اپریل فول کی حقیقت

آج مغرب کی کتنی ہی اخلاقی وبائیں اور غلط رسم و رواج ہیں جو ہمارے سماج اور معاشرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔

“اپریل فول” بھی جو یہودیوں کی طرف سے  ہے ، اسی قسم کی خلاف مروت، خلافِ تہذیب اور جاہلیت کی بات ہے جو ہمارے معاشرے میں در آئی ہے۔ ہماری نئی نسل خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقہ اسے گرمجوشی سے مناتا ہے اور اسی کو عین روشن خیالی تصور کرتا ہے۔ یہ اخلاقی وباء یکم اپریل کو منایا جاتا ہے۔ اس دن لوگ ایک دوسرے سے مذاق اور استہزاء کرتے اور ایک دوسرے کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اس سلسلے میں عوام تو کجا حد یہ ہے کہ اب طلباء بھی اپنے محترم اساتذہ کے ساتھ یہ خلاف مروت اور حماقت پر مبنی رسم کلاس روم میں انجام دیتے ہیں۔ اس دن عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اخبارات کی سرخیوں میں سنسنی خیز خبریں شائع کی جاتی ہیں جسے پڑھ کر لوگ تھوڑی دیر تک حیرت میں پڑھ جاتے ہیں، بعد میں پتہ چلتا ہے کہ آج یکم اپریل “اپریل فول” کا دن ہے تو حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔

اپریل فول کے آغاز کی حکایت بہت ہی مضحکہ خیز اور دلچسپ ہے۔ مضحکہ خیز محض اس وجہ سے کہ عقل و خرد کے دعویداروں نے اس کو اپنانے میں کیسی بے عقلی اور حماقت کا ثبوت دیا ہے۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا نے اس کی تاریخی حیثیت پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی ہے۔

بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا۔ اس مہینے کو رومی اپنی دیوی وینس کی طرف منسوب کر کے مقدس سمجھا کرتے تھے۔ چونکہ یہ سال کا پہلا دن ہوتا تھا ، اس لئے خوشی میں اس دن کو جشن و مسرت کے طور پر منایا کرتے تھے اور اظہار خوشی کے لئے آپس میں استہزاء و مذاق کیا کرتے تھے۔ یہی چیز آگے چل کر اپریل فول کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ 21 مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے کچھ اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذاللہ) قدرت ہمارے ساتھ مذاق کر کے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے (یعنی کبھی سردی ہوجاتی ہے تو کبھی گرمی بڑھ جاتی ہے، موسم کے اس اتار چڑھاؤ کو قدرت کی طرف سے مذاق پر محمول کیا گیا) لہذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کردیا۔

انسائیکلو پیڈیا لا روس میں اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہےکہ:

جب یہودیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کو گرفتار کر لیا اور رومیوں کی عدالت میں پیش کیا تو رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے سیدنا عیسی علیہ السلام کے ساتھ مذاق ، تمسخر ، استہزاء اور ٹھٹھا کیا گیا ، ان کو پہلے یہودی سرداروں کی عدالت میں پیش کیا گیا پھر پیلاطس کی عدالت میں فیصلہ کے لئے بھیجا ایسا محض تفریحاً کیا گیا (معاذاللہ)

بائبل میں اس واقعہ کو یوں نقل کیا گیا ہےکہ:

جب لوگ سیدنا عیسی علیہ السلام کو گرفتار کئے ہوئے تھے تو وہ ان کا ٹھٹھا اڑاتے اور ان کی آنکھیں بند کر کے منھ پر طمنچے مارتے تھے اور ان سے یہ کہہ کر پوچھتے تھے کہ بتاؤ کہ کس نے تم کو مارا اور طعنے دے دے کر بہت سی باتیں ان کے خلاف کہتے تھے۔ (معاذاللہ)

فریدی وجدی کی عربی انسائیکلوپیڈیا

اس  سے بھی ان تفصیلات پر روشنی پڑتی ہے اور اس کے نزدیک بھی اپریل فول کی اصل وجہ یہی معلوم ہے کہ یہ سیدنا عیسی علیہ السلام کا مذاق اڑانے اور انہیں تکلیف پہنچانے کی یادگار ہے۔

واضح رہے کہ تمسخر و استہزاء اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں نہ کسی فرد کو دوسرے فرد سے تمسخر کرنے کی اجازت ہے اور نہ کسی جماعت کو دوسری جماعت کیساتھ استہزاء کی اجازت دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو مزید احتیاط سے کام لینا چاہئے ، لیکن افسوس صد افسوس مسلمانوں پر کہ جنہیں خیر امت کا اعزاز ملا ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہود و نصاریٰ کی صریح مخالفت کی تاکید کے باوجود آج وہ اپنے ازلی دشمن یہودو نصاریٰ کے جملہ رسم و رواج ، طرزعمل اور فیشن کو بڑی ہی فراخ دلی سے قبول کر رہے ہیں جب کہ انہیں اس سے بچنےاور احتیاط کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

الشیخ حماد امین چاولہ حفظہ اللہ: آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا ، آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔