نام نہاد اسلامک اسکالرز کا فتنہ اور نوجوانوں کی ذمہ داریاں

اسلام بیزار اور نام نہاد مسلمان نوجوانوں کے بعد اب دین دار نوجوانوں میں بھی علماءِ کرام سے تنفیر کا فتنہ کچھ عرصے سے بڑھتا جا رہا ہے کہ جس کی بنیادی وجہ جہاں عام مسلمانوں میں دین بیزار طبقوں کا علماء کے خلاف پروپیگنڈہ ہے وہیں سوشل میڈیا پر بعض نام نہاد فتنہ پرور خود ساختہ جعلی “اسلامک اسکالرز” کے باطل افکار و نظریات ہیں کہ جن لوگوں کو بد قسمتی سے بعض جذباتی دین دار نوجوان طبقہ بھی پسند کرتا ہے کہ جو علماء کے خلاف باقاعدہ پروپیگنڈہ کر کے بالخصوص دین دار نوجوانوں اور بالعموم مسلمانوں کو متنفر کرنے کی مذموم سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ طبقہ لوگوں کی یہ ذہن سازی کرنا چاہتا ہے کہ سارے مولوی دو نمبر اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔ صرف ہم ہی ایک نمبر ہیں لہذا اب “ہم جیسے جاہل” تمہیں دین سیکھائیں گے! چونکہ یہ دین دار نوجوان طبقہ علمی طور پر انتہائی کمزور جبکہ عملی طور پر اسلام کے ساتھ سچی محبت اور ایک جذباتی تعلق رکھتا ہے لہذا وہ انجانے میں اس سازش کا حصہ بن جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ شریر طبقہ نوجوانوں کے جذبات کو مزید بھڑکانے اور اپنے دعوے کو سچا ثابت کرنے کے لیے بطورِ دلیل علماءِ سوء کی غلطیوں یا خامیوں کو بھی نہ صرف خوب اچھالتے ہیں بلکہ ان خامیوں کی بنیاد پر یہ قاعدہ کلیہ پیش کرتے ہیں کہ سارے مولوی ایسے ہی ہوتے ہیں! یہی وجہ ہے کہ علماء سے متنفر دین دار نوجوانوں کی اکثریت ان نام نہاد اسکالرز سے متاثر نظر آتی ہے۔ ایسے نوجوانوں کی خدمت میں چند بنیادی باتیں عرض کرنا چاہوں گا تاکہ وہ ان خود ساختہ اسکالرز کے فتنوں سے باہر نکلیں.

1- جس طرح دنیاوی علوم آپ اس فن کے ماہرین سے سیکھتے ہیں اسی طرح دینی علوم بھی ہمیشہ مستند علماءِ کرام سے سیکھیں نہ کہ نام نہاد “اسلامک اسکالرز” سے کہ جو شرعی علوم پر دسترس رکھنا تو دور کی بات اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی نا واقف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی علماء سے متعلق آراء کو سرِ تسلیم خم کرنے سے قبل قرآن و سنت میں جو علماء کی قدر و منزلت بیان کی گئی ہیں ان کا ایک بار ضرور مطالعہ کریں۔ نیز ایسے اسکالرز سے علماء کے بارے میں سوال کرنے کے بجائے علماء سے ایسے اسکالرز سے متعلق دریافت کریں۔

2- قرآن و حدیث کی درست تشریحات وہی ہیں کہ جو امت کے عظیم مفسرینِ کرام، محدثینِ عظام اور جلیل القدر علماءِ کرام نے بیان فرمائی ہیں۔ اس کے مقابلے میں ریسرچ کا لیبل لگا کر ایسی نت نئی تشریحات اور خود ساختہ آراء کو دین کے نام پر پیش کرنا کہ جو آئمہِ سلف میں سے کسی نے بھی بیان نہ کی ہوں عین جہالت ، حماقت اور گمراہی ہے۔

3- یہ بات خوب اچھی طرح جان لیں کہ دینِ اسلام کے تعلق سے اب تک کوئی ایک بھی ایسا شبہہ نہیں ہے کہ جس کا علماء نے جواب نہ دیا ہو۔ یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم شبہہ تو سن لیتے ہیں لیکن اس سے متعلق علماء کے جوابات تلاش نہیں کر پاتے لہذا اسکالرز کی چرب زبانی اور ان کے پیش کردہ اشکالات سے متاثر ہونے کے بجائے بلا جھجک انہیں علماء کے سامنے پیش کریں۔

4- ہمیشہ یہ بات یاد رکھیں کہ ہر داڑھی والا مولوی نہیں ہوتا اگرچہ وہ کسی مذہبی شعبہ سے وابستہ ہی کیوں نہ ہو حتی کہ وہ امام ، قاری یا داعی ہی کیوں نہ ہو۔ ضروری نہیں کہ وہ عالم بھی ہو۔ لہذا ان میں پائی جانے والی خامیوں کو علماء کے کھاتے میں نہ ڈالیں اور نہ ہی ان سے فتویٰ کے لیے رجوع کیا جائے۔ چہ جائیکہ نام نہاد اسلامک اسکالرز کی طرف رجوع کیا جائے۔

5- علماء بھی آپ ہی کی طرح انسان اور اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ وہ غلطیوں سے قطعاً پاک نہیں ہیں۔ جس طرح آپ کی ذاتی خامیوں سے اسلام موردِ الزام نہیں ٹھہرتا ٹھیک اسی طرح کسی عالم میں پائی جانے والی ذاتی خامیاں بھی اسی قبیل سے ہی ہیں۔ لہذا ایسی غلطیوں کو بنیاد بنا کر دینِ
اسلام یا علماءِ کرام پر زبان درازی کرنے سے احتیاط کریں۔

6- کون کتنا بڑا عالم یا اسلامک اسکالر ہے اس کا فیصلہ آپ نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ فیصلہ سوشل میڈیا فالورز کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ فیصلہ تو علماء میں اس شخص کی علمی مقبولیت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔

7-” سارے مولوی ہی ایسے ہوتے ہیں” نام نہاد اسکالرز کی پیش کردہ یہ جھوٹ پر مبنی رائے قائم کرنے سے قبل آپ یہ دیکھ لیں کہ آپ کتنے علماء کو جانتے ہیں۔

8- نام نہاد اسکالرز کی آراء کو علماء کی آراء پر قطعا مقدم نہ کریں۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یہ آپ کی کم عقلی ہے۔ اس سے احتیاط کریں۔

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

ظہیر شریف: اصل نام "خلیق الرحمن بن شریف طاہر" ہے۔ المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کے زیر انتظام چلنے والا معروف تعلیمی ادارہ جامعہ البیان کراچی سے متخرج اور کراچی یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔