موت کے لیے تیاری
خطبہ اول:
الحمدللہ، تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو معاف اور درگزر کرتا ہے، گناہوں کو بخش دیتا ہے، نیکوکاروں کو بدلہ دیتا ہے اور ان سے مصائب و پریشانیاں دور کرتا ہے۔ وہ ڈھیل اور مہلت دیتا ہے تاکہ گنہگار توبہ کرلے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ تمام کمیوں اور عیبوں سے پاک ہے۔ وہ فرمانے والا ہے: “یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے، سب کو چھ دن میں پیدا کردیا اور ہمیں تھکان نے چھوا تک نہیں۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد اس کے بندے اور رسول ہیں جو حوض مورود اور مقام محمود والے ہیں۔ جس نے ان کی اطاعت کی وہ نجات پا گیا، جس نے ان کی نافرمانی کی وہ آگ میں ڈال دیا گیا۔ اللہ درود نازل کرے آپ پر، آپ کے آل و اصحاب اور بیویوں پر، اور ان لوگوں پر جو ان کی اچھی طرح پیروی کریں، اس دن تک جب مخلوقات اپنے رب کی طرف لوٹیں گی اور بہت زیادہ سلامتی نازل کرے۔
اما بعد:
مومنو! میں خود کو اور تم کو اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں، تم اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اس کی اطاعت کرو اور یہ جان لو کہ تمہارے سامنے موت اور قبر ہے اور حشر و نشر اور بدلہ ہے۔ کچھ نعمتوں اور خوشیوں میں ہوں گے تو کچھ عذاب و ہلاکت میں۔ اللہ ہمیں اور آپ کو پناہ دے۔
اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍَ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ1
یقیناً متقی جنتوں اور نہروں میں ہوں گے۔ راستی اور عزت کی بیٹھک میں قدرت والے بادشاہ کے پاس۔
امت مسلمہ! دل رب کی نظر کا مقام ہے، اس لیے جو بے عیب دل کے ساتھ اللہ سے ملے گا وہ کامیاب و کامران ہوگا اور جو اس سے بیمار دل کے ساتھ ملے گا وہ ناکام و نامراد ہوگا۔
دلوں کی بیماریاں بہت ہیں اور سب سے خطرناک بیماریوں میں سے سنگدلی کی بیماری ہے۔ سنگدل انسان توبہ و انابت سے روگردانی کرتا ہے یہاں تک کہ آزمائش و مصیبت سے دوچار ہونے کے وقت بھی۔ چنانچہ اس کا دل شیطان کے لیے چراگاہ بن جاتا ہے اور قرآن کی نصیحتوں کو وہ قبول نہیں کرتا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَؐ فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ2
“اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کچھ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں، پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا تاکہ وہ اظہار عجز کرسکیں، سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں اختیار نہیں کی؟ لیکن ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا۔
اللہ تعالی نے اور فرمایا:
فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ3
پس ان کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد کی طرف سے سخت ہیں، یہ لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔
دل کی نرمی اور تواضع کے اسباب میں سے ہے:
ہمیشہ اللہ کا ذکر کرنا، اس کی آیات پر غور و فکر کرنا، موت اور اس کی سختی کو، قبر اور اس کی تاریکی و تنگی کو یاد کرنا، قبرستانوں کی زیارت کرنا اور یوم آخرت کے حالات پر غور و فکر کرنا۔ طبقات الحنابلہ میں ہے کہ ایک شخص نے امام احمد سے پوچھا: میرا دل کیسے نرم ہو؟ آپ نے کہا: قبرستان جاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو۔ ایمانی بھائیو! زندگی جتنی بھی دراز ہو جائے وہ چھوٹی ہے، اس کے دن جتنے بھی زیادہ ہوں وہ تھوڑے ہیں۔ توفیق یافتہ کامیاب وہی ہے جو اس زندگی میں اپنے رب کی اطاعت پر زندگی بسر کرے اور زندگی سے اپنے خالق سے ملاقات کے دن کے لیے توشہ لے لے۔
نامراد وہ ہے جو اپنے نفس کو اس کی خواہشات کے تابع کر دے اور اللہ سے امیدیں باندھ رکھے یہاں تک کہ اسے موت آجائے اور وہ اپنے خواب غفلت ہی میں رہے اور اس نیک عمل کے ساتھ تیاری نہ کر سکے جو اس کی نجات کا سبب بنے۔
اس زندگی سے رخصت ہونے والے لوگ دو قسم کے ہیں:
پہلی قسم: ان مرنے والوں کی ہے جو اس دنیا کی تھکان سے آرام پا کر دار قرار کے آرام کو پہنچتے ہیں،
اور دوسری قسم: ان لوگوں کی ہے جن سے بندے اور شہر آرام پاتے ہیں۔ وہ برے ٹھکانے اور بدترین منزل کو پہنچتے ہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجَنَازَةٍ فَقَالَ مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْمُسْتَرِيحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ فَقَالَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ وَالْبِلَادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ4
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آرام پانے والا ہے یا اس سے آرام ملنے والا ہے۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آرام پانے والا یا جس سے آرام ملنے والا ہے، سے کیا مراد ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ مومن دنیا کی تکلیفوں اور مشقتوں سے آرام پا کر اللہ کی رحمت کو پہنچتا ہے اور فاجر بندے کے مرنے سے لوگ، شہر اور درخت اور حیوانات آرام پاتے ہیں۔
ایمانی بھائیو! انسان جب مر جاتا ہے تو اس کی قیامت قائم ہوجاتی ہے، اسی لیے قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔ جسے اللہ نے نصیحت و عبرت کی جگہ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ سے دل نرم ہوتا ہے، اس سے غفلت دور ہوتی ہے اور اطاعت و بندگی میں محنت کرنے کے لیے مدد ملتی ہے۔ انسان کو اس کی قبر میں اس کا عمل ہی فائدہ دے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَتْبَعُ المَيِّتَ ثَلاَثَةٌ، فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى مَعَهُ وَاحِدٌ: يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ، فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَيَبْقَى عَمَلُهُ5
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں دوتو واپس آجاتی ہیں صرف ایک کام اس کے ساتھ رہ جاتا ہے ، اس کے ساتھ اس کے گھر والے اس کا مال اور اس کا عمل چلتا ہے اس کے گھروالے اور مال تو واپس آجاتے ہیں اوراس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَوْلَى عُثْمَانَ قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ، إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ: تُذْكَرُ الجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ القَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ6
عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر ستان پرٹھہرتے تو اتناروتے کہ آپ کی داڑھی ترہوجاتی، ان سے کسی نے کہاکہ جب آپ کے سامنے جنت و جہنم کا ذکر کیاجاتاہے تو نہیں روتے ہیں اور قبر کو دیکھ کر اس قدر رورہے ہیں ؟توکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاہے : ‘آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سواگر کسی نے قبرکے عذاب سے نجات پائی تواس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے’، عثمان رضی اللہ عنہ نے مزید کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اورمنظر کو نہیں دیکھا ‘
قبر زیادہ ہولناک اس لیے ہے کہ وہ آسائش کے باغات میں سے ایک باغ ہوگی یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہوگی۔ اللہ ہمیں اور آپ کو پناہ دے۔ سو جو نیکوکار ہوگا قبر اس کے لیے کشادگی اور خوشی کی جگہ ہوگی اور جو بدکار ہوگا قبر اس کے لیے وحشت، دکھ اور تکلیف کی جگہ ہوگی۔
نبی ﷺنے فرمایا:
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا وَأَمَّا الْكَافِرُ أَوْ الْمُنَافِقُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ7
جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی دفن سے فارغ ہو کر واپس ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز وہ سنتا ہے، اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں: تو اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ اگر وہ جواب دے: میں گواہی دیتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، تو اسے کہا جاتا ہے: تو اپنے دوزخی مقام کو دیکھ، اس کے عوض اللہ تعالی نے تجھے جنت میں ٹھکانہ دیا ہے۔” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “وہ دونوں مقامات کو دیکھتا ہے۔ لیکن کافر یا منافق کا یہ جواب ہوتا ہے: میں کچھ نہیں جانتا، جو دوسرے لوگ کہتے تھے وہی میں کہہ دیتا تھا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے: تو نے نہ جانا، نہ قرآن پڑھا، پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ایک ضرب لگائی جاتی ہے کہ وہ چیخ اٹھتا ہے، اس کی چیخ پکار جن و انس کے علاوہ اس کے آس پاس کی تمام چیزیں سنتی ہیں۔
اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ آپ ہر نماز میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جب تم میں سے کوئی تشہد میں بیٹھے تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے،کہے
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ
اے اللہ! میں جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کی آزمائش سے، اور مسیح دجال کے فتنے کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔(صحیح بخاری:۱۳۷۷)
اللہ تعالی فرماتا ہے: حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِنْ وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ8
“یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے: اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں۔ ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک۔ پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ رشتے داریاں ہوں گی اور نہ آپس میں کوئی ایک دوسرے کے حالات پوچھے گا۔ پھر جن کی نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا وہ کامیاب اور نجات پانے والے ہوں گے اور جن کی نیکیوں کا پلہ ہلکا ہوگا وہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے نفس کو خسارے میں ڈال دیا ہے اور وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔)
اللہ میرے لیے اور آپ کے لیے قرآن و سنت میں برکت دے اور مجھے اور آپ کو ان کی آیات و حکمت سے فائدہ پہنچائے۔ میں وہ کہہ رہا ہوں جو آپ سن رہے ہیں اور اللہ سے اپنے لیے اور آپ کے لیے ہر گناہ و خطا کی مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ اس سے مغفرت طلب کریں، بیشک وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
خطبہ ثانی:
الحمدللہ، تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو دلوں کو ثابت رکھنے والا، گناہوں کو بخشنے والا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی تکلیفوں اور مصیبتوں کو دور کرنے والا ہے۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالی ان پر، ان کے آل و اصحاب پر درود اور بہت زیادہ سلامتی بھیجے۔
اما بعد:
مومنو! بے شک قبروں کی زیارت میں عبرت اور غور و فکر کا سامان ہے جو انسان کو خوف و خشیت اور اطاعت و عمل کی طرف جلدی کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ جو شخص ڈرے گا وہ استعداد و محنت سے کام لے گا اور جو مستعدی دکھائے گا وہ منزل کو پہنچ جائے گا۔
اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبرت اور غور و فکر کے لیے قبروں کی زیارت کی ترغیب دی ہے۔
نبی اﷺنے فرمایا:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَزُورُوهَا؛ فَإِنَّهَا تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا، وَتُذَكِّرُ الْآخِرَةَ9
میں تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا کرتا تھا، اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔
قبروں کی زیارت کے کچھ احکام و آداب ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مردے کے لیے دعا کی جائے کیونکہ قبریں تاریکیوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں جنہیں اللہ اپنے نیک بندوں کی دعاؤں سے منور فرما دیتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَسْوَدَ رَجُلًا أَوْ امْرَأَةً كَانَ يَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَمَاتَ وَلَمْ يَعْلَمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْتِهِ فَذَكَرَهُ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ مَا فَعَلَ ذَلِكَ الْإِنْسَانُ قَالُوا مَاتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَفَلَا آذَنْتُمُونِي فَقَالُوا إِنَّهُ كَانَ كَذَا وَكَذَا قِصَّتُهُ قَالَ فَحَقَرُوا شَأْنَهُ قَالَ فَدُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ10
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اس کو نہ پایا تو دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: وہ فوت ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم نے مجھے کیوں اطلاع نہ دی؟” راوی کہتے ہیں: گویا لوگوں نے اس کے معاملے کو معمولی سمجھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔” چنانچہ انہوں نے قبر دکھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ پھر فرمایا: “یقیناً یہ قبریں اپنے رہنے والوں پر اندھیروں سے بھری ہوتی ہیں اور اللہ تعالی میری دعا سے ان قبروں کو ان کے لیے منور کر دیتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں آتے تو دعا فرماتے:
ٱلسَّلَامُ عَلَىٰ أَهْلِ ٱلدِّيَارِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُسْلِمِينَ، وَيَرْحَمُ ٱللَّهُ ٱلْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَٱلْمُسْتَأْخِرِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ ٱللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ
(اس گھر کے مومن اور مسلم رہنے والوں پر سلامتی ہو، اللہ ہم میں سے پہلے جانے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحم فرمائے، اور ہم ان شاء اللہ تم سے آملنے والے ہیں)۔
بھائیو! قبروں کی ایک حرمت ہے لہذا ان پر چلنا، ان پر بیٹھنا جائز نہیں۔
نبی اﷺنے فرمایا:
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهُ فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ11
“تم میں سے کسی کا انگارے پر بیٹھ جانا جو اس کے کپڑے کے ساتھ چمڑے تک کو جلا دے، یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے۔
اسی طرح نبی اکرم ﷺنے قبروں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے سے اور قبروں کو مسجد بنانے سے بھی منع فرمایا ہے۔
نبی ﷺ کی حدیث ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَكَرَتَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، فَأُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ القِيَامَةِ12
کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حبشہ میں ایک کلیسا کا ذکر کیا جس میں تصویریں تھیں، آپ نے فرمایا: “جب ان میں سے کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں تصویریں بنا دیتے۔” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برے مخلوق ہوں گے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ13
“سنو! تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا کرتے تھے، تو تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔
اور اس کی وجہ یہ اللہ کے بندو یہ ہے کہ نیک لوگوں کی قبروں کے سلسلے میں غلو کرنا اللہ کے ساتھ شرک تک پہنچا دیتا ہے۔
چنانچہ حبر الامۃ اور ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالی کے اس فرمان:
وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا14
اور کہا انہوں نے کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ود اور سواع، اور یغوث اور یعوق اور نسر کو چھوڑنا
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یہ سب نیک آدمیوں کے نام تھے جو حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں سے تھے۔ جب وہ لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ تم ان کی مجالس میں جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کی یادگاریں یعنی مجسمے نصب کر دو اور انہیں انہی کے ناموں سے موسوم کر دو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا مگر ان کی عبادت نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ جب وہ لوگ بھی فوت ہوگئے اور علم مٹ گیا یعنی اصل حقیقت بھلا دی گئی تو پھر ان کی عبادت شروع کر دی گئی۔
اللہ کے بندو! بے نیک لوگوں کی قبروں کی تعظیم کرنا، ان پر عمارتیں بنانا جائز نہیں ہے۔ پھر ان کے گرد طواف کرنا، ان کے لیے ذبح کرنا اور نذر ماننا، صاحب قبر کو پکارنا، ان سے فریاد کرنا، ان سے حاجات طلب کرنا اور مصیبتیں دور کرنے کی درخواست کرنا کہاں سے جائز ہو سکتا ہے؟
لہذا اے مسلمانو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور زیارت قبور کو اسی مقصد تک محدود رکھو جس کے لیے وہ مشروع کی گئی ہے، یعنی نصیحت حاصل کرنے، عبرت لینے، مردوں کو سلام کرنے اور ان کے لیے دعا کرنے تک۔ اور قبروں کے پاس وہ کام نہ کرو جو رب کو ناراض کرے کیونکہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا فَإِنَّ فِي زِيَارَتِهَا تَذْكِرَةً15
“میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا، اب تم ان کی زیارت کیا کرو اور ایسی بات مت کہو جو رب کو ناراض کرے۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ فضول باتیں مت کہو۔
اور جو شخص قبرستان آئے اسے دنیاوی باتوں میں مشغول نہیں ہونا چاہیے، وہاں ہنسنا اور مذاق کرنا مناسب نہیں ہے بلکہ اسے چاہیے کہ اہل قبور کے حال پر غور کرے بلکہ اپنے حال اور انجام پر بھی سوچے کہ وہ بھی آخر کار انہی کی طرح اسی انجام کو پہنچنے والا ہے۔
پھر جان لو مومنو! کہ اللہ تعالی نے تمہیں ایک عظیم اور بابرکت حکم دیا ہے جس کی ابتدا اس نے اپنی ذات اقدس سے کی ہے،
چنانچہ اللہ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا16
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی پڑھتے رہا کرو۔
اے اللہ! محمد پر ان کی ازواج مطہرات اور ذریت پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی اور محمد پر ان کی ازواج مطہرات پر اور ذریت پر برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے آل ابراہیم پر برکت نازل فرمائی، بیشک تو ہی لائق حمد و بزرگی والا ہے۔
اے اللہ! خلفائے راشدین: ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اور تمام صحابہ کرام، تابعین سے اور ان کے نقش قدم پر قیامت تک چلنے والوں سے راضی ہو جا اور ہم سے بھی اپنے فضل و کرم اور جود و سخا سے راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین۔
خطبۂ جمعہ، مسجد حرام
تاریخ: 09 جمادی الاول 1447 ہجری بمطابق 31 اکتوبر 2025 عیسوی۔
خطیب فضیلۃ الشیخ، د. ماهر المعيقلي حفظه الله۔
________________________________________________________________________________________________________________
معجزہ کسے کہتے ہیں اور اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ نبی کریم ﷺ سے…