سیلابی تباہ کاریاں
اگست کی صبح بعد نمازِ فجر ’’المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی‘‘ کا ایک اہم وفد (جس میں بشمول کچھ خاص مہمانوں کے، الشیخ عثمان صفدر،الشیخ جمشید سلطان،الشیخ کامران یاسین، الشیخ فراز الحق اور ناچیز حماد چاؤلہ شامل تھے) کراچی سے ’’اندرونِ سندھ تجزیاتی و امدادی دورہ ‘‘ پر روانہ ہوئے۔ اور 29 اگست کی صبح کراچی واپس پہنچے۔
مقصدِ دورہ: (اندرونِ سندھ دورہ کیوں ضروری ؟)
اگرچہ المدینہ سینٹر کا سیلاب متاثرین کے لیے گزشتہ ایک ماہ سے کراچی پھر بلوچستان میں امدادی آپریشن جاری ہے لیکن اندرونِ سندھ دورہ کرنے کا مقصد سندھ بھر کی عمومی صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لینا اور بالخصوص گاؤں دیہات اور اندر تک کے چند کچے علاقوں تک خود پہنچ کر اپنی آنکھوں سے ناصرف صورتحال کومکمل دیکھنا تھا بلکہ متاثرین سے ملاقت کرکے اُن کی دلجوئی کرنا اور خود اُن کی زبانی ان کی ضروریات معلوم کرن بھی تھا اورساتھ ساتھ ان تک ہرممکن امدادو تعاون پہنچاتے ہوئےپھر آگے مزید اس دورہ کی روشنی میں بہتر سے بہتر منصوبہ بندی کرنا تھا۔ جس میں بحمدِ اللہ معقول حدتک اھداف حاصل بھی ہوئے۔
امداد کے لیے کہاں کہاں جانا چاہیے؟
چونکہ المدینہ اسلامک سینٹر کی کوشش یہ ہے کہ خود بھی وہاں پہنچا جائے اور امداد بھی وہیں پہنچائی جائے جہاں یا تو عموماً کوئی نہیں پہنچ رہا یا اب تک کوئی نہیں پہنچا، جہاں گاڑیاں نہیں جاسکتیں وہاں دیگر ذرائع اختیار کیے جائیں اورچھوٹے چھوٹے ٹکڑوں ہی میں صحیح پر دور دراز اور اندر کے گاؤں دیہات تک پہنچنے کی سبیل اختیار کی جائے اور مساجد، مدرسوں اور دینی اداروں کو مراکز بناتے ہوئے امداد مستحقین تک پہنچائی جائے۔
دورہ میں وزِٹ کردہ علاقے؟
لہٰذا مذکورہ 2دنوں میں بالترتیب ہم نے درجِ ذیل علاقوں کا دورہ کیا :
- قاضی خان، مورو اور اس کے اطراف کے اندرون کئی گاؤں دیہات ،
- پھر رِند موری سے دریا خان مری تک کے علاقے،
- پھر محراب پور کے اطراف کے چند ایک علاقے،
- پھر نوشہروفیروز میں: کنڈیارو، دربیلو اور ان کے اطراف کے اندرون اور کچے علاقوں کے کئی گاؤں دیہات،
- پھر نوشہروفیروز میں: خان واہن اور اس کے اطراف کئی گاؤں دیہات وغیرہ کا وزٹ کیا اور امدادی کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے تعاون تقسیم کیا گیا۔
سیلاب کے بعدکی صورتحال کی ایک جھلک:
- اندرونِ سندھ کے بےشمار بلکہ زیادہ تر چھوٹے شہر، گاؤں دیہات پہلے ہی خستہ حال تھے لیکن سیلابی صورتحال کے بعد تو ایسے ہوگئے جیسےوہ سب علاقے جگیوں و جھونپڑیوں کے دور میں داخل ہوچکے ہوں۔
- گاؤں کے گاؤں پانی میں ڈوبے ہوئے جیسے چھوٹے بڑے دریا کا منظر پیش کر رہے ہوں۔
- جس کے باعث انسان تو ایسے ہوگئے ہیں جیسے خانہ بدوش ہوں جن کا کوئی مستقل علاقہ نہیں ہوتا ،کبھی یہاں خیمہ لگالیا، کبھی یہاں پناہ لے لی اور بہت سوں کو تو خیمہ و پناہ تک مُیسر نہیں۔ واللہ المُستعان
- نیز انسان اور بچے کچے مویشی ایک ساتھ ہی اندر و باہر کے روڈاور راستے کے دونوں اطراف کھلے آسمان تلے بے آسرا و بے سہارا بیٹھے ہیں کچھ خود چارپائیوں پر اور اپنے بچوں کو چارپائیوں کے نیچے سمیٹے ہوئے، اور کچھ مختلف شیٹس وغیرہ کے ٹکڑوں کو جوڑ کر سائبان بناکر بیٹھے ہیں اور کچھ کے پاس تویہ دونوں بھی نہیں۔
- حتی کہ جنہیں ایک وقت کی روٹی میسر نہیں وہ بھی جائے پناہ کے متلاشی بن کر پہلے خیموں کے طلبگار ہیں ۔کہ سر پر یا تو بارش ہے یا دن میں کڑکتی دھوپ، پھر دن بھر مچھروں کی فوج ایسی کہ جانور تک ان سے سخت بے چین ہیں تو انسان کا کیا حال ہوگا سوچیے! !۔ مزید یہ کہ آگے سردیاں بھی سر پر ہیں جن کی انہیں فکر لاحق ہے۔
- انسانوں اور جانوروں کی مچھر دانیاں، مچھروں سے حفاظت کا لوشن نا ہونے کے برابر ہے۔
- انسان کے زندہ رہنے کی سب سے بنیادی ضرورت خوراک جو پورے دن میں ایک وقت تک کی انہیں میسر نہیں۔
- تمام کی تمام فصلیں تقریباً تباہ ہوگئیں ہیں سوائے کیلے اور گنّے کی فصل کے کہ وہ نسبتاً پانی کو برداشت کرلیتی ہیں لیکن ان میں بھی اگر ایک مخصوص مدّت سے زیادہ پانی کھڑا رہا تو وہ بھی ختم ہوجائیں گی۔
- انفراسٹریکچرتو پہلے ہی خستہ حال تھا اب تو صورتحال یہ ہے کہ کئی علاقوں کے مکانات کلی یا جزوی طور پر گِر چکے ہیں ،حالت کھنڈر میں بدل گئی ہے اور کئی جگہوں پر تو کھنڈر تک نہیں بچے۔
- یہ صورتحال اندرون سندھ کے آفت زدہ علاقوں کے اندرون سینکڑوں چھوٹے شہراور گاؤں و دیہاتوں کی ہے، جبکہ باہر مین روڈ وشہر کی طرف کے حالات اندرون کی نسبت کچھ بہتر ہیں لیکن وہ بھی بہتر نہیں ، آفت زدہ ہی ہیں۔
- ’’نیشنل ہائے وے‘‘ کہیں پانی سے ڈھکے ہوئے اور کہیں ٹوٹے ہوئےاور خستہ حال روڈ کے ساتھ شدید متاثتر ہے کہ ٹریفک کی روانگی ہی ممکن نہیں۔·
- جبکہ افسوس یہ ہے کہ اس حالیہ صورتحال میں ہم نےحکومت ، پولیس و ٹریفک پولیس نام کی کسی مخلوق کا وجود تک نہیں دیکھا جو کچھ نہیں تو کم از کم راستے ہی بحال کردے ۔ جیسے ہمارے پہلے دن ’’بلا مُبالغہ میلوں دور تک سینکڑوں کنٹینرز کی قظار نیشنل ہائے وے کو بلاک کیے ہوئے تھی‘‘ اور اگلے دن سارا ٹریفک’’ مہران ہائے وے کا رخ کیے ہوئے تھا نتیجتاً بلا مُبالغہ 20 ، 25 کلو میٹر تک ہزاروں کنٹینرز روڈ کی تینوں لین میں آنے اور جانے دونوں طرف کی ٹریفک کو بلاک کیے ہوئے تھے‘‘ جس کے باعث گاڑیوں کا 1 گھنٹے کا سفر 3 گھنٹے میں طے ہواجس سے کاروباری سامان تو دور امدادی سامان تک متاثرین تک پہنچنے میں شدید مشکلات و تاخیر کا باعث ہے۔
- سب سے زیادہ مشکل جو درپیش ہے ’’وہ شدید متاثرہ علاقوں تک پہنچنے کی ہے‘‘ کہ گاڑیوں کا راستہ تک نہیں بچا جس کے باعث کہیں موٹر سائکل جنگلا ، کہیں گدھا گاڑی ، کہیں موٹر سائکلز،کہیں بڑے کڑاہے اور کہیں پیدل پانی میں ڈوبتے ہوئے آنا جانا پڑتا ہے ۔
- خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسے علاقوں میں ہر 30 گھرانوں میں سے محتاط اندازہ کے مطابق 27 گھرانے شدید متاثر ہیں ،غذائی قلت بھی شدید ہے، پینے کا پانی تک نہیں اور مکمل سائبان بھی موجود نہیں ،فصلیں تباہ،جبکہ پانی کھڑا ہے، جاری ہے اور مزید بھی آرہا ہے ،بارش کے امکانات ختم نہیں ہوئے ، بجلی نہیں ، گیس نہیں، سوکھی لکڑی نہیں ، اور زیادہ تر ذرائع کمیونیکیشن بھی نہیں ، اس پر مستزاد کہ بیماریاں اور انفیکشن تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ واللہ المُستعان وعلیہ التکلان۔
اگلے کئی ماہ بلکہ شاید سال دو سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ تک اندرونِ سندھ کے زیادہ تر علاقوں کے دوبارہ بحال ہونے کی کوئی امید نہیں کہ کراچی کی طرح اندرونِ سندھ بھی لاوارث ہی ہے۔
تقسیم کردہ امدادی سامان :
ویسے تو الحمدُ للہ ایک ماہ سے امداد کا سلسلہ کراچی، بلوچستان اور اب سندھ بھر میں یومیہ طرز پر بغیر رُکے جاری ہے لیکن سینٹر کے اس 2 روزہ دورہ میں ’’قریباً 120 ٹن‘‘ پر مشتمل امدادی سامان ساتھ لے جایا گیا جس میں :
راشن ، پینے کا صاف پانی ،خیمے ، ترپال ،کپڑے ، دوائیاں وغیرہ شامل تھے جنہیں مخصوص و مذکورہ مقامات پر تقسیم کیا گیا ، جبکہ بعض مقامات پر كچھ نقد رقوم بهی دی گئیں ،نیز حالیہ روازنہ کی بنیاد پر 100 دیگیں پکے پکائے کھانے کی سندھ بھر کے مختلف مقامات پر مسلسل تقسیم کی جارہی ہیں اور 100 مزید ایک آدھ دن میں شروع کی جارہی ہیں ان شاء اللہ یہ سلسلہ مسلسل بڑھایا جارہا ہے ۔ نسأل الله القبول والاخلاص فی القول والعمل والتوفیق المزید ۔
روزانہ کی بنیاد پر اپڈیٹس بھی سینٹر کےفیس بک سوشل میڈیا آفیشل پیج 1 islamfort پرجاری بھی کی جاتی ہے۔
فوری بنیادی ضروریات کیا ہیں ؟
بالخصوص تین بنیادی چیزوں کی فوری اشد ضرورت ہے جو جتنی بھی ہوں کم ہیں:
- خواراک (صاف پانی،پکا ہوا کھانا ، راشن و خشک راشن )
- سائبان (خیمے ، ترپال، شیٹس )
- مچھر سے حفاظتی سامان(مچھردانیاں ، لوشن وغیرہ)
جبکہ ان کے علاوہ بالعموم :
- ہر قسم کے کپڑے ، میڈیکل کیمپ ، موبائل ایمبولینس، ایمرجنسی و ضروری دوائیاں اور نقد رقوم کی تقسیم کی بھی بہت ضرورت ہے ۔
- اور پھر لوگوں کے گرے ہوئے گھر ،مکانات ، دیواریں ، شہید مساجد ودینی مدرسے و ادارے ،اسکولز، ہاسپٹلز کی تعمیر کے بغیر لوگ اور ان کے علاقے دوبارہ سے اپنے پاوں پر کھڑے ہونے سے قاصر ہیں۔
المدینہ اسلامک سینٹر کے کام کا طریقہ کار:
الحمدُ للہ ادارہ ’’ المدینہ اسلامک سینٹرایک رجسٹرد سوسائٹی ‘‘ہے جو 2010 سے کراچی اور 2014 سے سندھ بھرمیں’’ دعوتی ، تعلیمی اور رفاہی ‘‘ سرگرمیاں انجام دے رہا ہے ، حالیہ صوبہ بھر کے 19 سے زائد اضلاع کے تحت کئی بڑے چھوٹے شہر، بے شمار گاؤں دیہات اور اندر تک کے کچے علاقوں تک مذکورہ تمام سلسلے حتی المقدور جاری ہیں اور ’’ہر علاقے میں سرپرستی و نگرانی کا ایک مثالی منظّم سیٹپ بھی موجود ہے‘‘ جس کے تحت کئی فاضل علماء ،دعاۃ ،اساتذہ ومعلمین اور ویلفئر ٹیم، مساجد و مدارس، اسکولزاور اوطاقوں کو مراکز بناتے ہوئے علاقے کے رہائشی ذمہ داران و افراد کے ذریعہ سندھ بھر کے لوگوں میں دینی و فلاحی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں ۔نیز یہی طریقہ کار محدود پیمانے پر بلوچستان میں بھی جاری ہے۔وللہ الحمدُ والمِنہ
آئیے! الله كے دین اور دكهی انسانیت كی خدمت كے اس عظیم مشن میں المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کا ساتھ دیجیے۔!
رابطہ برائے معلومات وتعاون:
00923222056928
اکاؤنٹ تفصیل برائے آن لائن عطیات:
Al-Madinah Islamic Research Center
United Bank Limited
Account No: 0109-233415594
IBN NO: PK 69 UNIL 0109 0002 3341 5594
Branch Code: 0051
BAIT-UL-SALAM DHA, Phase IV, Karachi