ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو احسان کرنے والا، مہربان رحیم ہے۔ میں اس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اس کے قدیم احسان اور نعمتوں پر۔ اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہی اول ہے اور آخر ہے، ظاہر ہے اور باطن ہے ، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جو صادق و مصدوق عالی اخلاق والے ہیں۔
اے اللہ درود و سلام نازل ہو تیرے بندے اور رسول محمد ﷺ پر، ان کے آل و اصحاب پر ، تابعین پر ، اور جو ان کی اچھی طرح سے قیامت تک پیروی کرے ان پر۔
اما بعد !
اللہ کا تقوی اختیار کرو ، اے اللہ کے بندو!
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُون
البقرۃ – 281
” اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا”۔
مسلمانو! نعمتوں کو انعام کرنے والے کی مرضی کی راہ پر لگانا، ان کے ذریعہ اس کی طاعت پر قوت حاصل کرنا، ان کو صحیح سمت میں لے جانا، اور انہیں ہر دنیاوی اور اخروی بھلائی میں استعمال کرنا، یہ سب انسان کی خوش بختی کی واضح نشانی ہے، کیوں کہ ایسا کر کے وہ عقلمندوں کی راہ پر چلتا ہے، ایسے متقیوں کے نقش قدم کی پیروی کرتا ہے جو وسیلہ تلاش کرتے ہیں اللہ سبحانہ کے اس ذکر و شکر کے ذریعہ جس کا اللہ نے اس آیت میں حکم دیا ہے :
فاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ
البقرۃ – 252
اس لئے تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو۔
یہ ایسی شکر گزاری ہے جس کے ذریعہ شکر کرنے والا مزید نوازا جاتا ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اس قول میں اپنے شکر گزار بندوں سے فرمایا ہے:
وَإِذْ تَأَذَن رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
ابراھیم – 7
اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بینک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقیناً میر اعذاب بہت سخت ہے۔
اگر نعمتیں پیہم ، احسانات پے در پے اور نوازشیں بے شمار ہوں تو یہ ایسی موسلا دھار بارش ہے جس کا برسنا بند نہ ہو، ایسا چھا جانے والا فیض ہے جس کا بہنا نہ رکے ، ہمارے رب کریم رحمن ورحیم کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے۔ اور اس کا اپنے بندوں پر وہ فضل ہے جس کی وہ دعویداری نہیں کر سکتے ، اور اس کی طرف سے وہ احسان ہے جس کے لئے اسے وہ مجبور نہیں کر سکتے، کیونکہ اس پاک ذات کو کوئی مجبور نہیں کر سکتا ہے۔
سب سے بڑی نعمت جس کی کوئی نعمت برابری نہیں کر سکتی ہے اور سب سے عظیم نو ازش جس پر کوئی نوازش فوقیت نہیں لے جاسکتی ہے وہ دین اسلام کی ہدایت کی نعمت ہے۔ اللہ عزوجل کا اپنے بندوں پر احسان یہ ہے کہ اس نے ان کی تخلیق کے مقصد کو اپنی کتابیں نازل کر کے اور اپنے رسولوں کو وحی کر کے واضح کر دیا ہے۔ تاکہ عقلیں اس کی معرفت سے گمراہ نہ ہوں۔ اللہ سبحانہ نے یہ بیان کر دیا ہے کہ اس نے تمام بندوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جو یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
الذاریات – 56
” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں”۔
اور یہ بھی واضح کر دیا کہ اس نے آدم کو زمین پر خلیفہ بنایا، پھر ان کے بعد ان کی اولاد کو بنایا۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
وَإِذْ قالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً
البقرۃ – 30
” اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں”۔
سب سے عظیم ترین نعمتوں میں سے ، نبی کریم ﷺ کی ہدایت اور دین حق کے ساتھ بعثت ہے، تا کہ وہ اپنی رسالت کے ذریعہ لوگوں کو اندھیرے سے روشنی کی طرف نکالیں، اور ان کو سلامتی کی راہ دکھائیں، اور بندھنوں اور بیڑیوں کو ان پر سے اتار دیں، اور انہیں خیر و فضائل کی بلندیوں تک پہنچائیں ، اور شر کے گڑھوں اور رذائل کے دلدل سے ان کو دور کریں،اور ان کو ہر اس راستے پر لے چلیں جو انھیں دنیا و آخرت کی خوش بختی کے ذرائع کی طرف لے جاتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت تمام مخلوقات کے لیے رحمت اور تمام بنی نوع انسان کے لیے نعمت ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ نے اس تعلق سے فرمایا:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِين
الانبیاء – 107
اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔
آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی رسالت تمام مخلوقات کے لیے رحمت ہے ، خواہ وہ عربی ہو یا عجمی، کالا ہو یا گورا، مرد ہو یا عورت، انسان ہو یا جنات۔
اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر جو نعمتیں ہیں ان میں کان، آنکھ اور دل کی نعمتیں بھی ہیں جن کا خصوصی ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول میں فرمایا ہے:
وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ
النحل – 18
اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان اور آنکھ اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو۔
اللہ سبحانہ نے ان چیزوں کا خصوصی ذکر ان کی شرف و منزلت کی وجہ سے کیا ہے۔ کیوں کہ یہ ہر علم کی کنجیاں ہیں، اور ایسا ذریعہ ہے جو اللہ کے سیدھے راستے کی طرف لے جانے والا ہے، اور ایسا راستہ جس سے انسان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے کیا امید و آرزور کھنی ہے، اور اس کے ذریعہ وہ یہ تمیز کرتا ہے کہ اس کے لئے کیا نقصان دہ ہے اور کیا فائدہ مند۔
تمام مخلوقات پر اس پاک ذات کی نعمتوں میں سے میاں بیوی کی نعمت بھی ہے تاکہ وہ ان سے انسیت حاصل کریں اور ان کے درمیان الفت و محبت اور رحمت قائم ہو۔ اسی طرح بیٹے، بیٹیاں اور پوتوں کی شکل میں ذریت کی نعمت ہے، اور اس کی دی ہوئی پاکیزہ چیزوں کی نعمت ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ نے فرمایا:
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفْدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ
النحل – 72
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں۔ کیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں گے ؟ اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے؟
اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں سے اپنے بندوں کو نوازا ہے ان میں مینہ اور بارش کا برسنا اور اس کا مسلسل برستے رہنا ہے، اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١﴾ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
البقرۃ – 21/22
لوگو! اپنے پروردگار کی عبات کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تا کہ تم (اس کے عذاب سے بچو۔ جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی، خبر دار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو۔
اللہ تعالیٰ نے بارش کی نعمت کو برکت اور طہارت قرار دیا ہے اور یہ کہ یہ زندگی کا سبب ہے:
وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ
ق – 9
“اور ہم نے آسمان سے با برکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کیے”۔
وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا (٤٨) لِنُحْيِيَ بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا وَنُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا
الفرقان – 48/49
اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے خوش خبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں۔ تاکہ اس کے ذریعے سے مردہ شہر کو زندہ کر دیں اور اسے ہم اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو پلاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ لوگوں کے ناامید ہو جانے کے بعد اس وقت بارش برساتا ہے جب انہیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ پاک ذات اپنی مخلوق کے لیے وہ کام کرنے والی ہے جو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں نفع بخش ہوتا ہے اور اللہ تعالی اپنی مخلوق کے لیے جو مقدر کرتا ہے اور جو بھی کرتا ہے اس کا انجام قابل تعریف ہوتا ہے۔
وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قِنَطُوا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ
الشوریٰ – 28
اور وہی ہے جو لوگوں کے نا امید ہو جانے کے بعد بارش برساتا اور اپنی رحمت پھیلا دیتاہے وہی ہے کار ساز اور قابل حمد وثنا۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “اگر آپ گھنے، کالے بادلوں میں غور کریں، تو آپ دیکھیں گے کہ وہ کیسے صاف فضاء میں جمع ہوتے ہیں، جس میں کوئی گدلا پن نہیں ہوتا ہے، اور کیسے اللہ جب چاہتا ہے انہیں پیدا کرتا ہے، وہ اپنی نرمی اور لطافت کے باوجود آسمان اور زمین کے درمیان بھاری پانی کو اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا رب اور خالق انہیں اجازت دیتا ہے کہ اپنے پانی کو پہنچائے ، تو وہ اس کو پہنچاتے ہیں اور تھوڑی تھوڑی بوندوں کی شکل میں برساتے ہیں۔ ہر قطرہ اللہ کی حکمت اور رحمت کے مطابق ایک مخصوص مقدار کا ہوتا ہے، چنانچہ بادل زمین پر پانی چھڑکتے ہیں، اور اس پر ایسے الگ الگ قطرے بھیجتے ہیں، جس کا ایک قطرہ دوسرے سے نہیں ملتا ہے۔ نہ اس کا پیچھے والا آگے بڑھتا ہے اور نہ اس کا آگے والا پیچھے ہوتا ہے، اور ایک قطرہ اپنے ساتھ والے قطرہ سے ملتا نہیں ہے کہ اس میں ضم ہو جائے، بلکہ ہر ایک اسی راستے سے اترتا ہے جو اس کے لیے بنایا گیا ہوتا ہے، اس سے ہٹتا نہیں ہے، یہاں تک کہ بارش زمین پر قطرہ قطرہ کی شکل میں پہنچتی ہے۔ ہر قطرے کو زمین کے ایک حصہ کے لئے مقرر کیا گیا ہوتا ہے جس کو وہ تجاوز نہیں کرتا ہے۔ تو غور کرو کہ وہ پاک ذات کس طرح اس کو رزق بنا کر بندوں، چوپایوں، پرندوں اور چھوٹی بڑی چیونٹیوں کے لیے پہنچاتا ہے ، فلاں پہاڑ کے کنارے، فلاں سر زمین میں، فلاں جانور کے لیے اسے بطور رزق اتارتا ہے۔ تو وہ اپنے اپنے وقت میں نہایت ضرورت اور پیاس کی شدت کے وقت اس تک پہنچ جاتا ہے”۔
اللہ کے بندو! رسول اللہ ﷺ اپنے پیش رو رسولوں کے طریقے پر گامزن رہ کر اللہ تعالی کی نعمتوں اور بیش بہا نوازشوں پر اللہ کا ایسا شکر ادا کرتے رہے جس کی ترجمانی ان کے اعمال کرتے اور اس کی تصویر کشی ان کے افعال کرتے۔ اللہ نے شکر کو اپنے فضل میں اضافے کا سبب اور اپنی نعمتوں کی حفاظت کرنے والا بنایا ہے۔
اللہ سبحانہ کی نعمتوں کے کمال، اس کی عظیم فیاضی، کرم، سخاوت اور احسان میں سے یہ ہے کہ اس شکر کی وجہ سے وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے، ان سے راضی ہوتا ہے، ان کی تعریف کرتا ہے۔ شکر کا فائدہ بندے کے لئے خاص ہے اللہ کو نہیں پہنچتا۔ یہ غایت درجہ کا ایسا کرم ہے جس کے اوپر کوئی کرم نہیں۔ وہ تمہیں نعمت سے نوازتا ہے، پھر اس نعمت پر تم کو شکر ادا کرنے کی توفیق دیتا ہے اور تم سے راضی ہوتا ہے، اور پھر تمہارے شکر کا فائدہ تمہیں ہی لوٹاتا ہے ، اور خود تمہیں تم تک پے در پے اور مسلسل نعمتوں کے پہنچنے اوران میں اضافہ کا سبب بناتا ہے۔
عقلمند کے لیے یہ پہلو ہی کافی ہے کہ وہ اس کے بعد آنے والی چیزوں پر توجہ دے:
وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
لقمان – 12
ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے۔
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ ﴿٣٢﴾ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ﴿٣٣﴾ وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ
ابراھیم – 32/33/34
“اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے تمہاری روزی کے لیے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کر دیا ہے کہ دریاؤں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کر دی ہیں۔ اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کر دیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگارکھا ہے۔اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے۔ اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے۔ یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے”۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کی ہدایت اور اپنے نبی کریم ﷺ کی سنت سے فائدہ پہنچائے۔ میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ رب العزت سے اپنے لئے ، آپ کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر طرح کے گناہوں سے مغفرت طلب کرتا ہوں، وہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو نعمت و فضل عطا کرنے والا عزت و جلال والا ہے ، میں اس پاک ذات کی حمد بیان کرتاہوں اس کی عظیم نوازش اور احسان پر ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ بادشاہ، نہایت پاک، بے عیب ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ اس کے بندہ اور رسول ہیں، اس کی مخلوق میں چنیدہ ہیں، سید الانام ہیں۔
اے اللہ درود و سلام نازل ہو تیرے بندے اور رسول محمد ﷺ پر ، ان کے آل و اصحاب پر ، قیامت تک ہمیشہ رہنے والا درود و سلام ۔
اما بعد!
جو بندہ اللہ کے لئے اپنے دین کو خالص کرے، اس کی محبت اور خوشنودی کا وسیلہ تلاش کرے ، اس کے لئے سب سے بہتر چیز جسے وہ مضبوطی سے پکڑے وہ ہے زندگی کے تمام معاملات میں رسول اللہ ﷺ کا طریقہ، کیونکہ آپ کا طریقہ ہی سب سے کامل طریقہ اور قیامت کے دن کا بہترین توشہ ہے۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَان يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
الاحزاب – 21
” یقینا تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے”۔
نبی کریم ﷺ سے ثابت طریقہ جو کہ صحیح سنت ہے وہ یہ کہ جب آپ بارش کو دیکھتے تو کہتے:
اللهم صيبا نَافِعًا
صحیح البخاری
اے اللہ! نفع اور بارش برسا۔
سنن ابو داؤد کی روایت میں ہے:
اللَّهُمَّ صَيِّبًا هنيئًا
صحیح بخاری
اےاللہ ! اسے خوشگوار بارش بنا۔
نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ فرماتے:
مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ ورحمته
اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش ہوئی۔ اس حدیث کو بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ اپنا کپڑا سمیٹ لیتے تا کہ بارش آپ کے جسم کو لگے۔ اس حدیث کے راوی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: تو ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمايا:
لأَنَّهُ حَديثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى
کیونکہ وہ ابھی ابھی اپنے رب عزوجل کی طرف سے آرہی ہے۔
نبی کریم ﷺ بارش برسنے کے وقت لوگوں کو دعا اور مناجات کی ترغیب دیتے تھے، کیونکہ یہ دعا کی قبولیت کا وقت ہے، آپ ﷺ فرماتے:
اطلبوا استجابة الدعاء عند التقاء الجيوش، وإقامة الصلاة، ونزول الغيث
دعا کی قبولیت کو لشکروں کے مڈ بھیڑ، نماز کی اقامت اور بارش کے برسنے کے وقت طلب کرو۔ ” اس حدیث کو بیہقی نے معرفۃ السنن والآثار میں روایت کیا ہے، اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے لیکن تقویت پہنچانے والے دوسرے طرق سے آنے سے یہ حدیث حسن ہے۔ اور جب آپ کے صحابہ نے آپ سے گزارش کی کہ آپ آسمان کے صاف ہونے کی دعا کریں تو آپ نے ان کے لئے بارش کے رکنے کی دعا کی اور فرمایا:
اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا، اللَّهُمَّ عَلَى الآكام والظُّرَابِ، وبُطُونِ الأَوْدِيَةِ، ومَنَابِتِ الشَّجَرِ
متفق علیه
اے اللہ ! اب یہ بارش ہمارے ارد گرد تو ہو لیکن ہم پر نہ بر سے۔ اے اللہ ! اسے ٹیلوں، پہاڑوں، میدانوں، وادیوں اور باغوں پر برسا۔
اللہ کا تقوی اختیار کرو اے اللہ کے بندو ! بارش ہونے اور اس کے لگاتار برسنے کے وقت اس عظیم نبوی طریقے کی پابندی کرنے کے حریص بنو، تو آسمان کی برکتیں تمہارے لیے کھل جائیں گی اور تم اجر عظیم اور بہترین بدلہ سے سرفراز ہو گے۔
اور ہمیشہ یادرکھو کہ اللہ تعالی نے تم کو خیرالانام ﷺ پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے! ، جیسا کہ اس کا فرمان ہے :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
” اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو “۔
اے اللہ تو جہاں نوں میں درود نازل فرما آل محمد پر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر درود نازل فرمایا، بلاشبہ تو قابل تعریف اور صاحب شوکت ہے اے اللہ تو جہانوں میں برکتیں نازل فرمامحمد اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکتیں نازل کیں ابراہیم اور آل ابراہیم پر بلاشبہ تو قابل تعریف اور صاحب شوکت ہے۔
اے اللہ! تو راضی ہوجا چاروں خلفاء، ابو بکر، عمر، عثمان، علی سے اور تمام آل و صحابہ کرام اور تابعین سے اور ان سے جو بھلائی کے ساتھ قیامت تک ان کی پیروی کریں، اور ان لوگوں کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا اپنے عفو، کرم ، سخاوت، احسان کے ذریعہ، اے وہ ذات جو سب سے بہتر در گذر کرنے والا اور معاف کرنے والا ہے!۔
اے اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا کر، دین کی حفاظت فرما، اپنے موحد بندوں کی مدد کر اور اس ملک کو اور مسلمانوں کے بقیہ تمام ملکوں کو پر امن و پر سکون بنا۔
اے اللہ ہمیں اپنے وطن میں امن سے نواز ، ہمارے سر براہوں اور حکمرانوں کی اصلاح فرما، ہمارے سر براہ کی حق سے تائید کر اور انہیں نیک مشیروں سے نواز اور اے دعا کے سننے والے انہیں تو اپنی مرضی و منشا کے مطابق چلنے کی توفیق دے۔
اے اللہ انہیں اور ان کے ولی عہد کو اس کی توفیق دے جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی ہو اور جس کی بندوں اور ملک کا مفاد ہو، اے اللہ اے قیامت کے دن کے مرجع!۔
اے اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جس میں ہمارے معاملے کی حفاظت ہے اور ہماری دنیا کی اصلاح فرما جس میں ہماری معیشت ہے اور ہماری آخرت کی اصلاح فرما جس کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے اور زندگی کو ہمارے لیے ہر بھلائی میں اضافے کا باعث بنا اور موت کو ہر شر سے نجات کا ذریعہ بنا۔
اے اللہ !تمام معاملات میں ہمارا انجام درست کر ، اے اللہ! ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا، اے اللہ! ہم تیری نعمت کے ختم ہونے ، تیری عافیت کے بدلنے ، یک لخت تیرے عذاب اور تیری ہر ناراضگی سے پناہ چاہتے ہیں۔
اے اللہ !میں تجھ سے تیری رحمت کو واجب کرنے والی چیزوں کا اور تیری بخشش کے یقینی ہونے کا سوال کرتا ہوں، تجھ سے تیری نعمت کے شکر اور حسن عبادت کا سوال کرتا ہوں۔
اے اللہ ہمیں اور دے اور کم نہ کر ، نواز اور محروم نہ کر ، عزت دے ذلیل نہ کر ، ہمیں ترجیح دے اور ہم پر کسی کو ترجیح نہ دے، ہمیں راضی کر اور ہم سے راضی ہو جا۔
اے اللہ ہمارے مزاح اور سنجیدگی میں اور غلطی سے اور جان بوجھ کر کیے گئے تمام گناہوں اور ہر اس گناہ کو بخش دے جو ہم سے سرزد ہوئے۔
اے اللہ جو ہم نے آگے بھیجا اور جو پیچھے کیا، جو چھپایا اور جو ظاہر کیا اور جس سے تو ہم سے زیادہ واقف ہے ، سب کو بخش دے۔
اے اللہ تو ہی مقدم اور تو ہی موخر ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ تو ہمارے لئے کافی ہو جاتو اپنے اور ہمارے دشمنوں کے لئے جو تو چاہے اے رب العالمین۔
اے اللہ ہم تجھے تیرے اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔
اے اللہ ہمارے مریضوں کو شفا دے ، ہمارے گزر چکے لوگوں پر رحم فرما، جو تیری مرضی کے مطابق ہوں ہماری ان آرزؤوں کو پوری کر ، باقی رہنے والے نیک اعمال پر ہمارے اعمال کا خاتمہ کر۔
اے اللہ دلوں کو تقوی دے، ان کا تزکیہ کر تو ہی سب سے بہتر تزکیہ کرنے والا ہے، تو ہی ان کا ولی اورمولی ہے۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِن الْخَاسِرِينَ
الاعراف – 23
اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
البقرۃ – 201
ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔
اے اللہ درود و سلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پراور آپ ﷺ کی تمام آل واصحاب پر۔ اور ہر قسم کی تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
خطبة الجمعة مسجدالحرام: فضیلة الشیخ اُسامه خیاط حفظه الله
8جمادی الاول 1444 ھ بمطابق 2 دسمبر 2022
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…