عقیدہ توحید! نبوی تعلیمات کے سائے تلے

پہلا خطبہ

تمام  تعریفیں اللہ کے لئے ہیں وہی بلاؤں اور مصیبتوں سے بچانے والا  اور سرگوشیاں سننے والا ہے،  میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں اور اس کا دنیا و آخرت میں کوئی شریک نہیں،  میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد  -ﷺ-اللہ برگزیدہ بندے  اور چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور وفا دار صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد: مسلمانوں!

میں آپ سب اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، اور خلوت و جلوت ہر حالت میں اسی کی اطاعت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، اسی کی بدولت دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی اور سعادت و خوشیاں ملیں گی۔

مسلمانوں!

جس بنیاد پر مسلمان کی خوشحالی، نجات، اور فلاح کا دار و مدار ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اللہ رب العالمین کی کامل بندگی  کرے، اِسی بندگی کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا اور اسی کے لئے اسے وجود بخشا گیا، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ

الذاریات – 56

 اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔

یعنی: صرف اسی کی عبادت کریں ، اس کے لئے انسان اللہ تعالی کے لئے مخلص ہو، اس کے مقاصد میں اللہ تعالی کے لئے مخلص ہو، خلوص کے ساتھ اس سے محبت اور اس کی تعظیم کرے، خوف، خشیت، امیدوں اور دعاؤں میں مخلص ہو، ظاہر و باطن اور اہداف و ارادوں میں مخلص ہو۔

اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ  کو فرمایا:

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ

الانعام – 162/163

 آپ کہہ دیں: میری نماز، میری قربانی،  میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لئے (162) اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے، اور میں سب سے پہلے سرِ تسلیم خم کرنے والا ہوں۔

مسلمان بھائی!

کتاب و سنت  نے اس اصول کو راسخ کیا، اور نبی کریم ﷺ نے اس عظیم اصول کو دلوں میں جاگزیں کرنے کے لئے اپنی تعلیمات میں اس قرآنی اصول کو مختصر ترین انداز میں پیش کیا چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : “میں ایک دن نبی ﷺ کے پیچھے  تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: (لڑکے! میں تمہیں کچھ باتیں سکھاتا ہوں: تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہاری حفاظت کریگا، تم اللہ کو یاد رکھو تم اسے اپنی سمت میں پاؤں گے، جب بھی مانگو تو اللہ تعالی سے مانگو اور جب بھی مدد طلب کرو تو اللہ تعالی سے، یہ بات ذہن نشین کر لو کہ: اگر پوری امت مل کر تمھیں معمولی فائدہ پہنچانا چاہے  تو وہ تمھیں وہی فائدہ دے سکتی ہے جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ سب مل کر تمھیں معمولی نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ تمھیں اتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلمیں اٹھا لی گئی ہیں اور صحیفے خشک ہو گئے ہیں)” ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا، نیز یہ روایت اہل علم کے ہاں مشہور ہے۔

مسلمانو! اس وصیت نے اللہ تعالی کی عظمت دلوں میں مضبوط اور عقیدہ پختہ کیا  ہے کہ اللہ تعالی ہی ہے جس کے ہاتھ میں تمام امور کی چابیاں اور باگ ڈور ہے، اسی کے پاس کائنات کے خزانے ہیں، وہی ضروریات پوری کرتا ہے، دعائیں قبول فرماتا ہے، لوگوں کی حاجت روائی کرتا ہے، ساری مخلوقات ہر لمحے اسی کی محتاج ہیں، اسی کے کرم، عنایت اور رحمت کے سہارے جیتی ہیں، وہ ایک لمحہ بھی اللہ تعالی کی رحمت و شفقت کے بغیر باقی نہیں رہ سکتیں:

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ

النمل – 62

 کون ہے جو لاچار کے پکارنے پر اسے  جواب دیتا ہے اور اس کی مشکل کشائی فرماتا ہے۔

تمام کے تمام بندے اسی کے محتاج اور اس کی رحمت کے سامنے لاچار ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

یونس – 107

 اور اگر آپ کو اللہ کسی مشکل میں ڈال دے تو اللہ کے سوا اسے کوئی رفع کرنے والا نہیں اور اگر وہ آپ کے بارے میں خیر کا ارادہ کر لے تو کوئی بھی اس کا فضل ٹال نہیں سکتا، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے، وہی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔

مسلمان اس وقت نا قابل بیان سنگین صورتحال میں پھنسے ہوئے ہیں، انہیں ان حالات میں اس نبوی وصیت کو عمل کے لئے سننے کی اشد ضرورت ہے، مسلمان اس وصیت کو اس یقین سے سنیں کہ ان کا خالق ہی مشکل کشائی اور حاجت روائی کر سکتا ہے۔

مسلمان اپنی نمازوں میں بار بار دہراتے ہیں:

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

الفاتحة – 5

 ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

 یہ بات مسلمانوں کے دلوں میں ہونی چاہیے اور عملی طور پر اس کا اثر نظر آنا چاہیے۔

یہ وصیت مسلمان کو دائمی تباہی اور  ابدی عذاب میں واقع ہونے سے ڈراتی ہے، مخلوق کو غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے خبردار کرتی ہے کہ مصیبتوں اور تکلیفوں میں غیر اللہ کو پکارا جائے اور ان سے ایسی مشکل کشائی اور حاجت روائی کا مطالبہ کیا جائے جس کی طاقت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِير(13)إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ

فاطر – 13/14

اور اللہ کو چھوڑ کر جن کو تم  پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر سن بھی لیں تو وہ تمہیں جواب نہیں دے سکتے، اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: (جو شخص اس حالت میں مرا کہ وہ غیر اللہ کو پکارتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہو گیا ) بخاری نبی ﷺ ہمیں مختصر انداز میں تعلیم دیتے ہوئے ایک ایسی وصیت کی ہے جو قرآنی احکامات و نواہی، خبروں اور قصص سے حاصل شدہ تعلیمات، اہداف اور مقاصد کو یکجا کر رہی ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ تعلق بنائے اور اپنی تمام ضروریات اسی کے سامنے رکھے ، اور تمام معاملات اسی کے سپرد کر دے تو اللہ تعالی اسے دنیا و آخرت کی تمام پریشانیوں کے لئے کافی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا

الحج – 38

وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ

الطلاق – 3

 اور جو بھی اللہ  پر توکل کرے تو وہی اسے کافی ہے۔

أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ

البقرة – 85

کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟ تم میں سے ایسا کرنے والے کی دنیا میں سزا صرف رسوائی ہے اور قیامت کے دن انہیں شدید عذاب میں لوٹایا جائے گا۔

اور ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے: (جو کوئی چیز  [تعویذ وغیرہ]لٹکائے وہ اسی کے سپرد کر دیا جاتا ہے) احمد، ترمذی

اے مسلم! اس وصیت کو پلے باندھ لو، مبادا ہوس پرستی اور گمراہ افکار تمہیں راستے سے نہ ہٹا دیں؛ کیونکہ ان سے بچنے کے لئے اسی وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے جس پر نبی ﷺ  کے صحابہ کرام نے تربیت پائی اور اس کے نتیجے میں وہ عقیدہ توحید کی انتہا کو پہنچ گئے، جیسے کہ ہمیں عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ بتلاتے ہیں کہ: ” ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سات ، یا آٹھ یا نو افراد تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: (لوگوں سے کچھ بھی نہ مانگو) اس پر میں نے ان میں سے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ اگر کسی کی چھڑی بھی گر جاتی تو وہ بھی کسی سے اٹھا کر دینے کا مطالبہ نہ کرتے تھے” مسلم

احنف بن قیس کا بھتیجا داڑھ میں درد  کی شکایت کرنے لگا تو اس پر احنف نے کہا کہ: “میں چالیس سال سے نا بینا ہوں میں نے تو اس کا کسی کو ذکر تک بھی نہیں کیا، بلکہ صرف اللہ تعالی سے ہی شکایت کی ہے”۔

اس لیے مسلمان! سخت اور سنگین حالات میں اللہ سے رجوع کرو اور اسی کے ساتھ تعلق بناؤ، کسی دوسرے سے کچھ بھی امید نہ رکھو، یہ ایک ایسی وصیت ہے جس پر مسلمانوں کے لئے عمل کرنا از بس ضروری ہے کیونکہ مسلمانوں کو دشمنوں کی ایسی مکاریوں اور منصوبہ بندیوں کا سامنا ہے جسے یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ تعالی نے اپنے نبی یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (87) فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ

الانبیاء – 87/88

 مچھلی والے [یونس علیہ السلام] کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیے اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے۔ تو اس نے اندھیروں  میں پکارا: الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ہی ظالموں میں سے تھا۔ تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں۔

مسلمانوں!

اب وہ وقت نہیں رہا کہ شرق و غرب میں موجود مسلمانوں کے ارد گرد لوگوں کو پکارا جائے، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عقیدہ توحید راسخ کیا جائے اور اللہ تعالی سے سچے دل کے ساتھ دعا مانگیں کہ وہی ہماری حاجت پوری کرے، اور مسلمانوں پر رحمت نازل فرمائے۔

آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کسی کو کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچے تو کہے:

اَللهُ رَبِّيْ لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً

 اللہ  ہی میرا رب ہے میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا) اسے زبان سے کہے اور اعضا سے عملی طور پر اسے ثابت کر کے دکھائے۔

آپ ﷺ دکھ تکلیف میں دعا کرتے ہوئے فرماتے تھے:

لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِيْمُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ

 بہت ہی عظیم اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، آسمان و زمین کے پروردگار کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، وہی عرشِ عظیم کا پروردگار ہے۔)متفق علیہ

علمائے کرام کہتے ہیں کہ: جو شخص ایسے معاملے میں مدد اور پناہ کسی مخلوق سے مانگے جسے صرف اللہ تعالی ہی حل کر سکتا ہو تو یہ شرک ہے چاہے کسی مردہ سے مانگے یا غائب  سے یا حاضر  شخص سے، نیز یہ اعمال رائگاں کرنے کا باعث ہے۔

مسلمانوں!

اسلام کی سب سے پہلے مملکت کو کامیابیاں ، کامرانیاں اور انتہا درجے کی عزت و شرف کیسے  ملی؟ جن کا ذکر اپنوں سے پہلے پرائے لوگوں نے بڑے ہی شان و شوکت سے کیا، اس کا سبب صرف اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار تھا، اللہ عز و جل کے سامنے سچی التجا تھی۔

کیونکہ نبی ﷺ نے عقیدہ توحید کی جڑیں دلوں میں مضبوط کرنے کا اہتمام کیا اور عقیدہ توحید کی طرف بلانے کے لئے جہاد کیا، آپ ﷺ نے عقیدہ توحید کی مکمل حفاظت کے لئے بھر پور کوششیں کیں کہ کہیں اس میں قولی اور عملی کسی قسم کا کوئی خلل واقع نہ ہو  اور اس کے مقاصد اور اہداف پورے ہوں، چنانچہ نبی ﷺ سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا کہ اپنے مسلمان بھائی سے ملے اور سلام کرتے ہوئے جھکے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (نہیں) احمد، ترمذی  نے اسے حسن کہا ہے۔

صرف اس لیے کہ  اللہ تعالی کے سوا کسی کے سامنے جھکنا جائز نہیں ، اور لوگوں کی تربیت اللہ عز و جل کے سامنے جھکنے پر ہو۔

اور صحیح بخاری میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (تم میرا مقام اس طرح مت بڑھاؤ جیسے عیسائیوں نے عیسی بن مریم کے ساتھ کیا، میں تو صرف بندہ ہوں، اس لیے تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہو) بخاری آپ ﷺ اپنی امت سے یہ چاہتے تھے کہ امت محمدیہ صرف اللہ تعالی کے سامنے جھکے اسی سے مانگے اور مدد بھی اسی سے طلب کرے۔

ایمانی بھائیوں!

مصطفی ﷺ کی جانب سے عقیدہ توحید کے اہتمام کا مظہر یہ بھی ہے کہ آپ نے ہر ایسا ذریعہ بند کر دیا جس کی وجہ سے شیطان لوگوں کو شرک کے پھندے یا جاہلی خرافات میں پھنسا سکتا تھا، چنانچہ آپ ﷺ کی تعلیمات میں قبروں میں مدفون مردوں  سے مانگنے کی سخت ممانعت موجود ہے، لہذا ان سے مانگنا، ان کی چوکھٹ کے سامنے کھڑے ہو کر گڑگڑانا، یا مصیبتوں اور تکلیفوں میں مردوں سے ایسی مدد طلب کرنا جو صرف آسمان و زمین کا پروردگار  ہی کر سکتا ہے بالکل منع ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (یا اللہ! میری قبر کو ایسا مت بنانا جسے پوجا جائے، ان اقوام پر اللہ تعالی کا غضب ہو جنہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا)

نبی ﷺ نے عقیدہ توحید کا خوب اہتمام فرماتے ہوئے شیطانی وسائل سے بھی خبردار کیا کیونکہ آپ ﷺ کی دعوت اسی بنیاد پر قائم تھی، چنانچہ جان و مال  کو تحفظ دینے اور نقصان سے بچانے کے لئے ان پر تعویذ لٹکانے سے منع فرمایا، لیکن کچھ لوگ اپنی کم علمی اور جہالت کی وجہ سے پھر بھی اس میں مبتلا ہیں، چنانچہ مسند میں ہے کہ: (جس نے بھی تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا)

اسی طرح آپ ﷺ نے شعبدہ باز دجالوں اور جھوٹے لوگوں سے بھی خبردار فرمایا: (جس شخص کسی کاہن یا کیافہ شناس کے پاس آ کر اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے محمد ﷺ پر نازل شدہ  وحی سے کفر کیا) اسے ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ٹیکنالوجی  اور ترقی کے اس دور میں بھی لوگوں کا انہی کاہنوں ، کیافہ شناسوں کے پاس آنا جانا زیادہ ہو گیا ہے اور میڈیا بھی یہی دکھا رہا ہے،  لوگ ان سے اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھتے ہیں، حالانکہ دین اسلام کا مسلمہ اصول ہے کہ مستقبل کے بارے میں اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

اسی طرح آپ ﷺ سے “نُشرہ” کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ شیطانی عمل ہے) ” نُشرہ ” جادو کا جادو سے علاج کرنے کو کہتے ہیں۔

مسلمانوں!

ہمارے نبی ﷺ کی یہ شدید چاہت تھی کہ ہم اپنے پروردگار کے ساتھ حقیقی محبت کریں اور اس کی وحدانیت کا عملی اقرار کریں، چنانچہ انسانی زندگی میں جب کبھی ایسا موقع بھی آئے کہ انسان کو نا پسند یا حرام کام کرنے کی ضرورت پڑے مثال کے طور پر علاج معالجہ کا موقع ہے تو یہاں پر بھی نبی ﷺ اپنی امت کو عقیدہ توحید کی یاد دہانی کروائی کہ اس حالت میں بھی اللہ تعالی سے ہی شفا کی امید رکھیں اسی سے شفا مانگیں اور اس کے علاوہ کسی سے امید مت لگائیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی مریض کی عیادت فرماتے تو کہتے:

اَللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ،أَذْهِبِ الْبَأْسَ، اِشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ،لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَّا يُغَادِرُ سَقَمًا

یا اللہ !لوگوں کے رب! تکلیف ختم کر دے، تو شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے سوا کوئی شفا ہی نہیں، ایسی شفا دے کہ کوئی بیماری باقی نہ بچے) متفق علیہ

اسی طرح آپ ﷺ نے عثمان بن ابو العاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا  جب انہوں نے آپ ﷺ سے جسم میں تکلیف کی شکایت کی جو انہیں اسلام قبول کرنے کے وقت سے لاحق تھی، تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا: (درد کی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھو اور تین بار کہو: بِسْمِ اللهِ” اور پھر سات بار کہو:

 أَعُوْذُ بِاللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ

میں اللہ تعالی اور اس کی قدرت کی پناہ چاہتا ہوں ہر اس شر سے جو میں محسوس کر رہا ہوں یا جس کا مجھے خدشہ ہے) مسلم

اسلامی بھائیوں!

پیارے نبی ﷺ کی جانب سے عقیدہ توحید کا مکمل خیال اور اہتمام کرنے کا ایک مظہر یہاں بھی واضح ہوتا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے کہہ دیا: “جو اللہ  ،نبی کی مرضی!” تو نبی ﷺ نے فرمایا: (کیا تم نے مجھے اللہ تعالی کے برابر کر دیا ہے؟ صرف اتنا کہو: جو اللہ کی مرضی) احمد، ابن ماجہ۔ اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (تم یہ نہ کہو کہ جو اللہ اور فلاں کی مرضی، بلکہ یوں کہو کہ پہلے اللہ کی مرضی پھر فلاں کی )

نیز ہمارے نبی ﷺ نے اپنی امت کا خیال رکھتے ہوئے ہر اس چیز سے بھی خبردار کیا جو توحید کی حقیقت سے متصادم ہے یا عقیدہ توحید کے بنیادی امور سے ٹکراتی ہے، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کو مخاطب کیا اور فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی تمھیں اپنے آبا کی قسمیں اٹھانے سے منع فرماتا ہے، جس نے قسم اٹھانی ہو وہ اللہ کی قسم اٹھائے یا خاموش ہو جائے) عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “اللہ کی قسم! جب سے میں نے نبی ﷺ سے یہ سنا ہے اس وقت سے اب تک نہ خود  آبا کی قسم اٹھائی ہے اور نہ ہی کسی کی قسم حکایت کی ہے” متفق علیہ

اسی طرح اہل علم کے ہاں ایک حسن حدیث میں ہے کہ: (جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی تو اس نے کفر یا شرک کیا)

مسلمانوں!

اگر تمھیں دنیا و آخرت میں کامیابی چاہیے، دنیا میں غلبہ، کامرانی، نجات اور سعادت چاہیے تو پھر عقیدہ توحید کو اپنا لو، توحیدِ خالص ہر وقت اپنے سامنے رکھو، اور زندگی اپنے خالق کی عبادت کرنے کے لئے گزارو:

وعبادةُ الرحمنِ غايةُ حُبِّه

مع ذُلِّ عابدِه هما قُطبَانِ

عابد عاجزی کے ساتھ رحمن کی عبادت  کرے یہ  اس کی محبت کا مقصد ہے  نیز عاجزی و محبت دونوں عبادت کے بنیادی محور ہیں۔

اپنے خالق کی عبادت اور تعظیم کرنے کے لئے زندگی گزارو، ہر حالت میں اسی کے ساتھ لو لگاؤ، اپنے قلب و جان کو خالق سے جوڑو، نماز، زکاۃ، حج اور تمام اسلامی شعائر اسی بنیادی اصول کے لئے ہیں، لہذا ایسا ممکن نہیں ہے کہ کوئی نمازی نماز بھی پڑھے اور پھر غیر اللہ کے سامنے بھی جھکے!

اعضا سے وہی کام کرو جو اللہ تعالی کو پسند ہوں، تمہارے مقدر میں خیر لکھ دی جائے گی اور اجر عظیم پا کر کامیاب ہو جاؤ گے

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (13) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

الاحقاف – 13/14

ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اس پر ڈٹ گئے انہیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہونگے۔ یہی لوگ ہیں جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، یہ ان کے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ ہے۔

اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو سچا موحد بنائے، اور اپنے خالق کی خوب تعظیم  کرنے کی توفیق دے، اسی پر اکتفا کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش  مانگو وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

میں اپنے رب کی حمد بیان کرتا ہوں اور اسی کا شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں  کہ اللہ علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُسکے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں، اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانوں!

عقیدہ توحید کی حفاظت  کے لئے نبی ﷺ نے انسانوں کے ذہن میں آنے والی وہمی باتوں سے بھی منع فرمایا چنانچہ عمران رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: (وہ ہم میں سے نہیں جس نے فال نکالی یا جس کے لئے فال نکالی گئی، جس نے کہانت کی یا جس کے لئے کہانت کی گئی، جس نے خود جادو کیا یا جس کے لئے جادو کیا گیا) اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔

اسی طرح معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:  “اللہ کے رسول! ہم جاہلیت میں کچھ کام کیا کرتے تھے، ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (کاہنوں کے پاس مت جاؤ) معاویہ کہتے ہیں میں نے کہا: “ہم بد شگونی لیا کرتے تھے” -بد  شگونی سے مراد یہ ہے کہ جو آپ کو کسی کام کے لئے پیش قدمی یا پسپائی کا باعث بنے-تو آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ دل میں آنے والے خدشات ہیں تمھیں کسی کام کرنے سے نہ روکیں) مسلم

اپنے آپ کو قرآن کے راستے پر ڈال دو اور اپنی زندگی کے لئے خانوادہِ عدنان کے سربراہ ﷺ  کی سیرت اپنا لو۔

اللہ تعالی نے تمھیں ایک عظیم کام کا حکم دیا ہے اور وہ ہے نبی ﷺ پر کثرت سے درود و سلام بھیجیں۔

یا اللہ! ہمارے نبی محمد اور ان کی آل و صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرما۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی تکالیف رفع فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی تکالیف رفع فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی تکالیف رفع فرما، یا اللہ! یمن، شام، عراق اور دیگر تمام مسلم ممالک میں ہمارے مسلمان بھائیو کی مصیبتیں رفع فرما۔

یا اللہ! انہیں دوبارہ امن و امان عطا فرما، یا اللہ! ان پر امن و امان نازل فرما، یا اللہ! غلبہ و سلطانی امت مسلمہ کے لئے لکھ دے، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! مؤمن مردو  خواتین کو بخش دے، مسلمان مرد و خواتین کو بخش دے، زندہ و فوت شدہ سب کو معاف فرما۔

یا اللہ! مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران عطا فرما، یا اللہ! جو بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مکاری کرے  اس پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! اس ملک میں مسلمانوں کے حکمران خادم حرمین شریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں اور ان کے دونوں نائبوں کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال والاکرام!

یا اللہ! مسلمانوں سے فتنوں کو مٹا دے، یا اللہ! مسلمانوں سے فتنوں کو مٹا دے۔

یا اللہ! ہمارے فوجیوں کی ہر جگہ پر حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے سکیورٹی فورس کے جوانوں کی ہر جگہ پر حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے سکیورٹی فورس کے جوانوں کی ہر جگہ پر حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں بہترین جزائے خیر عطا فرما، یا اللہ! انہیں بہترین جزائے خیر عطا فرما، یا ذو الجلال والاکرام!

یا اللہ! مسلم ممالک کو ہر قسم کے شر و نقصان سے محفوظ فرما، یا اللہ! مسلم ممالک کو ہر قسم کے شر و نقصان سے محفوظ فرما، یا اللہ! مسلم ممالک کو ہر قسم کے شر و نقصان سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہم مہنگائی اور وبائی امراض سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہم مہنگائی اور وبائی امراض سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہم مہنگائی اور وبائی امراض سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہم ظاہری و باطنی فتنوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! یا غنی! یا حمید! ہمیں اور مسلم علاقوں میں بارش نازل فرما،  یا اللہ! ہمیں اور مسلم علاقوں میں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں اور مسلم علاقوں میں بارش عطا فرما۔

یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! جانوروں کی وجہ سے ہم پر رحم فرما، یا اللہ! جانوروں کی وجہ سے ہم پر رحم فرما، یا ذو الجلال و الاکرام! یا غنی! یا حمید! یا رحمن! یا رحیم!

اللہ کے بندو! اللہ کا خوب ذکر کرو۔ اور ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ: آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔