بیت اللہ ! اتحاد امت کی علامت

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جس نے ہمیں ہدایت دی، اور کعبہ کو مسلمانوں کے لئے قبلہ بنایا، تمام نعمتوں، بھلائیوں اور فضل و کرم پر میں اسی کی حمد بیان کرتا ہوں، اور شکر بجا لاتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے، ہم اس کی الوہیت اور ربوبیت کا بلا شک و شبہ اقرار کرتے ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، انہوں نے ہمیں روزِ روشن کی طرح واضح دین پر چھوڑا ،اللہ تعالی ہماری نبی ﷺ پر ، ان کی  آل پر اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے دین کا ہر قسم کے غلط پراپیگنڈوں سے دفاع کیا۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں ، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے، اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔

کعبہ شریف مسلمانوں کا قبلہ ہے،جو کہ دور دراز کے علاقوں سے رخت سفر باندھنے کے لئے سب سے پہلا گھر ہے، اسے ابراہیم علیہ السلام نے حکم الہی کی تعمیل کرتے ہوئے تعمیر کیا، جس کا تذکرہ اللہ تعالی نے یوں فرمایا:

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ

البقرة – 127

اور جس وقت ابراہیم ، اور اسماعیل علیہما السلام بیت اللہ کی بنیادیں کھڑی کر رہے تھے۔

تو اللہ کی جانب گڑگڑا کر اور کامل خشوع و خضوع کیساتھ اس عمل کے لئے قبولیت کی دعا فرمائی :

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

البقرة – 127

ہمارے رب! ہماری کاوش قبول فرما، بیشک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔

ابراہیم علیہ السلام کی کیفیت پر غور کیجیئے؛ ایک نبی کعبہ بناتے ہوئے بھی اللہ تعالی سے عاجزی کیساتھ قبولیت کے لئے دعا فرماتا ہے، اس لئے ہمارے سارے نیک اعمال بارگاہِ الہی میں قبولیت کے لئے حضور قلبی، اور دعائے خالص کے محتاج ہیں۔

جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ

المائدة – 97

اللہ تعالی نے کعبہ کوحرمت والا گھر، اور لوگوں کے لئے قیام کی جگہ بنایا ہے۔

کعبہ مسلمانوں کے لئے ہر حالت و عبادت کا قبلہ ہے، رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے: ’’بیت الحرام زندگی و موت ہر حالت میں تمہارا قبلہ ہے‘‘۔

مقدس سرزمین کی چاہت ہر مسلمان کے دل کی تمنا ہے، محبت سے تمام لوگ بلد الامین کی طرف کھچتے چلے آتے ہیں، کسی کا اس شہر سے دل نہیں بھرتا، آکر چلے جاتے ہیں، اور پھر دوبارہ آنے کے لئے تیار رہتے ہیں، ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی:

فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ

ابراهیم – 37
[اے اللہ!] لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکنے والا بنا دے۔

کعبہ عبادت کرنے اور بار بار آنے کی جگہ ہے؛ جو شخص گناہ کا مرتکب ہوجائے، یا کسی لغزش کا شکار ہوجائے تو وہ بیت اللہ کا طواف کرے، اور قبلہ رخ ہوکر نماز ادا کرے یا حج کرے تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے، اس کے راستے کو درست کر دیا جائے گااور اپنے گناہوں سے صاف ہوکر ایسے واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے گناہوں سے پاک جنم دیا تھا۔

ابر اہیم علیہ السلام نے اُسی وقت امن وامان کے لئے دعا مانگی، اور امن کے بغیر زندگی میں خوشحالی ممکن نہیں ہے، امان نہ ہو تو ایک گھونٹ پانی نیچے نہیں اترتا، خوف کے پھیلنے سے دنیا میں فساداور زندگی میں کساد آجاتا ہے، اور لوگوں میں دہشت و گھبراہٹ سرائیت کر جاتی ہے، فرمان الہی ہے:

فَلْيَعْبُدُوارَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ

قریش – 3/4

اس گھر کے رب کی عبادات کرو، جس نے انہیں بھوک میں کھلایا، اور خوف سے امن بخشا۔

کعبہ اخوت کے لئے سنگم، اور سلامتی کا سرچشمہ ہے، فرمانِ الہی ہے:

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ

العنكبوت – 67

کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والا بنایا، حالانکہ ان کے آس پاس سے لوگ اُچک لئے جاتے ہیں!۔

اتحاد امت کعبہ کے اردگرد طواف کرتے ہوئے عیاں ہوتا ہے، تمام لوگوں کے الفاظ، افعال، اور جذبات عبادات کے لئے متحد نظر آتے ہیں، کہ بیت اللہ کے ارد گرد سب کے دل یکجا ہونے کے بعد بدن بھی قریب ہوجاتے ہیں، حالانکہ سب کی شہریت مختلف، زبانیں الگ، رنگ جدا جدا؛ اس کے باوجود سب ایک ہی قبلہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، تا کہ ان کی بات میں یکسانیت، دلوں میں پاکیزگی، صفوں میں اتحاد، اور آپس میں اتفاق نظر آئے، یہ منظر آپ کے ذہن میں اتحاد و یکجہتی کا مفہوم نقش کر دے گا، اور ایک ایسی قوم کی حقیقت آشکار کر دےگا جو متذبذب آراء، متضاد افکار، اور بے راہ روی کا شکار ہے، رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے: (میرے بعد کافر مت ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو) بہت ہی امید ہے کہ کعبہ سے لپٹ جانے والے بابرکت مجمعے کے افراد فرقہ واریت، تنازعات، اور اختلافات کو مسترد کردیں۔

صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (میرے رب نے فرمایا: اے محمد! میں جب فیصلہ کردوں تو اسے رد نہیں کیا جاسکتا ، اور میں نے آپ کو آپ کی امت کے بارے میں یہ عنائت کردی ہے کہ میں اُنہیں یکبار قحط سالی سے ہلاک نہیں کروں گا، نہ ہی ان پر ان کی گردنوں کو حلال جاننے والا بیرونی دشمن مسلط کروں گا ، چاہے ان کے خلاف سب اتحادی جمع ہوجائیں، یہاں تک کہ وہ خود ہی ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے، اور قیدی بنائیں گے)۔

چنانچہ یہ امت بیرونی دشمنوں کے غلبے سے اس وقت تک محفوظ رہے گی جب تک اس میں اتحاد ہوگا، یہاں تک کہ خانہ جنگی میں مبتلا ہوکر ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے گی، پھر بیرونی دشمن ان پر مسلط ہو کر اس کی حرمت پامال کردے گا۔

تاریخ بتلاتی ہے کہ جب بھی امت صراط مستقیم سے روگرداں ہوئی تو آپس میں ایک دوسرے کو قتل اورظلم کا نشانہ بنانے لگے، اور امت داخلی قتل و غارت میں جکڑ گئی؛ تو امت کا رعب جاتا رہا، دشمن اس پر غالب ہوگیا، امت کی بنیادیں کھوکھلی ہوگئیں، اور ذلت، پستی، اور برے نتائج کا اسے سامنا کرنا پڑا، فرمانِ الہی ہے:

وَأَطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ

الانفال – 46

اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، آپس میں تنازعات مت ڈالو، وگرنہ تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی۔

اسلامی بھائیوں!

کعبہ زمین کا مرکز ہے، اللہ نے فرمایا:

لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا

الشوریٰ – 7

تا کہ آپ ام القری [مکہ] والوں اور اس کے اردگرد رہنے والوں کو ڈرائیں۔

چنانچہ روئے زمین پر تمام لوگ کعبہ کے ارد گرد ہیں، تا کہ امت اس محکم مرکز کو اپنی زندگی کے لئے محور بنائیں، اسی جگہ سے یہ سیکھیں کہ ان کا منہج مضبوط ہے، ان کے اصول و ضوابط ٹھوس ہیں، ان کا سر چشمہ خالص ہے، اور ان کے اہداف بھی واضح ہیں، یہ تمام مفاہیم پوری امت ہر روز اپنے ذہن میں تازہ کرے، بلکہ ہر نماز کے وقت جب بھی بیت اللہ رخ ہونے لگیں تو یہ مفاہیم اپنے ذہن میں بٹھائیں ۔

کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہےیہ نظریہ اس امت کے لئے غلبہ ، عزت، اور بلند ہمتی کا باعث ہے؛ کیونکہ اس امت میں قیادت و سیادت کی صلاحیت ہے، اس امت کے اپنے نظریات، اصول و ضوابط، اور منہج ہے، لیکن جس وقت اس کے تشخص میں مذکورہ اشیاء کا فقدان ہوگا تو یہ غلام بن کر زندگی گزارتی ہے؛ آقا بن کر نہیں، اس کی راہنمائی لوگ کرتے ہیں، یہ لوگوں کی راہنمائی نہیں کرتی۔

کعبہ اللہ کی طرف سے بابرکت جگہ ہے، فرمانِ الہی ہے:

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ

آل عمران – 96

بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مکہ شہر میں بنایا گیا وہ بابرکت، اور جہان والوں کے لئے باعث ہدایت ہے۔

اس کی برکت ہی کی وجہ سے اللہ نے فرمایا:

يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا

القصص – 57

اسی مکہ کی جانب ہر قسم کے پھل کھینچ کر لائے جاتے ہیں، جو ہماری طرف سے عنایت کردہ رزق ہے۔

اس کی برکت ہی کی وجہ سے یہاں ہمیشہ عبادت ہوتی ہے، نیکیوں کی مقدار بڑھ جاتی ہے، بھلائی بڑھتی جاتی ہے، اور گناہ دھلتے چلے جاتے ہیں، اللہ تعالی نے فرمایا:

وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ

الحج – 29

انہیں بیت عتیق کا طواف کرنا چاہے۔

بیت اللہ کو “عتیق” اس لئے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے قیامت تک کے لئے بیت اللہ کو کفار، اور جابروں کے تسلط سے آزاد فرما دیا ہے۔

کعبہ میں حجر اسود بھی ہے جو کہ جنت سے نازل ہوا، یہ پتھر کسی قسم کا نفع و نقصان نہیں دے سکتا، اور لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ حجر اسود کو بوسہ نبی ﷺکی اتباع میں دیا جاتا ہے، آپ ہی نے اس پتھر کے بارے میں فرمایا: (اللہ تعالی قیامت کے دن اس پتھر کو دیکھنے کے لئے دو آنکھوں اور بولنے والی زبان کی ساتھ اٹھائے گا، جن سے وہ حق کیساتھ استلام کرنے والوں کی گواہی دے گا)

رسول اللہ ﷺنے آخری زمانہ کے بارےمیں خبر دی ہے کہ: (ایک لشکر کعبہ پر لشکر کشی کرے گا، چنانچہ جب وہ “بیدا” جگہ پر ہوں گے تو اول تا آخر سب کو زمین بوس کردیا جائے گا) عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: میں نے کہا: اللہ کے رسول! اول تا آخر سب کو زمین بوس کیوں کیا جائے گا!؟ ان میں زبردستی لائے جانے والے ، اور نظریات میں ان کے مخالفین بھی ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ’’اول تا آخر سب کو زمین بوس کیا جائے گا، پھر انہیں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔ ’’ (بخاری)

اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کے لئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، جو بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، وہی بدلے کے دن کا مالک ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، وہی اول و آخر سب مخلوقات کا معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اور متقی لوگوں کے ولی ہیں، اللہ تعالی ہمارے نبی ﷺ پر اور ان کی  آل پر، تمام صحابہ کرام پر رحمت نازل فرمائے۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں۔

جابر رضی اللہ عنہ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’دنیا میں افضل ترین ایام عشرہ ذوالحجہ کے دن ہیں‘‘ کہا گیا: [جہاد]فی سبیل اللہ میں بھی ایسے دن نہیں ہیں؟ آپ نےفرمایا: ([جہاد] فی سبیل اللہ میں بھی ایسے دن نہیں ہیں، الا کہ کوئی شخص اپنے چہرے کو خاک آلود کر لے[یعنی: شہید ہوجائے] (بزّار، ابن حبان)

آپ ﷺکا یہ بھی فرمان ہے کہ: ’’کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں نیک عمل ذو الحجہ کے ان دس دنوں میں کئے ہوئے اعمال سے بھی افضل ہو‘‘ کہا گیا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا:’’جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، الا کہ کوئی شخص اپنی جان و مال لیکر نکلا اور ان میں سے کچھ بھی واپس نہ آیا‘‘۔(بخاری)

آپ ﷺکا یہ بھی فرمان ہے کہ:’’اللہ کے ہاں کوئی دن ایسا نہیں ہے جو ذو الحجہ کے ان دس دنوں سے زیادہ عظیم ہو اور کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو ان دس دنوں میں کئے ہوئے اعمال سے زیادہ محبوب ہو، اس لئے ان دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، اور الحمد للہ کا ورد کرو۔‘‘( احمد)

اللہ کے بندوں!

رسولِ ہُدیٰ پر درود وسلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتابِ عزیز میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ

الاحزاب – 56

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔

یا اللہ! محمد ﷺ پر ان کی  اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، اور محمد ﷺپر آپ کی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔

یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، علی ، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! اپنے رحم و کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا، یا اکرم الاکرمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، اور کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! ہمیں اپنے اپنے ممالک میں امن وا مان نصیب فرما، اور ہمارے ساتھ ہمارے حکمرانوں کی بھی اصلاح فرما۔

یا اللہ! جو بھی ہمارے یا اسلام کے بارے میں برے عزائم رکھے یا اللہ! اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! اس کی چالوں کو اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا اللہ! جو بھی ہمارے یا اسلام کے بارے میں برے عزائم رکھے یا اللہ! اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! اس کی چالوں کو اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعا!

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لئے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے انتہا تک ، اول سے آخر تک ، ہر قسم کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں، اور جنت میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھے سے ہدایت ، تقوی، پاکدامنی، اور تونگری کا سوال کرتے ہیں۔

یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کوغلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لئے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔

یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے، ہماری زبان کی  حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریاں ختم کر دے۔

یا اللہ! فوت شدگان پر رحم فرما، اور تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، ہمارے دکھ درد، اور تکالیف کو دھو ڈال، یا رب العالمین۔

یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، اور اسکو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کے لئے بنا لے، یا اللہ ! ‏ان کے نائب کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے۔

یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو نفاذِ شریعت کو توفیق عطا فرما۔

یااللہ! اپنے گھر کے حجاج کرام کی حفاظت فرما، یااللہ! اپنے گھر کے حجاج کرام کی حفاظت فرما، یااللہ! اپنے گھر کے حجاج کرام کی حفاظت فرما،یا اللہ! انہیں ہر ‏قسم کے شر اور گناہوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! انہیں اپنے اپنے علاقوں میں سلامتی ، نیکیوں ، اور مقبول حج کیساتھ واپس لوٹا، یا ارحم الراحمین!‏

یا اللہ! تمام حجا ج کا حج مبرور بنا، ان کی جد و جہد کو قبول فرما، اور ان کے گناہوں کو معاف فرما، اور ان کے تمام نیک اعمال کو مقبول، اور مبرور بنانا، یا ارحم الراحمین!‏

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

الاعراف – 23

‏ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے ‏‏۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ‏

الحشر – 10

اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں , ان کے لیے ‏ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے , اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‏

البقرة – 201

ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔

إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ  

النحل – 90

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت ‏کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی چیز ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے ‏تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ : مسجد نبوی کے معروف خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ داکٹر عبدالباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ کا ہے ، جن کے علمی خطبات ایک شہرہ رکھتے ہیں۔