حافظ اسعد بن محمود بن اسماعیل سلفی صاحب گوجرانوالہ شہر کے نامور خطیب وعالم ہیں اور سالہا سال سے یہاں دینی ودعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کو خطابت اور درس وتقریر کی خصوصی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوجرانوالہ میں جمعہ کا سب سے بڑا اجتماع مسجد مکرم ماڈل ٹاؤن میں حافظ صاحب کے یہاں ہوتا ہے اور بلا مبالغہ ہزاروں مرد وخواتین ان کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں اسی مسجد میں شہر کا سب سے بڑا دینی تعلیمی ادارہ بھی قائم ہے جہاں1 ہزار سے زائد طلبائے علم دسیوں اساتذہ کی زیر نگرانی دن رات حصول علم میں مصروف رہتے ہیں۔ انہی اسباب کی بنا پر محترم حافظ صاحب کو اندرون اور بیرون شہر بڑی عزت واحترام کا مقام حاصل ہے اور گوجرانوالہ میں ہر اہم موقع پر معاشرتی وسرکاری سطح پر آپ کی رائے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
آپ خطبہ جمعہ میں فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر خالصتا کتاب وسنت کی روشنی میں عوام الناس کی بھرپور دینی راہنمائی کرتے ہیں اور بلا خوف وخطر سماجی برائیوں پر بے لاگ تنقید بھی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف ان گنت لوگوں کے عقائد کی اصلاح ہوئی ہے بلکہ کثیر تعداد میں لوگ بدعی رسوم ورواج اور معاشرتی خرابیوں سے بھی تائب ہوتے ہیں جس کا مشاہدہ وہاں آنے والے افراد بخوبی کر سکتے ہیں۔
گذشتہ خطبہ جمعہ میں حافظ اسعد محمود سلفی صاحب نے مسجد نبوی میں پیش آنے والے توہین آمیز واقعہ کی بھرپور مذمت کی اور اس کے ساتھ ہی اس مذموم حرکت کا دفاع کرنے والے پی ٹی آئی کے افراد کی سخت الفاظ میں سرزنش بھی کی، نیز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک تصویر کی شناعت بھی بیان کی جس میں عمران خان کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مقدس الفاظ لکھنے کی جسارت کی گئی تھی۔
یہ باتیں تو ایک غیور اور دین پسند فرد کے لیے بھی سخب موجب تکلیف ہیں چہ جائیکہ جب بات کرنے والا عوامی راہنمائی کے منصب پر فائز معتبر خطیب وعالم بھی ہو جہاں سامعین کی غیر معمولی تعداد بھی دینی ومعاشرتی راہنمائی کے لیے حاضر ہوتی ہو، ایسے میں جذبات کی شدت اور الفاظ کی تلخی ایک فطری امر ہے۔ مگر افسوس کہ گوجرانوالہ شہر میں پی ٹی آئی کے سرکردہ افراد نہ صرف ان گستاخانہ حرکات کی شرعی قباحت کو نہ سمجھ پائے اور اپنے کردار کی اصلاح کی طرف نہ متوجہ ہوئے بلکہ الٹا حسب سابق بد زبانی پر اتر آئے اور محترم المقام حافظ صاحب کے بارے میں زبان درازی کرے لگے جو یقینا قابل مذمت حرکت ہے۔
بعض لوگ تو یہ بھی کہتے دکھائی دیے کہ خطبہ جمعہ میں سیاسی معاملات پر بولنا ہی درست نہیں۔ حالانکہ مسلم معاشرے میں ہراہم دینی وسیاسی موضوع پر راہنمائی کا حق ہی اہل علم کو حاصل ہے اور جب سیاسی ومعاشرتی امور پر بھی دین اسلام مکمل راہنمائی فرایم کرتا ہے تو یہ سوچ ہی کس قدر قابل افسوس ہے کہ علماء کو خطبات جمعہ میں سیاسی امور پر بات نہیں کرنی چاہیے! گویا یہ میدان دینی تعلیم سے نا بلد اور مفاد پرست عناصر کے لیے چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ عوام کو مس گائیڈ کر کے انھیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں ایک بڑا طبقہ سیاسی جماعتوں کے پیچھے لگ کر نہ صرف اپنی دینی غیرت وحمیت کھو چکا ہے بلکہ اب تو دینی شعائر اور اسلامی مقدسات کی بے حرمتی میں بھی پیش پیش ہوتا ہے اور جب اس پر ان کو ٹوکا جاتا ہے تو اپنی اصلاح کرنے کے بجائے سمجھانے والوں پر ہی زبان درازی کرنے لگتے ہیں۔
ابھی ماہ رمضان میں ہم نے یہ تلخ حقیقت مشاہدہ کی کہ اس مقدس مہینے میں عین نماز تراویح کے وقت گانے بجانے اور مرد وزن کے اختلاط پر مشتمل جلسے جلوس ہوتے رہے مگر اس سیاسی جماعت میں شامل دین کے نام لیواؤں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور مقدس مہینے میں عبادات کے اوقات میں ہونے والی اس کھلی بے حیائی پر بھی وہ اس کی مذمت تک نہ کر سکے۔ اور پھر جب ان لوگوں کی ایسی شنیع حرکتوں پر ٹوکا گیا تو سدھرنے کے بجائے بد تمیزی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ مگر ان باتوں سے قطع نظر اہل علم کا فرض منصبی ہے کہ بلا خوف وخطر ان مذموم حرکتوں کی نہ صرف مذمت کریں بلکہ ان کی روک تھام میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔ اللہ تعالی شرپسندوں سے اہل حق کی حفاظت فرمائے اور انھیں اپنی ذمے داریاں نبھانے کی توفیق ارزاں کرے۔
آمین یا رب العالمین