اللہ پر توکل، باہمت بننے کا ذریعہ

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، تقوی اختیار کرنے والے کو اللہ تعالی تحفظ فراہم کرتا ہے، اور توکل کرنے والے کی تمام ضروریات پوری فرما دیتا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانو! تقوی الہی اختیار کرو، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

آل عمران – 102

 اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔

امت اسلامیہ!

جس وقت چیلنجز کی بھر مار ہو، جب انسانیت کیلیے خطرات چہار سو منڈلا رہے ہوں؛ کہیں جانی خطرات، تو کہیں اولاد کے متعلق خدشات، تو کہیں تلاش معاش میں مشکلات یعنی انسان کیلیے خطرات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہو کہ جس کا شمار نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی سے مخفی ہوں؛ تو ایسے ذرائع کی معرفت اور اہمیت بڑھ جاتی ہے جو انسانوں کو بلند ہمت بنا دیں اور عزم مصمم تک پہنچا دیں، تا کہ انسان ان کی بدولت اپنی ضروریات اور آسائشیں حاصل کر سکے۔

جب بھی انسان کے پاس بصیرت کی طاقت اور اللہ تعالی کے وعدوں پر کامل یقین ہو گا تو وہ کبھی بھی خدشات والی چیزوں کی جانب دھیان نہیں دے گا بشرطیکہ اسباب اپنائے اور مسبب الاسباب پر توکل کرے، تو انسان ہمیشہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گا اور اپنے تمام تر اہداف بھی حاصل کر لے گا۔

جب انسان اپنے معاملات اللہ تعالی کے سپرد کر دے، اپنے دلی تعلقات مخلوق سے کاٹ دے، پھر اللہ تعالی کی جانب سے جائز کردہ تمام اسباب بروئے کار لائے تو انسان بلند ہمت بن جاتا ہے ، انسان اپنے آپ کو مشکلات عبور کرنے کیلیے تیار کر لیتا ہے؛ کیونکہ اس کا کامل بھروسا اللہ کے وعدوں پر ہو چکا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ

الطلاق – 2/3

 اور تقوی الہی اپنانے والے کے لیے اللہ تعالی راستے بنا دیتا ہے [2] اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو اللہ تعالی پر بھروسا کر لے تو اللہ تعالی اس کے لیے کافی ہے۔

کسی نے کہا ہے کہ: “اگر آدمی اللہ تعالی پر سچی نیت کے ساتھ توکل کرے تو توکل نہ کرنے والے امیر اور نچلے طبقے کے لوگ اس کے محتاج بن جائیں، وہ آدمی کسی کا محتاج کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کا پروردگار غنی اور حمید ہے؟! “

اللہ پر توکل اور اپنے تمام امور اللہ کے سپرد کرنے والا دنیا اور آخرت دونوں کو اللہ کی ملکیت سمجھتا ہے، ساری مخلوق کو اللہ کا غلام جانتا ہے، روزی اور اسبابِ رزق سب کو اللہ کے زیر قبضہ تسلیم کرتا ہے، نیز وہ یہ بھی مانتا ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلے ساری مخلوقات پر مسلط ہیں۔

اللہ تعالی اپنے بندوں کو توکل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:

وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ

الفرقان – 58

اس ہمیشہ زندہ رہنے والے پر توکل کریں جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔

اور اسی طرح فرمایا:

وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

المائدۃ – 23

اور اللہ پر ہی توکل کرو اگر تم ایمان والے ہو۔

 اگر کوئی شخص قرآن کریم کے ان احکامات کی پرواہ نہیں کرتا تو وہ مصیبتوں اور تکلیفوں میں جا گرتا ہے، وہ کبھی اپنے اہداف حاصل نہیں کر پاتا ، اور خطرات کے بھنور میں پھنس جاتا ہے۔

توکل ایک عظیم اور معنی خیز اصطلاح ہے، چنانچہ اللہ تعالی پر توکل کرنے والا شخص اللہ تعالی کو اپنے معاملات سنوارنے کیلیے ایسے سونپتا ہے جیسے کوئی اپنے نمائندے کی ذمہ داری لگاتا ہے اور وہ نمائندہ بہتری کا ضامن بھی ہوتا ہے۔  اس لیے متوکل بندے کو اللہ تعالی بغیر تکلف اور مشقت کے کافی ہو جاتا ہے۔

توکل کرنے والا شخص اللہ تعالی سے ہر طرح پر امید ہوتا ہے کہ جو چیز اس کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے وہ اس سے چوک نہیں سکتی؛ کیونکہ اللہ تعالی کے فیصلوں میں تغیر و تبدل نہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (22) فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنْطِقُونَ

الذاریات 22/23

 اور آسمان ہی میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم وعدہ دیے جاتے ہو۔ [23] پس آسمان اور زمین کے پروردگار کی قسم ! یہ بات ایسے ہی ایک حقیقت ہے جیسے تمہارا بولنا ایک حقیقت ہے۔

تفاسیر میں اس آیت کا مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوق کی روزی کیلیے محض ضمانت ہی نہیں دی بلکہ اس پر قسم بھی اٹھائی ہے، چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اللہ تعالی ان اقوام پر لعنت فرمائے جن کیلیے پروردگار نے قسم اٹھائی لیکن انہوں نے قسم کو بھی تسلیم نہیں کیا” بعض روایات میں آتا ہے کہ : “اس آیت کے نازل ہونے پر فرشتوں نے کہا تھا کہ: بنو آدم تباہ ہو گئے انہوں نے پروردگار کو غضبناک کر دیا ہے کہ اُسے اِن کے رزق کے متعلق قسم اٹھانی پڑی”۔

آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اگر تم اللہ تعالی پر کما حقہ توکل کرو تو تمہیں بھی اسی طرح رزق ملے جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے، وہ صبح خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں) اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند محققین کے ہاں صحیح ہے۔

توکل کرنے والا شخص سچے دل کے ساتھ تمام امور کو چلانے کی نسبت اللہ تعالی کی جانب کرتا ہے، مشکل کشائی اور حاجت روائی صرف اللہ تعالی کے اختیار میں سمجھتا ہے، اللہ تعالی کے وعدوں پر مکمل یقین رکھتا ہے کہ تمام معاملات اللہ کے سپرد کرنے سے اہداف پورے ہوں گے اور نقصان بھی نہیں ہوگا۔متوکل شخص اللہ تعالی پر بھروسا کرتے ہوئے معاملات اللہ کے سپرد کر دیتا ہے، وہ اللہ سے خیر کی امید رکھتے ہوئے غیر اللہ سے یکسر منقطع ہو جاتا ہے۔ اسباب اپنانے اور انہیں شرعی طور پر اختیار کرنے کے بعد اس کی نظر اسباب سے اٹھ جاتی ہے، متوکل شخص نفع حاصل کرنے کی قوت اور نقصانات سے بچنے کی ہمت صرف اللہ تعالی سے ہی مانگتا ہے؛ کیونکہ صرف اللہ تعالی ہی تخلیق و تدبیر، نفع و نقصان، عنایت اور محروم کرنے کا اختیار رکھتا ہے، وہ جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔

توکل یہ ہے کہ اسباب اپنا کر بھی اعتماد اللہ تعالی پر ہو، اسباب محض ذرائع کی حد تک ہوں، چنانچہ متوکل انسان ظاہری اسباب تو اپناتا ہے لیکن ان پر کلی اعتماد نہیں کرتا، اس کا کلی اعتماد خالق کائنات اور امورِ دنیا چلانے والے پر ہوتا ہے۔ نیز اس کے فیصلوں، اور مشیئت کو حرف آخر سمجھتے ہوئے انہیں تسلیم کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ

آل عمران – 159

پس جب اسباب اختیار کر لو تو پھر توکل اللہ تعالی پر کرو۔

اللہ کے بندوں!

تقوی پیدا کر کے اللہ تعالی پر سچا توکل کرنے والا شخص بلند ترین اہداف اور مقاصد حاصل کر لیتا ہے۔

لہذا جو اپنے امور اللہ کے سپرد کر دے، اپنے خالق پر توکل اس حالت میں کرے کہ وہ توحید پرست، انابت کرنے والا، گڑگڑانے والا، توبہ کرنے والا، حکم کی تعمیل کرنے والا اور اطاعت گزار ہو تو اللہ تعالی اس کی تمام پریشانیوں کو ختم اور سب تنگیوں سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، نیز اسے وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اسے ڈھیروں خیر و بھلائی میسر آتی ہے، اسے ہمہ قسم کے ضرر اور شر سے محفوظ کر دیا جاتا ہے، اور اس کا انجام فلاح، کامیابی، اور یقینی نصرت سے ہمکنار ہوتا ہے، اللہ تعالی نے ایک نیک آدمی کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا:

وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ (44) فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ

غافر – 44/45

 اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ بلاشبہ اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ ان لوگوں نے جو چالیں اس مرد مومن کے خلاف چلی تھیں اللہ نے اِن سے اُسے بچا لیا اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔

اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا:

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (173) فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ

آل عمران – 173/174

 وہ لوگ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافر تمہارے مقابلے میں جمع ہو گئے ہیں، تم ان سے ڈر جاؤ! تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے [173] یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی نعمت حاصل کر کے واپس آئے، انہیں کوئی تکلیف بھی نہ پہنچی، وہ اللہ کی رضا کے پیچھے لگے رہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :

حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ

 ابراہیم علیہ السلام نے یہ اس وقت کہا تھا جب انہیں آگ میں ڈالا گیا اور نبی ﷺ نے اس وقت کہا جب آپ کو ڈرایا گیا کہ:

إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ

بیشک لوگ تمہارے خلاف جمع ہو گئے ہیں ۔

” اس حدیث کوامام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔

نیز رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص اپنے گھر سے نکلتے ہوئے کہے:

بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

تو اسے کہا جاتا ہے: تمہاری رہنمائی کر دی گئی، اب تمہیں کسی کی ضرورت نہیں، اور تمہیں تحفظ دے دیا گیا، نیز شیطان بھی اس سے دور رہتا ہے) ابو داود، ترمذی اور نسائی نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

جو کچھ بھی ہم نے سنا ہے اللہ تعالی اسے ہمارے لیے بابرکت بنائے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں، اور اللہ تعالی سے اپنے سمیت تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں، آپ بھی اسی سے بخشش مانگیں، وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

میں اللہ تعالی کی شان ،جلال ، کمال، اور عظمت کے لائق حمد بیان کرتا ہوں، اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے رضائے الہی کا موجب بننے والے اعمال کی دعوت دی۔ اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل اور صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

اے مسلم!

اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دو، اس پر سچے دل سے اعتماد کرو، شرعی دائرے میں رہتے ہوئے اسباب اپناؤ، اور یہ یقین کر لو کہ زمین و آسمان کے امور چلانے والا ، سینوں کے رازوں کو جاننے والا ، تمام تر امور کے بارے میں ہر اعتبار سے علم رکھنے والا، قادر مطلق ، مشیئت کاملہ کا مالک تمہیں اپنے علم اور تدبیر کے ذریعے گھیرے ہوئے ہے، اس کے علم اور تدبیر تک کسی کا علم یا فہم پہنچ ہی نہیں سکتا، اس لیے تم محنت کرتے رہو، اپنے رب کی عبادت کیلیے وقت نکالو، اور یقین مانو کہ جو بھی اللہ تعالی پر توکل کرے تو وہ اس کیلیے کافی ہے، اسے ہمہ قسم کے خطرات سے امن حاصل ہو گا، اسے کسی قسم کی پریشانی نہیں ہو گی، اس کی شرح صدر ہو چکی ہو گی، اور وہ اپنی محنت کے پھل پر راضی ہو گا ۔

إِنَّ مَنْ كَانَ لَيْسَ يَدْرِيْ

 أَفِي الْمَحْبُوْبِ َفْعٌ لَهُ أَوِ الْمَكْرَوْهِ

جو یہ نہیں جانتا کہ کیا من پسند چیز اس کیلیے مفید ہے یا ناپسندیدہ  چیز ؟۔

لَحَرِيٌّ بِأَن يُّفَوَّضَ مَا يَعْجَزُ

عَنْهُ إِلَى الَّذِيْ يَكْفِيْهِ

جس کا فیصلہ کرنے سے وہ عاجز ہے اس چیز کو کسی اہل ذات کے سپرد کر دینا چاہیے۔

اَلْإِلَهِ الْبَرِّ الَّذِيْ هُوَ بِالرَّأْفَةِ

أَحْنَى مِنْ أُمِّهِ وَأَبِيْهِ

یعنی معبود بر حق کو ، جو سراپا احسان کرنے والا اور نرمی برتنے والا ہے جو ماں باپ سے بھی زیادہ مشفق ہے۔

 اللہ تعالی نے ہمیں نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے، اللهم صل وسلم وبارك على نبينا وحبيبنا محمد، یا اللہ! خلفائے راشدین، اہل بیت ،صحابہ کرام ، تابعین عظام اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے راضی ہو جا۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے بارے میں برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! تباہی اسی کا مقدر بنا دے، یا رب العالمین! یا اللہ! جو بھی اسلام کے بارے میں ، یا ہم میں سے کسی کے بارے میں یا ہمارے دین کے بارے میں برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا رب العالمین! یا اللہ! اس پر اپنی فوج مسلط فرما دے، یا اللہ! اس پر اپنی فوج مسلط فرما دے، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے بارے میں برے ارادے رکھے اس سے انتقام لے لے، یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے بارے میں برے ارادے رکھے اس سے انتقام لے لے، یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے بارے میں یا ان کے دین کے بارے میں برے ارادے رکھے تو اس سے انتقام لے لے، یا رب العالمین! یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! ہماری اور تمام مسلمانوں کی پریشانیاں ختم فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں کی تکالیف ختم فرما دے، یا اللہ! تمام مسلمانوں کی تکالیف ختم فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں کے امن و امان اور استحکام کو مضبوط بنا دے، یا ذالجلال والا کرام! یا اللہ! مسلمانوں کے امن و امان کو مضبوط بنا دے، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! ان کیلیے پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ بنا دے، یا اللہ! ان کیلیے تمام تنگیوں سے نکلنے کا راستہ بنا دے، یا اللہ! ان کیلیے تمام تنگیوں سے نکلنے کا راستہ بنا دے، یا اللہ! ان کیلیے پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ بنا دے، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو ایسی جگہ سے عطا فرما جہاں سے انہیں روزی کا وہم و گمان بھی نہ ہو، یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو وہاں سے عطا فرما جہاں سے ہمیں اور اُنہیں گمان بھی نہ ہو۔

یا اللہ! خادم حرمین شریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کے ولی عہد کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان دونوں کے اقدامات کو تیری رضا کیلیے مختص فرما، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو صرف وہی اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرما جن میں ملک و قوم کی بھلائی ہو، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! تمام مسلمان اور مومن مرد و خواتین کی مغفرت فرما، زندہ اور فوت شدگان سب کی مغفرت فرما۔

یا اللہ! یا حیی! یا قیوم! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے بارے میں مکاری کرے تو تو بھی اس کے خلاف تدبیریں فرما، یا اللہ! تباہی اور بربادی اس کا مقدر بنا دے، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! مسلمانوں کا حال اور مستقبل سنوار دے، یا حیی! یا قیوم! یا اللہ! مسلمانوں کی نسلوں کو بھی ظاہری یا باطنی ہمہ قسم کے فتنوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں اور مسلمانوں کو ظاہری یا باطنی ہمہ قسم کے فتنوں سے محفوظ فرما۔ یا اللہ! ہمیں اور مسلمانوں کو ظاہری یا باطنی ہمہ قسم کے فتنوں سے محفوظ فرما، یا حیی! یا قیوم!

اللہ کے بندو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام اسی کی تسبیح بیان کرو ، اور ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔

 شفقت الرحمن مغل

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ: آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔