متفرقات

اذکار کی اہمیت و فضیلت

خطبہ اول:

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جو بے نیاز اور فضل کرنے والا ہے۔ اس نے ہم پر اپنی نعمت مکمل کی، وہ پاک ہے، اس کی تعریف ہے، اس نے ہر چیز شمار کی اور ہر چیز کو اپنی رحمت اور علم کے احاطے میں لے لیا۔ وہ جو کرتا ہے اس کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا، جبکہ اس کے علاوہ ہر ایک سے سوال کیا جائے گا۔

 اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اس کی مخلوقات میں چنیدہ اور اس کے خلیل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین اخلاق والے، سب سے کامل طریقے والے، تمام لوگوں میں سب سے بلند مرتبہ اور عظیم قدر والے ہیں، سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے، سب سے زیادہ نیکی اور سب سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے والے۔ اللہ تعالی درود نازل فرمائے آپ پر، آپ کے اہل بیت، ازواج مطہرات، صحابہ کرام، تابعین پر اور ان تمام لوگوں پر جو اچھے سے ان کی پیروی کریں اور بکثرت سلامتی نازل کرے۔

امابعد!

ایمان والو، میں خود کو اور آپ سب کو اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں اس لیے کہ ہمارا رب جس کی حکمت بلند ہے اس نے اپنے بندوں کو یوں ہی بے کار پیدا نہیں کیا بلکہ اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ انہیں آزمائے کہ بہترین عمل والا کون ہے۔ لہذا اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اللہ آپ پر رحم کرے، اس سے ڈرو، اس کی رضا کے مطابق عمل کرو،

 جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا1

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔

وہ تمہارے اعمال درست کر دے گا، تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یقیناً وہ بڑی کامیابی پا گیا۔”

امت مسلمہ! اللہ تعالی نے انسان کو کمزور پیدا کیا ہے، کمزوری ہی اس کا آغاز اور وہی اس کا انجام ہے۔

 جیسا کہ اللہ نے فرمایا:

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ2

اللہ وہ ہے جس نے تمھیں کمزوری سے پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت بنائی، پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا بنا دیا، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور وہی سب کچھ جاننے والا ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔

اور انسان اس دنیوی زندگی میں سختیوں اور مصیبتوں، خوف اور الجھنوں سے نہیں بچ سکتا، تو ایسے حالات میں اسے کسی ایسے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی مدد کرے، اسے طاقت دے، اس کی کمزوری کی تلافی کرے، سنبھالے اور اسے تسلی دے۔

 اور سب سے معاون ذرائع میں سے وہ اذکار ہیں جو کتاب و سنت میں وارد ہوئے ہیں۔ اللہ کا ذکر ان آسان ترین اعمال میں سے ہے جن میں مسلمان اپنا وقت لگاتا ہے، اپنے دل کو زندہ کرتا ہے، اپنی تنہائی کو مانوس کرتا ہے اور اپنے رب کو راضی کرتا ہے۔ اللہ کا ذکر ایسا ہے کہ ہم نشین اس سے بیزار نہیں ہوتا اور ہمدم جس سے اکتا تا نہیں۔

جیسا کہ فرمان الہی ہے:

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ3

وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے اطمینان پاتے ہیں۔ سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل اطمینان پاتے ہیں۔

اور اذکار کے خزانوں میں سے ایک عظیم خزانہ وہ کلمہ ہے جو اللہ کے عرش کے نیچے ہے، جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ترغیب دی اور اپنی امت کو اس پر ابھارا۔

نبی ﷺ نے فرمایا:

عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ أَوْ قَالَ لَمَّا تَوَجَّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَفَ النَّاسُ عَلَى وَادٍ فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّكْبِيرِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَكُمْ وَأَنَا خَلْفَ دَابَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَنِي وَأَنَا أَقُولُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ فَقَالَ لِي يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي قَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ4

بو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر لشکر کشی کی یا یوں بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( خیبر کی طرف ) روانہ ہوئے تو ( راستے میں ) لوگ ایک وادی میں پہنچے اور بلند آواز کے ساتھ تکبیر کہنے لگے اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ ( اللہ سب سے بلند وبرتر ہے ‘ اللہ سب سے بلندوبرتر ہے ‘ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی جانوں پر رحم کرو ‘ تم کسی بہرے کو یا ایسے شخص کو نہیں پکار رہے ہو ‘ جو تم سے دور ہو ‘ جسے تم پکار رہے ہو وہ سب سے زیادہ سننے والا اور تمہارے بہت نزدیک ہے بلکہ وہ تمہارے ساتھ ہے ۔ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے تھا ۔ میں نے جب لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا ‘ آپ نے فرمایا ‘ عبد اللہ بن قیس ! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا ‘کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ بتادوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ؟ میں نے عرض کیا ضرور بتایئے ‘ یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کلمہ یہی ہے ۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ یعنی گناہوں سے بچنا اور نیکی کرنا یہ اسی وقت ممکن ہے ‘ جب اللہ کی مدد شامل ہو ۔

اور جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کلمے کا اجر ایسا قیمتی خزانہ ہے جو جنت میں اس کا ورد کرنے والوں کے لیے سنبھال کر رکھا جاتا ہے، جیسے دنیا میں قیمتی خزانہ محفوظ رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ “لا حول ولا قوة إلا بالله” ایک مختصر کلمہ ہے مگر اس کے معنی بہت عظیم ہیں۔ اس میں توحید و تعظیم ہے، بلند و برتر رب پر توکل ہے جس سے حالات سنورتے ہیں اور بلند مقامات حاصل ہوتے ہیں۔

 ایمانی بھائیو! بندہ فرائض کی ادائیگی، ممنوعات سے پرہیز کرنے، تقدیر پر صبر کرنے میں اللہ کی مدد کا محتاج ہے۔ لہذا جو بندہ اچھے ڈھنگ سے مدد طلب کرے، اللہ تعالی اس کی مدد فرماتا ہے اور یہی مفہوم ہے “لا حول ولا قوة إلا بالله” کہنے کا۔ بندے میں نہ تو اللہ کی معصیت سے بچنے کی طاقت ہے مگر یہ کہ اللہ اسے بچائے، نہ اس کی اطاعت کی قوت ہے مگر یہ کہ اللہ اس کی مدد کرے۔ اللہ عزوجل کی مدد کے بغیر نہ بندہ بیماری سے صحت کی طرف، نہ کمزوری سے طاقت کی طرف، نہ کمی سے بڑھوتری کی طرف منتقل ہو سکتا ہے، نہ کسی شر کو روک سکتا ہے، نہ کسی خیر کو حاصل کر سکتا ہے۔

پس “لا حول ولا قوة إلا بالله” کا مطلب ہے کہ اللہ عزوجل کی مدد کے بغیر کسی بھی حالت سے وہ دوسری حالت میں تبدیلی ممکن نہیں۔ یہ کلمہ اپنے قائل سے غم اور پریشانی کو دور کرتا ہے کیونکہ اسے پڑھنے والا اپنے خالق سے مدد مانگتا ہے، معاملات اس کے سپرد کرتا ہے، اپنی طاقت اور قوت و بے بسی سے بری الذمہ ہوتا ہے، ہر مخلوق کی طاقت سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ تو جس کا یہ قول و عمل ہو، یا ہی جس کا عقیدہ ہو، تو کیا اسے سب سے زیادہ کرم فرمانے والا، سب سے بڑھ کر عطا کرنے والا رب تنہا چھوڑ دے گا؟ وہ پاک، بڑا کریم اور مہربان معبود ہے۔

 امام احمد میں ہے:

 ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کیا تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کا پتہ نہ دوں؟” میں نے عرض کیا: “ضرور اے اللہ کے رسول!” آپ نے فرمایا: “لا حول ولا قوة إلا بالله”۔ اس کے جواب میں اللہ فرماتا ہے: “میرا بندہ تابع فرمان ہوا، اس نے خود کو میرے سپرد کر دیا۔”

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جہاں تک “لا حول ولا قوة إلا بالله” کے اس مرض یعنی فکر و غم کو دور کرنے میں اثر کا تعلق ہے، تو اس کے لیے اس میں مکمل سپردگی ہے، اللہ کے سوا ہر قسم کی طاقت و قوت سے دستبرداری ہے، اور تمام امور کو اس کے حوالے کر دینا ہے، اس کے کسی بھی معاملے میں اس پر اعتراض سے کنارہ کشی ہے۔ اور یہ بات عام ہے ہر اس تبدیلی پر جو کسی حال سے دوسرے حال میں ہو، خواہ وہ آسمانی دنیا میں ہو یا زمینی دنیا میں اور اس تبدیلی پر قدرت، یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ پس کوئی چیز اس کلمے کا قائم مقام نہیں ہو سکتی۔ بعض آثار میں آیا ہے کہ کوئی فرشتہ آسمان سے نازل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی طرف چڑھتا ہے مگر “لا حول ولا قوة إلا بالله” کے ساتھ اور اس کلمے کا شیطان کو بھگانے میں عجیب اثر ہے اور اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔

مومنو! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بکثرت “لا حول ولا قوة إلا بالله” پڑھنے کی نصیحت کی ہے۔ اس کی جو فضیلتیں وارد ہوئیں ان میں سے یہ کہ یہ گناہوں کی مغفرت اور خطاؤں کے مٹائے جانے کا سبب ہے۔ جس نے اسے اپنی موت کے وقت کہا اس کے لیے جہنم سے بچاؤ ہوگا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَالَ الْعَبْدُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ صَدَقَ عَبْدِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا وَأَنَا أَكْبَرُ وَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ قَالَ صَدَقَ عَبْدِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا وَحْدِي وَإِذَا قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لَا شَرِيكَ لَهُ قَالَ صَدَقَ عَبْدِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا وَلَا شَرِيكَ لِي وَإِذَا قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ قَالَ صَدَقَ عَبْدِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا لِي الْمُلْكُ وَلِيَ الْحَمْدُ وَإِذَا قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ قَالَ صَدَقَ عَبْدِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِي قَالَ أَبُو إِسْحَقَ ثُمَّ قَالَ الْأَغَرُّ شَيْئًا لَمْ أَفْهَمْهُ قَالَ فَقُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ مَا قَالَ فَقَالَ مَنْ رُزِقَهُنَّ عِنْدَ مَوْتِهِ لَمْ تَمَسَّهُ النَّارُ5

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ اور حضرت سعید ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بندہ کہتا ہے [لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاللہُ أَکۡبَرُ] اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور اللہ سب سے بڑاہے ۔ تو اللہ عزوجل فرماتاہے :میرے بندے نے سچ کہا، میرے سوا کوئی معبود نہیں اور میں سب سے بڑا ہوں ۔ اور جب بندہ کہتاہے : [لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحۡدَہٗ] اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ تو وہ فرماتا ہے : میرے بندے نے سچ کہا ، مجھ اکیلے کے سوا کوئی معبود نہیں ۔۔ جب بندہ کہتاہے :[ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ لَا شَرِیۡکَ لَہٗ] اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ تو وہ فرماتا ہے :میرے بندے نے سچ کہا، میرے سوال کوئی معبود نہیں اور میرا کوئی شریک نہیں ۔ جب وہ کہتاہے :[ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ لَہُ الۡمُلۡکُ وَلَہُ الۡحَمۡدُ] اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،بادشاہی اسی کے لئے ہے ، اور تعریف بھی اسی کی ہے ۔ تو وہ فرماتا ہے میرے بندے نے سچ کہا ،میرے سوا کوئی معبود نہیں ، بادشاہی میرے ہی لئے ہے اور تعریف بھی میری ہی ہے ۔ جب بندہ کہتا ہے:[لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَلَاحَوۡلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ] اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور اللہ کی توفیق کے بغیر گناہ سے گناہ سے بچاؤ نہیں ،اور نیکی کی طاقت نہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :میرے بندے نے سچ کہا ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ، اور میری توفیق کے بغیر (گناہ سے) بچاؤنہیں ، اور (نیکی کی) طاقت نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے: “جس نے اسے اپنی بیماری میں کہا، پھر وہ مر گیا تو اسے آگ نہیں جلائے گی

“لا حول ولا قوة إلا بالله” دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے اور جو اللہ کے ذکر کا عادی ہو جائے، اس سے مانوس ہو جائے، وہ ذکر اس پر حاوی ہو جائے یہاں تک کہ وہ عالم خواب و بیداری میں اس کی خود کلامی ہو جائے تو ایسا شخص اس قابل ہے کہ اسے نیکیاں حاصل ہوں، گناہ مٹائے جائیں، دعائیں قبول ہوں،

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ تَعَارَّ مِنْ اللَّيْلِ فَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي أَوْ دَعَا اسْتُجِيبَ لَهُ فَإِنْ تَوَضَّأَ وَصَلَّى قُبِلَتْ صَلَاتُهُ6

عبادہ بن صامت نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو کر یہ دعا پڑھے ( ترجمہ ) “ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ملک اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کی ذات پاک ہے، اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی کو گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کر نے کی ہمت ” پھر یہ پڑھے ( ترجمہ ) اے اللہ! میری مغفرت فرما ”۔ یا ( یہ کہا کہ ) کوئی دعا کرے تواس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر اگر اس نے وضو کیا ( اور نماز پڑھی ) تو نماز بھی مقبول ہوتی ہے۔

لا حول ولا قوة إلا بالله” جنت کے پودوں میں سے ایک پودا ہے۔

مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 “میں نے اسراء کی رات میں ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھا، انہوں نے کہا اے محمد! اپنی امت کو حکم دو کہ وہ جنت میں پودے بکثرت لگائیں، اس کی مٹی پاکیزہ ہے اور اس کی زمین کشادہ ہے۔” اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم علیہ السلام سے کہا: “جنت کا پودا کیا ہے؟” فرمایا: “لا حول ولا قوة إلا بالله”۔

اللہ کے بندو! خوب “لا حول ولا قوة إلا بالله” کہا کرو، اس پر خود کی اور اپنے اہل و عیال کی تربیت کرو، جس نے “لا حول ولا قوة إلا بالله” کہا کامیاب ہوا، جس نے اس پر غور کیا فائز المرام ہوا، جس نے اس پر ہمیشگی برتی وہ قیامت کے دن نجات پا گیا۔ یہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ترین کلمات اور باقی رہنے والی نیکیوں میں سے ہے۔

 مسند امام احمد میں ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے باقیات صالحات یعنی باقی رہنے والی نیکیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا یہ ہیں: “لا إله إلا الله وسبحان الله والحمد لله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله”۔

اور اللہ کا فرمان ہے:

وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا7

اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب میں بہتر اور امید کی رو سے زیادہ اچھی ہیں۔

اللہ مجھے اور تمہیں قرآن کریم کی برکتوں سے نوازے، مجھے اور تمہیں آیات اور ذکر حکیم سے فائدہ پہنچائے۔ وہ اللہ بہت عطا کرنے والا، کریم، معاف کرنے والا، مہربان و رحیم ہے۔ تم اس سے مغفرت طلب کرو، بلاشبہ وہ بڑا بخشنے والا ہے۔

خطبہ ثانی:

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے، اس نے اپنے بندوں کے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھولے اور ایسے اقوال مشروع کیے جو انہیں اس کی رضا اور جنت پہنچاتے ہیں اور انہیں اس کی ناراضگی اور عذاب سے دور رکھتے ہیں۔

 اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ درود نازل ہو آپ پر، آپ کے آل و اصحاب پر اور بہت زیادہ سلامتی ہو۔

امابعد!

 مومنو! یقیناً “لا حول ولا قوة إلا بالله” عظیم بابرکت کلمہ ہے، اس کے اندر اللہ پر کمال توکل پایا جاتا ہے اور پناہ طلبی پائی جاتی ہے۔

نبیﷺ نے فرمایا:

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ أَحْمَدُ الْقُرَشِيُّ قَالَ ذُكِرَتْ الطِّيَرَةُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَحْسَنُهَا الْفَأْلُ وَلَا تَرُدُّ مُسْلِمًا فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يَكْرَهُ فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ لَا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ8

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدشگونی کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس میں سب سے اچھا فال ہے اور یہ بدشگونی کسی مسلمان کو کسی کام سے نہ روکے۔ جب تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو کہے: ‘اے اللہ تیرے سوا کوئی کسی طرح کی کوئی بھلائی نہیں لا سکتا اور تیرے سوا کوئی کسی برائی کو روک نہیں سکتا، برائی کا دور ہونا، بھلائی کا حاصل ہونا تیری مدد ہی سے ممکن ہے۔

دوسری جگہ نبیﷺ نے فرماہا:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ, أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: >إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ- قَالَ:- يُقَالُ حِينَئِذٍ: هُدِيتَ، وَكُفِيتَ، وَوُقِيتَ، فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ، فَيَقُولُ لَهُ شَيْطَانٌ آخَرُ: كَيْفَ لَكَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَكُفِيَ وَوُقِيَ؟!9

سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جب بندہ اپنے گھر سے نکلے اور یہ کلمات کہہ لے :«بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله» ” اﷲ کے نام سے ، میں اللہ عزوجل پر بھروسا کرتا ہوں ۔ کسی شر اور برائی سے بچنا اور کسی نیکی یا خیر کا حاصل ہونا اﷲ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ۔ “ تو اس وقت اسے یہ کہا جاتا ہے : تجھے ہدایت ملی ، تیری کفایت کی گئی اور تجھے بچا لیا گیا ( ہر بلا سے ) ۔ چنانچہ شیاطین اس سے دور ہو جاتے ہیں اور دوسرا شیطان اس سے کہتا ہے تیرا داؤ ایسے آدمی پر کیونکر چلے جسے ہدایت دی گئی ، اس کی کفایت کر دی گئی اور اسے بچا لیا گیا ۔  “

کلمہ “لا حول ولا قوة إلا بالله” مدد طلب کرنے کے لیے ہے، اسی لیے ہمارے لیے مشروع کیا گیا کہ جب مؤذن “حي على الصلاة، حي على الفلاح” کہے تو ہم کہیں “لا حول ولا قوة إلا بالله” اس کے ذریعے ہم اللہ سے مدد اور توفیق، اعانت اور درستگی طلب کرتے ہیں۔ اسی لیے بعض لوگ غلطی کرتے ہیں، اللہ انہیں اور ہمیں ہدایت دے کہ وہ اسے بطور شکایت پڑھتے ہیں، بطور صبر نہیں۔

 یوں اسے “إنا لله وإنا إليه راجعون” کی جگہ پر رکھتے ہیں اور مصیبت و تکلیف کے وقت اسے پڑھتے ہیں۔ بعض لوگ اس کا ایسا اختصار کرتے ہیں کہ معنی میں خلل واقع ہو جاتا ہے، یوں وہ خود کو بہت بڑے خیر سے محروم کر لیتے ہیں۔

پھر مومنو !جان لو کہ اللہ نے تمہیں ایک عظیم حکم دیا جس کی ابتدا اس نے اپنی ذات سے کی، چنانچہ اس نے فرمایا: “بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر خوب درود بھیجا کرو اور سلام بھیجتے رہا کرو۔

” اے اللہ! محمد پر، ان کی ازواج مطہرات اور آپ کی اولاد پر رحمت و برکت نازل فرما جیسے تو نے آل ابراہیم پر رحمت و برکت نازل کی تھی۔ اے اللہ! خلفائے راشدین ابوبکر، عمر، عثمان و علی سے راضی ہو جا اور ہم سے بھی اپنے عفو و کرم اور مہربانی سے راضی ہو جا اے ارحم الراحمین۔

 اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، اس ملک اور تمام مسلم ممالک کو امن، اطمینان، خوشحالی اور فراوانی والا بنا دے۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن و امان عطا فرما، ہمارے حکمرانوں اور قائدین کی اصلاح فرما، ہمارے سربراہان کی حفاظت فرما

۔ اے اللہ! ہمارے امام، خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد کو ان تمام امور کی توفیق دے جو اسلام کے غلبہ، مسلمانوں کی اصلاح اور ملک و ملت کی بھلائی پر مشتمل ہوں۔ اے اللہ! تمام مسلمان حکمرانوں کو ان باتوں کی توفیق دے جنہیں تو پسند کرتا ہے، جن سے تو راضی ہو۔

 اے اللہ! ہمارے دین، ہماری قیادت کی حفاظت فرما۔ اے اللہ! اے زندہ اور قائم ذات! ہم تیری رحمت سے مدد چاہتے ہیں، تمام امور کی اصلاح فرما اور ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی ہمارے نفس کے حوالے نہ کر۔ اے اللہ! مسلمانوں کے غمزدوں کے غم دور کر، مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبتیں ختم کر۔

 اے اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں تیری نعمت کے چھن جانے سے، تیری عافیت کے بدل جانے سے، تیرے اچانک عذاب سے اور تیری ہر طرح کی ناراضگی سے۔ سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين۔

خطبہ جمعہ مسجد الحرام

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر المعیقلی حفظہ اللہ:خطیب
محرم 1447 | 18 جولائی 202523 تاریخ:

_____________________________________________________________________________________________-

  1. (سورۃ الاحزاب:70)
  2. (سورۃ الروم:54)
  3. (سورۃ  الرعد:28)
  4. (صحیح بخاری:4205)
  5. ۔(سنن ابن ماجہ:3794)
  6. (صحیح بخاری:1154)
  7. (سورۃ الکھف:46)
  8. (سنن ابی داود:3919)
  9. (سنن ابی داود:5095)
فضیلۃ الشیخ ماھر المعیقلی حفظہ اللہ

Recent Posts

“کیا جاوید احمد غامدی صاحب حدیث کو مانتے ہیں؟”

"جب جاوید احمد غامدی 'قرآن و سنت' کہتے ہیں تو 'سنت' سے ان کی مراد…

7 days ago

Provident Fund حلال یا حرام؟

پراویڈنٹ فنڈ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر حکومت کی طرف سے یہ شرط لازمی…

2 weeks ago

“کیا قرآنِ مجید پر اعراب لگانا اور نمازِ تراویح بدعت ہیں؟”

"قرآن پر نقطے اور اعراب کب اور کیوں لگائے گئے؟ کیا یہ نقطے رسول اللہ…

2 weeks ago

خاموشی؛ ایک عظیم عبادت!

وہ کون سی دو خصلتیں ہیں جو عمل کے اعتبار سے آسان لیکن اجر کے…

2 weeks ago

اللہ تعالیٰ کے 2 پیارے نام اور ان کے معنی؟

اللہ رب العزت کے دو نام ”العزیز“ اور ”الحکیم“ کے کیا معنی ہیں؟ کیا یہ…

2 weeks ago

“قرآنِ مجید کی تفسیر پڑھتے ہوئے یہ غلطی ہرگز نہ کریں!”

"قرآنِ مجید کی تفسیر کا صحیح مطالعہ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا قرآنِ کریم…

2 weeks ago