عقیدہ ختمِ نبوّت کیا ہے؟
تمام مسلمانوں کےدرمیان متفقہ و مسلمہ عقیدہ کے مطابق ’’ ختم نبوت‘‘ سے مراد یہ ہے کہ خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰی کےرسولوںو انبیاءعلیہم السلام میں سے آخری رسول اور آخری نبی ہیں، جن کی نبوت ترتیب میں بھی آخری ہے اور سلسلہ نبوّت میں بھی آخری ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمّد ﷺپر سلسلہ نبوّت کااختتام فرمادیا ہےجن کے بعدنہ ہی کوئی نبی آیا ہے اور نہ کبھی آئے گا۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثتِ انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔
عقیدہ ختمِ نبوّت قرآن کریم میں!
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ’’ختمِ نبوت‘‘ کا ذکر قرآنِ حکیم کی 100 سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
ارشادِباری تعالیٰ ہے:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
سورہ الاحزاب آیت نمبر 40
ترجمہ: (لوگو) محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے(یعنی سلسلہ نبوّت کو ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ تعالی ہر چیز کا (بخوبی) جاننے واﻻ ہے۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالٰی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ خاتم النبیین ‘‘ کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور اب محمّد ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو نہ منصبِ نبوّت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصبِ رسالت پر۔
قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو ’’ عقيدہ ختم ِنبوت ‘‘ کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔
عقیدہ ختمِ نبوّت احادیثِ مبارکہ میں!
خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں ’’خاتم النبیین ‘‘ کایہی معنی متعین فرمایا ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کہیں بھی ،کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیتِ الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلۂ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح الفاظ میں اعلان فرمایا۔
صحابی رسول سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ
جامع ترمذی حڈیث نمبر 2272
ترجمہ : ’’ اب نبوت اور رسالت کا سلسلہ منقطع یعنی ختم ہو چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی‘‘۔ (ترمذي، الجامع الصحیح ، کتاب الرؤيا، 4 : 163، باب : ذهبت النبوة، رقم : 2272)
اس حدیث پاک سے ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گااور:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو کوئی بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، ملعون، دجّال اور ابلیس کے ناپاک عزائم کا ترجمان ہو گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی نہ صرف نشاندہی کر دی بلکہ ان کی تعداد بھی بیان فرمادی تھی۔ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي
جامع ترمذی حڈیث نمبر 2219
ترجمہ: میری امت میں تیس (30) اشخاص کذّاب(انتہائی جھوٹے) ہوں گے ان میں سے ہر ایک کذّاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں ’’خاتم النبیین ‘‘ ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب : ماجاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذابون، 4 : 499، رقم : 2219)
اگر کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے (خواہ کسی معنی میں ہو) وہ کافر ، کذّاب ، مرتد اور خارج از اسلام ہے۔ نیز جو شخص بھی اس کے کفر و ارتداد میں شک کرے یا اسے مومن ، مجتہد یا مجدّد مانے وہ بھی کافر و مرتد اورخارج از اسلام ہے۔
مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ:
۱) جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روئے زمین کی ہر قوم اور ہر انسانی طبقے کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ کیوں کہ محمّد رسول اللہ ﷺکو اللہ تعالیٰ نےجب مبعوث فرمایا تو قیامت تک آنے والے تمام انس و جن کے لیے رسول و نبی بنا کر مبعوث فرمایا۔فرمان، الٰہی ہے:
۲) اور آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید تمام آسمانی کتب کے احکام منسوخ کرنے والی اور آئندہ کے لیے تمام معاملات کے احکام و قوانین میں جامع و مانع ہے۔
۳) نیز قرآن کریم تکمیل دین کااعلان کرتا ہے کہ جو دین انسانیت کی ہدایت اورتمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلّق بطور ضابطہ کے اسلام کی صورت میں رسول اللہ ﷺقرآن و حدیث کی صورت میں نازل کیا گیا وہ ایک مکمّل دین اور ضابطہ حیات ہے ۔
گویا انسانیت اپنی معراج کو پہنچ چکی ہے اور قرآن کریم انتہائی عروج پر پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اس کے بعد کسی دوسری کتاب کی ضرورت ہے ، نہ کسی نئے نبی کی حاجت۔ چنانچہ امت محمدیہ کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ آپ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انسانیت کے سفر حیات میں وہ منزل آ پہنچی ہے کہ جب اس کا ذہن بالغ ہو گیا ہے اور اسے وہ مکمل ترین ضابطۂ حیات دے دیا گیا، جس کے بعد اب اسے نہ کسی قانون کی احتیاج باقی رہی نہ کسی نئے پیغمبر کی تلاش۔
صحابہ کرام اور مُدّعی ِ نبوّت مسیلمہ کذاب!
قرآن و سنّت کی روشنی میں ختمِ نبوت کا انکار محال ہے۔اور یہ ایسا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ خود عہدِ رسالت میں مسیلمہ کذّاب نے جب نبوّت کا دعوی کیاتو باوجود اس کے کہ وہ رسول اللہﷺکی نبوت کی تصدیق بھی کرتا تھا تواس کے جھوٹا اور کذّاب و دجّال، کافر و مرتدہونے میں ذرا بھی تامل نہ کیا گیا۔ اورصدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں صحابہ کرام yکا اس پر اجماع ہوا اور سب نے مل کرباقاعدہ اُس سے اور اُس کے ماننے والوں سےجنگ و جہاد کیا اور اُسے کیفر ِکردار تک پہنچایا۔
مُدّعیانِ نبوّت کے حوالہ سے ہر دور میں اُمّت کا طرز عمل:
عہدِ صدّیقی کے بعد بھی جب اور جہاں کسی نے بھی نبوت کا دعوی کیا، امتِ مسلمہ نے متفقہ طور پر اسے جھوٹا،کذّاب و دجّال اور کافر و مرتد قرار دیا اوراس کا قلع قمع کرنے میں ہر ممکن کوشش کی۔
1973ء کے آئین میں پاکستان میں خاتم النبیّین جناب محمّد رسول اللہ ﷺ کے حوالہ سے ختمِ نبوّت کا عقیدہ نہ رکھنے والے کومتفقہ طور پر’’غیر مسلم اقلیت ‘‘قرار دیا گیا۔ جس کی بنا پر قادیانی مرزائی فرقہ کو غیر مسلم اقلیت قراردیا گیا۔ وہ خود کو نہ ہی مسلمان کہلا سکتے ہیں اور نہ ہی اُن کی عبادت خانوں کو مساجدکا نام دیا جائے گا، اسی طرح انہیں ایک مسلمان کی حیثیت سے وہ حقوق بھی حاصل نہیں ہوں گےجو مسلمانوں کو ہوتے ہیں البتہ غیر مسلم اقلیت کے حقوق انہیں حاصل ہوں گے۔