’’اپنی زندگی کو آخرت کےلئے سنہری موقعہ سمجھیں‘‘

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں للہ کے لئے ہیں جس نے ہر چیز کو بہترین انداز سے بنایا۔

يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ

الزمر – 5

 وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے اور اس نے سورج چاند کو کام پر لگا رکھا ہے۔ ہر ایک مقررہ مدت تک چل رہا ہے یقین مانو کہ وہی زبردست اور گناہوں کا بخشنے والا ہے۔

میں اپنے رب کی تعریف اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں ،اور میں اسی کی طرف توبہ(رجوع) کرتا ہوں اور مغفرت مانگتا ہوں، اور میں گوائی دیتا ہوں  کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں،وہ واحد ہے اور زبردست طاقت والا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمد ﷺ اس کے بندے اور منتخب کئے  ہوئے رسول ہیں۔

یا اللہ!  اپنے بندے اور رسول محمد ﷺاور ان کی آل اور نیک و متقی صحابہ  رضی اللہ عنہم اجمعین پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرما۔

أما بعد!

اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے،اور اسلام کے مضبوط کڑے کو تھام لو؛ اور جو اللہ سے ڈرجاتا ہے  تو اللہ اسے برائیوں اور ہلاکتوں سے بچاتا ہے، اور سزاؤں کی رسوائی سے محفوظ کرلیتا ہے،اور وہ(شخص)  آخرت میں اپنے رب کی رضا اورجنتوں کو حاصل کرکے کامیاب ہوجاتا ہے۔

اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے،اور اسلام کے مضبوط کڑے کو تھام لو؛ اور جو اللہ سے ڈرجاتا ہے  تو اللہ اسے برائیوں اور ہلاکتوں سے بچاتا ہے، اور سزاؤں کی رسوائی سے محفوظ کرلیتا ہے،اور وہ(شخص)  آخرت میں اپنے رب کی رضا اورجنتوں کو حاصل کرکے کامیاب ہوجاتا ہے۔

اللہ کے بندوں!

بیشک تمھارے رب نے اس دنیا کو عمل (آخرت کی تیاری) کے لئے بنایا ہے، جس میں سب کا ایک وقت مقرر ہے،اور آخرت کو دنیاوی زندگی کے اعمال کا بدلہ دینے کے لئے بنایا ہے،اگر اعمال  اچھے ہوں گے تو  نتیجہ (بدلہ)بھی اچھا ہوگا، اور اگر برے ہوں گے تو نتیجہ بھی برا۔

اللہ تعالی نے فرمایا:

وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى

 اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ اللہ تعالٰی برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے ۔

اور فرمایا:

إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا

الکھف – 7

 جو چیز زمین پر ہے ہم نے اس کو زمین کے لیے آرائش بنایا ہے تاکہ لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے۔

اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات کو لوگوں کے لئے مسخر(تابع و فرماں بردار) کرکے انکے لئے آسانیاں فراہم کیں، اورانہیں بہترین اسباب مہیا کئے۔

اللہ کا فرمان ہے:

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً

لقمان – 20

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالٰی نے زمین اور آسمان کی ہرچیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے  اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں۔

اور فرمایا:

اللَّهُ الَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (12) وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

الجاثیة – 12/13

اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے دریا  کو تابع بنا دیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔اور آسمان و زمین کی ہر ہرچیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لئے تابع کر دیا ہے  جو غور کریں یقیناً وہ اس میں بہت سی نشانیاں پا لیں گے۔

اور فرمایا:

وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ (32) وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ (33) وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ

ابراهیم – 32/34

اور اسی نے  نہریں تمہارے اختیار میں کر دی ہیں ۔ اسی نے تمہارے لئے سورج چاند کو مسخر کر دیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں  اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے  اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے  یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔

غور و فکر اور اس کا فائدہ:

اور جب انسان غور و فکر کرتا ہے اور یہ جان لیتا ہے کہ اللہ نے اسے اتنی نعمتوں اور انعامات سے نوازا ہے،اور اسے کتنی پیاری اور خوبصورت صفات و عادات سے مالا مال کیا ہے، اور اسے نیکیاں کرنے اور  برائیوں اور حرام چیزوں  سے بچنے  کی توفیق دی ہے۔اور یہ بات بھی جان لیتا ہے کہ ہمیشہ کی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے؛ یا تو ہمیشہ کی نعمتیں یا دردناک عذاب۔یہ تمام باتیں جان کر ہی انسان اپنے وقت کو (دنیا کے فضول کاموں سے) بچانے کی جستجو میں لگ جاتا ہے اور اپنی  زندگی کے ہر لمحہ کو نیک کاموں میں مصروف رکھتا ہے،اور ایک اللہ کی طرف دعوت دینے والی شریعت کے ذریعہ اپنی دنیا کو سنوارلیتا ہے؛ تاکہ اس کی دنیا اس کے لئے اور اس کی اولاد کے لئے بہتر ہوجائے،اور اس کا بہترین نتیجہ نکلے۔

اور کسی بھی شخص کی دنیا اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ  قیمتی اور سیدھے دین پر عمل نہ کرے،اور اس دنیوی زندگی میں کوئی برکت نہیں جس پر دین اسلام کی نگرانی نہ ہو۔

دنیا اور آخرت کا موازنہ:

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا ﴿١٨﴾ وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا ﴿١٩﴾ كُلًّا نُّمِدُّ هَـٰؤُلَاءِ وَهَـٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ۚ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا

الاسراء – 18/20

جو کوئی (صرف) دنیا ہی چاہتا ہے، ہم اس کو یہیں دے دیتے ہیں جو کچھ ہمیں دینا ہوتا ہے، جس کو دینا ہوتا ہے، پھر جہنم ہی کو اس کا مقسوم بنا دیتے ہیں، جس میں اسے داخل ہونا ہوگا بدحال اور خوار ہو کر۔ اور (اس کے برعکس) جو کوئی آخرت کا طلب گار ہوگا، اور اس کے لئے وہ ایسی کوشش بھی کرے گا جیسی کوشش کہ اس کے لئے کرنی چاہیے، بشرطیکہ وہ ایماندار بھی ہو، تو ایسے لوگوں کی کوشش مقبول ہوگی۔ ہر ایک کو ہم بہم پہنچائے جاتے ہیں انہیں بھی اور انہیں بھی تیرے پروردگار کے انعامات میں سے۔ تیرے پروردگار کی بخشش رکی ہوئی نہیں ہے ۔

اور فرمایا:

فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ

التوبة – 55

پس آپ کو ان کے مال و اولاد تعجب میں نہ ڈال دیں  اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے  اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں۔

اور فرمایا:

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ

الاعراف – 32

آپ فرمادیجیے کہ اللہ تعالٰی کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیاء اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہونگی اہل ایمان کے لئے، دینوی زندگی میں مومنوں کے بھی ہیں۔

اے عقلمند:

کیا آپ کو شک ہے کہ دنیا  فناء ہونے والا سامان ہے،اور (ہمیشگی کی نہیں بلکہ) وقتی نعمتیں ہیں؟!اگر  آپ  اس کے بارے میں غفلت میں ہیں گرزجانے والے لوگوں سے عبرت حاصل کریں،اور اسی میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

 بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى

الاعلیٰ – 16/17

 لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ اور آخرت بہت بہتر اور بہت بقا والی ہے۔

تو ہمیشہ رہنے والی  آخرت کے لئے تیاری کریں،اورمحنت کریں تاکہ وہ نعمتیں حاصل ہوجائیں جو نہ ختم ہوں گی اور نہ ہی زائل ہوں گی،اور اس آگ سے بھی بچ جائیں جسکی گرمی بہت سخت ہے،اور اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے،اور اس میں جانے والوں کی غذا   ’زقوم ‘ہے، اور ان کے پینے کی چیز گرم پانی اور پیپ ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ (19) يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ (20) وَلَهُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ (21) كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ

الحج – 19/22

پس کافروں کے لئے تو آگ کے کپڑے ناپ کر کاٹے جائیں گے، اور ان کے سروں کے اوپر سے سخت کھولتا ہوا پانی بہایا جائے گا۔ جس سے ان کے پیٹ کی سب چیزیں اور کھالیں گلا دی جائیں گی۔ اور ان کی سزا کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہیں۔ یہ جب بھی وہاں کے غم سے نکل بھاگنے کا ارادہ کریں گے وہیں لوٹا دیئے جائیں گے اور (کہا جائے گا) جلنے کا عذاب چکھو ۔

صحیح مسلم کی حدیث ہے:

وعن أنسٍ – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله ﷺ: «يُؤتَى بأنعَم أهل الدنيا من أهل النار فيُصبَغُ في النار صبغَةً، ثم يُقال له: يا ابنَ آدم! هل رأيتَ خيرًا قط؟ هل مرَّ بك من نعيمٍ قط؟ فيقول: لا والله يا ربِّ، ما رأيتُ نعيمًا قط، ويُؤتَى بأشدِّ الناس بُؤسًا من أهل الجنة، فيُصبَغُ صبغةً في الجنة، فيُقال له: يا ابنَ آدم! هل رأيتَ بُؤسًا قط؟ هل مرَّ بك من شدَّةٍ قط؟ فيقول: لا والله يا ربِّ، ما مرَّ بي بُؤسٌ قط، ولا رأيتُ شدَّةً قط»

رواه مسلم

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جھنمی لوگوں میں سے دنیا میں سب سے زیادہ نعمتوں والے شخص کو (قیامت کے دن) لایا جائے گااور اسے آگ میں ایک غوطہ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گاکہ اے آدم کے بیٹے! کیا آپ نے کسی نعمت کو دیکھا ہے ؟ یا آپ کو کبھی کوئی نعمت ملی ہے؟  تو وہ کہے گا: اے میرے  رب!  نہیں،  اللہ کی قسم ، میں نے تو کسی نعمت کو دیکھا ہی نہیں،اور جنتیوں میں سب سے زیادہ دنیا میں تنگدست کو لایا جائے گا،اور اسے جنت کا ایک نظارہ دکھایا جائے گا،پھر اس سے کہا جائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! کیا آپ نے کبھی کوئی پریشانی دیکھی ؟ یا آپ کو کبھی کوئی پریشانی آئی؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! نہیں، اللہ کی قسم مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں آئی،اور نہ ہی میں نے کسی تکلیف کو دیکھا۔ ( مسلم)۔

اللہ کے بندوں!

اللہ کے پاس جو بھلائی ہے وہ اسی کی فرماں برداری سے حاصل ہوسکتی ہے،خبردار ! اللہ کا سامان بہت مہنگا ہے، خبردار ! اللہ کا سامان جنت ہے۔

اصل تجارت:

اور ذمہ دار کی عمر کا زمانہ ہی اصل تجارت ہے،اگر اسے نیکیوں میں صرف کرے تو کامیاب ہوجائے گا اور اگراسے فضول اور گناہوں میں ضائع کردے تو بدبخت گا، اور پاکیزہ،مبارت اور نفع دینے والی زندگی کا  مستﷺق وہ ہے جواپنی زندگی میں اللہ کے رسول ﷺ کے طور طریقوں کو اپناتا ہے۔

اور ذمہ دار کی عمر کا زمانہ ہی اصل تجارت ہے،اگر اسے نیکیوں میں صرف کرے تو کامیاب ہوجائے گا اور اگراسے فضول اور گناہوں میں ضائع کردے تو بدبخت گا، اور پاکیزہ،مبارک اور نفع دینے والی زندگی کا  مستحق وہ ہے جواپنی زندگی میں اللہ کے رسول ﷺ کے طور طریقوں کو اپناتا ہے۔

اور ہمارے نبی ﷺ کا طریقہ سب سے زیادہ مکمل ہے، جیسا کہ رسول ﷺ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا:

إن أحسنَ الحديث كتابُ الله، وخيرَ الهديِ هديُ محمدٍ ﷺ، وكلُّ بِدعةٍ ضلالةٌ

بیشک سب سے اچھی بات اللہ کی کتاب ہے،اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷺ کا ہے، اور ہر بدعت(دین میں نیا کام) گمرائی ہے۔ یہ روایت صحیح مسلم میں جابر رضي اللہ عنہ سے مروی ہے۔

نبیﷺ کا طریقہ ایک معیارِ زندگی ہے:

اور جس نے اپنی زندگی میں  ہمارے سردار اللہ کے رسول ﷺ کے طریقے کو اپنایا تو یقینا  اس نے مکمل بھلائی کو حاصل کرلیا،اور کامیابی کے ساتھ نعمتوں والے باغات اس کا مقدر بن گئے، اور جس نے ان (اللہ کے رسولﷺ) کے طریقہ کو چھوڑا تو اس سے بھلائی بھی مکمل طور پر چھوٹ گئی، اور جس نے ان(اللہ کے رسولﷺ) کے کچھ طریقوں (سنتوں یا حدیثوں)کو چھوڑا ،تو وہ اتنی ہی بھلائی سے محروم ہوگیا جس قدر اس نے نبیﷺ کی باتوں کو چھوڑا۔

بعض صحابہ  رضی الله عنهم کا یہ قول ہے:

“كنا نُعلِّمُ أولادَنا سيرةَ النبي – صلى الله عليه وسلم – كما نُعلِّمُهم القرآنَ الكريمَ”.

ہم اپنے بچوں کو نبی ﷺ کی سیرت کی تعلیم  اس طرح دیتے  تھےجسطرح  قرآن کریم کی تعلیم دیتے۔ اور انکی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ نبی علیہ السلام کی اقتداء کرنا، اورجو انہوں نے چاہا وہ پورا ہوا؛ اور وہ بہترین امت  بن گئے جسے لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے نکالا گیا۔

جائزہ لیجئے:

اگر ہر مسلمان اپنا جائزہ لے کہ وہ نبی ﷺ کی سنت پر کتنا عمل کرتا ہے اوراپنی عبادت،معاملات، اخلاص، دین کی مدد اورتمام احوال کی  استقامت میں وہ  ان(نبیﷺ) کے طریقوں کو اپناتا بھی ہے یا نہیں ؛ تو اسے اندازہ ہوجائے گاکہ اسکے عمل میں کتنی کمزوری ہے، اور اللہ تعالی کی مدد سے جتنا ممکن ہوسکے وہ اپنی کوتاہیوں کو دور کرسکے گا،اور اس کے معاملات سیدھے راستے پر گامزن ہوجائیں گے۔

بری عادتوں میں وقت ضائع کرنے سے بچیں:

اور ہر مسلمان کو غفلت ، علم نافع اور نیک عمل سے منہ موڑنے اور ایسے کاموں میں اپنی عمر ضائع کرنے سے بچنا چاہئے جو دین و دنیا میں کوئی فائدہ و نفع نہیں  دیتے، خاص طور پر  نوجوان جو ہر اس چیز کے بہت زیادہ ضرورت  مند ہیں جو ان کے دین، اخلاق اوربراءت کی حفاظت کرے اور انکے مستقبل کی  زندگی اور سعادت کی حفاظت کرسکے۔

اور انسانی زندگی کا ہر مرحلہ پچھلی زندگی سے متأثر ہوتا ہے،اور مسلمان کے لئے  اور خاص طور پر نوجوانوں کے لئےسب سے زیادہ نقصان دہ چیز یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر نقصان دہ سائٹس کو دیکھنااور ان سے متأثر ہونا  جو اسلامی اخلاق کو برباد کردیتی ہیں،  اور الحاد و فساد والی کتابوں کو پڑھنا،اور خواہشات کی پیروی کرنے والے اور ہلاکت والے کام کرنے والے برے لوگوں کی صحبت، اور ایسےکھلے سیریَل (سلسلہ وار پراگرام)میں وقت ضائع کرناجو بھلائی سے روکتےہیں  اور برائی اور حرام چیزوں کو خوبصورت  (لطف اندوز) بناکر پیش کرتے ہیں۔

مزیدبری عادتیں:

رات کو جاگنے کی عادت اور رات کی بجائے دن میں سونا؛ یہ ایسی نقصان دہ عادت ہے جو اگر کسی کو لگ جائے تواس کی طبیعت(فطرت) ۔۔۔۔۔ کو بدل دیتی ہے، اور زیادہ تر یہ عادت فارغ رہنے کی وجہ سے ہوتی ہے، اور کس نے یہ عادت اپنائی اسکا کام کم ہوجاتا ہے،اور پڑھائی پر برا اثر پڑتا ہے،اور اسی وجہ سے اکثر نوجوان اپنی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں،اور ایسے شخص کو جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں،اور ان عادات کو خوشگوار سمجھنے والوں کا اخلاق بگڑ جاتا ہے،اور صبرو تحمل کم ہوجاتا ہے، اورڈیوٹی دینے میں بھی خلل واقع(ظاہر)  ہوتا ہے،اور شیطانوں کا تسلط(غلبہ) ان پر مضبوط ہوجاتا ہے؛کیونکہ  شیطان رات کے وقت انسان سے وہ کچھ کرواسکتا ہے جو دن میں نہیں کرواسکتا۔

رات کی بجائے دن کو سونے سے عمر اور نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں، اور کبھی کبھار انسان جاگنے کی وجہ سے نشہ آور اشیاء اورٹیڑھ پَن کا شکار ہوجاتا ہے،اور نمازوں کو چھوڑنے لگتا ہے۔

نوجوانوں کی تربیت:

نوجوانوں کے مسائل تو بہت زیادہ ہیں،اور ان کا علاج ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ کے طریقہ یا راستہ کو مضبوطی سے تھامنا ہے،اور یہ بھی ضروری ہے کہ والدین،اساتذہ اور امت کے عقلمند افراد نوجوانوں کے لئے اور  خاص طور پر کم عمر (لڑکوں اور لڑکیوں)کے لئےبہترین  نمونہ (مثال) بنیں،کیونکہ وہ(لڑکے اور لڑکیاں) جو کچھ (معاشرے اور گھر میں ) دیکھتے ہیں وہی سب کچھ کرتے ہیں۔

اور استقامت پر ہر ایک کے ساتھ تعاون کرنے کا اللہ نے بھی حکم دیا ہے اور نبیﷺ نے بھی اسی کی ترغیب دلائی ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:

«مثَلُ المؤمنين في توادِّهم وتراحُمهم وتعاطُفهم كمَثَل الجسَد الواحد إذا اشتكَى منه عضوٌ تداعَى له سائرُ الجسَد بالسَّهَر والحُمَّى»

 مومنوں کی باہم محبت، رحم دلی اور ہمدردی  کی مثال ایک جسم کی مانند ہےکہ جب جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہوتا ہےتو اس کی وجہ سےپورا جسم رات کو جاگ کر بخار میں گزارتا ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (18) وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (19) لَا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ

الحشر – 18/20

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو  اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے ۔ اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ (کے احکام) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کر دیا  اور ایسے ہی لوگ نافرمان (فاسق) ہوتے ہیں۔اہل نار اور اہل جنت (باہم) برابر نہیں (۱) جو اہل جنت میں ہیں وہی کامیاب ہیں (جو اہل نار ہیں وہ ناکام) ہیں ۔

اللہ مجھے اورآپ کو قرآن عظیم میں برکت عطا فرمائے،اور  قرآنی آیات اور حکمت والے ذکر اور رسولوں کے سردار کے طریقہ اور ان کے سیدھے فرمان کے ذریعہ مجھے اور آپ کو نفع پہنچائے،میں اپنی یہ بات کہہ رہا ہوں اور اپنے،آپ کے اور تمام مسلمانوں کے لئےاللہ سے مغفرت مانگتا ہوں۔

دوسرا خطبہ

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو بلند اور عظمت والا ہے، جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے،صرف ہمارے رب کے لئے ہی نعمت اور فضیلت ہے اور صرف اسی کے لئے بہترین تعریف ہے، جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسکی  توبہ قبول کرلیتا ہے،اور وہ بہت بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے  والا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں،وہ بہت غالب اور حکمت والا ہے۔

اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے  نبی اور سردار محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے، اے اللہ اپنے بندے اور رسول محمدﷺ اور ان کی آل اور متقی صحابہ پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرما۔

اس کے بعد:

سب کے سامنے اور علیحدگی  میں اللہ سے ڈرو،وہ تمھارے اعمال کو سنوار دے گا، اور تمہارے انجام اور (اللہ کی طرف) لوٹ کر جانے کو بہتر بنا دے گا۔

اے مسلمانوں!

اللہ کی ظاہری اور پوشیدہ نعمتوں کو یاد کرو،اور جتنا ممکن ہو فرائض و نوافل کے ذریعہ ان (نعمتوں) کا شکر ادا کرو؛ اور اللہ کا شکر صرف اس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کی فرماں برداری کی جائے اور اسکی نافرمانی سے بچا جائے۔

مسلمانوں کی جماعت:

صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی حدیث ہے : نبی ﷺ نے خبر دی ہے کہ اس امت کی عافیت (سلامتی) ابتدائی لوگوں میں ہے،اور اس امت کے آخری افراد کو مصیبت آئے گی۔اور اللہ نے تمہاری عافیت ابتدائی لوگوں میں اس لئے رکھی ہے کیوں کہ انہوں نے  سنت کو تھام لیا؛ اور ان کے سنت کو تھامنے کی وجہ سےاللہ تبارک وتعالی نےانہیں ہر مصیبت سے محفوظ رکھا، اور امت کے آخری لوگوں پر ان کے اعمال (سنت کو چھوڑنے) کی وجہ سے مصیبتیں آئیں گی ۔

اور یقینا  اللہ  کے رسول ﷺ نے محرمات اور بدعات سے بچنے اوربلند درجات کے ساتھ کامیاب ہونے کا راستہ دکھایا ہے۔

اور فرمایا:

«أُوصِيكم بتقوى الله، والسمعِ والطاعةِ وإن تأمَّرَ عليكم عبدٌ، فإنه من يعِش منكم فسيرَى اختِلافًا كثيرًا؛ فعليكم بسُنَّتي وسُنَّة الخلفاء الراشدين المهديِّين، عضُّوا عليها بالنواجِذ، وإياكم ومُحدثات الأمور؛ فإن كل بدعةٍ ضلالة»؛ رواه الترمذي من حديث العِرباض بن سارِية – رضي الله عنه -.

 میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں اورسننے اور اطاعت کرنے کی(بھی) اگرچہ تم پر ایک غلام ہی حاکم بن جائے، اور تم میں سے جو شخص (دیر تک) زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا؛ تو (تمہارے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ) میری اور ہدایت یافتہ نیک خلفاء کی سنت کو تھام لو، اور اسے اپنی داڑھوں سے  پکڑلو، اور (دین میں) نئے کام سے بچو؛کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ یہ حدیث  ترمذی میں عرباض بن ساریہ رضی  اللہ عنہ سے مروی ہے۔

نبی علیہ السلام پر درود و سلام :

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

 اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ۔

اور اللہ نے تمہیں بھی اس کا حکم دیا ہے؛ اللہ عزوجل کا  مذکورہ  آیت میں یہی فرمان ہے۔

اس کا اتنا عظیم اجر ہے کی جس کا اندازہ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا۔

اور نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:

«من صلَّى عليَّ صلاةً واحدةً صلَّى الله عليه بها عشرًا».

جو مجھ پر ایک درود بھیجتا ہے اللہ اس پر اس(ایک درود) کے بدلے دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

تو آپ سب پہلے اور آخری لوگوں کے سردار پر درود و سلام بھیجیں۔

یا اللہ! ہمارے نبی محمد ﷺ اور انکی آل و ازواج اور اولادپر رحمتیں نازل فرما۔

اے اللہ! تمام صحابہ سے راضی ہوجا اور تابعین سے اور ان لوگوں سے جو قیامت تک ان (صحابہ) کےنقش قدم پر چلیں۔ اے اللہ! اورہدایت یافتہ ائمہ اور خلفائے راشدین: ابوبکر،عمر،عثمان و علی اورتمام صحابہ سے راضی ہوجا۔

اے اللہ! ان کے ساتھ ساتھ اپنے احسان ،کرم اور رحمت کے ذریعہ ہم سب سے بھی راضی ہوجا۔اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، کفر اور کافروں کو ذلیل  کردے، یا اللہ! شرک اور مشرکوں کو رسوا کردے اور اپنے  اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے اے تمام جہانوں کے پروردگار۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے پروردگار! ہمارے  اور تمام مسلم ممالک کو امن و سکون کا گہوارہ بنادے، فیاضی و کشادگی کی مثال بنادے۔

یا اللہ! ہمارےممالک کو ہر بروئی اور ناپسندیدہ چیز سے محفوظ فرمادے۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ایسے کام سے محفوظ فرما جو تیرے غصہ کا سبب بنے۔

اے اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اپنے رسول ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔

اے تمام جہانوں کے رب! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو بدعات سے بچا  وہ تو دین کو تباہ کردیتی ہیں، بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہمیں ہمارے وطنوں میں امن عطا فرما، یا اللہ ہمارے امیر کی اصلاح فرما۔

یا اللہ ! ہمارے امیر خادم حرمین شریفین کو  اس کام کی توفیق دے جسے تو پسندفرماتا اور اس سے راضی ہوتا ہے۔

یا اللہ ! یارب العالمین!  انہیں (امیر کو) اپنی ہدایت کی توفیق دے، اور اور اسکے عمل کو اپنی رضا کا باعث بنادے

یا اللہ! ہر اس کام کی اسے توفیق دے اور اسکی مدد فرما جس میں عوم،وطن اور مسلمانوں کی بھلائی ہو۔

اے تمام جہانوں کے رب! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔

یا اللہ! اس کے وزیرکوبھی ان کاموں کی توفیق دے جن سے تو خوش اور راضی ہو۔

یا اللہ! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اور تمام مسلمانوں کے فوت شدگان کو بخش دے،

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب!  ہمارے اور تمام مسلمانوں کے فوت شدگان کو بخش دے،

یا اللہ! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم پر بارش نازل فرما۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! ہم پر بارش نازل فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے

یا اللہ! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ مصیبتوں کو دور فرما،اور اس تنگی کو دور فرما جو  شام میں ہمارے مسلمان بھائیوں پر آپڑی ہے۔

یااللہ!  اے تمام جہانوں کے پروردگار!  ان سے (مصیبتوں کو ) دور فرما۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے پروردگار!  اسلام کے دشمنوں کے شر کے مقابلے میں  تو ان(مسلمانوں) کے لئے کافی ہوجا۔

اے اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کی اس پریشانی کو دور فرما۔ یا اللہ! ان کے رنج و غم کو دور فرما۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے پروردگار! ان کو ایسی مصیبت، پریشانی اور غم آئے ہیں جنہیں تیرے علاوہ کوئی نہیں ہٹا سکتا ،(یا اللہ! تو ہی ان کی مدد فرما)۔

ظالموں کے لئے بد دعا:

۱ـ یا اللہ! اے تمام جہانوں کے پروردگار! جنہوں نے ان پر ظلم و ستم کئے اور تسلط قائم کیا تو انہیں سزا دے۔

۲ـ اے تمام جہانوں کے پروردگار! جنہوں نے ان پر ظلم و ستم کئے اور تسلط قائم کیا تو انہیں عذاب دے۔ ۳ـ یا اللہ ! ان (ظالموں) پر اپنا  وہ عذاب نازل فرما جو جلد آنے والا ہو نہ کہ دیر سے آنے والا،بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اسے عبرت  حاصل والوں کے لئے عبرت بنادے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

القرة – 201

  اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے۔

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

النحل – 90/91

اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے،  وہ خودتمہیں نصیحتیں کررہاہےکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اور اللہ تعالٰی کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم آپس میں قول و قرار کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو، حالانکہ تم اللہ تعالٰی کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو  تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو بخوبی جان رہا ہے۔

آخری نصیحت:

اللہ کا ذکر کرو جو عظمت والا جلال والا ہے وہ تمہارا ذکر کرے گا، اور اسکی نعمتوں کا شکریہ ادا کرووہ تمہیں مزید عطا فرمائے گا۔اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے،اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

وآخرُ دعوانا ان الحمدُ للہ رب العالمین

   فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ: آپ ان دنوں مسجد نبوی کے امام ، قبل ازیں مسجد قباء کے امام تھے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوبصورت آواز میں بہترین لہجے میں قرات قرآن کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کے محبین موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ تادیر آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ۔آمین