پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جس نے مومنوں کو روشن بصیرت عطا کی، مکلف بندوں کیلیے حلال اور حرام واضح فرمایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک، معاون اور مدد گار نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ، آپ نے راہ چلتے افراد کیلیے احکامات واضح اور راستے کی نشانیاں مقرر فرمائیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر رحمتیں برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
مسلمانوں! تقوی الہی اپناؤ ؛ کیونکہ سانسیں گنی جا چکی ہیں، اعمال کی کڑی نگرانی جاری ہے:
وَالْمَرْءُ يُذْكَرُ بِالْجَمَائِلِ بَعْدَهُ
فَارْفَعْ لِذِكْرِكَ بِالْجَمِيْلِ بِنَاءَ
انسان کو اس کی خوبیوں کے ذریعے یاد کیا جاتا ہے، اس لیے اپنے اچھے تذکرے کی عمارت کو بلندیوں تک لے جا ۔
وَاعْلَمْ بِأَنَّكَ سَوْفَ تَذْكُرُ مَرَّةً
فَيُقَالُ أَحْسَنَ أَوْ يُقَالُ أَسَاءَ
یہ ذہن نشین کر لو! یقیناً تمہارا کبھی نہ کبھی ذکر ضرور ہو گا، اس وقت کہا جائے گا: فلاں بہت اچھا تھا یا کہا جائے گا کہ وہ برا تھا!۔
اس لیے اپنی زبان کو لگام دو، صرف تشنگی دور کرنے والی نصیحت، یا حکمت بھری بات، یا جامع خیر خواہی یا اچھا کلام ہی زبان سے نکالو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٧٠﴾ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
الأحزاب – 70/71
اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور ہمیشہ راست گوئی سے کام لو [70] اللہ تعالی تمہارے معاملات سنوار دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو وہ بہت بڑی کامیابی پا گیا۔
مسلمانوں!
شریعت اعتدال اور میانہ روی لے کر آئی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ شریعت کے احکام میں آسانی، وسعت اور کشادگی ہے، پھر مکلف افراد سے تنگی کو دور رکھا گیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ
الحج – 78
اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں بنائی۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا
النساء – 28
اللہ تعالی چاہتا ہے کہ تم پر نرمی کرے، اور انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
یعنی مطلب یہ ہے کہ: اللہ تعالی تم پر اپنے شرعی احکامات، اوامر اور نواہی میں اس حد تک نرمی کرتا ہے جس کی تم استطاعت رکھتے ہو۔
وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا
النساء – 28
اور انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
چنانچہ انسان کی کمزوری اور ناتوانی کی بنا پر نرمی اور آسانی انسان کیلیے مناسب ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا [یعنی اس کی سختی نہ چل سکے گی ] لہذا ہر ممکنہ حد تک صحیح انداز سے عمل کرو اور خوش ہو جاؤ [ کہ اس طرز عمل سے تم کو دارین کے فوائد حاصل ہوں گے ] اور صبح ،دوپہر، شام اور کسی قدر رات میں [ عبادت سے ] مدد حاصل کرو) متفق علیہ
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک تم ایسی امت ہو جس کیلیے آسانی اختیار کی گئی ہے) مسند احمد
اور ایک روایت میں ہے: (بیشک تمہاری بہترین دینداری وہ ہے جو آسانی سے ہو، بیشک تمہاری بہترین دینداری وہ ہے جو آسانی سے ہو) مسند احمد
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (آسانی کرو، سختی مت کرو، اطمینان پھیلاؤ متنفر مت کرو) بخاری ، مسلم
بخاری اور مسلم کی ہی ایک روایت میں ہے کہ: “رسول اللہ ﷺ نے معاذ اور ابو موسی رضی اللہ عنہما کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے ہوئے فرمایا:”(خوش کرنا متنفر مت کرنا، آسانی کرنا سختی مت کرنا، ایک دوسرے کی بات ماننا آپس میں مت جھگڑنا)
آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (لیکن مجھے دین حنیف اور کشادگی والے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہے) احمد
وَمِنْ قَوَاعِدِ شَرْعِنَا التَّيْسِيْرُ
فِيْ كُلِّ أَمْرٍ نَابَهُ تَعْسِيْرُ
جس معاملے میں بھی مشکل در پیش ہو تو وہاں آسانی ہماری شریعت کے قواعد میں سے ہے۔
لیکن یہاں آسانی سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ: فقہی مذاہب اور علمائے کرام کے موقف میں سے رخصتوں کو تلاش کر کے آسان ترین موقف پر عمل کیا جائے، بلکہ یہاں آسانی سے مراد شرعی رخصتیں مراد ہیں جن کے بارے میں شرعی دلائل موجود ہیں اور اہل عذر افراد مثلاً: مریض، مسافر ، یا چھوٹے بچے کیلیے فرائض اور واجبات میں رخصت دی گئی ہے۔
ابو حمزہ کہتے ہیں کہ : “میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: “آسانی اور مشکل دو چیزیں ہیں، تو اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی آسانی پر عمل کرو۔
قتادہ رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالی :
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
البقرة – 185
اللہ تعالی تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے وہ تمہارے لیے مشکل نہیں چاہتا ۔
کے بارے میں کہتے ہیں: “تو تم وہی اختیار کرو جو اللہ تعالی تمہارے لیے چاہتا ہے”۔
اسی طرح یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ : “میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا:
فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا
النساءٰ – 101
اگر تم کافروں سے خدشے کی بنا پر نماز قصر کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں ہے۔
کہ اب تو لوگ پر امن ہیں؟[یعنی اب بھی نماز قصر کریں گے؟]تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہ: “جس وجہ سے تم تعجب میں ہو مجھے بھی اسی پر تعجب ہوا تھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بابت دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: “(یہ اللہ تعالی کی طرف سے تم پر صدقہ ہے، تو اللہ تعالی کے اس صدقے کو قبول کرو)”مسلم
شریعت میں موجود اس قسم کے اعلی اور خوبصورت قطعی مفاہیم کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی پر بہتان باندھتے ہوئے اعتدال اور میانہ روی کے نام پر ایسی باتیں شریعت میں شامل کر دی جائیں جو بے دلیل اور ہوس پرستی کے مطابق ہوں، اور بلا دلیل ہر چیز کی اجازت دینے والوں کے فتوے تلاش کئے جائیں۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “جو شخص فقہی مذاہب کی رخصتوں اور مجتہدین کے مبنی بر خطا موقف کو اپنانے لگ جائے تو اس کی دینی حالت بہت پتلی ہو جاتی ہے”
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “کچھ لوگوں کی دینی حالت اور تقوی کی اتنی پتلی حالت ہو چکی ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کیلیے کسی کا بھی فتوی تلاش کرنے کیلیے تیار ہیں، چنانچہ وہ ہر اس شخص کا موقف اپناتے ہیں جس میں چھوٹ اور رخصت ہو، انہیں اس چیز کی غرض نہیں ہوتی کہ اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان نے ہم پر کیا واجب کیا ہے۔”
امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اگر کوئی شخص ہر رخصت والے فتوے پر عمل کرے تو وہ فاسق ہو جائے گا”۔
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، غلو اور نفرت کے درمیان سنت کا راستہ ہے، چنانچہ -اللہ تم پر رحم فرمائے-سنت طریقے پر قائم رہو۔اہل سنت کی ماضی میں تعداد کم تھی، اور آئندہ بھی تعداد میں کم ہوں گے۔ یہ لوگ عیش پرستوں کے ساتھ عیش پرستی میں مگن نہیں ہوتے، نہ بدعتی لوگوں کے ساتھ بدعات میں شرکت کرتے ہیں، وہ اللہ تعالی سے ملنے تک سنت طریقے پر گامزن رہتے ہیں ، تو تم بھی اللہ کے حکم سے انہی جیسے بن جاؤ”۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “بیشک حقیقی فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے، انہیں اللہ کے عذاب سے بے خوف بھی نہ کرے، اللہ کی نافرمانی کیلیے اجازت نہ دے، اور قرآن مجید سے توجہ ہٹا کر کسی اور جانب مبذول نہ کرے، ایسی کوئی بھی عبادت خیر کا باعث نہیں ہے جس میں علم نہ ہو، اور نہ ہی ایسے کسی علم کا فائدہ ہے جس کا فہم نہ ہو”۔
یہ بڑی آزمائش ہے کہ ایسے لوگ فتوے صادر کرنے لگیں جو اہل علم کے ہاں نامعلوم یا غیر معروف ہیں، فتوی نویسی میں ان کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہے، وہ در حقیقت اس بات سے دھوکا کھا گئے کہ ان سے سوال پوچھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، نیز جاہل ترین لوگ ان سے سوال کرنے میں پہل کرتے ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: “مجھے ایک آدمی نے بتلایا کہ وہ ربیعہ بن ابو عبد الرحمن کے پاس گیا تو ربیعہ رو رہے تھے، تو اس نے ربیعہ سے کہا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا آپ کو کوئی تکلیف لاحق ہے؟ تو ربیعہ نے کہ: نہیں ، تکلیف تو نہیں ہے، لیکن ایک جاہل شخص سے فتوی مانگا گیا ہے اور یہ اسلام میں بہت گھناؤنی حرکت ہے۔ ربیعہ نے مزید کہا کہ: یہاں فتوے دینے کچھ ایسے بھی ہیں جن کو چوروں سے پہلے جیل بھیجنے کا حق بنتا ہے۔”
جس وقت بھی مقاصد شریعہ اور نصوص شریعت سے جاہل لوگ جسارت کریں اور غیر یقینی فہم کے ذریعے تخمینے لگائیں، رسوخ العلم کے بغیر بڑا بننے کا دعوی کریں، مشتبہ امور میں تفریق کے بغیر چہ میگوئیاں کریں، فتوی نویسی کے میدان میں علم، اہلیت اور دلائل کے بغیر داخل ہوں تو دینی امور میں تحریف اور تبدیلی رونما ہو جاتی ہے، شرعی تعلیمات کے ساتھ ظلم و زیادتی سامنے آتی ہے۔
مسلمانوں!
نا اہل لوگوں کے شاذ فتوے اور ان کے غیر معقول موقف اسلام کو منہدم کرنے اور دین کا حلیہ بگاڑنے کا باعث بنتے ہیں، ان سے فتنے اور فساد پھیلتے ہیں، جو کمزور عقل، علم اور دین کے مالک ہیں وہ ان کی وجہ سے پریشانی میں ملوث ہو جاتے ہیں، انہیں حق باطل کی صورت میں اور باطل حق کی صورت میں نظر آتا ہے۔
یہ بات اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنے اور اللہ کی شریعت کے ساتھ اس کے بندوں پر تہمت لگانے کے مترادف ہے کہ کچھ لوگ عارضی ،گھٹیا اور دنیاوی فوائد کی خاطر علم کے بغیر فتوے صادر کر رہے ہیں، بغیر کسی حجت کے اللہ کی جانب بات منسوب کرتے ہیں، ہوس پر مبنی اور من گھڑت فتوے صادر کر رہے ہیں اور صحیح دلیل سے متصادم رخصتوں پر عمل کرنے والے ہیں، منسوخ یا ضعیف دلائل پر مبنی شاذ اقوال اپناتے ہیں، ان کے فتووں سے پیدا ہونے والی خرابیوں اور اسلام سمیت مسلمانوں کے ہونے والے نقصان کا ادراک معمولی سی بھی بصیرت رکھنے والا بھی رکھتا ہے، ایسا موقف اپناتے ہیں جو وہی شخص ہی کہہ سکتا ہے جس کا دل اللہ تعالی کی تعظیم، جلال اور تقوی سے خالی ہو، جو شخص دنیا کی محبت میں خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے تعلق بنانے کا رسیا ہو۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ: “بد بخت وہ شخص ہے جو اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے فروخت کر دے، اور اس سے بھی بڑا بدبخت وہ ہے جو کسی کی دنیا کیلیے اپنی آخرت برباد کر لے”۔
کیا یہ لوگ اس دن کو یاد نہیں کرتے جب بڑوں بڑوں کے پیتے پانی ہو جائیں گے، جب اعضا اور جسم کا ہر حصہ گواہی دے گا، اس دن دلوں اور قبروں کے بھید کھولے جائیں گے، جب دھوکے بازوں کو علم ہو گا کہ وہ تو خود اپنے آپ کو دھوکا دیتے آئے ہیں، اور اپنے دین سے کھلواڑ کرتے رہے ہیں
وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
الأنعام – 123
وہ اپنے خلاف ہی مکر کر رہے ہیں، اور انہیں شعور نہیں ہے۔
لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۙ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ
النحل – 25
تاکہ قیامت کے دن اپنے بوجھ تو پورے کے پورے اٹھائیں اور کچھ ان لوگوں کے بھی جنہیں وہ بغیر علم کے گمراہ کرتے رہے دیکھو ! کیسا برا بوجھ ہے جو وہ اٹھائیں گے۔
یہ ایسے لوگ ہیں کہ علم سے کورے ، اور ان کا مطالعہ انتہائی محدود ہے، بے راہ روی میں مبتلا ہیں، یہ شریعت سے متصادم امور کا علی الاعلان اظہار کر رہے ہیں، اسلام کے نام پر انہوں نے ایسے کام کئے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
سحنون بن سعید رحمہ اللہ نے بالکل صحیح کہا ہے کہ: “فتوی لگانے میں جلد باز وہی ہوتا ہے جس کے پاس علم کم ہو، انسان کے پاس صرف ایک مسئلے کی معلومات ہوتی ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ مجھے ہر چیز کا علم ہے” ۔
ایسے ہی ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں: “میں نے امام مالک رحمہ اللہ کو سنا کہ :فتوی دینے میں جلد بازی بھی جہالت اور نابلد ہونے کی قسم ہے” امام مالک رحمہ اللہ ہی مزید کہتے ہیں: “میں نے اس وقت تک فتوی دینا شروع نہیں کیا جب تک میرے بارے میں ستر اہل علم نے فتوی نویسی کے اہل ہونے کی گواہی نہیں دی”۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” بندے کو اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے، اور دیکھے کہ اس کی زبان سے کیا نکل رہا ہے؛ کیونکہ اس سے پوچھا جائے گا”۔
کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ: “تم میں سے کسی کو یہ کہتے ہوئے ڈرنا چاہیے کہ: “اللہ نے فلاں چیز حرام اور فلاں چیز حلال قرار دی ہے”، مبادا اللہ تعالی اسے کہہ دے: تم نے جھوٹ بولا میں نے فلاں کو حلال اور فلاں چیز کو حرام قرار نہیں دیا”۔
اللہ تعالی نے اس شخص کو خوب وعید سنائی ہے جو من مانی کرتے ہوئے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دے، یا اللہ تعالی کی جانب سے حلال کردہ چیز کو حرام قرار دے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـٰذَا حَلَالٌ وَهَـٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ﴿١١٦﴾ مَتَاعٌ قَلِيلٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
النحل – 116/117
اپنی زبانوں سے جھوٹ بولتے ہوئے یوں نہ کہو کہ: “یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے ” تا کہ تم اللہ پر جھوٹ افترا کرنے لگو۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے [116] انہیں بہت معمولی فائدہ ملتا ہے اور ان کے لئے ہی دردناک عذاب ہے۔
میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہوں تم بھی اسی سے مغفرت طلب کرو، بیشک وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں وہی ہمیں سکھاتا اور سمجھاتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ تعالی آپ پر، آپ آل، اور صحابہ کرام سمیت روزِ قیامت تک ان کے طریقے پر چلنے والوں پر رحمتیں ،سلامتی، اور برکتیں نازل فرمائے۔
حمدو صلاۃ کے بعد:
مسلمانو! تقوی الہی اختیار کرو، اور اسے اپنا نگہبان جانو، اسی کی اطاعت کرو، اور نا فرمانی مت کرو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
التوبة – 119
اے ایمان والو! تقوی الہی اختیار کرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔
مسلمانوں!
دین الہی غلو اور شدت کے درمیان اعتدال کا نام ہے۔ غلو، شدت اور افراط و تفریط یہ دو انتہائی آفتیں ہیں، یہ منحرف راستے اور کج روی ہیں، یہ مضبوط دین اور صراط مستقیم سے دوری کا باعث ہیں؛ اس لیے غلو اور شدت سے اجتناب کرو، چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے ایک لکیر کھینچی اور پھر فرمایا: یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر اس کے بعد اس لکیر کے دائیں بائیں بھی لکیریں کھینچیں، اور پھر فرمایا: یہ الگ الگ راستے ہیں، ہر ایک راستے پر شیطان بیٹھا اس کی طرف بلا رہا ہے، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ
الأنعام – 153
اور بلاشبہ یہی میری سیدھی راہ ہے لہذا اسی پر چلتے جاؤ اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گی اللہ نے تمہیں انہی باتوں کا حکم دیا ہے شاید کہ تم (کجروی سے) بچ جاؤ۔ احمد
ابان بن ابو عیاش کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ: “صراط مستقیم کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک سرے پر چھوڑا اور اس کا دوسرا سرا جنت میں ہے، اس کے دائیں بائیں تیز رو گھوڑے ہیں، اور وہاں پر لوگ ہیں جو وہاں سے گزرنے والوں کو بلاتے ہیں، تو جو بھی ان گھوڑوں کو پکڑ لے تو وہ گھوڑے اسے جہنم میں لے جاتے ہیں، اور جو شخص راستے پر ہی چلتا رہے تو وہ جنت میں پہنچ جائے گا ۔”
اور نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اللہ تعالی نے صراط مستقیم کی مثال ذکر کی کہ: صراط مستقیم کے دونوں جانب دیواریں ہیں جن میں کھلے ہوئے دروازے ہیں اور دروازوں پر پردے لٹکے ہوئے ہیں، اور راستے کے دروازے پر ایک بلانے والا پکار رہا ہے: لوگو! راستے میں سب کے سب داخل ہو جاؤ ، اور اِدھر اُدھر مت ہونا، پھر راستے کے اوپر ایک اور بلانے والا ہے، جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی دروازے کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: تمہاری بربادی ہو! اسے مت کھولو، اگر تم اس کو کھولو گے تو اس میں داخل ہو جاؤ گے۔ اس مثال میں راستہ اسلام ہے، لٹکے ہوئے پردے اللہ کی حدود ہیں، کھلے ہوئے دروازے اللہ کے حرام کردہ امور ہیں، اور اس راستے کے سرے پر پکارنے والا اللہ کا قرآن ہے، اور اوپر سے پکارنے والا ہر مسلمان کے دل میں موجود ضمیر ہے ) احمد، ترمذی
احمد الہادی، شفیع الوری ، نبی ﷺ پر بار بار درود و سلام بھیجو، (جس نے ایک بار درود پڑھا اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)
یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر درود و سلام نازل فرما، تمام صحابہ کرام، اہل بیت اور تابعین و تبع تابعین سے راضی ہو جا، اور ان کے کیساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، یا کریم! یا وہاب!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! طاغوتوں، ظالموں اور قاتلوں کو تباہ و برباد فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! جلد از جلد ہمارے شامی کمزور بھائیوں کی مشکلات وا فرما، یا اللہ! جلد از جلد ہمارے شامی کمزور بھائیوں کی مشکلات وا فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو صرف انہی کاموں کی توفیق عطا فرما جن سے توں راضی ہوتا ہے اور جنہیں تو پسند فرماتا ہے، نیز اس کی نیکی اور تقوی پر مبنی کاموں کے لیے رہنمائی فرما، یا اللہ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو اسلام اور مسلمانوں کی بہتری کیلیے اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، مشکل میں پھنسے لوگوں کی مشکلیں آسان فرما، قیدیوں کو رہائی عطا فرما، اور فوت شدگان پر رحم فرما، اور ہم پر زیادتی کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! تمام مسلم ممالک کو خوشحالی، امن و سلامتی اور استحکام عطا فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! مسلم ممالک میں سے جنگوں اور جھگڑوں کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! فتنے اور اختلافات ختم فرما دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، یا کریم! یا رحیم! یا عظیم!