عقیدہ ختمِ نبوت کے عمومی دلائل

نبی کریم ﷺ کا تمیز و شرف ہے کہ آپ ﷺ نہ صرف نبی و رسول ہیں بلکہ خاتم النبیین  اور خاتم المرسلین ہیں اور یہ شرف فقط آپ ﷺ کو ہی حاصل ہے اس عقیدے انکار آپ ﷺ کو دی گئی فضیلت کا انکار ہے اور آپ ﷺ کے تمام فضائل و مناقب اور رسالت و نبوت قطعاً ایک وھبی چیز ہے جسے کما یا نہیں جاسکتا سچی رسالت اور رسالت کے جھوٹے دعوے میں ۔ یہی ایک بنیادی فرق ہے کہ سچی رسالت ونبوت منجانب اللہ ہے ،فقط اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے ۔

اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ

الانعام – 124

اس بات کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وه اپنی پیغمبری کو رکھے؟۔

اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ۚ

الحج – 75

فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ ہی چُن لیتا ہے۔

جبکہ رسالت کا جھوٹا دعویٰ فقط کسی بدبخت کے ’’اضغاث احلام ‘‘ اور خبث و کفرِباطن پر مشتمل ہوتاہے۔

زیرِ نظر سطور میں مختصراً عقیدہ ختم ِ نبوت کے دلائل بالکل عام فہم انداز میں لکھے جارہے ہیں۔ وباللہ التوفیق

قرآن مجید کی آیت : 

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ

الاحزاب – 40

کی تفسیر میں لکھا ہے کہ خاتم النبیین کا معنیٰ ہے ۔ آخرالانبیاء ، آخر نبی۔

قرآن مجید میں جا بجا آپ ﷺ پر ایمان لانے کا ذکر اور حکم ہے یا پھر آپ سے ماقبل انبیاء اور اُن کی کُتب پر ایمان لانے اور تصدیق کرنے کا ذکر و حکم ہے ، کسی ایک آیت میں بھی آپ ﷺ کے بعد کسی نبی ورسول یا کتاب پر ایمان لانے کا ذکراو رحکم موجود نہیں جو کہ ختم ِ نبوت کے مسئلے پر بالکل واضح مہر اور دلیل ہے۔ چند آیات ملاحظہ کیجئے :

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

البقرۃ – 04

اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا، اور وه آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔

فَإِن كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ جَاءُوا بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتَابِ الْمُنِيرِ

آل عمران – 148

پھر بھی اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں تو آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے گئے ہیں جو روشن دلیلیں صحیفے اور منور کتاب لے کرآئے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ

النساء – 60

کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے۔

وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ۚ

النساء – 162

اور ایمان والے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام  نے ماقبل کی تصدیق فرمائی اور مابعد فقط محمد ﷺ کی بشارت دی جیسا کہ سورۃ الصف میں ذکر ہوا ہے، تو ثابت ہوا کہ نبی کریم ﷺ آخری نبی ہیں۔

احادیث مبارکہ متواتراً اس مسئلے پر دستیاب ہیں جو کم وپیش 24 صحابہ کرام سے منقول ہیں اور اُن روایات کی تعداد 200 سے متجاوز ہے، جن میں سے چند ایک یہاں بیان کی جارہی ہیں :

إنِّي عِندَ اللهِ في أُمِّ الكِتابِ لخاتَمُ النَّبيِّينَ وإنَّ آدمَ لَمُنْجَدِلٌ في طِينتِه ….

مسند أحمد – رقم : 10457

میں اللہ تعالیٰ کے یہاں اُس وقت بھی خاتم النبیین (مکتوب) تھا جب آدم علیہ السلام اپنی مٹی سے تخلیق  کے مراحل سے گزر رہے تھے۔

أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، في الأُولَى وَالآخِرَةِ ……، ليسَ بَيْنِي وبيْنَهُ نَبِيٌّ

صحیح مسلم – رقم : 6132

میں سب لوگو ں سے بڑھ کر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے قریب ہوں (دنیا و آخرت میں) ۔۔۔۔۔ کیونکہ میرے اور اُن کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔

أنا خاتمُ الأنبياءِ ومسجدي خاتمُ مساجدِ الأنبياءِ ….

صحیح الترغیب والترھیب

میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد انبیاء کے ہاتھوں سے بنی ہوئی مساجد میں سے آخری مسجد ہے۔

لا يَبْقى بَعدي منَ النُّبوةِ شيءٌ إلَّا المُبشِّراتُ ..

مسند أحمد

میری نبوت کے بعد سوائے ( رؤیا صالحہ کی) بشارتوں کے کچھ باقی نہیں ہے۔

آپ ﷺ کے اسماء گرامی میں سے ہے ’’العاقب اور المقفیٰ‘‘ ۔ ان دونوں ناموں کا معنیٰ ہے : آخرالانبیاء۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا :

أمَا تَرْضَى أنْ تَكُونَ مِنِّي بمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِن مُوسَى؟  إِلَّا أنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدِي

کیا تم اس بات پر راضی نہیں اور خوش نہیں کہ میرے نزدیک تمہارا وہ مقام ہو جو مقام ھارون کا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے یہاں تھا۔ ہاں البتہ (وہ نبی تھے) میرے بعد نبوت کوئی نہیں ۔

نبوت ورسالت ،وحی الٰہی کے تابع ہے اور وحی الٰہی ہی اُس کا تعین کرتی ہے  جیسا کہ سابقہ سطور میں گزرا اور ذکر ہوا تو جب وحی منقطع تو نبوت و رسالت بھی ختم ۔ اسی لئے اُم ایمن رضی اللہ عنہا ،سیدنا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما روئے کہ آسمان سے 1سلسلہ وحی منقطع ہوگیا ہے۔

امیرعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

إن الوحي قد انقطع

یقیناً سلسلہ وحی منقطع ہوچکا ہے۔2

لہٰذا ذکر کردہ آیات ،احادیث و آثار اور اُن کے ذیل میں اہلِ علم کی وضاحتیں ختمِ نبوت کے معنیٰ کا تعین کرنے میں اور عقیدہ  ختم نبوت کے اثبات میں از بس کافی ہیں اور اہلِ ایمان کا تعین کرنے کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ یاد رہے کہ جنگ یمامہ میں سب سے زیادہ صحابہ کرام کی شہادتیں ہوئی ہیں اور یہ جنگ  دفاع عقیدہ ختمِ نبوت کے لئے ہی لڑی گئی تھی تاکہ آنے والی نسل کو اس عقیدے کی اہمیت ازبر ہوجائے۔

ایک شبہے کا ازالہ :

عقیدہ ختمِ نبوت کے ادلہ جاننے کے باوجود قادیانی ملعون اور اُس کے گماشتے ایک شبہ وارد کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں :

لا تقولوا لا نَبِيَّ بَعْدہ

ازالہ :

درحقیقت یہ قول سند کے اعتبار سے توقابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ اس سند میں انقطاع ہے جس کی تفصیل بڑی اور اسماءالرجال کی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔

البتہ صحیح مان لینے کی صورت میں اس کی صحیح توجیہ درج ذیل ہے :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عقیدہ ختم نبوت کی قائل و مصدقہ تھیں جس کی شاہد وہ روایات ہیں کہ جن میں عقیدہ ختم نبوت بیان ہوا ہے اور اُس کی راویہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود ہیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  نے اگر

لا تقولوا لا نَبِيَّ بَعْدہ

 کا جملہ استعمال بھی کیا ہے تو فقط اس لئے کہ کہیں لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے قربِ قیامت آسمان سے نزول کا انکار نہ کردیں۔ کیونکہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام ایک اجماعی عقیدہ ہے جس کا منکر ضال و مضل قرار پاتا ہے۔

اور یہ بات بھی اہم ہے اس لئے کہ

لا نَبِيَّ بَعْدہ

کے تین تراجم و معانی اہلِ علم نے بیان کئے ہیں۔

لا تقولوا لا نَبِيَّ بَعْدہ – لا نبی مبعوث بعدہ

آپ ﷺ کےبعدکوئی نیا نبی مبعوث نہیں ہوگا۔

لا تقولوا لا نَبِيَّ بَعْدہ – لا نبی خارج بعدہ

آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی ظاہر نہیں ہوگا۔

لا تقولوا لا نَبِيَّ بَعْدہ – لا نبی حی بعدہ 

آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی زندہ نہیں ہے۔

بس یہ آخری معنیٰ ہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد تھی کیونکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور قربِ قیامت نزول فرمائیں گے۔

وباللہ التوفیق

  1. صحیح بخاری -2641
  2. بخاری 6194
الشیخ عبدالوکیل ناصر حفظہ اللہ: کراچی کے معروف علماء میں سے ا یک نام الشیخ عبدالوکیل ناصر صاحب کا ہے، آپ ان دنوں جامعۃ الاحسان الاسلامیہ کراچی کے سینئر مدرس کی حیثیت سے دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ سندھ بھر میں خطابات و بیانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔