما ہوتا ہے۔ یعنی بینک تمام معاملات میں ثالث اور ضامن بننے کیلئے کمیشن وصول کرتا ہے جس کی نسبت عموما 2% یا حسب اتفاق کم زیادہ ہوتی لہٰذا اس ذمہ داری اور سروس کی ادائیگی پر بینک 2 فیصد کمیشن کا حقدارٹھہرتا ہے۔
یہاں پہلا باب اختتام پذیر ہوا جس میں بینکوں کی جانب سے جاری ہونے والےان گارنٹی خطوط کا ایک مکمل تصور اور اس کے خدووخال اور طریقہ اجراء کو واضح کیا گیا جو بینک اپنے کلائنٹ کو مستفیدین کیلئے جاری کرتے ہیں ۔
باب دوم : بینک ضمانت خط کی حیثیت شریعت اسلامیہ کی رو سے
شریعت کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ضمانت کا جواز موجود ہے جس کی صورت فقہاء نے ان الفاظ میں بیان کی ہے :
’’ ضم ذمة الضامن إلى ذمة المضمون في التزام الحقوق المستحقة ‘‘
واجب الادا حقوق میں ادائیگی کے لئے ضامن کا ذمہ مضمون ( جس کیلئے ضمانت دی جارہی ہے ) کے ذمہ سے منسلک کرنا ۔
یعنی کسی کا قرض کسی دوسرے پر لازم کرنا ۔
فقہاء نے اسے عقد ارفاق واحسان میں شامل کیا ہے ، نیز اس کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ لوگوں کے حقوق کو ضیاع سے بچایا جا سکے ، اور حقوق کی ادائیگی زیادہ مأمون ومحفوظ ہوجائے ۔
سابق الذکر بحث میں جو کچھ بیان ہوا اس کا خلاصہ درجِ ذیل دو اہم فقروں میں محصور ہے :
بینک گارنٹی کی اقسام
اس سروس کی فراہمی پر بینک کی طرف سے حاصل کیا جانے والاکمیشن
جہاں تک سابقہ بیان کردہ چار اقسام کا تعلق ہے تو بظاہر ان میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی گئی جو نصوصِ شرعیہ کے خلاف ہو اور اس کی حدود سے تجاوز کرتی ہو اور اس کی شروط کی موجودگی بھی اس امرکے جواز کی متقاضی ہے۔ بینک ضامن ہوتا ہےاور اس کی اہلیت ایسی ہے کہ اس کا تبرع جائز ہے کیونکہ اس میں ضامن کی رضامندی شامل ہے اور حق بھی معلوم ہے اور اس کی مدت بھی معلوم ہے یعنی مجہول نہیں ہے ۔
البتہ پہلی قسم ( ابتدائی ضمانت ) میں ایک چیز ہے جو قابل توجہہے اور وہ یہ کہ اس کا تعلق اس ضمانت سے ہے جو بعد میں واجب ہوگی اور جو ضمانت ابھی واجب نہیں ہوئی اس کا شمار معلق وعدہ کا ہوگا ۔کیونکہ شرعی رو سے ضمانت ایک ایسا معاہدہ ہے جو ایک واجب شدہ چیز کی ادائیگی کا ذمہ لینے کا نام ہے لہٰذا اس رو سے اسے معلق نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ دوسرے معاہدات میں اس کی گنجائش موجود ہوتی ہے ۔ لہٰذا اس کی صورت تو یہ ہوگی کہ ضامن نے ایسی چیز کی ضمانت لی ہے جو ابھی تک مضمون عنہ ( یعنی جس کی ضمانت دی جا رہی ہے ) اس کے ذمہ بھی ابھی واجب نہیں ہوئی ۔ لیکن اہل علم اس کے جواز کے قائل ہیں جن میں تینوں امام یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا مذہب یہی ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ اپنے قدیم مذہب میں جبکہ امام شافعی کے جدید قول میں سابقہ رائے سے اختلاف پایا جاتا ہے ۔
اس معاملے میں جمہور اہل علم کی رائے اصول شریعت سے زیادہ موافق اور قریب تر ہے کہ شرعی اصول کے موجب معاملات اپنی اصل میں حلت پر قائم ہیں تا وقتیکہ ان میں کوئی ایسامانع نہ پیدا ہوجائے جیسا کہ دھوکہ ابہام وغیرہ وغیرہ ۔ اور اس چیز کی ضمانت اپنے ذمہ لینا جو ابھی واجب نہیں ہوئی اس میں کسی قسم کی غرر دھوکہ ابہام نہیں پایا جاتا لہٰذا اس کا حکم عموم پر باقی رہے گا اور وہ ہے جواز کا [5] ۔ واللہ اعلم ۔
یہی وجہ ہے کہ حنابلہ نے ضمانت کی تعریف یوں کی ہے :’’ضمانت ایک ایسی دستاویز کا نام ہے جس میں مخصوص پابندی جوغیر پر لازم ہوچکی یا مستقبل میں ہوگی کو اپنے ذمہ لینا ساتھ اس کے کہ وہ پابندی اصل فرد پر بہر صورت قائم رہے گی ۔ یا انسان کا کسی کام یا عمل کے بارے میں ذمہ داری اٹھانا جو حال میں یا مستقبل میں اس پر لازم ہوگی۔‘‘ [6]
ضمانت پر معاوضہ لینا
ضمانت پر اجرت( کرایہ ) کا لینا نہ کہ رائلٹی لیناکیونکہ رائلٹی کا مفہوم یہ ہے کہ : ’’کوئی بھی صاحب تصرف کوئی معینہ چیز مقرر کردے کہ جو شخص ایک معلوم یا مجہول کام کسی معلوم یا مجہول مدت میں انجام دےگا تو اسے وہ چیز دی جائے گی ، جعالہ میں کام اور مدت کے تعین کی شرط نہیں ہوتی اور نہ ہی بوقت ضرورت کسی عامل کا تعین کیا جانا ضروری ہوتا ہے ۔
اس طرح سے اجارہ اور جعالہ( رائلٹی ) میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہ کہ اجارہ کی ابتداءا ًعقد لازم کی حیثیت ہے ۔ جبکہ جعالہ ( رائلٹی ) عقد لازم نہیں بلکہ عقدِ جائز ہے طرفین اس کو کسی وقت بھی منسوخ کرسکتے ہیں ۔
الغرض رائلٹی کامفہوم کرایہ کے مفہوم سے کہیں زیادہ وسیع ہے کیونکہ رائلٹی کے بارے میں آپ نے جیسا کہ سابقہ سطور میں جان لیا ہے کہ اس میں کسی بھی کام کے معلوم ہونے کی شرط نہیں پائی جاتی اور نہ ہی مدت کا تعین ہوتا ہے اور جس امر کا تعین ہی نہ ہو تو اس کاوسیع ہونا بالکل ممکن ہے اور اس کے بالمقابل کرایہ ایک طے شدہ منافع کا نام ہے یا پھر دونوں فریقوں کے مابین طے پائی جانے والی کیفیت کا نام ہے جو دونوں فریقوں میں سے کسی بھی فریق کو اسے منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔
اسی وجہ سے جمہور اہل علم اس امر کے قائل ہیں کہ ضمانت فراہم کرنے پر کوئی معاوضہ نہ لیا جائےجیسا کہ مختلف کتب فقہ میں اس کی تصریح موجود ہے ۔ جیسے مجمع الضمانات علی مذهب الإمام أبی حنيفة للبغدادی ص 282، اور الشرح الکبير للدردير مع حاشية الدسوفي 3/ 404 ، اور الشرح الصغير 3/ 242 ، اور الفروع لإبن مفلح الحنبلی 4/ 207 ، اور کشاف القناع / 262۔
نیز دیگر کتب میں بھی صراحتاً منع اور عدم جواز کا ذکر ہے ۔ ضمانت پر معاوضہ نہ لینے کے حوالے سے مندرجہ ذیل دلائل اور توجیہات پیش کی جاتی ہیں:
(1) یہ ایسا قرض ہے جو نفع لانے کا موجب بنتا ہے ، اور اس کہ وجہ یہ ہے کہ جب ضامن اپنے کلائنٹ کی طرف سے دوسرے فریق کو ادائیگی کرتا ہے تو اس پر اگر کمیشن لے گا تو یہ معاوضہ اس ادائیگی کے بدلے میں ہوگا جو کہ کلائنٹ پر بطور قرض واجب الادا تھی ۔ اور ضمانت کے خط کی بعض کیفیات میں تو یہ صورت میں مضبوط نظر آجاتی ہے کہ یہ قرض پر ہی نفع حاصل کیا جا رہا ہے کیونکہ مستفید براہ راست کلائنٹ سے رابطہ نہیں کرتا کہ وہ ادائیگی کرے بلکہ بینک سے ہی طلب کرتا ہے۔ گویا بینک اپنی طرف سے کلائنٹ کا قرضہ ادا کر رہا ہے اور اس قرضے پر معاوضہ وصول کر رہا ہے ۔
(2) یہ معاہدہ اور عقد احسان اورنرمی ووسعت پر مبنی ہے لہٰذا اس پر معاوضہ لینا مقاصدِ شریعت کےسراسر خلاف ہے ۔ (3) گارنٹی کی بعض صورتوں میں مستفید کلائنٹ سے براہ راست وصولی کرتا ہے ۔ لہٰذا ایسی صورت میں اگر ضامن ( یعنی بینک ) اپنا کمیشن لے گا تو گویا اس نے ناحق لیا کیونکہ ادائیگی تو کلائنٹ نے خود اپنی طرف سے کی ہے ۔ پھر ضامن کس چیز کا معاوضہ لے رہا ہے ؟ اور یہ معاوضہ لینا سراسر باطل ہے ۔ کیفیات میں بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کے لیے ضمانت دی جا رہی ہو وہ خود جس کی ضمانت دی جا رہی ہو اس سے طلب کرتا ہےپس اس کیفیت میں توضامن کا اس عمل پر کوئی معاوضہ لینا قطعی صحیح نہیں اور یہ باطل ہے ۔اور یہ طرز عمل لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کے مترادف ہے ۔
اور ابتدائی ضمانت اور دستاویزاتی ضمانت خط میں تو مستفید براہ راست کلائنٹ سے مطالبہ کرتا ہے نہ کہ بینک سے ۔
تنبیہات : یہاں دو باتیں انتہائی قابل توجہ ہیں
اول: فقہی قواعد میں ایک قاعدہ ہے کہ اجرت اور ضمانت بیک وقت جمع نہیں ہو سکتیں۔ اور یہ قاعدہ اس ضمانت سے متعلق نہیں جوکہ زیرِ بحث ہے ۔بلکہ اس ضمانت سے مراد ( ضمان المتلفات یعنی تلف ہونے والی چیزوں کی ضمانت) ہے۔
دوم: فقہی قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے کہ :’’ہر وہ کام جس کا کرنا جائز ہو اس پر معاوضہ لینا جائزنہیں ہوجاتا‘‘۔ بلکہ اس میں کچھ کام تو ایسے ہیں جن پر معاوضہ لینا جائز ہوتا ہے جیسا کہ بھاگے ہوئے غلام کو واپس لانے کے لئےکوئی معاوضہ اور رائلٹی مقرر کرنا ۔ اور کچھ پر معاوضہ لینا جائز نہیں جیسا کہ ضمانت پر یا جائز کھیل کھود پر معاوضہ لینا ، ، وغیرہ وغیرہ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب مجموع الفتاوی ( 30/ 215-216)میں بیان کیا ہے ۔
خلاصہ بحث
اول: کلائنٹ کی جانب سے ضمانت کے لیٹر کے مارجن کے حوالے سے تین صورتیں ہیں:
(1) ضمانت کا وہ لیٹر جو زیرو مارجن (Zero Margin) ہو : اس صورت پر وہی حکم لاگو ہوگا جس کا جمہور اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ ضمانت پر معاوضہ لینا جائز نہیں ۔ لہٰذا اس صورت پر یہی حکم لگے گا ۔
(2) ضمانت کا وہ خط جوکلائنٹ کی جانب سے فل مارجن( full Margin) پر حاصل کیا گیا ہو:
اس صورت کے بارے میں واللہ اعلم، ضمانت پر معاوضہ لینے کی ممانعت کا حکم نہیں لگے گا ۔ کیونکہ یہ معاوضہ کام کی مکمل کاروائی انجام دینے پر خدمات وسروسز کا معاوضہ ہے ۔تو اس صورت میں اگر تو بینک مستفید کو ادائیگی کرتا ہے تو وہ کلائنٹ کے پیسے سے ہی کر رہا ہے ۔ جس پر معاوضہ لیتا ہے اور اگر وہ ادا نہیں کر تا تو وہ کلائنٹ سے اس کے مال کی حفاظت کرنے اور اسے سروسز مہیا کرنے پر کمیشن حاصل کرتا ہے ۔ ( جس میں بظاہر قباحت نہیں )۔
(3) ضمانت کا وہ لیٹر جو فیصد مارجن پر حاصل کیا گیا ہو۔
اس صورت پر سابقہ دونوں صورتوں کے احکامات لاگو ہوں گے ۔ اس حصے پر معاوضہ جائز ہوگا جس کی ادائیگی ہوچکی ہے۔ اور اس حصہ پر نہیں ہوگا جس ک ادائیگی نہیں کی گئی۔ واللہ اعلم ۔
یہ بحث میں شیخ عمر بن عبد العزیز المترک کی رائے پر ختم کرتا ہوں جو انہوں نے اپنی کتاب
الربا و المعاملات المصرفية
میں بیان کی ہے جیسا کہ وہ فرماتے ہیں:
’’ کہ جو کچھ مجھے صحیح محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ضمانت سے قبل ضمانت کی مکمل رقم مستفید کو ادا کر دی جائے یا پھر وہ فل مارجن پر ہو تو اس پر رائلٹی لینے میں کوئی حرج نہیں ۔کیونکہ اس حالت میں وہ کمیشن جو بنک حاصل کرتا ہے وہ مہیا کردہ خدمات کے مقابل ہوتا ہے جیسا کہ وہ چیک کے ذریعے تبادلے کے حوالے سے کمیشن لیتا ہے کیونکہ یہ کیفیت نہ تو قرض ہے اور نہ ہی قرض جیسی ہے۔کیونکہ بینک اپنے مال میں سے کچھ نہیں ادا کرتا بلکہ وہ تو اس مال میں سے ادا کرتا ہے جو کہ کلائنٹ کی رقم کی صورت میں اس کے پاس موجود ہوتا ہے ۔
اور اگر ضمانت کا خط زیرو مارجن پرہے تو اس کیفیت میں رائلٹی لینا جائز نہیں سمجھتا کیونکہ یہ ضمانت قرض کی صورت میں ہو سکتی ہے اور یہ صورت قرض پر نفع حاصل کرنے کی ہوجائے گی جو سود ہے اور سود کسی طرح بھی جائز نہیں ہوسکتا ۔اور سود ایسی رذیل برائی ہے کہ ضروری ٹہرتا ہے کہ اس کے جراستے روکے جائیں ، اور اس کے سامنے بند باندھا جائے ۔
لہٰذا میرے خیال میں ضمانت کے طلب گار پر لازم ہے کہ ضمانت فراہم کرنےوالے کے پاس اتنی مالیت کی رقم رکھوا دے جس سے ادائیگی ممکن ہوسکے ۔ اور یہ کاروائی ان اصولوں سے بالکل متفق ہے جوکہ بعض بینک لازم قرار دیتے ہیں کہ کلائنٹ ضمانت کے خط کے مساوی رقم جمع کرائے ۔اور اسی کیفیت کو فل مارجن کا نام دیا گیا ہے ۔ تو کلائنٹ کی جانب سے بینک میں رکھوائی گئی یہ رقم بینک کے پاس بطور رھن تصور کی جائے گی ۔ تاکہ بوقت ضرورت بینک اس رقم سے مستفید کو ادائیگی کر سکے ۔[7]
اس کاروائی میں بیش بہا فوائد ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے :
(1) ان افراد کا راستہ روکنا جو ٹینڈرز اور منصوبوں میں شامل ہونے کے بعد خود کے ذمہ عائد معاہدات کی پاسداری کرنے کی اہلیت اور استطاعت نہیں رکھتے ۔ یعنی یہ شرط لاگو کرنے سے ٹینڈرز اور بولیوں میں وہی شخص دلچسپی لے گا اور شریک ہوگا جو اس کی تنفیذ کی بھی اہلیت رکھتا ہو ۔
(2) ایسا طریقہ کار اختیار کرنے سے کاموں کا دائرہ پھیلانے کی لا لچ اور حرص کے سامنے بھی بند باندھنا ممکن ہوگا ۔ کہ انسان کسی ایسے کام میں ہاتھ ہی نہ ڈالے جس کو وہ کر نہیں سکتا ۔ اور اگر انسان ایسے کام میں داخل ہوا جو وہ کر نہیں سکتا تو وہ اس صورت میں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا ، اور اس کی معیشت اور مالی حیثیت پر بہت برے اور منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ کیونکہ بولی دینے والا کبھی کبھار بولی کیلئے بینک کی ضمانت تو جمع کرادیتا ہے لیکن وہ ضمانت اتنی بھاری رقم کی ہوتی ہے کہ اس کی استطاعت سے باہر ہوتی ہے اور نتیجتاً وہ ایسے سودی چنگل میں پھنس جاتا ہے کہ جس کا مطالبہ بینک اس سے کرتے ہیں اور اس کی پاسداری اس پر لازم بھی ہوتی ہے ۔أ ھ ( واللہ اعلم )
[1] بینک ضمانت اور گارنٹی سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی بھی شخص کسی دوسرے ملک سے کوئی چیز درآمد کرنا چاہتا ہے تو اس دوسرے ملک کا تاجر یہ ضمانت چاہتا ہے کہ اگر اس نے مطلوبہ سامان بھیج دیا توکیا اس کی قیمت اسے ادا کی جائے گی یا نہیں ؟ اس لئے وہ اس بات کا اطمینان چاہتا ہے کہ سامان کی ترسیل کے بعد اسے یقینی طور پر قیمت وصول ہو جائے گی ۔ اس اطمینان دلانے کی صورت بینگ گارنٹی ہے کہ درآمد کنندہ برآمد کنندہ کو اعتماد دلانے کیلئے بینک سے ایک ضمانت نامہ حاصل کرتا ہے جس میں بینک بیچنے والے کو یہ ضمانت دیتا ہے کہ اس کی قیمت کا ذمہ دار میں ہوں ۔ ( البیان )
[2] درج بالا مبحث کی تیاری کے حوالے سے سعودی عرب مانیٹری ایجنسی کے تعارفی نوٹ سے رجوع کیا گیا ہے ، جوکہ اس نے سعودی وزارت عدل کو مؤرخہ 28/ 03 / 1404 ھ ارسال کیا تھا ۔ نیز اس کے ساتھ کتاب المصارف مصنف غریب جمال ، اور البنک اللاربوي فی الاسلام مصنف محمد باقر الصدر ، اور الربا والمعاملات المصرفية مصنف شیخ عمر المترک رحمہ اللہ سے بھی مدد لی گئی ہے۔
[3] دیکھئے : فتح القدير 5/402، حاشية ابن عابدين 5/ 301 ، الشرح الكبير مع الدسوقي 3/ 333 ، اور قوانين ابن جزي ، ص : 353 ، روضة الطالبين للنووي 4/244 ، اور الغاية القصوى للبيضاوي 4/ 592 ، كشف المخدرات للبعلي ص 252 ، بداية المجتهد 2 / 298.
[4] شرح منتهى الإرادات 2/ 108، 110
[5] نوٹ : بینک گارنٹی کی بعض صورتوں میں اہل علم کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے البتہ مندرجہ بالا مسئلہ کی جملہ صورتوں کا جائزہ لینے کے بعد جو رائے قریب تر صواب ہے اسے درجِ ذیل نکات میں بیان کیا جاتا ہے ۔
a تمام فقہاء کے نزدیک ضمانت کی اجرت جائز نہیں ۔لہٰذا اس بنا پر بینک گارنٹی کی مروجہ صورت صحیح قرار نہیں پاتی ۔
کیونکہ : گارنٹی ایک رضاکارانہ عمل ہےجو بغیر معاوضہ کے انجام دیا جاتا ہے ۔ جبکہ صارف کی طرف سے جو رقم یا کوئی قیمتی چیز بطور گروی رکھوائی جاتی ہے وہ بینک کے پاس بطور قرض ہوتی ہے اور جب قرض پر اجرت کا مطالبہ صحیح نہیں تو اس کی ضمانت پر بھی صحیح نہیں ہو سکتا ۔ سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی نے اس کے ناجائز ہونے کی وجہ کی نشاندہی فرمائی کہ ’’ بطور کور ( غطاء ) جمع کرائی گئی رقم بینک کے پاس رہن کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ضامن ( بینک ) کا اس سے فائدہ حاصل کرنا حرام ہے ۔( أبحاث هيئة کبار العلماء ج 5 ، ص 283 )