مغرب نے قوموں کی ترقی کے لئے جس سماجی فلسفہ کو آگے بڑھایا ہے ، اس کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ترقی کے عمل میں عورتوں کی شرکت کے بغیر خاطر خواہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہ فقرہ تو تقریباً ضرب ُالمثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ درحقیقت اس طرح کے نعرے تحریک آزادیٴ نسواں کے علمبرداروں کی طرف سے شروع میں اُنیسویں صدی کے آغاز میں لگائے گئے تھے جو رفتہ رفتہ بے حد مقبولیت اختیار کر گئے۔ اس زمانے میں عورتوں کا دائرہ کار گھر کی چار دیواری تک محدود تھا اور عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہی سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے کی خاندانی اقدار میں کنبے کی معاشی کفالت کی اصل ذمہ داری مرد پر تھی اورعورت کا بنیادی فریضہ گھریلو اُمور کی انجام دہی، بچوں کی نگہداشت اور اپنے خاوندوں کے آرام و سکون کا خیال اور فارغ وقت میں عمومی نوعیت کے کام کاج کرنے تک محدود تھا۔
تحریک ِآزادیٴ نسواں کے علمبرداروں نے اس صورتحال کو مرد کی ‘حاکمیت’اور عورت کی بدترین ‘غلامی’ سے تعبیر کیا اور عورتوں کے اس استحصال کے خاتمے کے لئے یہ حل پیش کیا کہ انہیں بھی گھر کے باہر کی زندگی کے عشرت انگیز دائروں میں شریک ہونے کا موقع ملنا چاہئے۔ معاشرت، تعلیم، سیاست، صنعت و حرفت، ملازمت، غرض ہر شعبے میں عورت کی شرکت کو مرد کی حاکمیت او ر غلامی سے چھٹکارا کے لئے ذریعہ سمجھا گیا۔ ۱۸۰۰ء کے لگ بھگ تحریک ِآزادی ٴ نسواں کا آغاز ہوا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ مغرب میں خاندانی ادارہ اور سماجی اَقدار زوال کا شکار ہوگئی ہیں،مرد اور عورت کے فرائض اور دائرہ کار آپس میں خلط ملط ہوگئے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک تحریک ِآزادیٴ نسواں کے زیادہ تر مطالبات مساوی تعلیم کے مواقع اور عورتوں کو ووٹ کے حقوق دینے تک ہی محدود تھے۔ لیکن آج مغرب میں مساوی حقوق کا نعرہ ایک بہت بڑے فتنہ کا روپ دھار چکا ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام دائروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے-
امریکہ اور یورپ نے گذشتہ دو صدیوں کے درمیان جو محیرالعقول سائنسی ترقی کی ہے، اس میں عورتوں کے حصے کو اَصل تناسب سے کہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ محدود دائروں میں عورتوں کے کردار اور حصہ سے انکار ممکن نہیں ہے۔ البتہ مغربی معاشرے کی اجتماعی ترقی کامعروضی جائزہ لیا جائے تو تحریک ِآزادی ٴ نسواں کے علمبرداروں کے دعوے مبالغہ انگیز نظر آتے ہیں۔ مغرب کی مادّی اور سائنسی ترقی کے پس پشت کار فرما دیگر عوامل مثلاً جارحانہ مسابقت، مادّی ذرائع پر قبضہ کی ہوس، طبیعاتی قوانین کو جاننے کا جنون، مغربی استعمار کو نو آبادیات پر مسلط رکھنے کا عزم، ایشیا اور افریقہ کی منڈیوں پر قبضے کی جدوجہد، مغرب کی نشاةِ ثانیہ کے بعد مغربی معاشرے میں علوم و فنون میں آگے بڑھنے کا جذبہ، سرمایہ دارانہ نظام میں کام کی بنیاد پر ترقی کی ضمانت، مندی کی معیشت وغیرہ جیسے عوامل نے جو کردار ادا کیا ہے ، اس کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
قومی ترقی کے لئے کیا عورتوں کا ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ناگزیرہے؟ اس اہم سوال کا جواب ‘ہاں’ میں دینا بے حد مشکل ہے۔ اگر عورت اپنے مخصوص خاندانی فرائض کو نظر انداز کرکے زندگی کے ہر میدان میں شرکت کرے گی تو خاندانی ادارہ عدمِ استحکام کا شکار ہوجائے گا اور خاندانی ادارے کے عدمِ استحکام میں آنے کے منفی اَثرات زندگی کے دیگر شعبہ جات پر بھی پڑیں گے۔ مغرب میں یہ نتائج رونما ہوچکے ہیں۔!! اکیسویں صدی میں انسانی تہذیب کو جن فتنوں کا سامنا کرنا پڑے گا، ان میں تحریک ِآزادیٴ نسواں (Feminism) کا فتنہ اپنے وسیع اثرات اور تباہ کاریوں کی بنا پر سب سے بڑا فتنہ ہے۔ مغرب میں عورتوں کو زندگی کے مختلف شعبہ جات میں جس تناسب اور شرح سے شریک کر لیا گیا ہے، اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو دنیا ترقی کی موجودہ رفتار کو ہرگز برقرار نہیں رکھ سکے گی بلکہ اگلے پچاس سالوں میں انسانی دنیا زوال اور انتشار میں مبتلا ہوجائے گی۔ جو لوگ عورت اور ترقی کو باہم لازم وملزوم سمجھتے ہیں، انہیں یہ پیش گوئی مجذوب کی بڑ، رجعت پسندی اور غیر حقیقت پسندانہ بات معلوم ہوگی، لیکن اکیسویں صدی کے آغاز پر انسانیت جس سمت میں رواں دواں ہے، بالآخر اس کی منزل یہی ہوگی۔
پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو اس حقیقت کا اِدراک کر لینا چاہئے کہ مغرب کی اندھی تقلید میں خاندانی اداروں کوتباہ کر لینے کے باوجود وہ اُن کی طرح مادی ترقی کی منزلیں طے نہیں کرسکتے۔ مزید برآں مغربی ممالک کی سائنسی و صنعتی ترقی کلیتاً عورتوں کی شرکت کی مرہونِ منت نہیں ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برطانیہ، فرانس،جرمنی، ہالینڈ، پرتگال، سپین اور دیگر یورپی ممالک اس وقت بھی سائنسی ترقی کے قابل رشک مدارج طے کرچکے تھے جب ان ممالک میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں ملا تھا۔ ۱۸۵۰ء تک صنعتی انقلاب نے پورے یورپی معاشرے میں عظیم تبدیلی برپا کر دی تھی۔ ۱۹۰۰ء تک مذکورہ بالا یورپی اقوام نے افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک کو اپنا غلام بنا لیا تھا۔ جنگ ِعظیم دوم سے پہلے ان ممالک میں عورتوں کا ملازمتوں میں تناسب قابل ذکر نہیں تھا۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جنگ عظیم دوم میں مرنے والے کروڑوں مردوں کے خلا کو پر کرنے کے لئے یورپی معاشرے میں عورتوں کے بادل نخواستہ باہر نکلنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
ترقی اور جاپان:
آج کے دور میں جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جاپان کی صنعتی ترقی اور انڈسٹری نے امریکہ اور یورپ کو منڈی کی معیشت میں عبرت ناک شکستیں دیں۔ ۱۹۹۰ء سے پہلے جاپان کی اشیا نے امریکہ اور یورپ کی منڈی کو اپنے شکنجہ میں کسا ہوا تھا۔ ۱۹۹۰ء سے پہلے تک جاپانی معاشرہ مغرب کی Feminism تحریک کے اثرات ِفاسدہ سے محفوظ تھا۔ حیران کن صنعتی ترقی کے باوجود جاپانی معاشرے نے اپنی قدیم روایات اور خاندانی اَقدار کو قابل رشک انداز میں برقرار رکھا۔ امریکہ اور یورپی ممالک جاپان کے ‘مینجمنٹ’ کے اصولوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی نصابی کتب میں جاپان کے اُصولوں کو شامل کیا۔ امریکہ اور یورپ کے صنعت کار جب جاپانی صنعت کاروں کا مقابلہ نہ کرسکے تو بالآخر انہوں نے جاپانی معاشرے کی ثقافت اور اَقداری نظام کو بدلنے کی سازش تیار کی۔
۱۹۹۰ء کے عشرے میں مغربی میڈیا نے جاپانی ثقافت پر مغربی تہذیب کی یلغار شروع کی۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے جاپان کوOpenکرنے کے لئے مسلسل جاپانی حکومتوں پر دباؤ ڈالے رکھا۔ صدر ریگن اور جارج بش نے جاپانی راہنماؤں سے ہر ملاقات میں اس شرط کو دہرایا کہ جاپان سے ہر سال ایک مخصوص تعداد میں اَفراد امریکہ اور یورپی ممالک کی سیر کریں۔ جاپانی سینماؤں اور ٹیلی ویژن پر امریکی فلمیں اور ثقافتی پروگرام شروع کرنے کا دباؤ بھی ڈالا گیا۔ جاپان کی معروف صنعتی فرموں کو مجبور کیا گیا کہ و ہ اپنے ایگزیکٹوز کو یورپ اور امریکہ کی سیر پر جانے کی ترغیب دیں۔ اس طرح کے سینئر مینیجرزکے لئے دیگر سفری الاؤنس کے ساتھ ایک نوجوان دوشیزہ کو اپنے ساتھ رکھنے کے الاؤنس بھی منظو رکرائے گئے۔ امریکی ہوٹلوں نے جاپانی سیاحوں کو رعایتی نرخ پر سہولیات اور شباب و کباب کی تعیشات مہیا کیں۔ امریکیوں نے ملازمتوں میں مساوی حقوق کی شرط بھی جاپان سے منوائی۔ جاپان میں عورتوں کو اب بھی نسبتاً غیر پیداواری سمجھا جاتا ہے۔
۱۹۹۶ء میں ہفت روزہ ‘ٹائم’ میں ٹویوٹا کمپنی کے چیئرمین کا انٹرویو راقم الحروف کی نگاہ سے گزرا تھا جس میں امریکی صحافی نے ٹویوٹا میں عورتوں کی تعداد نہایت کم ہونے کی وجہ دریافت کی تھی۔ اس کے جواب میں ٹویوٹا کے چیئرمین کا جواب نہایت دلچسپ تھا، اس نے کہا تھا:
“We have already enough decoration flowers in our company” یعنی “ہمارے ہاں پہلے ہی سجاوٹی پھول کافی ہیں۔”
ء کے بعد جاپانی معاشرے پر مغربی تہذیب اورFeminism کے اَثرات جس تناسب سے بڑھے ہیں، اُسی رفتار سے ان کی صنعتی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے اور آج جاپان جو ماضی قریب میں بہت بڑاصنعتی دیو سمجھا جاتا تھا، ا س کے بارے میں پیش گوئیاں کی جارہی ہیں کہ اس کی معیشت مستقبل قریب میں شدید بحران کا شکار ہوجائے گی۔ اس کی بنکوں کی صنعت آج کل بحران سے گزر رہی ہے۔ اس کی کمپیوٹر کی صنعت جس نے امریکی صنعت کاروں کے ہوش اڑادیئے تھے، آج کل سست رفتاری کا شکار ہے۔ جاپان کی مایہ ناز ثقافتی اَقدار کا جنازہ نکل رہا ہے۔ نوجوانوں میں جنسی جرائم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ معاشرہ سخت کشمکش سے دوچار لگتا ہے۔ جاپان کی نوجوان نسل میں محنت کی بجائے فیشن پرستی، آزاد روی اور آوارگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے جاپان کے متعلق ایک تعجب انگیز خبر پڑھنے کو ملی تھی۔ وہ یہ کہ جاپانی حکومت اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے ان عورتوں پر بھی ٹیکس لگانے کا قانون بنا رہی ہے جو اب تک گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں اور ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ IMFاور مغرب کے معاشی جادوگر پریشان حال جاپانیوں کو یہ پٹی پڑھا رہے ہیں کہ اگرتم اپنی معیشت کو سنبھالا دینا چاہتے ہو تو اپنی عورتوں کو گھروں سے باہر نکالو۔ بے حد تعجب ہے، جاپانی قیادت اُن کے اس فریب کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔!!
خاندانی اقدار کی تباہی
ادھر سکنڈے نیویا کے ممالک جہاں سیاست اور ملازمت میں عورتوں کا تناسب پوری دنیا کے مقابلے میں زیادہ ہے، وہاں خاندانی اَقدار کی تباہی نے انہیں پریشان کر رکھا ہے۔ وہاں عورتیں گھر کو’جہنم’ سمجھتی ہیں، ماں بننے سے گریز کرتیں اور بچوں کی نگہداشت پر توجہ نہیں دیتی ہیں۔انہیں گھر سے باہر کی زندگی کا ایسا چسکا پڑا ہوا ہے کہ وہ گھریلو زندگی کو اَپنانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بے نکاحی ماؤں اور حرامی بچوں کا سب سے زیادہ تناسب سکنڈے نیویا میں ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے شہرئہ آفاق ہفت روزہ ‘اکانومسٹ’ نے ۲۳ جنوری ۱۹۹۹ء کی اشاعت میںA Survey of Nordic Countries کے عنوان سے سکنڈے نیویا کے پانچ ممالک ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ کے متعلق ایک تفصیلی جائزہ شائع کیا ہے۔ یہ ممالک جو Feminismتحریک کے بہت زیادہ زیر اَثر ہیں اور جہاں عورتوں اور مردوں کی مساوات کو بے حد مضحکہ خیز طریقہ سے قائم کرنے کی صورتیں نکالی جاتی ہیں، ان کے متعلق بعض حقائق بے حد تعجب انگیز اور عبرت ناک ہیں۔مثلاً اکانومسٹ کے مذکورہ سروے میں ناروے کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہاں کی حکومت جوان لڑکیوں کو ‘ماں’ کی ترغیب دینے اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے مالی فوائد Incentivesبہم پہنچانے کے لئے قانون پارلیمنٹ میں پیش کرچکی ہے۔ اس قانون کا بنیادی مقصد اِن عورتوں کو گھر میں بیٹھنے کی ترغیب اور حوصلہ افزائی بتایا گیا ہے۔ اس قانون کی مخالفت محض انتہا پسندوں کی ایک اقلیت کر رہی ہے جن کا زیادہ تر تعلق لیبر پارٹی سے ہے۔ وہ اسے صنفی مساوات کے اُصولوں کے منافی قرار دیتے ہیں۔ ناروے کے بارے میں ایک اور بات بھی تعجب سے کم نہیں کہ اس ملک کے وزیراعظمBendevicکا تعلق کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، جو ماضی میں پادری رہ چکے ہیں۔ پاکستان کے آزادئنسواں کے اِن جنونی علمبرداروں کو ناروے کی مثال پر غور کرنا چاہئے جو عورتوں کو گھر میں بٹھانے کی ہر بات کو رجعت پسند ملا کی ناروا ہدایت سمجھ کر مسترد کر دیتے ہیں۔
عالمی معیشت
زندگی کے تمام شعبوں میں عورتوں کی غیر ضروری شمولیت نے جہاں سماجی اور اخلاقی برائیوں کو جنم دیا ہے، وہاں عالمی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ عالمی معیشت کو دو واضح خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یعنی مینوفیکچرنگ اور سروسز(اشیا سازی اور خدمات)․ گذشتہ پندرہ بیس برسوں میں عالمی معیشت میں سروس سیکٹر کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی ۷۰ فیصد معیشت سروس سیکٹر پرمشتمل ہے۔ سروس سیکٹر کے پھلنے پھولنے کی ایک اہم وجہ لیبر فو رس میں عورتوں کے تناسب میں اضافہ بھی ہے۔ ہوٹل، بنک، جنرل سٹور، کمپیوٹر، اور دیگر خدمات بہم پہنچانے وا لے اداروں میں عورتوں کی ملازمتوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک میں ہر سال جو نئی ملازمتیں نکل رہی ہیں، ان میں عورتوں کی کھیپ مردوں سے زیادہ ہے۔ سروسز سیکٹر میں اضافے سے خام قومی پیداوار میں تو بظاہر اضافہ ہوا ہے لیکن بالآخر اس کے نتائج حقیقی ترقی کے لئے ضرر رَساں ثابت ہوں گے کیونکہ فقط خدمات ، اشیا سازی کے بغیر قومی ترقی میں اضافہ نہیں کرسکتیں۔!!
آزادیٴ نسواں اور ویلفیئرسٹیٹ
تحریک ِآزادیٴ نسواں اور مساوی حقوق کے فتنہ نے امریکہ، یورپ اور بالخصوص سکنڈے نیویا کے ممالک کی فلاحی ریاست کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں ان ممالک میں جس طرح ریاست کے وسیع فلا حی منصوبے سامنے آئے تھے، ان میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سے یہ صورت ہوگئی ہے کہ برطانیہ، ناروے، سویڈن وغیرہ ویلفیئر پر اٹھنے والے اخراجات میں مسلسل کمی کر رہے ہیں کیونکہ ان اخراجات کی وجہ سے ان کے بجٹ خسارے میں جارہے ہیں۔ یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ان ممالک کے فلاحی اخراجات کا بیشتر حصہ عورتوں پر خرچ ہوتا ہے۔ سکنڈے نیویا کے ممالک میں فلاحی اخراجات کی سب سے بڑی مد بچوں کے Day Careمراکز کا قیام، اور بے نکاحی ماؤں کی مالی امداد کے متعلق ہے۔ ان ترقی یافتہ ممالک میں علاج و صحت ِعامہ کی بہتر سہولیات کی وجہ سے شہریوں کی اَوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پنشنرزکی تعداد میں ہوش رُبا اضافہ ہوگیا ہے۔
چونکہ عورتوں کی اَوسط عمر میں اضافہ مردوں کی نسبت زیادہ ہوا ہے، اسی لئے پنشن پر اٹھنے والے اخراجات کا زیادہ حصہ بھی عورتوں پر ہی خرچ ہوتا ہے۔ ان معاشروں میں جنسی بے راہروی کا تناسب خطرناک حد تک زیادہ ہے، جس نے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی صحت پر زیادہ منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اسقاط ِحمل اور مانع حمل ادویات سے عورتوں کی صحت متاثر ہوئی ہے، مزید برآں زچگی کے دوران بھی ریاست فلاحی ضرورتوں کی کفالت کرتی ہے۔ لائف انشورنس کے لئے ریاست کو عورتوں پر نسبتاً زیادہ خرچ برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سکنڈے نیویا میں عورتوں پر اُٹھنے والے مجموعی اخراجات کا حجم قومی ترقی میں ان کے شراکتی حصہ سے کہیں زیادہ ہے۔ ورکنگ ویمن اپنی آمدنی کے علاوہ مردوں کی آمدنی کا بھی خاصا حصہ خرچ کر ڈالتی ہیں۔ ان کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ کسی تعمیری کام میں لگنے کی بجائے بناؤ سنگھار اور نمودونمائش پرہی خرچ ہوتا ہے۔ اکانومسٹ کے سروے کے مطابق سکنڈے نیویا میں سنہری دور کا خاتمہ ہونے کو ہے۔
علامہ اقبال نے آج سے ستر برس قبل یورپ کے متعلق کہا تھا :
یہی ہے فرنگی معاشرے کا کمال
مرد بے کار و زَن تہی آغوش
” مرد بے کار پھر رہے ہیں اور عورتوں کی گود خالی ہے کیونکہ وہ ماں بننے کیلئے آمادہ نہیں ہیں “۔
یہ صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو کر ہمارے سامنے آئی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں ‘اکانومسٹ’ نے ‘عورت اور کام’ کے عنوان سے مفصل سروے شائع کیا تھا۔ اس سروے میں امریکہ کے مختلف شہروں کے متعلق عورتوں کی ملازمت کے اَعدادوشمار دیئے گئے تھے۔ اس سروے میں یہ نتیجہ اَخذ کیا گیا تھاکہ گذشتہ تین برسوں میں جو نئی آسامیاں نکلی ہیں، ان کا تعلق سروس سیکٹر سے ہے جن میں زیادہ تر عورتوں کو ملازمتیں ملی ہیں۔ اس سروے کے مطابق ملازم عورتوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے مردوں کی بے روزگاری میں خطرناک اِضافہ ہوگیاہے۔ عورتوں کے متعلق یہ دلچسپ صورت بھی بیان کی گئی تھی کہ وہ دفتروں میں کام کے لئے صبح سویرے نکل کھڑی ہوتی ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں ان کے خاوند بچوں کی دیکھ بھا ل کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ اِسی سروے میں ایک تصویر شائع ہوئی تھی جس میں گھر کی دہلیز پر ایک عورت اپنا بچہ اپنے خاوند کے حوالے کر رہی ہے اور خود اس دہلیز کے باہر قدم رکھ رہی ہے۔ اس سروے میں ایک اور بات بھی قابل ذکر تھی کہ جس محلہ کی عورتیں کام کو سدھار جاتی ہیں تو پیچھے اُن کے مرد گھر پر بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہیں اور اس محلہ کے بچوں میں جرائم کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ جس طرح مائیں بچوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھتی ہیں، مرد وہ توجہ نہیں دے پاتے۔
مختصراً یہ کہ اگر عورتوں کی ملازمت کے نتیجے میں مردوں میں بے روزگاری پھیلتی ہے، تو یہ کسی بھی ملک کی مجموعی ترقی پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک ملک کی آبادی سو فیصد تعلیم یافتہ تو ہوسکتی ہے لیکن سو فیصد تعلیم یافتہ لوگوں کو روزگار مہیا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر تمام تعلیم یافتہ خواتین و حضرات اپنا مقصد ِتعلیم حصولِ ملازمت بنا لیں، تو ان کی اچھی خاصی تعداد کو بے روزگار رہنا پڑے گا۔ اس کے مقابلے میں اگر خواتین تعلیم کو حاصل کریں، مگر اپنے گھر کے نظم و نسق اور بچوں کی پیدائش و نگہداشت سے رُوگردانی نہ کریں، گھر سے باہر کے معاملات مردوں کے لئے چھوڑ دیں، تو اس صورت میں اس قوم کا خاندانی شیرازہ بھی قائم رہے گا اور پڑھے لکھے افراد میں ملازمت کا توازن بھی متاثر نہیں ہوگا۔ عورتوں کی ملازمتوں میں برابری پر زور دینے کی بجائے اگر مردوں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا جائے تو یہ معاملہ پہلے سے کہیں بہتر ہوگا۔
پاکستان اور ترقی
پاکستان میں مغرب کے اتباع اور مساوات ِمرد و زن کی غلط تعبیر کے نتیجے میں قومی دولت کا کثیر سرمایہ غیر پیداواری مدات میں خرچ ہو رہا ہے۔ چند سال پہلے لاہور ہائیکورٹ نے میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کے لئے مخصوص کوٹہ کو مساوات کے اُصول کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا حکم صادر کیا۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ بعض کالجوں میں طلبہ کی نسبت طالبات کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے مثلاً علامہ اقبال میڈیکل کالج میں۔ باوجودیکہ طالبات کے لئے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی سہولت الگ سے موجود ہے۔ ہائیکورٹ کو طالبات کے لئے الگ کالج کی سہولت میں تو ‘عدمِ مساوات’ کی بات دکھائی نہ دی البتہ دیگر مخلوط کالجوں میں ان کی عدمِ مساوات کا خاص خیال رکھا گیا۔ پاکستان کے معروضی حالات میں طالبات کی نسبت میڈیکل کے طلبہ کی زیادہ ضرورت ہے۔ میڈیکل کی طالبات کی اکثریت فارغ التحصیل ہونے کے بعد ملازمت نہیں کرتی۔ اگر کوئی خاتون ڈاکٹر ملازمت اختیار بھی کر لے تو لاہور، ملتان اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں سے باہر تعیناتی کے لئے بھی تیار نہیں ہوتیں۔ پنجاب میں شاید ہی کوئی بنیادی ہیلتھ مرکز ہو جہاں کوئی لیڈی ڈاکٹر کام کر رہی ہو۔ لاہور میں میو ہسپتال، جناح ہسپتال اور سروسز ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹرز کی بھرمار ہے۔ جہاں ایک کی ضرورت ہے وہاں کم از کم چار کام کر رہی ہیں۔ گویا چار کی تنخواہ لے رہی ہیں اور کام ایک کے برابر کر رہی ہیں۔ ان کی اکثریت چونکہ غیر پیداواری ہے، اسی لئے وہ قومی خزانہ پر بوجھ ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں کو میڈیکل کالج میں لڑکیوں کے لئے ‘اوپن میرٹ’ کا تصور قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمتوں میں ان کی تعیناتی کے متعلق مساوات کو بھی یقینی بنایا چاہئے۔بڑے شہروں سے باہر ملازمت نہ کرنے کے لئے وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اکیلی عورت ناسازگار ماحول میں بغیر کسی محرم مرد کے کس طرح کام کرے گی؟ یہ گویا بالواسطہ اعتراف ہے اس بات کا کہ عورتیں وہ سب کام نہیں کرسکتیں جو مرد سرانجام دے سکتے ہیں۔ مگر کھلے لفظوں میں کوئی بھی خاتون یہ اعتراف کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ اسے وہ اپنی شکست سمجھتی ہیں۔
راقم الحروف نے متعدد محکمہ جات میں خواتین کو کام کرتے دیکھا ہے، ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں ہے جو پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے مرد ملازمین کے برابر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہو۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جس کی خانگی زندگی بری طرح متاثر نہ ہوئی ہو۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کے نوجوان بے روزگاری کے بحران سے دو چار ہوں، وہاں ایسے شعبہ جات میں عورتوں کی تعیناتی جہاں مرد بھی کام کرسکتے ہوں، قوم کے معاشی مسائل میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ ایک لڑکے کا بے روز گار رہنا لڑکی کے بے روزگار رہنے سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ لڑکے پر مستقبل میں ایک پورے کنبہ کی کفالت کا بوجھ پڑنا ہوتا ہے۔ جبکہ خاندان کی معاشی کفالت عورت کی سرے سے ذمہ داری ہی نہیں ہے۔
عورتوں کی ملازمت کے متعلق ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ آج کل مہنگائی کے دور میں میاں بیوی دونوں کابرسر روزگار ہونا خاندان کے مجموعی وسائل میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ بعض استثنائی صورتوں میں تو شاید یہ بات درست ہو لیکن مجموعی اعتبار سے یہ مفروضہ مغالطہ آمیز ہے۔ ایک ملازم خاتون اپنی تنخواہ سے کہیں زیادہ یا کم از کم اِس کے قریب قریب اپنے لباس کی تیاری، میک اَپ، ٹرانسپورٹ، اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے آیا کے بندوبست، گھر میں نوکرانی کی تنخواہ وغیرہ پر خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ایک سترہ گریڈ کے افسر کی ماہانہ تنخواہ چھہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ جبکہ مذکورہ اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں عدمِ سکون، بے برکتی اور بدنظمی کا سامنا الگ کرنا پڑتا ہے۔ ایک ملازم پیشہ عورت خود بھی پریشان ہوتی ہے اور اپنے خاوند اور بچوں کو بھی پریشان کرتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ قومی ترقی میں کوئی مثبت کردار کیسے اَدا کرسکتی ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ ملازم عورتیں اپنے خاوندوں کا بہت سارا وقت برباد کر دیتی ہیں۔ وہ دعویٰ تو ‘برابری’ کا کریں گی، لیکن انہیں دفتر لے جانے اور لے آنے کی ذمہ داری ان کے خاوند ہی کو نبھانی پڑے گی۔ گویا اُن کی ملازمت کی وجہ سے اُن کے خاوند بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔
ترقی یافتہ معاشروں میں معاشی ترقی کی رفتار میں ٹھہراؤ یا کمی آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کی افرادی قوت میں نوجوان طبقہ کی تعداد میں کمی و اقع ہوگئی ہے۔ کام کے قابل افرادی قوت میں کمی کا سبب وہاں کی عورتوں میں بچے پیدا نہ کرنے کا رحجان ہے۔ پاکستان میں ۴۵ /فیصد آبادی پندرہ سال سے کم عمر افراد پر مبنی ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بوڑھوں کے تناسب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب اگر وہ نئی صنعتیں قائم کرنا چاہیں، نئے منصوبہ جات لگانا چاہیں تو ان کے پاس مطلوبہ افرادی قوت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو درآمد کرتے ہیں اگر ان ممالک سے ایشیائی اور افریقی محنت کشوں کو نکال دیا جائے تو یہ سخت معاشی بحران سے دو چار ہوجائیں گے۔ یہ ایک تناقض فکر ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک میں آبادی کے اضافہ کے رحجان پر سخت تشویش میں مبتلا رہتے ہیں، لیکن ان ترقی پذیر ممالک کی اضافی آبادی ہی ہے جو اُن کی معیشت کو سنبھالے ہوئے ہے۔
امریکہ میں عورت
عالمی ذرائع ابلاغ امریکی عورت کی جو تصویر آج کل پیش کررہے ہیں، چند دہائیاں قبل امریکی سماج میں عورت کا یہ روپ ہر گزنہ تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکہ میں زبردست تحریک شروع ہوئی کہ عورتوں کو کارخانوں اور دفتروں کی ملازمت سے نکال کر واپس خانہ داری کے اُمور کی طرف راغب کیا جائے۔ امریکی دانشوروں نے عورت کے لئے ممتا کے کردار کو نہایت قابل احترام بناکر پیش کیا اور کہا کہ خانگی معاملات کو ان کی پہلی ترجیح ہونا چاہئے۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں امریکہ میں اُمورِ خانہ داری پر اس قدر زور دیا گیا کہ اسے بعد کے موٴرخ Ultra-domesticityیعنی ‘بے تحاشا خانہ داری’ کا عشرہ کہہ کر پکارنے لگے، اور یہ بات بھی حیران کن ہے کہ یہی دور امریکی معاشرے کی خوشحالی اور معاشی ترقی کے اعتبار سے ‘زرّیں دور’ خیال کیا جاتا ہے۔
آج امریکہ کے سلیم الطبع دانشور جو مادر پدر آزاد نسل کے رویے سے بے حد پریشان ہیں، وہ ۱۹۵۰ء کی دہائی کو امریکی معاشرے کے لئے ماڈل (نمونہ) قرار دیتے ہیں۔
ان کا فلسفہ یہی ہے کہ گھر عورت کی جنت ہے، معاشرے کا اجتماعی سکون گھریلو ماحول کو پرسکون رکھے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے عورت کا گھر پر رہنا ضروری ہے۔ اس موضوع پر راقم کی نگاہ سے متعدد کتابیں گزری ہیں، مگر ان میں سے ایک کتاب تو ایسی ہے کہ جسے پہلی دفعہ پڑھ کر حیرت و استعجاب کے ساتھ عجیب روحانی نشاط بھی محسوس ہوا۔ اس کتاب کا عنوان ہے:
“A Lesser life: The Myth of Women’s Liberation” یعنی “حیاتِ کمتر: عورتوں کی آزادی کا واہمہ”
مذکورہ کتاب کی مصنفہ ایک امریکی خاتون سلویا این ہیولٹ (Sylvia Ann Hewlett) ہیں جو برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی اور امریکہ کی ہاروڈ یونیورسٹی سے اعزاز کے ساتھ تعلیم مکمل کرچکی ہیں، وہ اکنامکس میں پی ایچ ڈی ہیں اور امریکہ کی ‘اکنامک پالیسی کونسل’ کی ڈائریکٹر ہیں۔ نیو یارک ٹائمز میں باقاعدگی سے لکھتی ہیں اور نصف درجن کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ میرے خیال میں وہ پاکستان کی انسانی حقوق کی علمبردار کسی بھی خاتون سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ عورتوں کی ملازمت کے حوالے سے پیش آمدہ مسائل ان کی دلچسپی کا خاص محور رہے ہیں وہ عورتوں کے حقوق کی علمبردار تو ہیں مگر ‘تحریک ِآزادیٴ نسواں’ کے نظریات سے اختلاف رکھتی ہیں کیونکہ اس تحریک نے عورتوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کیا ہے۔
ہیولٹ نے اپنی اس کتاب کے ایک باب کا عنوان رکھا ہے :
“Ultra-domesticity: The return to Hearth and Home” یعنی “بے تحاشا خانہ داری؛ گھر کی طرف مراجعت”
یہ تمام کا تمام باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں اس سے چند ایک اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں۔ ہیولٹ صا حبہ لکھتی ہیں:
“In the United States the picture was dramatically different. In the 1950’s Women with college degrees in the child-bearing group had a lower rate of employment than any other group of Women, for the plain fact was Women with college degrees were ofien married to pros- perous men. And in America in the fifties, if the family could afford it, the wife stayed at home.”
“ریاست ہائے متحدہ کا منظر ڈرامائی طور پر مختلف تھا۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں کالجوں سے فارغ التحصیل وہ نوجوان خواتین جو بچے پیدا کرنے کی عمر رکھتی تھیں، ان میں ملازمت کی شرح عورتوں کے کسی بھی دوسرے گروہ سے کم تھی۔ اس کی سادہ سی و جہ یہ تھی کہ کالجوں سے فارغ التحصیل عورتوں کی شادیاں اکثر خوشحال مردوں سے ہوجاتی تھیں۔ پچاس کے عشرے میں اگر خاندان اس بات کا متحمل ہوتا تو بیوی گھر ہی میں رہتی تھی۔” (صفحہ:۱۵۳)
مندرجہ بالا انگریزی عبارت میں”Stayed at home” کے الفاظ کو قرآنِ مجید کے مقدس الفاظ ﴿وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ﴾ کی روشنی میں پڑھئے تو اسلام کی آفاقی صداقتوں کے تصور سے دل سرشار ہوجاتا ہے۔ ہیولٹ ۱۹۴۵ء اور اس کے بعد امریکی عورتوں کے حالات لکھتے ہوئے بیان کرتی ہیں:
“۱۹۴۵ء میں امریکی عورتیں جتنی بااختیار تھیں، اس سے پہلے اتنی بااختیار کبھی نہ تھیں مگر جنگ ِعظیم دوم کے بعد آنے والے برسوں میں ایک عجیب بات سامنے آئی۔ امریکہ جو کہ آزاد اور طاقتور عورتوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، اس پر خانہ داری کے جذبات عجیب طور پر حملہ آور ہوگئے۔ پھر یوں ہواکہ لاکھوں عورتوں نے ایسا طرزِ زندگی اپنا لیا جو مکمل طور پر خاندان اور گھر پر مرکوز تھا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ تعلیم یافتہ عورتوں سے یہ توقع کی جاتی اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ وہ اپنی زندگی کے بہترین (Prime) سال اور اپنی بہترین توانائیاں گھریلو کاموں اور ممتا کا کردار نبھانے پر صرف کریں۔
ما بعد جنگ کے یہ سال عجیب رجحان کے حامل تھے۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی ایک عجب دور تھا، اس میں یوں ہوا کہ عورتوں نے پہلے سے نسبتاً چھوٹی عمر میں شادیاں کرنا اور بچے پیدا کرنا شروع کردیے، وہ اپنی تعلیم اور ملازمت کو بھی درمیان میں چھوڑ کر ایسا کرنے لگیں۔ ۱۹۲۰ء اور ۱۹۳۰ء کی دہائیوں میں امریکی عورتوں کی شادی کرنے کی اوسط عمر ۲۳ تھی، جو ۱۹۵۰ء میں کم ہوکر ۲۰ رہ گئی۔ کسی بھی دوسرے ترقی یافتہ ملک میں شادی کرنے کی صنفی طور پر اوسط عمر اس قدر کم نہ تھی۔ شرح پیدائش میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔ ۱۹۵۰ء کے آخری سالوں میں امریکہ میں شرح پیدائش میں اضافہ یورپ کے مقابلے میں دگنا جبکہ افریقہ اور انڈیا کے برابرتھا۔ یہ دور جو ۱۹۶۰ء تک رہا، اس میں تیسرے بچے کی پیدائش کی شرح دوگنی ہوگئی، چوتھے بچے کی شرح میں تین گنا اضافہ ہوگیا۔ خاندانی زندگی سے محبت کی اس دہائی میں طلاق کی شرح کسی حد تک کم ہوگئی۔” (صفحہ ۱۵۲،۱۵۳)
ہیولٹ کے درج ذیل الفاظ پڑھ کر تو شاید قارئین کو اعتبار نہ آئے۔ آخر یہ کیونکر ہوا کہ امریکی لڑکیوں نے تعلیمی اعزازات پرمنگنی کی انگوٹھیوں کو ترجیح دینا شروع کردی۔ ان کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے :
“مختصراً یہ کہ ملازم پیشہ امریکی عورتیں (پروفیسر،وکلا، ڈاکٹر وغیرہ) کا تناسب ۱۹۵۰ء میں جنگ سے قبل کے سالوں کی نسبت انتہائی کم تھا اور امریکی عورتوں کا ملازمت کو بطورِ پیشہ اختیار کرنے کا رجحان اپنی یورپی بہنوں کی نسبت بہت ہی کم تھا۔ حتیٰ کہ امریکہ کے اعلیٰ درجہ کے کالجوں میں سب نوجوان طالبات کی آرزو یہ تھی کہ وہ گریجویشن کرتے ہی اعلیٰ تعلیمی اعزازات کی بجائے اپنی انگلیوں میں منگنی کی ہیرے کی انگوٹھی پہن سکیں۔ امریکی عورتیں عام طور پر بچوں کی پیدائش سے پہلے جاب کرتی تھیں یاپھر اس وقت جب ان کے بچے ہائی سکول میں داخل ہوجاتے تھے، مگر وہ ملازمتوں کو شاذ و نادر ہی مستقل پیشہ بناتی تھیں۔ امریکہ میں پچاس کی دہائی میں عورتیں اپنی بہترین توانائیاں اور خانہ داری اور بچوں کی دیکھ بھال میں خرچ کرتی تھیں۔” (صفحہ:۱۵۳)
۱۹۵۰ء کی دہائی میں امریکی معاشرہ نسوانی فطرت کی حقیقت کی بہت حد تک عکاسی کرتا تھا۔ اس معاشرے میں خاندان اپنی بچیوں کو تعلیم اس غرض سے دلاتے تھے تاکہ ان کے رشتے اچھے گھرانوں میں ہوجائیں نہ کہ انہیں اچھی ملازمت ملے۔ پاکستان میں بھی آج بہت سے خاندان ایسے ہیں کہ اگر ان کی بچیوں کے لئے اچھے رشتے میسر آجائیں تو وہ ان کی کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم اُدھوری چھوڑ کر شادی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ بڑی عمر کی لڑکیوں کے لئے مناسب رشتوں کا حصول ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہے۔ امریکی مصنفہ نے تعلیمی اسناد کے مقابلے میں منگنی کی ہیرے کی انگوٹھیوں کو ترجیح دینے کی بات کرکے نوجوان طالبات کے رومانوی خوابوں کی دنیا میں اُتر کر جھانکا ہے۔ وہ کیونکہ خود ایک عورت ہیں، اسی لئے خواتین کی رومانوی ترجیحات کو بخوبی سمجھتی ہیں۔
ہیولٹ کہتی ہیں کہ جنگ ِعظیم کے بعد امریکی عورتیں بہترین تعلیم یافتہ تھیں اور کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کی عورت کے برابر تھیں۔ تو پھر وہ پوچھتی ہیں کہ انہوں نے اپنی آزادانہ خواہشات کو ترک کرکے گھریلو زندگی کو کیوں اپنایا۔ اس کا جواب وہ خود دیتی ہیں:
“اُمور خانہ داری کی طرف یہ زبردست رجحان نتیجہ تھا حکومت کی ان پالیسیوں کا جو اس نے جنگ ِعظیم کے بعد اپنائیں۔ اس میں اہم ترین پالیسی عورتوں کے روایتی کردار کی زبردست حوصلہ افزائی تھی۔ معاشی حکمت ِعملی وضع کرنے والوں کے پیش نظر یہ بات تھی کہ عورتوں کو ترغیب دی جائے کہ جنگ کے دنوں میں انہوں نے جو کام اختیار کئے تھے، اس کو چھوڑ کر گھروں کی راہ لیں تاکہ وہ مرد جو میدانِ جنگ سے واپس آئیں ان کیلئے روزگار مہیا ہوسکے۔ ۱۹۴۶ء تک ۴۰ لاکھ سے زیادہ عورتوں کو پیداواری اداروں کی ملازمت سے چھٹی کرا دی گئی۔”
ہیولٹ لکھتی ہیں: “Both persuation and coercion were used to lure Women away from their jobs.”
“عورتوں کو ملازمتوں سے دور رکھنے کیلئے ترغیب اور جبر دونوں طریقے استعمال کئے گئے۔”
امریکی حکومت نے ایک نیا قانون(G-1 Bill) متعارف کرایا جس کے ذریعے عورتوں کو ملازمت چھوڑنے پر معاشی فوائد کا لالچ دیا گیا۔ ان پالیسیوں کا نتیجہ کیا نکلا:
“نتیجتاً، امریکہ میں جنگ کے بعد کا زمانہ عظیم خوشحالی کا زمانہ تھا، ۱۹۴۰ء کی دہائی کے آخری سالوں میں معیشت بہت متاثر کن شرح سے ترقی کررہی تھی۔ ۱۹۴۵ء اور ۱۹۵۵ء کے درمیان خام قومی پیداوار دوگنا بڑھ گئی۔ ہم اپنی تاریخ کے عظیم ترین عروج کے ادوار میں سے ایک دور میں داخل ہوگئے۔” (صفحہ :۱۵۵)
مذکورہ امریکی قانون نے چھوٹی عمر میں شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے والی عورتوں کے لئے مالی منفعت کے سامان پیدا کئے ۔ (صفحہ :۱۵۷)
ہمارے وہ دانشور جو آج عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ ہرمیدان میں کام کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور اسے معاشی ترقی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں، انہیں چاہئے کہ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں امریکی معاشرے اور اس کی عدیم النظیر اس ترقی کا بھی جائزہ لیں۔
ہیولٹ نے ایک مضمون”The Tender Trap”(1955) سے اقتباس نقل کیا ہے۔ اس کی یہ سطردیکھئے:
“A Women is not a Women untill She has been married and had children.”
“ایک عورت جب تک شادی نہ کرے اور بچے نہ پیدا کرے وہ عورت ہی نہیں ہے۔”
وہ مزید لکھتی ہیں: “پچاس کی دہائی میں امریکی میڈیا آزادئ نسواں کی علمبردار عورتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتا تھا، یہ عورتیں سابقہ سالوں کی پیشہ ور لڑکیاں تھیں۔”
امریکہ میں تحریک ِآزادئ نسواں کو آگے بڑھانے میں بیٹی فریڈن Betty Friedan کا نام بہت معروف ہے۔ ۱۹۵۷ء میں اس نے اپنی کلاس فیلوز کے حوالہ سے ایک تحقیقی سروے کیا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا کررہی ہیں۔ ہیولٹ نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے فرائیڈن کے سروے کے نتائج کو صفحہ۱۶۰پر یوں بیان کیاہے :
“۱۹۵۷ء میں بیٹی فرایڈن نے اپنی کتابThe Femine Mystique کے متعلق ریسرچ کرتے ہوئے سمتھ کالج میں ۱۹۴۲ء میں پڑھنے والی اپنی کلاس فیلوز کے متعلق سروے کیا۔ وہ چاہتی تھی کہ دیکھے اس کی ہم جماعت لڑکیاں اب کیاکررہی ہیں۔اس نے دیکھا کہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں مکمل طور پر مائیں اور بیویاں بننے میں غرق تھیں۔ ۱۸۹ عورتوں میں سے جنہوں نے سوالنامے واپس کئے، ۱۷۹ شادی شدہ تھیں، ۶ غیر شادی شدہ، ایک بیوہ اور تین طلاق یافتہ تھیں۔ صرف ۱۱ کے بچے نہ تھے۔ اوسطاً ہر عورت کے تین بچے تھے، ۵۴ عورتوں کے ۴ یا اس سے زائد بچے تھے۔ سمتھ کالج کی ان گریجویٹ لڑکیوں کی اکثریت ‘ہاوٴس وائف’ (گھرہستن) تھی۔ حتیٰ کہ وہ عورتیں جن کے بچے سکول میں تھے، انہیں بھی باہر کے ماحول میں دلچسپی کم ہی تھی، انہوں نے ۱۹۵۰ء کی دہائی کی اس دانش کو مکمل طور پر اپنی سوچ کا حصہ بنا لیاتھا جس کی رو سے فیملی اور ملازمت کو ساتھ ساتھ چلانا ممکن نہیں ہے۔ ۱۸۹ میں سے صرف ۱۲/ ایسی تھیں جو ہمہ وقتی ملازمت کرتی تھیں اور صرف ایک ہی خاتون ایسی تھی جو اپنی ملازمت کو بطورِ پیشہ اپنانے میں بے حد سنجیدہ تھی۔ چند ایک ایسی بھی تھیں جو جزوقتی کام کرتی تھیں۔”
ہیولٹ نے اپنے مضمون کا خاتمہ”The Saturday Evening Post”کے ۱۹۶۲ء میں شائع شدہ مضمون کی ان سطور پر کیا ہے:
“To make a women completely content it takes a man, but the chief purpose of her life is motherhood, (p.163)
“ایک عورت کو مکمل طور پر سکون کے حصول کے لئے ایک مرد کی ضرورت ہے، مگر اس کی زندگی کا بنیادی مقصد ماں کا کردار (ممتا) ہے۔” (صفحہ:۱۶۳)
یہ بات ذہن نشین رہے کہ امریکی معاشرے کی یہ تصویر ‘انسانی حقوق کے اعلامئے’ (۱۹۴۸ء) کے بعد کی ہے، جس کی رو سے عورت اور مرد کو مساوی قرار دیا گیاتھا، ابھی مساوی حقوق کا ‘فتنہ’ برپا نہیں ہوا تھا۔
امریکہ میں ۱۹۶۰ء کی دہائی میں تحریک ِآزادئ نسواں کا دوسرا دور شروع ہوا۔ جنسی انقلاب کے سیلاب نے روایتی معاشرے کی شاندار اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا۔ خاندانی اقدار کو نشانہ بنایا گیا۔ خاندان جو پہلے عورت کے لئے جنت تھا، اب اسے عورت کے استحصال کا ذریعہ بنا کر پیش کیا گیا۔ گھریلو زندگی کے روایتی کاموں کو دقیانوسی ظاہر کیاگیا۔ عورت کو گھر سے نکل کر مرد کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دی گئی۔ ایسے افلاطون میدان میں کود پڑے جنہوں نے جعلی تحقیقات سے یہ ‘ثابت’ کردکھایا کہ عورت ہر اعتبار سے مرد کے نہ صرف برابر ہے، بلکہ اس سے بہتر ہے۔ مرد کو ظالم اور بھیڑیا بنا کر پیش کیا گیا۔ نسوانیت اور حیا کو عورت کے زیور کی بجائے اس کی غلامی کی زنجیریں قرا ردیا گیا۔ مرد کی غلامی سے آزادی کے لئے عورتوں کی اقتصادی آزادی کا نعرہ لگایا گیا۔
بیٹی فرائیڈن کی کتاب”Feminine Mystique” (1963)نے عورتوں کی آزادی کے نئے تصور کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عورتوں میں بغاوت اور تصادم کے نظریات رواج پانے لگے۔ گھروں کا سکون تلپٹ ہوگیا۔ ‘عورتوں کے حقوق’ کے نام پر فساد انگیزی پر مبنی لٹریچر سے بازار اَٹ گئے۔ ذرائع ابلاغ نے نئے راگ الاپنا شروع کردیئے۔ عورت کی آزادی کے علمبرداروں نے عورت کو گھر سے نکال کر منڈی کی چیز بنا دیا، اس کا استحصال کیا گیا مگر وہ اسے ‘آزادی’ سمجھتی رہی۔ آج امریکہ میں خاندانی ادارہ تباہی کے آخری کنارے پر ہے، ان کے دانشوروں کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس ادارے کو تباہی سے کیونکر بچایا جائے۔ مگر یہی امریکی دانشور مسلمان ممالک کے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لئے بے چین نظر آتے ہیں۔ آج یہودی منصوبہ ساز مسلمان ممالک کی پسماندگی کی وجہ یہ قرار دے رہے ہیں کہ وہاں عورتوں کو ترقی کے عمل میں شریک نہیں کیاجارہا۔ این جی اوز کے ذریعے عورتوں کے حقوق کے نام پر اُنہیں خاندان کے پرسکون ماحول سے نکالنے، ان کے اندر ممتا کا احساس ختم کرنے اور انہیں’مرد’ بنانے کی سازشیں عروج پر ہیں۔ ابھی چند دن پہلے روزنامہ ‘جنگ’ میں حسن نثار کا کالم نگاہ سے گذرا جس میں انہوں نے عرب معاشرے کی پسماندگی کے متعلق مغربی دانشوروں کی کانفرنس کی رپورٹ نقل کی جس میں بتایا گیا کہ عرب معاشرے اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک وہاں کی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام نہیں کرتیں۔!
پاکستانی عورت اور ترقی کا نصب ُالعین
‘حکومت اور سیاسی عمل میں مساویانہ بنیادوں پر شرکت’ تحریک حقوقِ نسواں کا شروع سے مطالبہ رہا ہے۔ خواتین کے حقوق کی علمبردار مغرب زدہ تنظیموں کا خیال ہے کہ اگر قانون ساز اداروں میں خواتین کو کم از کم ۳۳ فیصد نمائندگی مل جائے تووہ نہ صرف معاشرے میں سے صنفی امتیاز کا خاتمہ کرسکتی ہیں بلکہ خواتین کے حقوق کے منافی بنائے جانے والے قوانین کے خاتمے اور ایسے نئے قوانین کے اجرا کا راستہ بھی روک سکتی ہیں۔
پاکستان میں ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں پاکستانی خواتین کو قانون ساز اداروں میں ابتدائی طور پر ۱۷ فیصد نمائندگی سے نوازا گیا۔ اس وقت سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ۲۳۳ عورتیں موجود ہیں۔ ۷۴ قومی اسمبلی میں، ۷۸ سینٹ میں؛ پنجاب اسمبلی میں ۷۳، سندھ اسمبلی میں ۳۳، سرحد اسمبلی میں ۲۳جبکہ بلوچستان اسمبلی میں خواتین کی تعداد ۱۲ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کو اسمبلیوں میں اس قدر زیادہ نمائندگی دینے کے باوجود عام پاکستانی عورت کی حالت میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ہے یا نہیں۔ اس کے متعلق روزنامہ نوائے وقت میں رفیعہ پاشا اور بشریٰ محمد نے مشترکہ طورپر تحریر کردہ اپنے مضمون میں یوں تبصرہ کیا ہے :
“اتنی بڑی تعداد میں خواتین کے اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد توقع تھی کہ ملک کی نصف آبادی کی نمائندہ عام عورت کے حقوق کے تحفظ اور تشدد ناانصافی سے نجات دلانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر یہ کام شروع کریں گی اور اسمبلیوں کے اندر پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر خواتین کے ایشو ز پر متحد ہوکر آواز بلند کریں گی لیکن خاتون اراکین ِاسمبلی کی ۱۵ماہ کی کارکردگی بیان بازی سے آگے نہیں بڑی اور عملی سطح پر کسی جماعت کی خواتین نے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔
انتخابات سے قبل خواتین کی مختلف حقوق کی تنظیموں کی طرف سے منعقد کئے گئے پروگرام میں ہر جگہ تمام سیاسی جماعتوں کی خواتین نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ خواتین کے ایشوز پر دباوٴ کو خاطر میں نہیں لائیں گی۔ تاہم اسمبلیوں میں جانے کے بعد وہ اپنے اس عزم پر قائم نہیں رہ سکیں۔ عام پاکستانی عورت جو ظلم و تشدد، استحصال وغربت، ناخواندگی، ناانصافی، فرسودہ روایات و اقدار اور امتیازی رویوں کا شکار ہے، ہر گزرے دن کے ساتھ اس کے دکھوں اور مصائب اور مشکلات جبکہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی تقدیر بدلنے کا نعرہ لگا کر اسمبلیوں میں نمائندگی حاصل کرنے والی خواتین کی تنخواہوں اور مراعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔” (نوائے وقت، ۸مارچ ۲۰۰۴ء)
وہ مزید لکھتی ہیں: “مجموعی طور پر عام عورت کو ریلیف دینے کے حوالے سے خواتین پارلیمنٹرین کی کارکردگی صفر رہی ہے۔”
ان خواتین صحافیوں کی نگاہ میں خواتین پارلیمنٹرین کی طرف سے کسی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہ ہونے کی ایک و جہ یہ بھی ہے کہ اسمبلیوں کے اندر خاتون اراکین کو مرد اراکین اسمبلی کی طرف سے شدید مخالفت اور تنقید کا سامنا ہے۔ وہ خاتون اراکین کی حیثیت مقام اور مرتبے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور کسی خاتون کی طرف سے کوئی تحریک پیش کرنے یا قانون کا بل پیش ہونے پر انہیں طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہیں۔ (ایضاً)
ہمارے خیال میں خواتین کی اسمبلیوں میں ‘صنفی کارکردگی’ نہ دکھانے کا سبب مردوں کی طرف سے ان کی مخالفت یا تنقید نہیں ہے۔ اگر پاکستان میں ۱۷ فیصد کی بجائے ۷۷ فیصد خواتین کو اسمبلیوں میں بٹھا دیا جائے تب بھی ان کی یہ نمائندگی پاکستانی خواتین کی اس ترقی کے ضامن نہیں بن سکتی جس کا یہ خواب دیکھتی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تصور ہی غلط ہے کہ سیاست میں خواتین کی عملی شرکت سے ہی عورتیں ترقی کرسکتی ہیں۔ یہ مغرب کا تصور ہے جو انہوں نے پسماندہ ممالک کیلئے پیش کیا ہے، ورنہ ان کے ہاں عورتوں کی پارلیمنٹ میں جب نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی، تب بھی وہاں کی عورت ترقی یافتہ تھی۔ امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی سمیت ایک بھی ترقی یافتہ ملک ایسا نہیں جہاں عورتوں کو ۳۳ فیصد نمائندگی حاصل ہو۔
پاکستان کی اسمبلیوں میں لبرل اور مغرب زدہ خواتین کے ساتھ متحدہ مجلس عمل کی خواتین اراکین ِ اسمبلی بھی موجود ہیں۔ اسلامی مزاج رکھنے والی ان خواتین کی موجودگی کا اور کوئی عملی فائدہ ہو یا نہ ہو، یہ ضرور ہوا ہے کہ وہ مغرب زدہ خواتین کی طرف سے حدودآرڈیننس اور دیگر اسلامی قوانین کے خلاف کی جانے والی کوششوں کی بھرپور مزاحمت کررہی ہیں۔ انہوں نے ان مٹھی بھر افرنگ زدہ عورتوں کے اس دعویٰ کو بھی باطل ثابت کیا ہے کہ وہ تمام پاکستانی خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں۔
پاکستانی عورتوں کی ملکی ترقی میں شانہ بشانہ کردار کی بات ہو یا عورتوں کے حقوق کے تعین کامعاملہ ہو، پاکستانی مسلمانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ان جدید چیلنجوں کا حل مغربی معاشرے کی پیروی میں سمجھتی ہے یا ان مسائل کے حل کے لئے اُنہیں اسلام سے رہنمائی طلب کرنی چاہئے جو کہ آفاقی دین ہے اور جس کی تعلیمات ہر زمانے کے لئے ہیں۔ اسلامی فریم ورک میں رہتے ہوئے مادّی ترقی کا حصول ہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔
اسلامی اقدار اور ہمارے خاندانی اداروں اور روایات کی قیمت پراگر پاکستانی عورت ترقی کی منازل طے کرتی ہے تو یہ سراسر خسارہ کی بات ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کے فرائض مختلف قرار دیئے ہیں۔ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہی ہے، البتہ بعض استثنائی صورتوں میں وہ بعض شرائط کی تکمیل کے ساتھ گھریلو زندگی کے دائرے کے باہر بھی فرائض انجام دے سکتی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے نام پر کام کرنے والی تنظیمیں جو رول ماڈل (نمونہ) پیش کررہی ہیں، وہ سراسر مغرب کی بھونڈی نقالی پر مبنی ہے جس کا نتیجہ معاشرتی اور خاندانی نظام کی تباہی کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگا۔اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرے میں عورتوں کے حقوق کا بعض صورتوں میں خیال نہیں رکھا جاتا، مگر ان حقوق کی بازیابی کا وہ تصور اور حل بے حد خطرناک ہے جو این جی اوز پیش کررہی ہیں۔ اسلام نے حیا اور عفت کو عورت کا زیور قرار دیا ہے، اس سے محروم ہوکر کوئی عورت اسلام کی نگاہ میں ‘ترقی یافتہ’ نہیں ہوسکتی۔ ہمیں ‘ترقی’ کے وہ معیارات پیش نظر رکھنے ہوں گے جو اسلام کے اخلاقی نصب العین پر پورے اُترتے ہوں۔
امریکہ اور یورپ کی تاریخ گواہ ہے کہ مادّی ترقی کے حصول کے لئے عورتوں کامردوں کے ساتھ شانہ بشانہ شریک ہونا نہ صرف ناپسندیدہ بلکہ غیر ضروری بھی ہے۔ ملکی ترقی میں عورت کا شاندار کردار یہ ہے کہ وہ خاندانی زندگی کے نظام کو اس انداز میں سنبھال لے کہ اجتماعی طور پر معاشرہ استحکام حاصل کرے۔ خاندان کی اندرونی زندگی کو اُجاڑ کر د فتروں اور فیکٹریوں کے ماحول کو رونق بخشنے سے ترقی کا توازن قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ مغربی معاشرہ آج اسی عدمِ توازن کا شکار ہے۔ عورتیں تعلیم کی روشنی سے بھی اپنی روح کو منور کریں، انہیں صحت کی سہولیات بھی ہر ممکن حد تک پہنچائی جائیں۔ ان سے ہونے والی ناانصافی کے خاتمہ کی جدوجہد بھی ضرور کی جائے، مگر ان سب باتوں کے ساتھ ان کی پہلی ترجیح خاندانی زندگی کو استحکام بخشنا ہو۔ اگر وہ تعلیم حاصل کریں، اس کامقصد کسی فیکٹری کے چیف ایگزیکٹو کی پرائیویٹ سیکرٹری بن کر عملاً اس کی تنخواہ دار داشتہ کا کردار ادا کرنا نہ ہو، نہ ہی وہ تعلیم کو محض ملازمت کے حصول کا ذریعہ سمجھیں۔ تعلیم ایک مرد کے لئے معاش کا ذریعہ ہوسکتی ہے، مگر عورت کو اس لئے تعلیم یافتہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنے بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت کا خیال رکھ سکے، ان میں علم کی روشنی منتقل کرسکے اور اپنے گھر کی ‘چراغِ خانہ’ بن کر اس کی دیواروں کو علم کی روشنی سے منور کرسکے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ عورت کو گھریلو زندگی کو اپنی پہلی ترجیح سمجھنا چاہئے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ دنیا سے الگ تھلگ ہوکر زندگی بسر کرے ۔ آج کا معاشرہ بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ بڑے متمدن شہروں میں پرورش پانے والی عورتوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ کوہستانی قبائل کی عورت کی طرح زندگی بسر کریں، ایک ناقابل عمل خواہش ہوگی۔ شہری زندگی میں ایسے مواقع بھی کم نہیں ہوتے جہاں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے پر مجبور نہیں ہوتیں۔ گھریلو زندگی سے باہر اگر چہ عورتوں کے ہی مخصوص تعلیمی، تبلیغی، رفاہی اور سماجی حلقوں میں عورت بھرپور انداز میں شریک ہوسکتی ہے لیکن ان حلقوں میں شرکت کو اسے پیشہ ورانہ مشغولیت کی صورت ہرگز نہیں دینی چاہئے تاکہ خاندانی زندگی نظر انداز نہ ہو۔
‘عورت اور ترقی’ کے حوالہ سے ہمارے دانشوروں کو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے کہ وہ ملکی ترقی میں جدید پاکستانی عورت کے کردار کے حوالہ سے ایسا فریم ورک تشکیل دیں جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اعلیٰ انسانی قدروں کا رنگ بھرا جاسکے اور جو مرد اور عورت کے مخصوص دائرہ کار کے اس تصور کی روشنی میں پیش کیا جاسکے جس میں معاشرے کی مادّی واخلاقی دونوں طرح کی ترقی کے مقاصد کا حصول ممکن ہو۔