پہلا خطبہ:
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالی ٰ کے لئے ہے جو مشفق و رحیم ہے،گناہ بخشنے والا ،توبہ قبول کرنے والاہے اور سخت عذاب دینے والا ہے،اُس کے سوا کوئی معبود نہیں اُسی کی طرف واپس لوٹنا ہے،جس نے پیدا کیا اور پھر دُرست کیا اور جس نے ٹھیک ٹھاک اندازہ کیا اور پھر راہ دکھائی،اُسی کے لئے ہر طرح کی حمد ہے،اُسی کے ہاتھ میں ہر طرح کا خیر ہے۔تمام معاملات کا رجوع اُسی کی طرف ہے ۔اُسی کےلیے اُس کےچہرے کا جلال اور عظیم سلطنت کے شایان ِ شان حمد ہے۔ ہر طرح کی حمد اُسی کے لئے ہے یہاں تک کہ وہ راضی ہوجائےاور اُس کی رضا کے بعد بھی ہر طرح کی حمد اُسی کےلیے ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اور اُس کا کوئی شرک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں ۔ آپ ﷺ آخری نبی یعنی خاتم النبین ہیں ،آپ روشن اور تابناک پیشانی والے مومنوں کے قائد ہیں اور آپ ﷺ رحمۃ اللعالمین بنا کربھیجے گئے ہیں۔اللہ کی طرف بُلانے والے نماز پڑھنے والے ۔اور نماز پڑھنے والوں اور روزہ رکھنے والوں میں آپ ﷺ سب سے بہتر ہیں۔ آپ ﷺ نے لوگوں کوایسی روشن شاہراہ پر چھوڑا جس کی رات اُس کے دن کی طرح روشن ہے ۔ ہلاک ہونے والاہی اِس سے بھٹکے گا ۔
درود و سلام نازل ہوآپ ﷺ پر ،آپ کی نیک و پاکباز آل پر ،آپ ﷺ کی ازواج مطھرات امہات المومنین پر، بابرکت صحابہ کرام پر اور اُن کے بعد قیامت تک اُن کی اچھی طرح پیروی کرنے والوں پر ۔
اما بعد!
اللہ جل شانہ کے تقویٰ کی وصیت سے بڑی کوئی وصیت نہیں ہے۔ یہ مومن کےلیے لگام ہے اور خواہشات کے لئے نکیل ہے۔اسی کے ذریعے دنیا میں استقامت ہےاور آخرت میں ارحم الراحمین کی رحمت سے سبب نجات ہے۔ جس نے اللہ کا یہ تقویٰ اختیار کیا وہ نامراد نہیں ہوگا اور جو اُس کے طریقے پر چلاوہ گھاٹا نہیں اُٹھائے گا۔
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ ﴿٥٤﴾ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ
القمر – 54/55
یقیناً ہمارا ڈر رکھنے والے جنتوں اور نہروں میں ہوں گے۔ راستی اور عزت کی بیٹھک میں قدرت والے بادشاه کے پاس۔
لوگوں اپنے بندوں کے سلسلے میں خواہ وہ افراد ہوں یا جماعت ،اللہ کی سنتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اُنہیں آفاق میں اور اُن کے نفسوں میں نشانیاں دکھاتا ہے ۔اور اُن کو تمحیص و امتحان کےلئے آزمائش و مصیبت ،دشمن کے ڈر ،بھوک ،مال و جان اور پھلوں کی کمی سے دوچار کرتاہےتاکہ صبر کرنے والے کو ناگواری کا اظہار کرنے والے سے اور کام کرنے والے کو بیٹھے رہنے والے سے الگ کرےتو جس نے ان حالات میں صبر کیاوہ فائدے میں رہا اور اُس نے یہ جان لیا کہ ہرچیز اللہ کی طرف سے اور یہ بھی کہ بسا اوقات نقصان دینے والی چیزیں وہ فائدہ دیتی ہیں جو کوئی نہیں دے سکتا۔ اور بہت ساری نوازشیں آزمائشوں کی کوکھ میں ہوتی ہیں، جو اِن حالات میں ناگواری کا اظہار کرے گاتو اُس کے لئے دنیا و آخرت میں ناگواری ہے ۔
آزمائشوں میں توفیق کی علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اِ ن سے ایسی حالت میں نکلا جائے جو آزمائشوں سے پہلے کی حالت سے بہتر ہو۔جس میں اللہ پر ایمان ہو،شعور و احساس ہواور عبرت حاصل کی گئی ہو۔
اللہ کے بندو! ان آزمائشوں میں سے آج ہماری دنیا پر نازل ہونے کی صحت سے متعلق وہ وباء ہےجس نے اپنے پنجوں سے پوری دنیا کو زخمی کردیااور مسلسل دو سالوں کےدوران صحت ،معیشت ،تعلیم اور زندگی کے عام معاملا ت پر اُس کےمنفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس وباءنے پوری دنیا کو اُس کی قوت ،طاقت اور مضبوطی کے باوجود حیرت و اضطراب میں ڈال رکھا ہےاور اب جبکہ ہم الرحم الراحمین سے اِس کے ختم ہونے کی توقع کررہے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اسے دور کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں بعد کمزور نہ پڑیں اور اِس کی نت نئی بدلتی شکلوں کو کمتر نہ سمجھیں جو وقتا ًفوقتا ً دنیا پر حملہ آور ہوتی رہتی ہیں بلکہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اسباب اختیار کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں۔ اس لئے یہ ہی دونوں چیزیں اِن آفات سے مقابلہ کرنے کے اہم اصول اور بنیادیں ہیں ۔چونکہ اللہ جل شانہ پر توکل جائز اسباب اختیار کرنے سے نہیں روکتا،اور اسباب کا اختیار کرنا توکل کو مخدوش نہیں کرتابلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔جسے اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اسی ایمان کے ساتھ کہ یہ اسباب خود کچھ نہیں کرسکتے بلکہ اُن کا مسبب اللہ تعالیٰ ہےجس کی قدرت عظیم ہے۔
اللہ کے بندو! اسباب کا اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا یہ دونوں رضا باللہ ،عمل اور بلندی کی فضا میں قائم رہنے کے لئے چڑیا کے دونوں پروں کی طرح ہیں۔ تو توکل کے بغیر اسباب کا اختیار کرنا بے سُود ہےاور اِسی طرح اسباب کے بغیر توکل بھی نہیں ہے۔تو توفیق یافتہ وہ شخص ہے جس نے اچھی طریقے سے دونوں کو اکٹھا کیا۔توکل کے بغیر اسباب کا اختیار کرنا کسی ہلاک کرنے والے دھوکے کی طرح ہے اور اسباب کو اختیار کئے بغیر توکل کھلی گمراہی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسلاف سے کچھ اقوال نقل کئے ہیں کہ صرف توکل کے بغیر اسباب کی طرف دل کا مائل ہونا توحید پر کاری ضرب ہےاور اسباب کو صرف اسباب نہ سمجھنا عقل پر ضرب ہے اور اسباب سے روگردانی کرنا شریعت پر ضرب ہے۔
اللہ کے بندو! اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انبیاء کے معجزات کو اسباب کے طور پر عمل سے جوڑا ہے۔جیسا کہ نوح علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا
ھود – 37
اورایک کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے تیار کر۔
اسی طرح موسیٰ علیہ سے کہا کہ:
اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ۖ
الشعراء – 63
دریا پر اپنی لاٹھی مار۔
اور انہی سے فرمایا کہ:
وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ ۖ
النمل – 12
اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال، وه سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے۔
اور رسول اللہ ﷺ سے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ
المائدۃ – 67
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔
اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین سے کو قوت عطا کی اور پھر ہر طرح کے سبب سے نوازا۔یہ چیز انہیں اسباب اختیار کرنے سے روکنے والی نہیں تھی۔جب انہوں نے کہا کہ :
مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا
الکھف – 95
میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے وہی بہتر ہےتم صرف قوت و طاقت سے میری مدد کرو۔
اسباب کا اختیار کرنا دینی اوردنیاوی دونوں اعتبار سے زندگی کی ضروریات میں سے ہے اور اس میں لاپرواہی برتنا سستی اور توکل میں کوتاہی ہے۔
ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم ﷺ سے جنت میں رفاقت کا سوال کیاتو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس کے علاوہ کچھ اور؟ تو ربیعہ نے کہا بس یہی۔تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم اپنے معاملوں میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔صحیح مسلم
اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرے ! دیکھو کیسے آپ ﷺ نے اُن سے سبب کو اختیار کرنے کا مطالبہ کیاباوجود اس کے کہ آپ ﷺ مستجاب الدعوات تھے۔
ابن ابی الدنیا نے معاویہ بن قر ہ سے روایت کیا کہ انہوں نے بتایا کہ جناب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے اہلِ یمن کے چند لوگوں سے ملاقات کی تو پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟انہوں نے جواب دیا کہ : ہم توکل کرنے والے ہیں،تو آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ تم لوگ بغیر اسباب اختیارکئے توکل کرنے والے ہو۔توکل کرنے والا وہ ہوتا ہے جو زمین میں اپنا دانہ ڈالتا ہے اور پھر اللہ عزوجل پر بھروسہ کرتا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے: تمام معاملات میں رحمٰن پر بھروسہ کرو،ایک دن بھی مانگنے سے عاجز رہنے کی ہرگز خواہش نہ کرو۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مریم علیہ السلام کو ہدایت کی کہ تم درخت کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ اور وہ پکی کھجوریں تمہاری طرف گرادےگا۔اگر اللہ تعالیٰ چاہتا کہ مریم علیہ السلام تنے کو ہلائے بغیر ہی پھل توڑ لیں تووہ توڑ لیتیں لیکن ہر چیز کا ایک سبب ہوتا ہے۔
اللہ کے بندو! جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے اہم چیز جس کے ذریعے اس خطرناک وبا کو دور کیا جاسکتاہے وہ یہ ہے کہ اس کام کے لئے اسباب کو اختیا رکرنا ہے ۔ اور اس وبا کو ختم کرنے کےلئے سب سے مفید چیز اس بیماری سے بچاؤ کی ویکسین لگوا کر علاج کے اسباب کو اختیار کرنا ہے ۔اور ایسا کیسا نہ جب دنیا کے متخصص ماہرین نے اس کو منظوری دی ہے ، اسے عالمی اور ملکی صحت کی بہت ساری تنظیموں نے اختیار کیا ہے،ملکوں اور حکومتوں نے اس پر اعتماد کیا ہے ۔اس کے بارے میں تردد یا شک کرنا محال ہے۔اس لئے اس مرحلے مٰیں تمام لوگوں کو چاہیئے کہ وہ بیداری کی سطح کو بلند کریں ،اس بحران سے اچھی طرح نمٹیں او ر کم سے کم نقصان کے ساتھ اس سے نجات حاصل کریں۔تاکہ وہ اس بات کا ادراک کرسکیں کہ مشکوک افواہوں،دہشت پھیلانے والی جھوٹی باتوں اور حوصلہ شکن چیزوں چکر میں رہنا اس تباہ کن وبا کے خاتمے کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
یہ ایسی افواہے ہیں جن کےذریعے افواہ پھیلانے والے بنا بصیرت کے وبائی ویکسین کے تعلق سے لوگوں کو شک میں ڈالتے ہیں ،اُن کی اس حرکت کا محرک من گھڑت باتوں کے پیچھے چلنا تشویشنا ک افواہوں کو سننااور دہشت پھیلانے والی باتوں سے متاثر ہوناہے۔اسی وجہ سے ویکسین لینے والے تردد کرنے والے افواہوں کے جالوں پر اپنے تردد کی بنیاد رکھتے ہیں جو مکڑی کے جالے سےزیادہ کمزور ہیں اور جن کی نہ کوئی لگام ہے نہ نکیل۔اس طرح وہ وباکو ان اسباب کے ذریعے مکمل طور پر ختم کرنے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اپنے فضل و رحمت سے مہیا فرمایا ہے۔
افواہوں کے پیچھے چلنا نقصان پہنچاتا ہے نفع نہیں ، پیچھے دھکیلتا ہے آگے نہیں ،وہ شعور کے دھاگے کو توڑدیتا ہےپھر اُس دھاگے سےدانے اس طرح گرتے ہیں کہ انہیں دوبارہ پرویا نہیں جاسکتا۔تو جس معاشرے میں بھی افواہیں داخل ہوتی ہیں وہ اُسے معیوب ہی کرتی ہیں اور جس معاشر ے سے نکل جاتی ہیں اُس میں نکھار آجاتاہے ۔ اور اگر اُن کے نقصانات میں سے صرف اتنا ہوتاکہ وہ معتمد کاوشوں اور تحقیقات میں شک پیدا کرتی ہیں تو یہ کافی تھا۔
اللہ کے بندو! اگر وہ تعجب کریں تو ان لوگوں پر تعجب ہے جو ویکسین پر شک کرتے ہیں۔وہ کیسے اس کے فائدہ مند ہونے کے عالمی اتفاق رائے پر تنقید کرتے ہیں ۔اور تعجب اس وقت زیادہ بڑھ جاتاہے جب ہم اِن شکوک و شبہات کرنے والوں کودوسری بیماریوں کی ویکسین میں اس طرح احتیاط کرتے نہیں دیکھتےجیسا کہ ہم اُنہیں اس وبا کی ویکسین کی احتیاط میں دیکھتے ہیں ۔ ہم انہیں بغیر سوال یا احتیاط کے منفی اثرات کی دوائیں لیتے ہوئے پاتے ہیں اور بسا اوقات وہ ایسی ویکسین لیتے ہیں اور اس کی پرواہ بھی نہیں کرتےجو اعتماد اور تحقیق کے اعتبار سے اس ویکسین کے معیار پر بھی نہیں ہے۔
وہ خوراک و صحت کے معاملے میں اپنی بہت سی لاپرواہیوں اور غلط طریقوں کے سبب اندھے بن جاتے ہیں اور وبا کی ویکسین کے بارے میں تشدد برتے ہیں ۔انہیں وہ پہاڑ نظر نہیں آتاجو اُن کی آنکھوں کے سامنے ہے کیونکہ وہ آنکھوں میں آئے تنکوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔لہٰذا ایسے لوگوں کی حالت اُن لوگوں جیسی ہے جو خون کے معاملے میں تساہل برتے ہیں اور حرم شریف میں ایک مچھر کے مارنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو لاچاری ،سستی ،کاہلی اور بیماری سے محفوظ فرمائے۔ میں اپنی بات کہتا ہو اور اللہ کے حضور اپنے لئے ، آپ سب کےلئے اور تمام مسلمانوں کے لئے بخشش اور مغفرت طلب کرتاہوں۔آپ سب بھی اُسی سے بخشش و مغفرت طلب کریں بے شک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ:
ہر طرح کی تعریفات اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔درود و سلام نازل ہوں انبیاء اور رسولوں میں سب سے اشرف پر۔
اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جان لوکہ اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس وبا کے جلدی سمٹنے کے اثرات دیکھ رہے ہیں ۔ اگر لوگ وہ کریں جو انہیں کرنا چاہیئے تو ہم لوگوں کےلئے ضروری ہے کہ ہم اس وباکو اپنے ماحول سے باہررکھنے کے لئے متحد ہوجائے کہ وہ وبا اللہ کے حکم سے دوبارہ واپس نہ آئے۔اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم سب کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوگا۔اللہ تعالیٰ کے بعد ہمارے تعاون اور بیداری سے ہی کام کاج کا نظام دوبارہ شروع ہوسکتاہے اور جلدی ویکسین لے کرہی مکمل طور پر تعلیم ہوسکتی ہے اسی طرح اس شعور کی بیدار سے ہی پوری طرح معیشت کے نظام کی بحالی ممکن ہے۔
اللہ کے بندو! اپنے نفسوں اور اپنے معاشرے کے بارے میں اللہ سے ڈروکیونکہ ہم میں سے ہر ایک شخص معاشرے کی دیوار میں موجود اینٹوں میں سے ایک اینٹ ہے۔ او ر آگاہ رہو اس بات سے کہ تمہاری لاپرواہی کی وجہ سے اس معاشرے کی بنیادیں ہل نہ جائیں اور جب تک آپ آخری لکیر کو پار نہیں کرلیتےاس بات سے چوکنہ رہیں کہ وباکہ کم ہونے اور علامات کے نہ ہونے سے آپ کسی فریب میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ کہیں آپ احتیاطی تدابیر کو اختیار نہ کریں اور اس کے پھیلنے کے اسباب میں سے ایک سبب بن جائیں اور اس وباکو ختم کرنے سے پہلے اپنی ان کوتاہیوں کی وجہ سے کئی قدم پیچھے چلے جائیں اور آخری منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی صرف اُسے دیکھ کر خام خیالی کا شکار ہوجائیں۔
جب بات سے بات نکلتی ہے تو ہر کوئی جب اپنے دائیں اور بائیں نظر کو گھماتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس بابرکت مملکت میں اللہ رب العالمین نے ہمیں اس خطرناک وباسے لڑنے میں کیا امتیاز عطا کیا ہے ۔اوریہ وہ نعمت ہے کہ جس کی توفیق پر سب سے پہلے اللہ رب العالمین کا شکر اداکرنا چاہیئے ۔تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں وہ سب اُسی کی دی ہوئی ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کی حمد وثناکے بعد اُن سب کاشکریہ جن کا کوئی نہ کوئی کردار اس وبا سے لڑنے میں رہا۔سب سےپہلے اس ملک کی قیادت کا شکریہ اور اللہ تعالیٰ انہیں مزید توفیق دے ،پھر اُن کی وزارتوں اور اداروں کا شکریہ اور اُن کے رضا کاروں کا شکریہ خواہ وہ افراد ہوں یاجماعتیں۔جولوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ادا نہیں کرتا۔
جیسا کہ صحیح حدیث میں ہےکہ اگر کوئی تمہارے ساتھ نیکی کرے تو اُس کا بدلہ دو اور اگر تم اُس کا بدلہ نہ دے سکو تو اس کے حق میں دُعا کرو یہاں تک کہ تمہیں لگے کہ تم نے اُس کا بدلہ دے دیا ہے۔
آپ جان لیں کہ آپ کے رب کے نزدیک آپ کے شریف ترین اور پاکیزہ ترین اعمال میں سے اپنے نبی صادق ِ امین ،امام المتقین اور رحمۃ للعالمین پر کثرت سے درود و سلام پڑھنا ہے جیسا کہ آپ کو آپ کے رب العالمین نے اس کاحکم دیا اور اپنی معزز کتاب میں فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
ہماری طرف سے نبی کریم ﷺ اور اُن کے اہلِ خانہ پر درودو سلام ہو ۔لاتعدا د و بے شمار کہ اگر گنا جائے تو ختم نہ ہوں۔جس کے سبب ہمارے مالک و خالق کے نزدیک ہمارے درجات بلند ہوتے ہیں جہ کہ نجات ہے اور پیشانی پر تمغہ ہے ۔
اے اللہ تو اپنی رحمتیں اپنی برکتیں سید المرسلین،امام المتقین خاتم النبین ،اپنے بندے اور رسول ﷺ پر نازل فرما جو خیر کے امام اور خیر کے قائد ہیں رسول ِ رحمت ہیں ۔ اے اللہ ! انہیں مقام ِ محمود سے نواز جسے سے اگلے اور پچھلے اُن پر رشک کریں اور اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیامت تک اُن کی پیروی کریں ۔یاکریم یا وہاب۔
اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔
اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔
اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔
اے اللہ ! تو فلسطین کی اور اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔
اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔
خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ سعود بن إبراهيم الشريم حفظه اللہ
12 محرم 1443هـ بمطابق 20 اگست 2021