انبیاء و صالحین کی ذات کا وسیلہ

بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ،  وبعد !

سوال :  کیا انبیاء و صالحین کی ذات کے وسیلے کا ثبوت قرآن مجید میں ہے؟

جواب :  دعا کرتے ہوئے کسی بھی نیک وصالح شخص کی ذات کا وسیلہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا جائز نہیں ہے۔ قرآن ،حدیث اور صحابہ کرام کے عمل سے اس ثبوت نہیں ملتا۔

لیکن بعض لوگ اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے کہ کسی بھی نیک صالح زندہ یافوت شدہ شخص کی ذات کو اس کی وفات کے بعد بھی وسیلہ بنایا جا سکتا ہے ،یہ آیت مبارکہ پیش کرتے ہیں کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا

(سورۃ النسآء آیت نمبر: 64)

’’اور اگر یہ لوگ، جب انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، آپ کے پاس آتے، پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے، اور رسول ان کے لیے مغفرت طلب کرتے، تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور نہایت مہربان پاتے‘‘

آیت مبارکہ کو سمجھنے میں  غلط فہمی

اس آیت مبارکہ کی تشریح کیا ہے؟ اور کیا اس سے کسی بھی نیک صالح کی ذات زندہ یا  اس کی وفات پا جانے کے بعد ہم اس کا وسیلہ بنا سکتے ہیں ؟؟

دین اسلام میں نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کیا جائے تو پھر ہی کامیابی اور نجات ہے۔مذکورہ  بالاآیت میں جیسا کہ یہ کہا گیا ہے کہ ’’جب وہ اپنے نفسوں پر ظلم کریں پھر اے نبی پاک ﷺ آپ کے پاس آئیں پھر وہ اللہ سے بخشش مانگیں اور نبی پاک ﷺ بھی ان کے لئے استغفار کریں اللہ تعالٰی انہیں معاف فرما دیں گے‘‘

لوگوں کو یہاں غلط فہمی یہ ہوئی ہے کہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی اگرلوگ آپ ﷺ کی قبر مبارک پر آ کر دعا کریں اور نبی پاک ﷺ کو وسیلہ بنائیں  توآپ ﷺ ان کے لئے استغفار کرتے ہیں اور پھر ان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔

اس آیت سے لوگوں نے غلط طریقے سے مفہوم لیاہے کیونکہ اگر اس آیت پر غور کریں تو آیت میں لفظ  ’’ جَاءُوكَ ‘‘ ہےیعنی وہ آپ کے پاس آئیں نہ کہ   ’’جَاءُو ا قبرك َ ‘‘  کہ وہ آپ کی قبر پر آئیں نہیں ہے ۔کسی کے پاس آنا اور کسی کی قبر پر آنا دونوں معنوں میں بہت بڑا فرق ہے ۔اور عربی اتنی فصیح زبان ہے اگر اس سے قبر بھی مراد ہوتی تو اللہ تبارک و تعالی اس میں قبر کے الفاظ شامل کر دیتے ۔ یا نبی کریم ﷺ بھی اس میں اپنی وضاحت فرما دیتے۔

آیت  ’’ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ ‘‘ کامصداق کون لوگ ہیں ؟

لفظ  ’’ جَاءُوكَ  ‘‘  ’’جب آپ کے پاس آئیں‘‘  ایک تو اس آیت کا تعلق آپ ﷺ کی زندگی کے ساتھ ہے ۔دوسرا اگر شروع سے اس آیت کا سیاق وسباق دیکھیں تو یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی فرماتے ہیں كہ:

((أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ))

(سورۃ النسآء آیت نمبر: 60)


’’اے نبی !کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ آپ پر اتاری گئی اور آپ سے پہلے اتاری گئی کتابوں پر ایمان لے آئے ہیں، چاہتے ہیں کہ طاغوت سے فیصلہ کرائیں، حالانکہ انہیں اس کے انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔‘‘

یعنی دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ ایمان لے آئے ہیں اس کے باوجود وہ پھر طاغوت کے پاس فیصلہ کروانے جاتے ہیں ۔

دراصل منافقین یہودیوں اور مشرکوں کو فیصل اور حاکم بناتے تھے چنانچہ اس کے بعد والی آیت میں اللہ تبارک و تعالٰی فرماتے ہیں:

((وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا))

(سورۃ النسآء آیت نمبر: 61)

’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب اور رسول کے پاس آؤ تو آپ منافقین کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ سے منھ پھیرے رکے جا رہے ہیں‘‘

یعنی آپﷺ کی طرف فیصلہ کروانے کے لیے نہیں آ رہے ہیں۔

پھر آگے اسی پیرائے میں اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرما رہے ہیں کہ:

((وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا))

(سورۃ النسآء آیت نمبر: 64)

اگر انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا تھا تو وہ محمد ﷺ کے پاس آتے آپ ﷺ ا ن کے لیے دعا کرتے، استغفار طلب کرتے اور نبی کا استغفار یقیناً ایک بڑا مقام رکھتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی انہیں معاف فرماتے

تو اس پوری آیت کا سیاق و سباق دیکھیں تو اس میں مکمل منافقین کے طرز عمل پر تنقید کی جا رہی ہے کہ منافقین ایسا طرزِ عمل اپناتےکرتے ہیں ویسا کرتے ہیں۔ حالانکہ انہیں چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں ۔

کیا وفات کے بعد بھی نبی ﷺ استغفارکی دعا کر سکتے ہیں ؟

اس آیت کا تعلق آپﷺ کی زندگی کے ساتھ ہے کہ آپ ﷺ کے پاس آئیں اور استغفار کی درخواست کریں اور آپ ﷺ ان کے لئے استغفار طلب کریں۔

اس آیت کا تعلق آپﷺ کی وفات کے بعد سے نہیں ہے،کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر”  جَاءُوا  قبرک” کا لفظ ہوتا۔ ” جَاءُوكَ    “نہیں ہوتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اسی عنوان سے متصل ایک اور آیت ہے جس میں اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا ہے کہ:

 فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ

(سورۃ المائدہ ء آیت نمبر:42)

کہ اے نبی پاک ﷺ اگر یہ آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کےدرمیان فیصلہ کریں‘‘

یہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 42 ہے ۔تو اب کوئی اس آیت سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ اب آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی قبر پر جاکر ہم فیصلے کروائیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 42 ” فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ ” کہ جب ہم آپ کی قبر پر جاکر فیصلہ نہیں کرا سکتے ہیں تو پھر آپﷺ کی قبر پر جاکر استغفار کیسے کروا سکتے ہیں ؟؟

تو جب یہاں فیصلہ کروانے کا معنیٰ آپ ﷺ کی زندگی کے ساتھ خاص ہے تو استغفار کا مطلب بھی آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے ساتھ خاص ہے نہ کہ اس سے مراد  آپ کی قبر مبارک پر جا کر استغفار کروانا ۔

فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ کا کیا معنی ہے؟

اب سوال یہ ہوتا ہے کہ ’’فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ ‘‘اس آیت کا کیا معنی ہے کہ جب وہ آپ کے پاس آئیں تو آپ ﷺ ان کے درمیان فیصلہ کریں ؟؟

تو اب کیا دنیا میں کوئی ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص ہے جو آپ کی قبر مبارک پر جاکر فیصلے کرواتا ہو  ظاہر ہے کہ ایسانہیں ہے ۔تو پھر اس آیت کو کیوں نہیں سمجھتے۔

صحابہ کرام کا عمل اور مفسرین کی تفسیر

اوراگر اس سے بھی مزید واضح قرآن کی کسی آیت کو سمجھنا ہے تو صحابہ کرام اس کی عملی تفسیر ہیں ۔ کسی بھی صحابی  رسول ﷺنے سورہ نساء کی آیت نمبر 64 سے یہ معنیٰ نہیں لیا کہ آپ کی قبر پر آکراستغفار طلب کریں۔کسی بھی مفسر نے یہ معنیٰ بیان نہیں کیا ۔ اور نہ ہی کسی صحابی سے یہ عمل صحیح سند سے منقول ہے۔بلکہ اگر کسی صحابی سے یہ منقول ہوتا تو صحابہ کرام لازماً یہ عمل کرتے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل

دوسرا یہ ہے کہ جیسا کہ ہم نے جائز وسیلے کی جو صورتیں بتائی تھیں ان میں عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا فعل بتایا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺکے چچا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:

((اللَّهُمَّ إنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إلَيْكَ بنَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَتَسْقِينَا، وإنَّا نَتَوَسَّلُ إلَيْكَ بعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا.))    

( صحيح البخاري : 3710)

اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم ﷺ کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم ﷺ کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔

یعنی اے اللہ ہم نبی کریم ﷺ کے چچا کے ذریعے تجھ سے دعا کروا رہے ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک پر جا کر یہ وسیلہ اختیار کیا جاسکتا ہے تو صحابہ کرام ضرور ایسا عمل کرتے۔ لیکن صحابہ کرام نے ایسا عمل نہیں کیا ۔

آیت کی تفسیر حدیث کی روشنی میں

حدیث میں آتا ہے،ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ بقیع تشریف لےگئے۔ جب آپ ﷺ گھرواپس تشریف لائے تو میرے سر میں انتہائی شدید درد ہو رہا تھا اور میں یہ کہہ رہی تھی:

وا رَأْسَاهْ، فَقَالَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: وما ضَرَّكِ لو مِتِّ قَبْلِي، فغَسَّلْتُكِ وكَفَّنْتُكِ، وصَلَّيْتُ عليكِ ودَفَنْتُكِ1

ہائے رے سر، آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ! تمہیں کیا پریشانی ہے، اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوئیں تو میں تمہیں غسل دوں گا، کفن پہناؤں گا اورتمہاری نماز  جنازہ پڑھوں گا اور تمہیں دفن کروں گا۔

جبکہ صحیح بخاری میں حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں ۔

((وا رَأْسَاهْ، فَقَالَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: ذَاكِ لو كانَ وأَنَا حَيٌّ، فأسْتَغْفِرَ لَكِ وأَدْعُوَ لَكِ.))

(صحيح البخاري: 5666)

ہائے رے سر ! اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری زندگی میں تمہارا انتقال ہوگیاتو میں تمہارے لیے استغفار اور دعا کروں گا۔

” وا رأساه”(عربی میں جب انتہائی کرب و تکلیف میں مبتلا ہوں تو اس کے لیے یہ الفاظ کہے جاتے ہیں) تو وہ اپنے سر میں درد كے بارے کہہ رہی تھیں کہ مجھے سر میں انتہائی تکلیف ہے تو رسول اللہﷺنے حضرت عائشہ سے اس وقت ازراہِ مزاح یہ فرمایا کہ سیدہ عائشہ اگر آپ فوت ہوگئیں ” وأنا حي ” اور میں زندہ رہا تو میں انہیں غسل بھی دوں گا کفن بھی دوں گا اور پھر فرمایا کہ “فاستغفرلک” میں آپ کے لیے معافی مانگوں گا “وأدعولک” اور میں آپ کے لئے دعا بھی کروں گا ۔

تو اب اگر آپ ﷺ کی زندگی کے بعد بھی آپ ﷺ استغفار کرتے تو پھر یہاں حدیث میں “وأنا حي” کا ذکر نہ ہوتا آپ ﷺ نے “وأنا حي” کا ذکر کرکے خاص فرما دیا کہ اگر میں زندہ ہوا اور آپ کی وفات میری زندگی میں ہوگئی تو میں تمہارے لئے استغفار کروں گا اورتمہارے لئے دعا کروں گا ۔

اگراس سے مراد یہ ہوتا کہ آپ ﷺ حیات کے بعد بھی استغفار کرتے ہیں تو آپ ﷺ کو یہاں اپنی حیات کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔اس حدیث سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ آیت میں  نبی ﷺ کے جس استغفار کا ذکر آیاہے وہ آپﷺوسلم کی زندگی کے ساتھ  خاص ہے ۔آپ ﷺ کی زندگی کے بعد نہیں ہے۔زندگی کے بعد یہی ہے “فاستغفراللہ” اللہ تعالی سے معافی مانگیں اور استغفار کریں۔

کیا ہر انسان کیلئے نبی ﷺ کی قبر پر جانا ممکن ہے؟

ایک  اہم بات یہاں پر یہ بھی ہے کہ دنیا میں بہت سارے لوگ گناہ گار ہیں ۔ عقلی طور پر دیکھیں کہ کیا ہر انسان کے بس میں ہے کہ نبی پاک ﷺ کی قبر مبارک پر جاسکے (یعنی مدینہ پاک جا سکے) ہر انسان نہیں جا سکتا ہے۔ اگر نبی ﷺکی وفات کے بعد بھی نبی ﷺ سے استغفار مانگنے کا وسیلہ جائز ہوتا اور گناہ اسی طرح ہی معاف ہوتے تو پھر تو بہت سارے لوگ ہیں جو روضہء  رسول پرنہیں جا سکتے وہ گناہوں کی مغفرت کروانےمحروم ہو جائیں گے۔چنانچہ اس وجہ سے بھی نبی ﷺ کی وفات کے بعد نبی ﷺ سے استغفار مانگنا جائز نہیں ہے ۔

کیا نبی ﷺ کا تصور دل میں لا کر دعا مانگ سکتے ہیں؟

بعض لوگوں نے اس آیت کے استدلال میں یہ ذکر کیا ہے کہ جو لوگ روضہء رسول پر نہیں جا سکتے وہ صرف یہاں پر اپنے ملک میں اپنے گھر میں بیٹھ کر نبی کریم ﷺ کا دل میں تصور لا کر بھی دعا کریں گے تب بھی ان کے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں تو “جآؤک” ذکر ہے۔اگر صرف گھر میں بیٹھ کر دل میں سوچ کر استغفار مانگنا ہوتا تو پھر تو آنے کا ذکر ہی نہ ہوتا ۔پھر تو یہ ہوتا کہ آپ جہاں پر بھی مانگنا چاہیں آپ مانگ سکتے ہیں” جَاءُوكَ ” کی قید نہیں لگائی جاتی ۔ بلکہ اللہ تبارک و تعالی نے یہ فرمایا کہ ” جَاءُوكَ “کہ جب وہ آپ کے پاس آئیں۔ اگر وہ دل میں ہی کر سکتے تھے تو پھر آنے کی قید لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔تو آنے کا ذکرکا تعلق آپ ﷺ کی حیات سے ہے کہ جب آپ ﷺ با قاعدہ حیات تھے۔ منافقین کو اس وقت یہ کہا گیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس جاؤ اور ان سے استغفار کی درخواست کروتو نبی ﷺ ان کے لیے دعا کریں گے۔اور یہ جائز وسیلے کی دلیل ہے۔

جائز وسیلے کی دلیل

جائز وسیلے کی دلیل یہ ہےکہ کوئی بھی نیک ہستی ہو، صالح ہو، نبی ہویا ولی ہو،  اپنی زندگی میں حیات ہو۔ آپ ان کے پاس جائیں، دعا کروائیں، استغفار کروائیں۔ یہ جائز عمل ہے اور یہ جائز وسیلے کی دلیل ہے۔ نہ کہ اس سے یہ استدلال کیا جائے کہ صالحین اور انبیاء کی وفات کے بعد بھی ان سے ان کی ذات کا وسیلہ لیا جائے ۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں صحیح وسیلہ اپنانے کی اوراسکو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین۔

  1. حسنه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند: (25908)
الشیخ خالد حسین گورایہ حفظہ اللہ: آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا، بعد ازاں اسی ادارہ میں بحیثیت مدرس خدمات دین میں مصروف ہیں، آپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں نائب المدیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔