ویسے تو اللہ رب العزت کی طرف سے بارانِ رحمت ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ دن اور رات میں کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں ہوتا کہ جب اللہ “ارحم الراحمین” کے رحم و کرم کے سمندر سے دنیا سیراب نہ ہوتی ہو مگر بعض ایام، بعض عشرے اور بعض مہینے ایسی خصوصیتیں اور فضیلتیں رکھتے ہیں جو دوسرے مہینے ، عشرے اور ایام نہیں رکھتے۔
انہی ایام میں سے عشرۂ ذی الحجہ ہے۔ یہ وہ بابرکت عشرہ ہے جس کی فضیلت قرآن اور حدیث سے ثابت ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورہ فجرمیں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔ فرمانِ الہی ہے:
وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ
الفجر – 1-2
قسم ہے فجر اور دس راتوں کی۔
اور جس چیز کی قسم کھائی جائے وہ چیز معزز اور مکرم ہو جاتی ہے تو عشرہ ذی الحجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مکرم و معظم ہوا۔ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں اس لحاظ سے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ حج کا اہم رکن وقوفِ عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم کو حاصل کرنے کا دن ہے۔ غرض رمضان کے بعد ان ایام میں اخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ لہٰذا ان ایام میں دیگر عبادات یعنی نفلی نماز ، روزہ ، صدقہ و خیرات کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کریں۔
عشرہ ذو الحجہ میں ذکر و اذکار کا حکم
اللہ عزوجل نے قرآنِ پاک میں ان دس دنوں میں اپنا ذکر کرنے کا خصوصی طور پر حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ
البقرۃ – 203
اور اللہ تعالیٰ کی یاد ان گنتی کے چند دنوں (ایامِ تشریق) میں کرو۔
حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں كہ :
الأيَّام المعدودات: أيَّامُ التشريقِ؛ أربعة أيَّام: يوم النَّحر، وثلاثة أيَّام1
ایامِ معدودات سے مراد ایامِ تشریق ہیں جو چار دن ہوتے ہیں۔ عید والا دن اور اس كے بعد مزید تین دن یعنی ذو الحجہ كی گیاره ، باره اور تیره تاریخ ۔
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ.
الحج – 28
اور مقررہ دنوں کے اندر اﷲ کے نام کا ذکر کرو۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما كہتے ہیں كہ :
الأيَّام المعلومات: أيَّامُ العَشرِ «يعني: العَشر الأُوَل من ذي الحجَّة»
رواہ البیھقی – 5/228 – 10439
یعنی ایام معلومات سے مراد ذو الحجہ كے ابتدائی دس ایام ہیں ۔
پس معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور محدثین و مفسرین کے نزدیک ان ایامِ معلومات سے مراد عشرۂ ذی الحجہ کے دس دن ہیں ۔ اور قرآن مجید سے اس عشرہ کی عظمت اور بزرگی ثابت ہوئی اور اس میں کثرتِ ذکر و عبادت کی ترغیب بھی ثابت ہوئی۔
دورانِ حج ذکرِ الہی
اسی طرح دورانِ حج ذکر کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ
البقرۃ – 198
جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعرِ حرام کے پاس ذکرِ الٰہی کرو اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی حاﻻنکہ تم اس سے پہلے راه بھولے ہوئے تھے۔
تکمیلِ حج کے بعد ذکرِ الہی
اعمالِ حج کی تکمیل کے بعد ذکر کا حکم دیتے ہوئے رب العالمین نے فرمایا:
فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا
البقرۃ – 200
پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیاده۔
عشرہ ذو الحجہ میں ذکر ِالہی کی فضیلت
سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ أَیَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللّٰہِ وَلَا أَحَبُّ اِلَیْهِ مِنَ الْعَمَلِ فِیْهِنَّ مِنْ ھٰذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ، فَأَکْثِرُوْا فِیْهِنَّ مِنَ التَّهْلِیْلِ وَالتَّکْبِیْرِ وَالتَّحْمِیْدِ
أخرجه أحمد – 5446
ذو الحجہ کے دس دنوں سے بڑھ کر كوئی دن ایسے نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان دنوں كی بہ نسبت زیادہ عظمت والے ہوں اور ان میں کیے گئے نیک عمل اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہو۔ پس ان ایام میں بہت زیادہ لا اله الا الله ، الله اكبر اور الحمد لله پڑھا کرو۔
سلف صالحین اس عمل کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔ امام بخاری نے بیان کیا ہے کہ ’’ان دس دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہما تکبیر کہتے ہوئے بازار میں نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے‘‘۔
اس حدیث میں تہلیل یعنی لا الہ الا اللہ پڑھنا ، تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنا اور تحمید یعنی الحمد للہ کہنے کا حکم آیا ہے تو ان تینوں اذکار کی چند فضیلتیں پیشِ خدمت ہیں۔
تکبیرات کے الفاظ
اس بارے میں معاملہ وسیع ہے کیونکہ تکبیرات کہنے کا حکم مطلق ہے اور نبی ﷺ نے تکبیرات کے لیے الفاظ کی تعیین نہیں فرمائی۔ الغرض کوئی بھی الفاظ تکبیرات کے لئے آپ کہہ سکتے ہیں کیونکہ تکبیرات کے معین الفاظ مرفوعاً منقول نہیں ہیں۔ البتہ صحابہ کرام سے منقول تکبیرات کے الفاظ پر پابندی کرنا بہتر ہے۔ عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے تکبیرات کے یہ الفاظ منقول ہیں:
اَللهُ أَكْبَرُ ، اَللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ2
تکبیرات بلند آواز سے پڑھیں
مرد بآواز بلند تکبیر کہیں گے اور عورتیں آہستہ آہستہ تکبیریں کہیں گی۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يُشرَع لكلِّ أحدٍ أن يَجهرَ بالتَّكبيرِ عندَ الخروج إلى العيد، وهذا باتِّفاق الأئمَّة الأربعة3
چاروں ائمہ کے متفقہ فتوی کے تحت نمازِ عید کے لئے نکلتے ہوئے ہر ایک کے لئے بلند آواز میں تکبیرات پڑھنا مشروع ہے۔
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
إنَّ السُّنة أن يجهر به؛ إظهارًا للشعيرة، لكن النِّساء يُكبِّرْنَ سرًّا، إلَّا إذا لم يكُن حولهنَّ رجالٌ، فلا حرجَ في الجهر4
سنت یہ ہے کہ تکبیر بلند آواز سے پڑھیں تاکہ شعار کا اظہار ہو لیکن عورتیں سری یعنی بغیر آواز کے تکبیریں کہیں۔ اگر ان کے آس پاس کوئی مرد نہ ہو تو پھر بلند آواز کے ساتھ تکبیر کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس کی دلیل حضرت ام عطیہ والی حدیث ہے جس میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ :
حتى نُخرِجَ البكرَ مِن خِدْرِها، وحتَّى نُخرِجَ الحُيَّضَ، فيكنَّ خلْفَ الناسِ، فيُكبِّرْنَ بتكبيرِهم، ويَدْعون بدُعائِهم5
کہ یہاں تک کہ پردہ نشین کنواری اور حائضہ عورتوں کو بھی نمازِ عید کے لئے نکلنے کا حکم دیا جاتا۔ تو وہ لوگوں کے پیچھے رہ کر مَردوں کی تکبیر کی طرح تکبیر کہتیں اور ان کی دعاؤں میں شریک ہو کر دعائیں کرتیں ۔
چنانچہ امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
في هذا الحديث: دليلٌ على أنَّ إظهارَ التكبير للرِّجال مشروعٌ في يوم العيد، ولولا إظهارُه من الرجال لَمَا كبَّر النِّساء خلفَهم بتكبيرِهم6
اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ عید کے دن مَردوں کا بلند آواز کے ساتھ تکبیریں کہنا مشروع ہے۔ کیونکہ اگر مرد حضرات بلند آواز میں تکبیریں نہ پڑھتے تو مَردوں کے پیچھے نماز پڑھنے والی عورتیں بھی ان کی تکبیریں سن کر تکبیریں نہ کہتیں۔
اجتماعی تکبیر کہنا
بیک آوازمیں اجتماعی تکبیر نہ پکارا جائے کیونکہ ایسا کرنا مشروع اور جائز نہیں ہے بلکہ ہر آدمی علیحدہ علیحدہ تکبیر پکارے۔ علامہ ناصر الدین البانی ، علامہ ابن عثیمین اور مفتی بن باز رحمہم اللہ کا بھی یہی فتوی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔7
عدمِ مشروعیت کی دلیل
مَن أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ، فَهو رَدٌّ
صحیح البخاری – 2697
جس نے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جس پر ہماری مُہر نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔
ثانيًا: أنَّه ليس في الشَّرعِ ما يدلُّ على هذا التَّخصيصِ الملتزَم؛ لأنَّ التزامَ الأمورِ غيرِ اللازمةِ يُفهَمُ على أنَّه تشريعٌ، وخصوصًا مع مَن يُقتدَى به في مجامعِ الناسِ كالمساجدِ
دوسری بات یہ ہے کہ شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جو اس خاص پابندی پر دلالت کرتی ہو۔ کیونکہ ایسی چیزوں کی پابندی کرنا جو ضروری نہیں ہیں شریعت سازی کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے ساتھ جن کی لوگوں کے اجتماعات میں اقتداء کی جاتی ہے جیسے مساجد میں کی جاتی ہے۔
تیسری بات یہ عمل سلف صالحین نے نہیں کیا نہ صحابہ کرام نے کیا ہے نہ تابعین سے منقول ہے نہ تبع تابعین سے ثابت ہے۔ حالانکہ یہ لوگ نمونہِ عمل ہیں اور دین میں اتباع کرنا واجب ہے۔ بدعت ایجاد کرنا واجب نہیں ۔
تکبیرات کی اقسام
تکبیرات دوطرح سے کہنا مشروع ہے۔ تکبیرِ مطلق۔ تکبیرِ مقید۔
تکبیرِ مطلق
تکبیرِ مطلق کا مطلب یہ ہے کہ ہر آن اور ہر لمحہ مسجدوں، گھروں، بازاروں، گلی کوچوں، راستوں، فرض اور نفلی نمازوں کے بعد اور ہر اس جگہ جہاں اللہ کے ذکر کی اجازت ہے تکبیر کہی جاتی رہے۔ یہ تکبیر مطلق ہے اور اس کا وقت ذی الحجہ کا چاند نکلنے ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔
تکبیر مقید
تکبیرِ مقید یہ ہے کہ عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے تکبیر کہنا شروع کیا جائے اور ایامِ تشریق کے آخری دن کے نمازِ عصر تک تکبیر کہی جاتی رہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں تکبیر کی ابتداء اور انتہاء کے بارے میں مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ نبی علیہ الصلاۃ و السلام سے اس سلسلہ میں کو ئی حدیث ثابت نہیں ہے البتہ حضرات صحابہ سے اس سلسلے میں جو کچھ وارد ہیں اس میں سب سے زیادہ صحیح قول حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا ہے کہ تکبیرِ مقید کا وقت یومِ عرفہ کی صبح سے شروع ہو کر منی کے آخری دن تک رہتا ہے۔ ابن المنذر وغیرہ نے اس کو بیان کیا ہے۔8
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل
أنَّه كان يُكبِّر دُبرَ صلاةِ الغداةِ من يومِ عَرفةَ إلى صلاةِ العصرِ مِن آخِرِ أيَّامِ التَّشريقِ9
حضرت عمر رضی اللہ عنہ یومِ عرفات کے دن صبح کی نماز کے بعد سے لے کر ایام تشریق کے عصر کی نماز تک تکبیریں پڑھتے تھے۔
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا عمل
أنَّه كان يُكبِّرُ من صلاةِ الفجرِ يومَ عَرفةَ، إلى صَلاةِ العَصرِ مِن آخِرِ أيَّامِ التَّشريقِ10
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل یہ تھا کہ آپ عرفات کے دن فجر کی نماز سے لے کر ایامِ تشریق کی نمازِ عصر تک تکبیریں کہتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا عمل
أنَّه كان يُكبِّرُ من غَداةِ عَرفةَ إلى صَلاةِ العَصرِ من آخِرِ أيَّامِ التَّشريقِ
رواه الحاكم – 440/1
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا عمل یہ تھا کہ آپ عرفات کے دن فجر کی نماز سے لے کر ایام تشریق کی نماز عصر تک تکبیریں کہتے تھے۔
ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ کا قول
ابن قدامہ المقدسی المغنی میں فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ کس حدیث کی بنیاد پر آپ یہ کہتے ہیں کہ تکبیرِ مقید عرفہ کے دن نمازِ فجر سے شروع کی جائے اور ایامِ تشریق کے آخری دن تک ختم کی جائے تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: اس پر حضرت عمر، حضرت علی اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع رہا ہے۔11
آج تکبیر کہنے کی سنت ہمارے درمیان سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بہت کم لوگوں کو آپ تکبیر کہتے ہوئے سنیں گے۔ اس لئے سنت کو زندہ کرنے کے لئے ہمیں کثرت سے تکبیرات کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اگر ہم نے اس مردہ سنت کو زندہ کیا تو یقین جانیے اس میں ہمارے لئے عظیم ثواب ہے۔
تہلیل: لا الہ الا اللہ کہنے کے فضائل
100 نیکیاں بڑھانے اور 100 برائیاں مٹانے والا عمل
مَن قالَ: لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وحْدَهُ لا شَرِيكَ له، له المُلْكُ وله الحَمْدُ، وهو علَى كُلِّ شَيءٍ قَدِيرٌ، في يَومٍ مِئَةَ مَرَّةٍ؛ كانَتْ له عَدْلَ عَشْرِ رِقابٍ، وكُتِبَتْ له مِئَةُ حَسَنَةٍ، ومُحِيَتْ عنْه مِئَةُ سَيِّئَةٍ، وكانَتْ له حِرْزًا مِنَ الشَّيْطانِ يَومَهُ ذلكَ حتَّى يُمْسِيَ، ولَمْ يَأْتِ أحَدٌ بأَفْضَلَ ممَّا جاءَ به، إلَّا أحَدٌ عَمِلَ أكْثَرَ مِن ذلكَ
صحیح البخاری – 3293
جو دن میں سو مرتبہ یہ کلمات کہے : { لا إلَهَ إلَّا اللهُ وحْدَهُ لا شَرِيكَ له، له المُلْكُ وله الحَمْدُ، وهو علَى كُلِّ شَيءٍ قَدِيرٌ } تو اس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے اور اس کے نامہ اعمال میں 100 نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اُس کی 100 برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور اس روز شام تک یہ عمل اس کے لیے شیاطین سے بچاؤ کا سبب ہوتا ہے اور قیامت کے دن اس سے بڑھ کر اور کسی کا عمل نہیں ہو گا سوائے اس آدمی کے جس نے ان کلمات کو اس سے زیادہ مرتبہ پڑھا ہو۔
غلام آزاد کرنے کا ثواب
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن قالَ: لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ له، له المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهوعلَى كُلِّ شيءٍ قَدِيرٌ، عَشْرَ مِرَارٍ كانَ كَمَن أَعْتَقَ أَرْبَعَةَ أَنْفُسٍ مِن وَلَدِ إسْمَاعِيلَ12
جس شخص نے دس بار یہ کلمات کہے : [لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ] اس کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے چار غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔‘‘
لا الہ الا اللہ: باعثِ مغفرت ہے
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا :
يا علِيُّ ألَا أُعلِّمُك كلماتٍ إذا قُلْتَهنَّ غُفِر لكَ مع أنَّه مغفورٌ لك : لا إلهَ إلَّا اللهُ العليُّ العظيمُ لا إلهَ إلَّا اللهُ الحليمُ الكريمُ سُبحانَ اللهِ ربِّ السَّمواتِ السَّبعِ وربِّ العرشِ العظيمِ والحمدُ للهِ ربِّ العالَمينَ
رواہ أحمد – 1363
اے علی ! کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں کہ جب تم انہیں زبان سے ادا کرلو تو تمہارے گناہ معاف کر دئیے جائیں حالانکہ تمہارے گناہ معاف ہوچکے۔ تو یہ کلمات کہہ لیا کرو : (لا إلهَ إلَّا اللهُ العليُّ العظيمُ لا إلهَ إلَّا اللهُ الحليمُ الكريمُ سُبحانَ اللهِ ربِّ السَّمواتِ السَّبعِ وربِّ العرشِ العظيمِ والحمدُ للهِ ربِّ العالَمينَ)
’’ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ بلند شان عظمت والا ہے؛ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ حلیم و کریم ہے، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، وہ عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔‘‘
لا الہ الا اللہ: یومِ عرفہ کی بہترین دعا
عرفہ کے دن دعا کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ دعاؤں میں بھی سب سے بہترین دعا عرفہ کی دعا کو قرار دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
خيرُ الدُّعاءِ دعاءُ يومِ عرفةَ، وخيرُ ما قلتُ أَنا والنَّبيُّونَ من قبلي: لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وحدَهُ لا شريكَ لَهُ، لَهُ الملكُ ولَهُ الحمدُ وَهوَ على كلِّ شَيءٍ قديرٌ
صحیح الترمذی – 3585
سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیا نے کی ہے وہ ہے: لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر۔”
ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ یومِ عرفہ کی دعا اکثر و بیشتر قابلِ قبول ہوتی ہے۔ اس لئے جو لوگ حج پر نہ بھی گئے ہوں انہیں بھی چاہیے کہ اس عظیم دن میں دعا کا اہتمام کریں۔
علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ یوم عرفہ کی دعا اکثر و بیشتر قابل قبول ہوتی ہے۔13
اس لئے جو لوگ حج پرنہیں گئے ہوں انہیں بھی چاہئے کہ اس عظیم دن میں دعا کا اہتمام کریں اور قبولیت دعا کی امید میں اپنے لئے اور اپنے والدین، بیوی، بچے، تمام مسلمانوں اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے دعا کریں۔
لا اله الا الله: آسمان كی چابی ہے
ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ما قالَ عبدٌ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ قطُّ مخلِصًا، إلَّا فُتِحَت لَهُ أبوابُ السَّماءِ، حتَّى تُفْضيَ إلى العرشِ، ما اجتَنبَ الكبائرَ
صحیح الترمذی – 3590
”جب بھی کوئی بندہ خلوص دل سے «لا إله إلا الله» کہے اور کبائر سے بچتا رہے تو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،یہاں تک كہ یہ کلمہ «لا إله إلا الله» عرش تک جا پہنچتا ہے“۔
لا اله الا الله: افضل ترین ذکر
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
أفضلُ الذِّكْرِ: لا إله إلا اللهُ، وأفضلُ الدعاءِ: الحمدُ للهِ
صحیح الترمذی – 3383
میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا: آپ فرما رہے تھے کہ سب سے افضل ذکر ”لا إله إلا الله“ ہے اور بہترین دعا’’ الحمد للہ‘‘ ہے ۔
تحمید : الحمد للہ پڑھنے کی فضیلت
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“الطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآنِ -أَوْ: تَمْلَأُ- مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَك أَوْ عَلَيْك، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو، فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا”.
صحیح مسلم – 223
حضرت ابو مالک اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔ الحمد للہ ترازو کو بھر دیتا ہے ۔ سبحان اللہ اور الحمد للہ آسمانوں سے زمین تک کی وسعت کو بھر دیتے ہیں ۔ نماز نور ہے ۔ صدقہ دلیل ہے ۔ صبر روشنی ہے ۔ قرآن تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف حجت ہے۔ ہر انسان دن کا آغاز کرتا ہے تو ( کچھ اعمال کے عوض) اپنا سودا کرتا ہے پھر یا تو خود کو آزاد کرنے والا ہوتا ہے یا خود کو تباہ کرنے والا۔‘‘
سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر كہنے كے فضائل
اللہ کے پسندیده کلمے
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چار کلمے اللہ تعالیٰ کو نہایت پسند ہیں ۔
أَحَبُّ الكَلامِ إلى اللهِ أرْبَعٌ: سُبْحانَ اللهِ، والْحَمْدُ لِلَّهِ، ولا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، واللَّهُ أكْبَرُ، لا يَضُرُّكَ بأَيِّهِنَّ بَدَأْتَ.
صحیح مسلم – 2137
اللہ تعالیٰ کو چار کلمات بہت پسند ہیں: (1) سبحان اللہ (2) الحمد للہ (3) لا الہ الا اللہ (4) اللہ اکبر. ان میں سے کسی کے ساتھ بھی ابتداء كرو کوئی حرج نہیں۔ ‘‘
ساری دنیا سے زیاده پسندیده
رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا:
لَأَنْ أَقُولَ : سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ .
صحیح مسلم – 2695
ساری کائنات سے کہ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں: سبحان الله والحمد لله و لا إله إلا الله و الله أكبر کہوں ۔
گناہوں کو جھاڑنے والے
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِشَجَرَةٍ يَابِسَةِالْوَرَقِ، فَضَرَبَهَا بِعَصَاهُ، فَتَنَاثَرَ الْوَرَقُ، فَقَالَ : إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ لَتُسَاقِطُ مِنْ ذُنُوبِ الْعَبْدِ كَمَا تَسَاقَطَ وَرَقُ هَذِهِ الشَّجَرَةِ 14
رسول اللہ ﷺ ایک ایسے درخت کے پاس سے گزرے جس کی پتیاں سوکھ گئی تھیں۔ آپ نے اس پر اپنی چھڑی ماری تو پتیاں جھڑ پڑیں۔ آپ نے فرمایا: ” الحمد لله وسبحان الله ولا إله إلا الله والله أكبر» کہنے سے بندے کے گناہ ایسے ہی جھڑ جاتے ہیں جیسے اس درخت کی پتیاں جھڑ گئیں۔
سبحان اللہ پڑھنے کی فضیلت
حضرت مصعب بن سعد اپنے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے بیان كرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ ﷺنے فرمایا:
أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكْسِبَ، كُلَّ يَومٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ؟ فَسَأَلَهُ سَائِلٌ مِن جُلَسَائِهِ: كيفَ يَكْسِبُ أَحَدُنَا أَلْفَ حَسَنَةٍ؟ قالَ: يُسَبِّحُ مِئَةَ تَسْبِيحَةٍ، فيُكْتَبُ له أَلْفُ حَسَنَةٍ، أَوْ يُحَطُّ عنْه أَلْفُ خَطِيئَةٍ.
صحیح مسلم – 2698
کیا تم میں سے کوئی ہر دن ہزار نیکیاں کرنے سے عاجز ہے؟ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر صحابہ کرام میں سے کسی پوچھنے والے نے پوچھا: ہم میں کوئی آدمی ہزار نیکیاں کیسے کرسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو آدمی سُبْحَانَ اللَّهِ سو مرتبہ پڑھتا ہے اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں یا اس کی ہزار خطائیں مٹا دی جاتی ہیں۔
سبحان اللہ بحمدہ سبحان اللہ العظیم پڑھنے کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں لیکن قول میں وزنی ہیں اور اللہ کو محبوب ہیں:
سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ15
۔ ’’ پاک ہے اللہ اور اسکی تعریف ہے۔ پاک ہے اللہ اور اسکی عظمت ہے۔
لہذا ہمیں ذی الحجہ کے ان ابتدائی دس دنوں میں کثرت سے اللہ رب العزت کی بڑائی ، بزرگی اور اس کی تحمید و تقدیس بیان کرنی چاہئے۔
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…