یومِ عاشوراء عنقریب آنے والا ہے ۔ دنیا کے اکثر مسلمان اپنے پیارے نبی محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے عاشوراء کے دن روزہ رکھیں گے. رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشوراء کو خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام کو بھی اس دن روزے رکھنے کا حکم دیا۔ یہ صرف اللہ کے دشمن پر شاندار فتح کی خوشی میں شکرانے کا روزہ تھا جب مسلمان انتہائی مشکل اور سخت حالات میں تھے اور وہ اللہ کے دشمن فرعون کی گرفت میں تھے۔ ظالم فرعون جس نے احکامِ الٰہی سے سرکشی کی اور بڑے ظلم و ستم کا ارتکاب کیا۔ یہاں تک کہ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ خود رب ہے لیکن جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ گیا تو اللہ کاعذاب آ گیا اور فرعون اور اس کا لشکر سمندر کی گہرائی میں ڈوب کر غرق ہو گیا۔ کیونکہ اللہ پاک جب کسی کام کا ارادہ فرما لیتا ہے تو فقط لفظ ” کُن ” کہہ دیتا ہے اور وہ کام فورا ہو جاتا ہے ۔
عاشوراء کے دن دو بڑے واقعات
10محرم یومِ عاشوراء کہلاتا ہے۔ اس دن اس کائنات کے اندر اسلام کی تاریخ میں دو بڑے واقعات رونما ہوئے جو درج ذیل ہیں:
پہلا واقعہ: موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات اور فرعون اور اس کے سپاہیوں کی ہلاکت۔
چنانچہ بخاری و مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
أنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللہُ عليه وَسَلَّمَ قَدِمَ المَدِينَةَ فَوَجَدَ اليَهُودَ صِيَامًا، يَومَ عَاشُورَاءَ، فَقالَ لهمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عليه وَسَلَّمَ: ما هذا اليَوْمُ الذي تَصُومُونَهُ؟ فَقالوا: هذا يَوْمٌ عَظِيمٌ، أَنْجَى اللہُ فيه مُوسَى وَقَوْمَهُ، وَغَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهُ، فَصَامَهُ مُوسَى شُكْرًا، فَنَحْنُ نَصُومُهُ، فَقالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عليه وَسَلَّمَ: فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلَى بمُوسَى مِنكُم فَصَامَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہُ عليه وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ بصِيَامِهِ
(صحیح مسلم :1130)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں آئے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ ایک عظیم دن ہے۔ اس میں اللہ تعالی نے حضرت موسی اور ان کی قوم کو نجات دی اور فوعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے اسی دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھا۔ اس لئے ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو ہم زیادہ حق دار ہیں اور تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔
دوسرا واقعہ: نواسہِ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت
یہ واقعہ عراق کی سرزمین کربلا میں جمعہ کے دن پیش آیا ۔ اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عمر اٹھاون سال تھی اور یہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک بڑی آزمائش تھی۔ چنانچہ امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكان قتله – رضي الله عنه – من المصائب العظيمة؛ فإن قتل الحسين ، وقتل عثمان قبله : كانا من أعظم أسباب الفتن في هذه الأمة وقتلتهما من شرار الخلق عند الله1
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قتل امتِ مسلمہ کے لئے بڑی آزمائش اور آفت تھی۔ حضرت حسین اور ان سے پہلے حضرت عثمان کا قتل اس امت میں فساد کے سب سے بڑے اسباب میں سے تھے اور ان دونوں کو قتل کرنے والے اللہ کے ہاں بد ترین مخلوق ہے ۔
یومِ عاشوراء کی فضیلت اور تاریخی حیثیت
صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی اور فرعون اور اس کی لشکر کو دریا میں غرق فرمایا۔ اسی وجہ سے یہود اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت میں اوپر گزر چکا ہے ۔
قریش یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
كانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ في الجَاهِلِيَّةِ، وكانَ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ صَامَهُ وأَمَرَ بصِيَامِهِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ كانَ رَمَضَانُ الفَرِيضَةَ، وتُرِكَ عَاشُورَاءُ، فَكانَ مَن شَاءَ صَامَهُ، ومَن شَاءَ لَمْ يَصُمْهُ
(البخاري:2001، مسلم : 1125)
عاشوراء ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
انصاری بچے بھی یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے
حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ:
أَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ عَاشُورَاءَ إِلَى قُرَى الْأَنْصَارِ، الَّتِي حَوْلَ الْمَدِينَةِ: «مَنْ كَانَ أَصْبَحَ صَائِمًا، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، وَمَنْ كَانَ أَصْبَحَ مُفْطِرًا، فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ» فَكُنَّا، بَعْدَ ذَلِكَ نَصُومُهُ، وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا الصِّغَارَ مِنْهُمْ إِنْ شَاءَ اللهُ، وَنَذْهَبُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهَا إِيَّاهُ عِنْدَ الْإِفْطَارِ
( صحیح مسلم: 1136)
رسول اللہ ﷺ نے عاشورہ کی صبح انصار کی بستیوں کی طرف جو مدینہ کے اردگرد تھیں یہ پیغام بھیجا کہ: جس نے روزے کی حالت میں صبح کی ہے وہ اپنا روزہ پورا کرے اور جس نے افطار کی حالت میں صبح کی ہے وہ اپنے دن کے باقی حصے کا روزہ پورا کرے۔ اس کے بعد ہم خود عاشوراء کا روزہ رکھتے اور اگر اللہ چاہتا تو اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور ہم ( ان کے ہمراہ ) مسجد کی طرف جاتے تو ان کے لیے اون کا کھلونا بنا لیتے جب ان میں سے کوئی افطار کے قریب کھانے کے لیے روتا تو ہم ( اس کا دل بہلانے کے لیے ) وہ ( کھلونا ) اسے دے دیتے ۔
یہودی یومِ عاشوراء کو عید مناتے
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَعُدُّهُ الْيَهُودُ عِيدًا ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَصُومُوهُ أَنْتُمْ
( صحیح البخاری:2005)
یہود یومِ عاشوراء کو عید کا دن تصور کرتے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس دن کا روزہ رکھا کرو۔
اہلِ خیبر بھی یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے اور عید بھی مناتے
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
كانَ أَهْلُ خَيْبَرَ يَصُومُونَ يَومَ عَاشُورَاءَ، يَتَّخِذُونَهُ عِيدًا وَيُلْبِسُونَ نِسَاءَهُمْ فيه حُلِيَّهُمْ وَشَارَتَهُمْ، فَقالَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: فَصُومُوهُ أَنْتُمْ
(صحيح مسلم: 1131)
اہلِ خیبر یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ وہ اسے عید کا دن قرار دیتے تھے اور اس دن اپنی عورتوں کو اپنے زیورات اور بہترین لباس پہناتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم بھی اس کا روزہ رکھو ۔
یومِ عاشوراء کا روزہ روایاتِ ائمہِ شیعہ کی روشنی میں
امام موسی کاظم علیہ السلام کا فرمان:
عن أبي الحسن عليه السلام أنه قال: صام رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم عاشوراء2
ترجمہ : ابو الحسن امام موسی کاظم علیہ السلام بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھا۔
امام جعفر علیہ السلام کا فرمان:
عن جعفر عن أبيه عليهما السلام أنه قال: صيام يوم عاشوراء كفارة سنة3
امام جعفر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ یومِ عاشوراء کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
امام جعفر الصادق علیہ السلام کا فرمان
وعن الصادق رحمه الله قال: من أمكنه صوم المحرم فإنه يعصم صاحبه من كل سيئة4
امام جعفر الصادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ جو شخص محرم کے روزے رکھنے میں کامیاب ہوا تو وہ ہر برائی سے محفوظ رہے گا۔
ہم شہادتِ حسین پر ماتم کیوں نہیں کرتے؟
اب ہم اس بات کی طرف آتے ہیں کہ ہم شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ پر ماتم کیوں نہیں کرتے ؟ درج ذیل سطور میں ماتم نہ کرنے کی تمام وجوہات اور اسباب اقوالِ ائمہِ اہلِ بیت کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
واقعہِ کربلاء
ایک عجیب اتفاق ہے کہ جس دن حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات ملی اسی مبارک دن کے اندر اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار حضرت حسین رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان لڑائی میں شہید کر دیے گئے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کچھ لوگ اس دن حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر گریہ و زاری کرتے ہیں، اپنے آپ کو اذیت دیتے ہیں، اپنے چہروں، سینوں اور اپنی پیٹھوں سے خون بہاتے ہیں۔ اور اپنے جسموں کو زنجیروں اور چھریوں سے مار کر، اپنے رخساروں اور پیٹھوں پر تھپڑ مار کر اوراپنے بال نوچ کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں حالانکہ یہ عمل کسی بھی طرح اسلام کا نہیں ہے بلکہ یہ نئی ایجاد کردہ بدعات اور صریح برائیوں میں سے ہے۔ یہ ان کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے جن کے مرتکبین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برأت کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا تھا:
ليسَ مِنَّا مَن لَطَمَ الخُدُودَ، وشَقَّ الجُيُوبَ، ودَعَا بدَعْوَى الجَاهِلِيَّةِ
أخرجه البخاري (1294)، ومسلم (103)
جس نے رخسار پیٹے یا گریبان چاک کیا یا اہلِ جاہلیت کی طرح پکارا، وہ ہم میں سے نہیں۔
اسی طرح حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
إنَّ رَسولَ اللہِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: بَرِئَ مِنَ الصَّالِقَةِ والحَالِقَةِ والشَّاقَّةِ
أخرجه البخاري (1296)، ومسلم (104)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی غم کے وقت) چلا کر رونے والی، سر منڈوانے والی اور گریبان چاک کرنے والی عورتوں سے اپنی بیزاری کا اظہار فرمایا تھا۔
مصیبت کے وقت مسلمان کا طریقہ کیسا ہونا چاہیے؟
مصیبت کے وقت ایک مسلمان کو صبر سے کام لینا ہے۔ یہی دینِ اسلام کی تعلیم ہے کیونکہ مصیبت پر صبر کا ثواب آخرت میں بھی ملتا ہے اور دنیا میں بھی صبر کی وجہ سے اللہ کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔ ام المؤمنین امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
ما مِن مُسْلِمٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ، فيَقولُ ما أمَرَهُ اللہُ {إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ} [البقرة: 156]، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي في مُصِيبَتِي، وأَخْلِفْ لي خَيْرًا مِنْها، إلَّا أخْلَفَ اللہُ له خَيْرًا مِنْها
(صحيح مسلم: 918)
” جس مسلمان کو کوئی مصیبت پیش آئے تو وہ اللہ کے فرمان کے مطابق یہ دعا پڑھے ” یقینا ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اے اللہ! مجھے میری مصیبت پر اجر دے اور مجھے اس کا اس سے بہتر بدل عطا فرما” تو اللہ تعالیٰ اسے اس (ضائع شدہ چیز) کا بہتر بدل عطا فرما دیتا ہے۔
نوحہ و ماتم کی حرمت شیعہ تفاسیر کی روشنی میں
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(سورۃ الممتحنہ:12)
اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں جید شیعہ علماء کی تفاسیر سے کچھ حوالہ جات پیش ہیں۔
فقامت ام حكيم ابنة الحارث ابن عبدالمطلب فقالت يا رسول الله ما هذا المعروف الذي أمرنا الله به أن لا نعصيك فيه؟ فقال: إن لا تخمشن وجها ولا تلطمن خدا ولا تنتفن شعرا ولا تمزقن جيبا ولا تسودن ثوبا ولا تدعون بالويل والثبور ولا تقيمن عند قبر، فبايعهن رسول الله صلى الله عليه وآله على هذه الشروط.5
ام حكيم بنت الحارث ابن عبدالمطلب نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ وہ کون سی نیکی ہے جس کے متعلق اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس میں آپ کی نافرمانی نہ کریں ؟ آپ نے فرمایا اپنے چہرے پر خراشیں نہ ڈالو، اپنے رخساروں پر تهپڑنہ مارو، اپنے بال نہ نوچو، اپنے گریبان نہ پھاڑو، کالے کپڑے نہ پہنو، ہائے وہ مر گیا ہائے وہ مر گیا نہ چلّاو اور قبر کے پاس نہ بیٹھو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان شرائط پر انکو بیعت کر لیا۔
وقال زيد بن أسلم: فيما شرط ألا يعصينه فيه أن لا يلطمن ولا يشققن جيبا ولا يدعون بالويل والثبور، كفعل أهل الجاهلية. وقال ابن عباس: فيما شرط ألا يعصينه فيه النوح.6
ترجمہ : زید بن اسلم نے کہا جس چیز میں نافرمانی نہ کرنے کی شرط ہے وہ یہ ہے کہ طمانچہ نہ ماریں ، گریبان نہ پھاڑیں ، ہائے وہ مر گیا ہائے وہ مر گیا نہ چلّاو جیسے زمانہ جاہلیت کے اعمال تھے۔ ابن عباس نے کہا جس چیز میں نافرمانی نہ کرنے کی شرط تھی وہ یہ تھی کہ نوحہ نہ کریں۔
و قيل عنى بالمعروف النهي عن النوح و تمزيق الثياب و جز الشعر و شق الجيب و خمش الوجه و الدعاء بالويل7
ایک قول یہ ہے کہ نیکی سے مراد ہے کہ نوحہ نہ کریں ، بال نہ نوچیں ، گریبان نہ پھاڑیں ، چہرے پر خراشیں نہ ڈالیں اور ہائے موت نہ پکاریں۔
نوحہ و ماتم کی حرمت شیعہ احادیث کی روشنی میں
نوحہ اور ماتم منع ہے
شیعہ مصنف شیخ صدوق روایت نقل کرتے ہیں کہ:
نهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن الرنة عند المصيبة، ونهى عن النياحة والاستماع إليها، ونهى عن تصفيق الوجه8
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے بوقتِ مصیبت بلند آواز سے چلّانے ، نوحہ کرنے اور نوحہ سننے اور چہرے پر مارنے سے منع فرمایا۔
ماتم کرنے والا نبی ﷺ کا امتی نہیں ہے
رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب
مستدرك الوسائل ج1 ص:144
جو شخص (مصیبت کے وقت) اپنے رخساروں کو پیٹے اور گریبان پھاڑے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
ماتم کرنے سےعمل ضائع ہو جاتا ہے
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :
ينزل الصبر على قدر المصيبة، ومن ضرب يده على فخذه عند مصیبته حبط عمله9
صبر بقدرِ مصیبت نازل کیا جاتا ہے جس شخص نے مصیبت کے وقت اپنا ہاتھ اپنے رانوں پر مارا اس کا عمل ضائع ہو گیا۔
ماتم کرنا رب کے فیصلوں پر ناراضگی کی نشانی ہے
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :
مَنْ أَصْبَحَ عَلَى الدُّنْيَا حَزِيناً ، فَقَدْ أَصْبَحَ لِقَضَاءِ اللّهِ سَاخِطاً . وَمَنْ أَصْبَحَ يَشَكُو مُصِيبَةً نَزَلَتْ بِهِ ، فَقَدْ أَصْبَحَ يَشْكُو رَبَّهُ10
جوکوئی دنیا کی کسی فوت شدہ چیز پر غمزدہ ہوا تو گویا اللہ کے فیصلے پر ناراض ہوا اور جو اس پرآنے والی مصیبت کی شکایت کرتا پھرے تو گویا اس نے اپنے رب کی شکایت کی ہے۔
نوحہ شیطانی عمل ہے
رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
النیاحة عمل الشیطان
( بحار الأنوار: 82/103)
نوحہ کرنا شیطان کا کام ہے ۔
ماتم کرنا بے صبری ہے
میں نے ابو جعفرامام محمد بن علی باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ بے صبری کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا:
أشد الجزع الصراخ بالويل والعويل ولطم الوجه والصدر وجز الشعر من النواصي ومن أقام النواحة فقد ترك الصبر وأخذ في غير طريقه ومن صبر واسترجع وحمد الله عزوجل فقد رضي بما صنع الله ووقع أجره على الله ومن لم يفعل ذلك جرى عليه القضاء وهو ذميم وأحبط الله تعالى أجره11
سب سے بڑی بے صبری یہ ہے کہ آدمی چلائے اور سینے اور چہرے پر تھپڑ مارے اور پیشانی سے بال نوچے اور جس شخص نے نوحہ کیا اس نے صبر ترک کیا اور اس نے خلاف طریقے کو اپنایا اور جس نے صبر کیا اور انا للہ پڑھا اور اللہ کی حمد کی اور اللہ کے کئے ہوئے پر راضی ہوا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہوگیا اور جس نے اس کے خلاف کیا اس کی تقدیر تو پوری ہوگی اور وہ مذموم ہوگا اور اللہ اس کے اجر کو ضائع کر دے گا۔
ماتم کرنا نیكیوں كو ضائع كرنا ہے
حضرت ابو عبداللہ امام جعفر الصادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عن أبي عبدالله (عليه السلام) قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: ضرب المسلم يده على فخذه عند المصيبة إحباط لأجره12
مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنا ہاتھ اپنے رانوں پر مارنا اجر و ثواب کو ضائع کر دینا ہے۔
مسلمان کے لئے ماتم کرنا مناسب نہیں ہے
حضرت ابو عبداللہ امام جعفر الصادق علیہ السلام نے فرمایا:
عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: لا ينبغي الصياح على الميت، ولا تشق الثياب13
مسلمان کو میت پر چلاّنا نہیں چاہیے نہ کپڑے پھاڑنے چاہیے۔
ماتم صبر کے خلاف ہے
عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: لا يصلح الصياح على الميت ولا ينبغي ولكن الناس لا يعرفونه والصبر خير14
حضرت ابو عبداللہ امام جعفر الصادق علیہ السلام نے فرمایا : میت پر چلاّنا درست نہیں ہے۔ اور مسلمان کو میت پر چلاّنا نہیں چاہیے لیکن لوگ اس مسئلے کو نہیں جانتے جبکہ صبر کرنے میں خیر ہے۔
ماتم کفر کی نشانی ہے
عن أبي عبدالله (عليه السلام) قال: إن الصبر والبلاء يستبقان إلى المؤمن فيأتيه البلاء وهو صبور، وإن الجزع والبلاء يستبقان إلى الكافر فيأتيه البلاء وهو جزوع15
حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام نے فرمایا : مصیبت اور صبر مومن کی طرف سبقت کرتے ہیں جب اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ صابر ہوتا ہے اور مصیبت اور بے صبری کافر کی طرف سبقت کرتے ہیں اس پر جب مصیبت آتی ہے تو وہ بے صبری کر رہا ہوتا ہے۔
ماتم و نوحہ زمانہ جاہلیت کی رسمیں ہیں
عن علي عليهم السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: أربعة لا تزال في أمتي إلى يوم القيامة. الفخر بالأحساب والطعن في الأنساب. والاستسقاء بالنجوم، والنياحة. وإن النائحة إذا لم تتب قبل موتها تقوم يوم القيامة وعليها سربال من قطران، ودرع من جرب16
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چار باتیں میری امت میں زمانہ جاہلیت کی ایسی ہیں کہ وہ ان کو نہ چھوڑیں گے۔ اپنے حسب پر فخر کرنا اور نسب پر طعن کرنا، ستاروں سے پانی کا طلب کرنا اور نوحہ کرنا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نوحہ کرنے والی اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گی کہ اسے پگھلے ہوے تانبے کا اور خارش والا لباس پہنایا جاے گا۔
پیغمبر، امام یا شہید کا بھی ماتم جائز نہیں
جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
وَلَوْ لاَ أَنَّكَ أَمَرْتَ بِالصَّبْرِ، وَنَهَيْتَ عَنِ الْجَزَعِ، لَأَنْفَدْنَا عَلَيْكَ مَاءَ الشُّؤُونِ17
اگر آپ نے ہمیں صبر حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ کا ماتم کر کے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کر دیتے ۔
رسول اللہ ﷺ کی اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وصیت
امام باقر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے وقت اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
إذا أنا مت فلا تخمشي وجهاً ، ولا ترخي عليّ شعراً ، ولا تنادي بالويل ، ولا تقيمي عليَّ نائحة18
اے فاطمہ! جب میں وفات پا جاؤں تو میرے لئے اپنے چہرے کو نہ چھیلنا، اپنے بالوں کو نہ بکھیرنا اور واویلہ نہ کرنا اور ماتم کرنے والوں کو نہ بلانا۔
ماتم اور نوحہ گناہ ہے
خاتونِ جنت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
والله لولا أن تكون سيئة لنشرت شعري ولصرخت إلى ربي19
اللہ کی قسم ! اگر گناہ نہ ہوتا تو میں اپنے سر کے بال کھول کر زور زور سے چلّاتی اور اپنے رب سے فریاد کرتی۔
میدانِ کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اپنی بہن زینب کو وصیت
يا أختي ، أحلفك بالله، عليك أن تحافظي على هذا الحلف ، إذا قتلت فلا تشقي عليّ الجيب ، ولا تخمشي وجهك بأظفارك ، ولا تنادي بالويل والثبور على شهادتي20
ترجمہ: اے میری بہن! میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں مجھے قتل کر دیا جائے تو گریبان چاک نہ کرنا ، چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور میری شہادت پر واویلا نہ کرنا ۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اپنی صاحبزادی حضرت سکینہ کو وصیت
يا نور عيني! كيف لا يستسلم للموت من لا ناصر له ولا معين ؟! ورحمة الله ونصرته لا تفارقكم في الدنيا ولا في الآخرة ، فاصبري على قضاء الله ولا تشكي ، فإنّ الدنيا فانية ، والآخرة باقية21
اے میری آنکھوں کے نور ! جس کا کوئی حامی و مددگار نہ ہو وہ موت کے سامنے کیسے ہتھیار نہ ڈالے ؟ دنیا اور آخرت میں اللہ کی رحمت تم سے جدا نہ ہوگی لہذا اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا اور صبر کو اختیار کرنا۔ دنیا فنا ہونے والی ہے جبکہ آخرت کی ابدی نعمتوں کو زوال نہیں ہوگا۔
جب امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن کو نہایت غمزدہ حالت میں دیکھا تو فرمانے لگے:
يا أُخية اتقّي اللهَ وتعزّي بعزاءِ الله ، واعلمي أن أهل الأرض يَموتون وأن أهل السماء لا يبقون ، وأن كلَ شيء هالكٌ إلا وجْهَ اللهِ الذي خلقَ الأرض بقُدرتهِ ، ويبعث الخلقَ فيعودون وهو فردٌ وحدَه ، أبي خيرٌ مني وأمي خيرٌ مني وأخي خيرٌ مني ولي وَلهُم ولكل مُسلمٍ برسولِ الله أسوةٌ22
ترجمہ :اے بہن ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اللہ کی تقدیر پر راضی رہو اور یہ جان لو کہ تمام زمین والوں نے ایک دن مرنا ہے اور آسمان والے بھی باقی نہیں رہیں گے سواے اللہ کے ہر چیز کو فنا ہے وہ سب کو مارے گا اور مارنے کے بعد پھر زندہ کرے گا وہ باقی رہنے میں منفرد ہے۔ میرے بھائی اور ماں جو مجھ سے بہتر تھے وہ شہید ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ جو تمام مخلوق سے افضل تھے وہ بھی دنیا میں نہ رہے اور دار البقاء کی طرف رحلت فرما گئے۔ میرے لئے اور ہر مسلمان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک نمونہ ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
يا اُختاه يا أمَّ كلثوم وأنت يا زينب وأنت يا فاطمة وأنت يا رباب إذا أنا قُتلت فلا تَشققنَّ عليَّ جيباً ، ولا تخمشن عليَّ وجهاً ، ولا تقلن هجراً23
ترجمہ : اے میری بہن ! اے ام کلثوم ! اے زینب ! اے فاطمہ ! اے رباب ! اگر میں مارا جاؤں تو تم سب مجھ پر گریبان چاک مت کرنا، چہرہ مت نوچنا اور فحش بات مت کرنا ۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اپنے اہلِ بیت کو آخری وصیت
پھر دوسری بار اہلِ بیتِ رسالت اور خاندانِ اہلِ طہارت کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
استعدوا للبلاء، واعلموا أن الله تعالى حاميكم وحافظكم، وسينجيكم من شر الأعداء، ويجعل عاقبة أمركم إلى خير، ويعذب عدوكم بأنواع العذاب، ويعوضكم عن هذه البلية بأنواع النعم والكرامة. فلا تشكوا، ولا تقولوا بألسنتكم ما ينقص من قدركم24
رنج و مصیبت کے لشکر کے لئے تیار ہو جاو اور جان لو کہ اللہ تمہارا حامی اور حافظ ہے وہ تم کو دشمنوں کے شر سے نجات دے گا اور تمہاری آخرت اچھی کرے گا اور تمہارے دشمنوں کو مختلف عذاب میں مبتلاء کرے گا اور تمہیں ان مصیبتوں اور بلاؤں کے عوض آخرت میں مختلف قسم کی نعمتوں اور عزت سے نوازے گا. خبردار ! صبر کا دامن نہ چھوڑنا اور بےصبری کے کلام زبان پر نہ لانا اس سے تمہارے اجر و ثواب میں کمی ہوگی۔
خلاصہِ کلام
درج بالا کتبِ شیعہ سے منقول شیعہ کے بڑے بڑے ائمہ کے اقوال سے ماتم کی حرمت واضح طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ آلِ بیتِ رسول نہ صرف اس فعل کو قبیح اور حرام جانتے تھے بلکہ اس کی سخت مذمت بھی کرتے تھے اور اس فعل کو کفار کی طرف منسوب کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ ہر وہ عمل حرام ہے جو بے صبری یعنی کسی دکھ یا مصیبت پر غم و مصیبت کا زبان سے اظہار، ناراضگی اور اللہ کی تقدیر اور فیصلوں پر عدم رضامندی پر مشتمل ہو ۔
شیعہ حضرات سے سوال
ان تمام احادیث کے بعد سوال یہ ہے کیا ائمہ معصومین نے ان روایات کو بیان کرنے میں جھوٹ کا سہارا لیا یا ان روایات کو ائمہ سے نقل کرنے والوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے ؟ شیعہ حضرات رسول اللہ ﷺ ، اہلِ بیت سے مروی ان تمام احادیث کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ احادیثِ رسول اللہ اور اہلِ بیت میں درج حق باتوں کا انکار کیوں کرتے ہیں ؟ اب ہم کس کو مانیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانیں ؟ اہلِ بیت علیہم السلام کو مانیں ؟ یا ذاکروں اور ملاؤں کی بات مانیں ؟
شیعانِ علی کے دعویدارو!
اپنے آپ کو شیعانِ علی کہلانے والے، حسینی کہلانے والے، فقہِ جعفری کے پیروکار کہلانے والے، اہلِ بیت کی محبت کا دعوی کرنے والے کہاں ہیں ؟ کہ ایک طرف خود کو شیعانِ علی رضی اللہ عنہ بننے کے دعوے دار ہیں اور دوسری جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات ماننے کو تیار نظر نہیں آتے۔
ایک طرف تو آپ اپنے آپ کو حسینی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور دوسری جانب نواسہِ رسول حضرت حسین کی کی گئی آخری وصیتوں کو ماننے کے بجائے ان کی کھلی نافرمانی کرتے ہیں ۔
ایک طرف یہ نعرہ کہ ہم فقہِ جعفری کے پیروکار ہیں اور جب امام جعفر اور اہلِ بیتِ رسول ﷺ کی طرف سے ماتم اور نوحے کی مذمت سامنے آتی ہے تو انکو ماننے کے بجائے ان کی کھلی نافرمانی کرتے نظر آتے ہیں۔
ایک طرف یہ دعوی ہے کہ صرف اہلِ بیتِ رسولﷺ کی باتوں کو حجت مانتے ہیں لیکن دوسری جانب اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی بات ماننے کو تیار نظر نہیں آتے۔
کم از کم ائمہ معصومین کی مان لیں
آپ اگر ہماری باتوں کو تسلیم نہیں کرتے تو کم از کم ان مقدس ہستیوں کی باتوں پر تو عمل کریں جنکو آپ معصوم عن الخطاء مانتے ہیں، منصوص من جانب اللہ سمجھتے ہیں اور جن کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ کوئی کام یا کوئی حکم اللہ رب العزت کی مرضی کے خلاف نہیں کرتے اور ان کا کلام وحی کے مترادف ہے۔ کیا یہی اہلِ بیت کی تعلیمات ہیں ؟ کیا یہی فقہِ جعفری کی تعلیمات ہیں ؟ کیا ائمہ معصومین کے ساتھ محبت کا یہی معیار ہے ؟ کیا یہی نواسہِ رسول ﷺ کے ساتھ انصاف ہے؟
اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں کو دینِ اسلام کا درست اور صحیح فہم عطا فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اس راستے پر چلائے جو اللہ اور اس کے رسولِ کریم ﷺ اور ان کے اہلِ بیت اور صحابہ کرام کا متفقہ راستہ تھا اور ان تمام افراد کی نافرمانی اور ان کی شان میں گستاخی سے بچائے اور ہم سب کو اس فعلِ حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
- مجموع الفتاوى(3/411)
- (تهذيب الأحكام :4/29) وسائل الشيعة :7/337)، جامع أحاديث الشيعة :9/475)
- تهذيب الأحكام :4/300)، جامع أحاديث الشيعة :9/475)، وسائل الشيعة :7/337).
- وسائل الشيعة :7/347)، الحدائق الناضرة :13/377)، جامع أحاديث الشيعة :9/474).
- (تفسير القمي المؤلف : ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي)
- (التبيان في تفسير القرآن للشيخ الطائفة أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي)
- (تفسير مجمع البيان المؤلف : امين الاسلام أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي)
- (أمالي الصدوق ص 254، بحار الأنوار ،مجلسي – ج 79 ، ص:104 )
- (نهج البلاغة 34/4، وشرح نهج البلاغة ، ابن أبي الحديد، ج 18، ص: 342)
- (شرح نهج البلاغة ، ابن أبي الحديد، ج 19، ص : 52)
- (أصول الکافي: 3/ 223، وفروع الكافي ، للشيخ محمد بن يعقوب الكليني: 3/222)
- ( اصول کافی: 3 / 224)
- (وسائل الشيعة ، الحر العاملي، ج : 3 ص : 273)
- ( الكافي للشيخ الكليني، ج : 3، ص 225 ، وسائل الشيعه ج : 2 ، ص : 916، والوافي ج 12 ص: 88)
- ( اصول کافی: 3/227 من لا یحضر الفقیه: 5/ 29)
- (بحار الأنوار ، ملا باقر مجلسی ، ج : 55، ص: 226، وحیات القلوب ، ملا باقر مجلسی: 2/ 460)
- (شرح نهج البلاغة ، ابن أبي الحديد ،ج 13 ،ص: 24)
- (فروع الكافي للكليني :5 /527، وحیات القلوب ملا باقر مجلسی: 2 / 687)
- (الكافي ، الشيخ الكليني،ج 8 ، ص: 238)
- (منتهى الآمال :1 / 248، وجلال العیون ملا باقر مجلسی: 2/ 553)
- (ناسخ التواريخ : 2/360 ، أسرار الشهادة ، الدربندي : 423)
- (تاريخ الطبري : ج 4 ، ص: 319 ، الإرشاد للمفيد : ص 232)
- (اللهوف في قتلى الطفوف ، لسيد ابن طاؤوس، ص: 36)
- (جلاء العيون ، للشيخ المجلسي، ج : 2 ص: 574)