پاکستان میں حالیہ طوفانی سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے خصوصاً بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں سیلاب نے تباہی اور بربادی کی نئی داستان رقم کر دی ہے۔ کئی علاقوں میں پوری کی پوری بستیاں صفحہِ ہستی سے مٹ گئی ہیں۔ اب تک ایک اندازے کے مطابق مذکورہ بالا علاقوں میں ہزاروں اموات ہو چکی ہیں۔ بلوچستان اور سندھ کے دیہی علاقے غربت کے باعث مٹی کے گھروں پر مشتمل ہیں اور ان کے روزگار کا سارا دار و مدار کاشت کاری اور مال مویشی پر ہے۔ سیلاب نے نہ صرف ان کے لاکھوں مٹی کے گھروں کو روند ڈالا بلکہ ان کے مویشیوں کو بھی بہا لے گیا۔ لاکھوں ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں ہیں۔ اب تک ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے مصدقہ ذرائع کے مطابق تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ یہ کروڑوں متاثرین چاروں جانب پانی میں ڈوبے اور کھلے آسمان تلے بے سر و سامانی کی حالت میں امداد اور داد رسی کی آس لئے بیٹھے ہیں۔
قدرتی آفات کے اسباب
دنیا بھر کے سائنس دان اور ماہرین زلزلوں، سیلابوں، سمندری طوفانوں اور دیگر آفتوں کے کچھ ظاہری اسباب کا ذکر کرتے ہیں لیکن قرآنِ کریم نے گزشتہ اقوام پر آنے والی ان آفتوں، زلزلوں، آندھیوں، طوفانوں، وباؤں، اور سیلابوں کا ذکر ان اقوام پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اظہار کے طور پر کیا ہے اور ان قدرتی آفتوں کو ان قوموں کے لیے اللہ کا عذاب قرار دیا ہے۔ بلاشبہ جہنم اللہ تعالیٰ کے اظہارِ جلال اور اظہارِ غیظ و غضب کا مقام ہے لیکن رب کی ناراضگی کا نتیجہ فقط آخرت اور جہنم تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیاوی زندگی بھی اس کے قہر و غضب سے آزاد نہیں ہے کیونکہ وہ دنیا اور آخرت دونوں کا رب ہے۔ ذیل میں ہم اُن اعمالِ قبیحہ پر نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ کی بارگاہ میں ناراضگی کے باعث بنتے ہیں اور قدرتی آفات زلزلوں، سیلابوں، طوفانوں، وبائی امراض وغیرہ کا باعث بنتے ہیں ۔
سنتِ رسولﷺ سے دوری
اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور خفگی کے باعث بننے والے اعمالِ قبیحہ اور قدرتی آفات زلزلوں، سیلابوں، طوفانوں کے اسباب میں سے ایک سبب رسول اللہ ﷺ کے اسوہِ حسنہ سے دوری ہے ۔ جب ہم سنتِ رسول سے دوری اختیار کرتے ہیں اور اپنے اعمال سے تکذیبِ رسالت کے مرتکب ٹھہرتے ہیں تو اللہ کی بارگاہ میں پکڑ اور گرفت آتی ہے ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وتَوَلّٰی
طه – 48
بے شک ہماری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ عذاب (ہر) اس شخص پر ہوگا جو (رسول کو) جھٹلائے گا اور (اس سے) منہ پھیر لے گا۔‘‘
آج ہم پر اللہ کے عتاب اور غضب کے نازل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا اجتماعی عمل سنتِ رسول ﷺ کی تکذیب بھی کر رہا ہے اور اس سے انحراف بھی کر رہا ہے۔ ہمارے اجتماعی کردار میں سنتِ رسول ﷺ کی روشنی مدھم ہوگئی ہے یا ختم ہو رہی ہے اور بعض میں ختم ہو چکی ہے۔
آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اسلام کی روشن تعلیمات کے بجائے زمانہ جاہلیت کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں آج پھر پلٹنا ہے اس ذات کی طرف جس کی پیروی کا رب نے ہمیں حکم دیا ہے اور جس کی پیروی میں کامیابی، نجات، ہدایت اور بندگی کا کمال ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کی اطاعت و پیروی کا ہمیں یوں حکم دیا گیا:
وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَ
الاعراف – 158
اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکو۔‘‘
اس پیروی و اطاعت رسول کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کسی امر کی مخالفت ہمارے وجود سے سرزد نہ ہونے پائے۔ اگر امرِِ رسول ﷺ سے مخالفت ہمارے وجود میں جڑ پکڑ گئی تو اس کا نتیجہ اللہ کے غضب کی صورت میں نازل ہوگا۔ ارشاد فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهِ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ
النور – 63
پس وہ لوگ ڈر جائیں جو رسول ﷺ کے امرِ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا۔‘‘
اس آیتِ کریمہ نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت فتنے اور عذاب کا باعث ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت سے مراد آپ ﷺ کے احکام، تعلیمات، سیرت، اسوہ حسنہ، اعمال، اخلاق حسنہ، اقوال جلیلہ اور آپ ﷺ کے لائے ہوئے دینِ اسلام کے کل احکام کی مخالفت ہے۔ اس لئے کہ رسولِ اکرم ﷺ کے امر کی مخالفت اللہ کے امر کی مخالفت ہے اور رسولِ اکرم ﷺ کے امر کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔
ظلم و ستم
رب کی گرفت اور غضب ان پر بھی ہوتا ہے جو ظلم کا راستہ اپناتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلمِ عظیم یعنی سب سے بڑا ظلم کہا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ
الانعام – 82
تو صحابہ کرام پر بہت دشوار ہوئی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر شخص اپنی جان پر کچھ نہ کچھ ظلم کرتا ہے (ہر کسی سے صغیرہ کبیرہ گناہ ہو ہی جاتے ہیں) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ظلم کا یہ معنی مراد نہیں ہے۔ کیا تم نے لقمان کا اپنے بیٹے کے متعلق یہ قول نہیں سنا کہ شرک ظلمِ عظیم ہے۔1
تو آیتِ کریمہ میں ظلم سے مراد شرک ہے اور شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ آپ نگاہ اٹھا کر دیکھئے دنیا میں بہت ساری مساجد ملیں گی جن میں بزرگوں کی قبروں کی تعظیم اور ان پہ سجدے وغیرہ کیے جاتے ہیں حالانکہ جب ہم ایک لمحے کے لئے نبی كریم ﷺ کی وفات سے پہلے کے اوقات کو دیکھتے ہیں بلکہ تقریبا سکرات الموت کا عالم ہے آپ اپنی چادر کبھی منہ سے اٹھاتے کبھی ڈھانک لیتے عین اس وقت آپ نے فرمایا:
لَمَّا نَزَلَ برَسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً علَى وجْهِهِ، فإذا اغْتَمَّ كَشَفَها عن وجْهِهِ، فقالَ وهو كَذلكَ: لَعْنَةُ اللهِ علَى اليَهُودِ والنَّصارَى؛ اتَّخَذُوا قُبُورَ أنْبِيائِهِمْ مَساجِدَ. يُحَذِّرُ ما صَنَعُوا.
صحیح البخاری – 5815
رسول اللہ ﷺ پر جب آخری مرض طاری ہوا تو آپ اپنی کملی چہرہ مبارک پر ڈالتے تھے اور جب سانس گھٹنے لگتا تو چہرہ کھول لیتے اور اسی حالت میں فرماتے: یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ نبی کریم ﷺ یہود و نصاری كے عملِ بد سے مسلمانوں كو ڈرا رہے تھے۔
سوچیئے! اگر یہ لعنت آپ ﷺ نے انبیاء کی قبروں پر سجدہ کرنے کے تعلق سے فرمایا ہے تو بزرگوں کی قبروں پر سجدہ یا شرک و بدعت کے دوسرے اعمال (جیسے ان سے خوف یا کسی سے حاجت کی بر آوری کے لئے ان سے امید، ان پر مرغا بکرا ذبح کرنا، نذر و نیاز چڑھانا، اور گریہ و زاری کے ساتھ ان سے کسی چیز کی طلب کے لئے دعا کرنا، ان سے مدد طلب کرنا) کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ جائز تو دور کی بات ہے اللہ کے نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کو سب سے بری مخلوق قرار دیا ہے۔
صحیحین میں عائشہ رضي الله عنها سے مروی ہے کہ : ام حبیبہ اور ام سلمہ رضي الله عنهما نے نبی ﷺ سے ملکِ حبشہ کے ایک کنیسہ اور اس میں موجود مجسموں کا ذکر کیا تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا تھا تو وہ لوگ اس کی قبر پر ایک سجده گاہ بنا دیتے تھے اور اس میں اس کے مجسمے نصب کر ديتے تھے۔ بلا شبہ وہ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں۔
افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت بھی مشرکینِ عرب کی طرح توحیدِ ربوبیت کی تو قائل ہے لیکن توحیدِ الوہیت کی منکر ہے۔ اس لیے وہ ما فوق الاسباب طریقے سے غیر اللہ سے بھی امیدیں وابستہ کرتی ہے، غیر اللہ کے نام کی بھی نذر و نیاز دیتی ہے ، غیر اللہ سے بھی استمداد و استغاثہ کرتی ہے، قبروں کا طواف کرتی ہے ، بہت سے لوگ قبروں کو سجدہ تک کرتے ہیں کیونکہ وہ غیر اللہ میں بھی اللہ والی صفات تسلیم کرتے ہیں حالانکہ یہ شرک ہے۔
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومن المحال أن یکون دعاء الموتی ، أوالدعاء بہم أو الدعاء عندهم مشروعا وعملاً صالحاًویصرف عنه القرون الثلاثة المفضلة بنص رسول اللہ ﷺ ثم یرزقه الخلوف الذین یقولون ما لا یفعلون ویفعلون مالا یؤمرون، فہذہ سنة رسول اللہ ﷺ في أهل القبور بضعاً وعشرین سنة وهذہ سنة خلفاءالراشدین وهذہ طریقة جمیع الصحابة والتابعین لہم بإحسان
“اگر فوت شدہ بزرگوں کو پکارنا اور ان کے وسیلے سے دعا کرنا یا ان کی قبر کے پاس اپنے لیے دعا مانگنا درست اور جائز ہوتا تو اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ صحابۂ کرام، تابعین عظام اس سے پیچھے رہ جاتے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس امت کے افضل انسان جن کو سید المرسلین ﷺ کی زبانِ اطہر سے خیر القرون ہونے کا سر ٹیفیکٹ ملا ہو وہ ایسے عمل سے غافل رہے ہوں اور بعد والوں کو اس کا علم ہوا ہو جو وہ کام کرتے ہیں جس کا حکم نہیں ہے اور وہ بات کہتے ہیں جس کی اجازت نہیں ہے ۔ یہ ہے وہ طریقہ جسے آنحضرت ﷺ نے 63 سال تک اختیار کیا حتی کہ آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور یہی خلفاءِ راشدین اور تمام صحابہ کرام کی سنت ہے اور تابعینِ عظام کا طریقہ ہے۔” (رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت اس لیے مشروع کی تھی کہ آخرت یاد رہے اور میت کو نیکی پہنچے اس طرح کہ اس کے لیے رحمت کی دعا کی جائے اور اللہ سے اس کے لیے بخشش اور عافیت کا سوال کیا جائے)۔
ظلم كی دوسری صورت لوگوں كے حقوق پر ڈاكہ ڈال كر ان کو جائز حقوق سے محروم کرنا ہے۔ انسان کا نفس جب رب کے احکام کی پیروی سے آزاد اور محروم ہو جائے تو پھر ظلم کی دوسری صورت سامنے آتی ہے اور وہ بندہ دوسرے انسانوں کے حق میں بھی بہت بڑا ظالم بن جاتا ہے۔ وہ لوگوں کے حقوق چھینتا ہے، لوگوں کے مال ہڑپ کرتا ہے، ان کی عزتوں کو پامال کرتا ہے اور اپنے ظلم کے ذریعے لوگوں کو رسوا کرتا ہے۔ ایسا شخص جہاں رب کے ہاں نافرمان ہے وہاں بڑا ظالم بھی ہے۔ گویا اس طرح وہ بیک وقت حقوق اللہ سے بھی انحراف کرتا ہے اور حقوق العباد سے بھی اعراض کرتا ہے۔ یہ نفس ایک ہی وقت میں اللہ کے ہاں بھی ظالم ہے اور بندوں کے حق میں بھی ظالم ہے۔ ایسے ظالموں کے لئے دنیا میں اللہ کا غضب اور آخرت میں اس کا عذاب ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:
وَالظّٰلِمِيْنَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا.
الانسان – 30
اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
ظالم اس عذاب اور غضب کا اس لئے شکار ہوتے ہیں کہ وہ اپنے عمل کے ذریعے اللہ، اس کے رسول ﷺ اور دین اسلام کی تعلیمات کی کھلم کھلا تکذیب کرتے ہیں۔ اللہ کے احسانات کو جھٹلاتے ہیں اور اس کی نعمتوں کا عملاً انکار کرتے ہوئے اس کی آیات سے انحراف کرتے ہیں۔ گویا تکذیبِ دین کا رویہ ان کے قول میں بھی پایا جاتا ہے اور ان کے فعل میں بھی پایا جاتا ہے۔ جب تکذیبِ دین کا یہ عمل ان کے وجودوں میں سرایت کر جاتا ہے تو یہی عمل ان کو اللہ کی بارگاہ میں ظالم بنا دیتا ہے اور اس ظلم کی بنا پر وہ اللہ کی بارگاہ میں غضب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ اس لئے سورة النحل میں ارشاد فرمایا:
فَکَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ
النحل – 113
تو انہوں نے اسے جھٹلایا پس انہیں عذاب نے آپکڑا اور وہ ظالم ہی تھے۔‘‘
مکر و فریب
قدرتی آفات زلزلوں، سیلابوں، طوفانوں کے اسباب میں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بننے والے اعمالِ قبیحہ میں سے ایک گناہ مکر و فریب ہے۔ مکر و فریب وہ گناہ ہے جو اللہ کے عذاب کے نزول اور اس کی گرفت کا باعث بنتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ
الفاطر – 10
اور جو لوگ بُری چالوں میں لگے رہتے ہیں ان کے لئے سخت ترین عذاب ہے اور ان کا یہ مکر برباد ہوجائے گا ۔
مکر کیا ہے؟
خفیہ طریقے سے کسی کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کو مکر کہتے ہیں۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اچھی بات کے بجائے باطل اور خبیث باتیں لے کر اٹھتے ہیں اور مکاریوں اور چالاکیوں سے انھیں غالب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کفر و شرک کا ارتکاب بھی مکر ہے۔ ہر وہ تدبیر جس سے اسلام کی راہ روکی جا سکتی ہو وہ مکر ہے۔ ریاکاری بھی مکر ہے۔ یہاں یہ لفظ مکر کی تمام صورتوں کو شامل ہے۔
مکاروں کا انجام
اللہ پاک نے مکر و فریب کرنے والے لوگوں کے انجام سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ
النمل – 51
پس ان کے مکر کا انجام دیکھیں، ہم نے مکر کرنے والوں اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا ۔
یہ وہ لوگ تھے جو حضرت صالح علیہ السلام کے منصوبۂ قتل میں شریک تھی۔ کیونکہ یہ منصوبہ خفیہ تھا جو 9 افراد نے حضرت صالح عليہ السلام اور ان کے اہل کے خلاف تیار کیا تھا۔ اس لیے پوری قوم ہی ہلاکت کی مستحق قرار پائی۔
حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے انجام میں لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے کہ اللہ کے مقابلے میں کسی کی چال کارگر نہیں ہوتی جو بھی مکر و فریب سے کام لے گا اللہ تعالیٰ اسے صالح علیہ السلام کی قوم کی طرح نشان عبرت بنا دے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ
الانعام – 124
عنقریب ان مجرموں کو اللہ کے نزدیک ان کے مکر و فریب کی وجہ سے ذلت و رسوائی اور شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
اعلانیہ فحاشی
قدرتی آفات کے اسباب میں سے ایک سبب اعلانیہ فحاشی ہے جو اللہ کے عذاب کے نزول اور اس کی گرفت کا باعث ہے۔ جس طرح قولِ صالح اور عملِ صالح انسان کے لئے نجات کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح قرآن اس حقیقت کو بھی واضح کرتا ہے کہ جب انسان فحش و منکرات میں پڑ جاتا ہے، اللہ کی اطاعت کو معصیت میں بدل دیتا ہے، منکرات سے محبت کرتا ہے، حسنات سے نفرت کرتا ہے، بدی کی طرف رغبت کرنے لگتا ہے اور فحش چیزوں میں چاہت رکھنے لگتا ہے تو تب اللہ کی گرفت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ ارشاد فرمایا:
مَنْ يَاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ
الاحزاب – 30
تم میں سے کوئی اعلانیہ معصیت کا مرتکب ہو تو اس کے لیے عذاب دوگنا کر دیا جائے گا‘‘۔
گویا جب فحش مبینہ، اعلانیہ معصیت، كھلے عام گناہ اور نافرمانی بڑھ جائے تو پھر اللہ کی بارگاہ سے اس کا غضب اور عذاب نازل ہوتا ہے۔
اسی طرح سورة النور میں ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِی الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ.
النور – 19
بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
جو لوگ اہل، ایمان میں بے شرمی و بے حیائی اور فحاشی کو پھیلانے کے محرک بنتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ اسلامی معاشرے میں سے شرم و حیا کا جنازہ اٹھ جائے ایسے لوگ دنیا میں بھی درد ناک عذاب سے دو چار ہوں گے اور آخرت میں بھی انہیں دردناک عذاب دیا جائے گا۔ اور جہنم کا عذاب انتہائی سخت اذیت ناک اور ناقابلِ برداشت عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
لقمان – 06
اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو بے ہودہ کلام خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکے اور جہالت کے ساتھ گمراہ کرے اور اس دعوتِ حق کو مذاق بنائے۔ ایسے لوگوں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
یہ ان بے حیا لوگوں کا ذکر ہے جو اپنی جہالت اور عاقبت نا اندیشی سے قرآن کریم کو چھوڑ کر ناچ رنگ، کھیل تماشے یا دوسری واہیات و خرافات (جیسے ٹی وی ،وی سی آر، ڈش یا موبائل و انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے) فحاشی و عریانی میں مستغرق ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی ان ہی مشاغل و تفریحات میں لگا کر اللہ کے دین اور اس کی یاد سے برگشتہ کر دیں اور دین کی باتوں کا خوب ہنسی مذاق اڑائیں۔ بالکل یہی حالت آج کل مسلم قوم کی ہو گئی ہے کہ وہ قرآن کریم کو چھوڑ کر گانے، موسیقی، ٹی وی اور ناچ رنگ کی دلدادہ اور انہی چیزوں کی خریدار بن چکی ہے۔
فحاشی بے غیرتی ہے
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان كرتے ہیں :
قيلَ لِرسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: أمَا تَغارُ؟ قال: واللهِ، إنِّي لَأَغارُ، واللهُ أَغْيَرُ مِنِّي؛ ومِن غَيْرتِه نهَى عَنِ الفواحِشِ2
کہ کسی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: کیا آپ غیرت نہیں کرتے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! بیشک میں غیرت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے اور یہ اس کی غیرت کا ہی تقاضا ہے کہ اس نے فحش کاموں (بے حیائی اور بدکاریوں) سے منع کر دیا ہے۔
فحاشی کی مختلف صورتیں
فاحشہ سے مراد ہر وہ کام جو انسان کی شہوانی خواہش میں تحریک پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہو۔ فحاشی کی اشاعت کی بہت سی صورتیں ہیں۔
سب سے پہلی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت پر الزام لگا دے تو دوسرے لوگ بلا تحقیق اس بات کو آگے دوسرے سے بیان کرنا شروع کردیں۔
دوسری صورت زنا ہے جسے قرآن نے فاحشہ مبینہ کہا ہے۔ زنا کے علاوہ شہوت رانی کی دوسری صورتیں اختیار کی جائیں۔ مثلاً مردوں کی مردوں سے خواہش پوری کرنا یا لواطت جس کی وجہ سے قوم لوط پر پتھروں کا عذاب نازل ہوا تھا ۔
تیسری صورت یہ ہے کہ مرد حیوانات سے یہ غرض پوری کریں۔ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’اگر تم دیکھو کہ کوئی شخص حیوان پر جا پڑا ہے تو اس کو بھی اور اس حیوان کو بھی مار ڈالو‘‘.3
چوتھی صورت یہ ہے کہ عورتیں عورتوں سے ہمبستری کریں۔ شریعت نے عورتوں کے لئے بھی ستر کے حدود مقرر کر دیئے ہیں۔ یعنی کوئی عورت کسی عورت کے سامنے بھی ناف سے لے کر گھنٹوں تک کا حصہ کسی صورت میں نہیں کھول سکتی اور ہمارے ہاں جو یہ رواج ہے کہ عورتیں ایک دوسرے کے سامنے ننگے بدن ایک ساتھ نہا لیتی ہیں یہ بلکل خلافِ شرع ہے اور عورتوں کا ننگے بدن ایک دوسرے سے چمٹنا اور بھی بری بات ہے۔ اس بات سے رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع کیا اور فرمایا: کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ نہ چمٹے۔4
پانچویں صورت یہ ہے کہ عورتیں بعض حیوانات سے اپنی جنسی خواہش پوری کریں جیسا کہ بنگلوں میں رہنے والی بعض مہذب خواتین اپنے پالتو کتوں سے بد فعلی کرواتی ہیں اس کا حکم بھی تیسری صورت پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
چھٹی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے دوستوں سے اپنی بیوی سے ہمبستری کی باتیں دلچسپی لے لے کر بیان کرے یا کوئی عورت اپنی سہیلیوں سے ایسے ہی تذکرے کرے۔ یا کوئی عورت ننگے بدن دوسری ننگی عورت سے چمٹے پھر اس بات کا تذکرہ اپنے خاوند سے کرے اور اس عورت کے مقامات ستر سے اسے آگاہ کرے تاکہ اس کے شہوانی جذبات بیدار ہوں اور اس کا خاوند اس کی طرف مائل ہو۔ ایسی تمام باتوں سے بھی رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔5
فحاشی کی جدید صورتیں
آج کل فحاشی کی اشاعت کی اور بھی بہت سی جدید صورتیں ایجاد ہو چکی ہیں۔ مثلاً: ٹھیٹر، سینما گھر، کلب ہاؤس، اور ہوٹلوں کے پرائیوٹ کمرے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر شہوت انگیز پروگرام اور گانے۔ فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول، افسانے اور ڈرانے وغیرہ اور جنسی ادب۔ اخبارات اور اشتہارات وغیرہ میں عورتوں کی عریاں تصاویر۔ ناچ گانے کی محفلیں۔ غرض فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج کل بہت وسیع ہو چکا ہے اور اس موجودہ دور میں فحاشی کے اس سیلاب کی ذمہ دار یا تو خود حکومت ہے یا پھر سرمایہ دار لوگ جو سینما، ٹھیٹر اور کلب گھر وغیرہ بناتے ہیں یا اپنا میک اپ کا سامان بیچنے کی خاطر انہوں نے عورتوں کی عریاں تصاویر شائع کرنے کا محبوب مشغلہ اپنا رکھا ہے یا بعض اداروں اور مکانوں میں عورتوں کو سیل مین کے طور پر ملازم رکھا جاتا ہے تاکہ مردوں کے لئے وہ باعثِ کشش ہوں اور ان کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو۔
نیکی کا حکم نہ دینا اور برائی سے نہ روکنا:
جب پوری قوم برائی میں ملوث ہو جائے، کوئی نیکی کا حکم دینے والا اور برائی کو برائی جانتے ہوئے بھی اس سے روکنے والا نہ ہو تو پھر اللہ کی بارگاہ سے اس کا غضب اور عذاب نازل ہوتا ہے۔ اللہ نے قرآن میں بنی اسرائیل کے متعلق بیان کیا:
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
الاعراف – 165
پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو (بالکل ہی) فراموش کر دیا جو انہیں کی جا رہی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور ان لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے بہت برے عذاب میں پکڑ لیا ۔
دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا کہ :” اصحاب السبت” کو اس لئے مصائب میں مبتلا کیا گیا کیونکہ وہ برائی سے روکتے نہ تھے”۔
كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
المائدۃ – 79
وہ لوگ جس گناہ کا ارتکاب کرتے تھے اس سے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے یقینا وہ جو کچھ کرتے تھے بہت برا تھا۔
برائی کو دیکھتے ہوئے برائی سے نہ روکنا بہت بڑا جرم اور لعنت و غضبِ الٰہی کا سبب ہے۔ احادیث میں بھی اس جرم پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں۔چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
والَّذي نَفسي بيدِهِ لتأمُرُنَّ بالمعروفِ ولتَنهوُنَّ عنِ المنكرِ أو ليوشِكَنَّ اللَّهُ أن يبعثَ عليكُم عقابًا منهُ ثمَّ تَدعونَهُ فلا يَستجيبُ لَكُم
صحیح الترمذی – 2169
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے۔
ایک اور حدیث میں حضرت جریر رضی الله عنہ بیان كرتے ہیں :
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ” ما من رجلٍ يكونُ في قومٍ يعملُ فيهم بالمعاصي يقدِرون على أن يُغيِّروا عليه فلا يُغيِّروا إلَّا أصابهم اللهُ بعذابٍ من قبلِ أن يموتوا
صحیح ابی داؤد – 4339
کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو آدمی کسی ایسی قوم میں ہو جس میں گناہ کے کام کیے جاتے ہوں اور وہ اسے روکنے پر قدرت رکھتا ہو اور نہ روکے تو اللہ اسے مرنے سے پہلے ضرور کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے“۔
حضرت ابو بكر الصدیق رضی الله عنہ فرماتے ہیں :
وإنِّي سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ : ما من قومٍ يُعمَلُ فيهم بالمعاصي ، ثمَّ يقدِرون على أن يُغيِّروا ، ثمَّ لا يُغيِّروا إلَّا يوشِكُ أن يعُمَّهم اللهُ منه بعقابٍ6
کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’کوئی بھی قوم جس میں اللہ کی نافرمانیوں پر عمل ہوتا ہو پھر وہ اسے بدلنے کی طاقت رکھتے ہوں پھر نہ بدلیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے۔
عبادت سے دوری
اللہ کی گرفت اور غضب ان پر بھی آتا ہے جو اس کی عبادت کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں اور تکبر و غرور کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ کی بندگی میں ان کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ان کا نفس تکبر و غرور اور سرکشی و بغاوت کی علامت بن جاتا ہے۔ اس لئے وہ عبادت سے گریز کرتے ہیں۔ نفس کی یہی فراری اور گریزی طبیعت انسان کو اللہ کے غضب کا شکار کرتی ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَأَمَّا الَّذِينَ اسْتَنكَفُوا وَاسْتَكْبَرُوا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
النساء – 173
اور جن لوگوں نے (اس کی عبادت کا) انکار کیا اور تکبر کیا، اللہ انہیں دردناک عذاب دے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے علاوہ کوئی دوست اور مددگار نہ پائیں گے ۔
بندے کا اپنی بندگی کے ذریعے رب کی بارگاہ میں اظہارِ محتاجی اسے اللہ کے انعامات اور اعزازات کا مستحق بناتی ہے جبکہ بندے کا تکبر و غرور اور عبادت میں عار محسوس کرنا اسے رب کے غضب کا شکار کرتا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورة الجن میں یوں ارشاد فرمایا:
وَمَن يُعْرِضْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا
الجن – 17
اور جو شخص اپنے پروردگار کے ذکر سے منہ پھیر لے گا تو اللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔
ناپ تول میں کمی کرنا
انسان ناپ تول میں کمی کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ شعیب علیہ السلام کی قوم اہلِ مدین میں یہ بیماری موجود تھی۔ انہیں ان کے اس غلط عمل سے منع کیا گیا لیکن وہ باز نہیں آئے نتیجتاً اللہ نے زلزلے کے شدید جھٹکوں سے ان کو اور ان کے گھروں کو برباد کر دیا اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ولم يَنْقُصُوا المِكْيالَ والميزانَ إِلَّا أُخِذُوا بالسِّنِينَ وشِدَّةِ المُؤْنَةِ ، وجَوْرِ السلطانِ عليهم
(صحيح الجامع: 7978)
جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنا شروع کر دیتی ہے تو الله تعالیٰ ایسی قوم پر قحط سالی، معاشی تنگی اور حکمرانوں کے ظلم و ستم جیسی مصیبتیں مسلط کر دیتا ہے” ۔
زکوۃ ادا نہ کرنا
زکوۃ اسلام کا ایک اہم رکن ہے جو ہر صاحبِ نصاب پر فرض ہے لیکن اگر کوئی زکوۃ ادا نہیں کرتا ہے یا پورے مال کی زکوۃ نہیں نکالتا ہے تو اسے عذابِ الہی کا منتظر رہنا چاہیئے۔ ابنِ ماجہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
ولم يَمْنَعُوا زكاةَ أموالِهم إلا مُنِعُوا القَطْرَ من السماءِ ، ولولا البهائمُ لم يُمْطَرُوا
(صحيح الجامع : 7978)
جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ دینا بند کرتے ہیں تو ان سے آسمان کی بارش روک لی جاتی ہے ۔ اگر جانور نہ ہوں تو انہیں کبھی بارش نہ ملے ۔
قدرتی آفات آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
قوموں پر عتاب، غضب اور عذاب اتارنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ رب کی طرف پلٹ آئیں۔ وہ جان لیں اور دیکھ لیں کہ سب سے بڑی قوت کا مالک اللہ ہی ہے۔ اس لئے ہمیں آخرت کی فکر کو ہمہ وقت اپنا وظیفہِ حیات بنانا ہوگا اور ہمیں اس کے ہر عتاب اور غضب پر اس کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرنا ہے۔ اسی صورت اس کی رحمت اور فضل کی بارش کے ہم مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔
اس کے بعد ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں کہ یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس سلسلہ میں جاں بحق ہونے والے خواتین و حضرات کے لیے دعائے مغفرت کا اہتمام ضروری ہے۔ چونکہ وہ لوگ اچانک اور حادثاتی موت کا شکار ہوئے ہیں اس لیے حضور ﷺ کے ایک ارشاد کے مطابق وہ شہداء میں شامل ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا بھی ہم پر ان کا حق ہے اور ہمیں اپنی دعاؤں میں انہیں یاد رکھنا چاہیے۔
- (صحیح البخاری: 32)
- (مسند احمد: 8304 ) (صححه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند:8321)
- (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب فیمن وقع علی البھیمۃ)
- (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لا تباشرا المراۃ المراۃ فتنفعتھا لزوجھا)
- (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لاتباشر المراۃ فتنفعھا لزوجھاالمراۃ)
- (صحيح أبي داود: 4338، وصحیح الترمذی : 3057)