مسجد اقصیٰ پر خبیث اور ناپاک یہودیوں کا ناجائز تسلط، اس کے تقدس و حرمت کی پامالی اور اس کی حیثیت مسخ کرنے کی کاوشوں اورآئے روز اس پر حملوں کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں رنج وغم اور تکلیف روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ مسجد اقصیٰ ایک عظیم اور بابرکت مسجد ہے جو مومنوں کے دلوں میں ایک اعلیٰ مقام اور بلند مرتبہ رکھتی ہے۔ یہ کائنات کی ان مساجد میں سے ہے جن کے قرآن و سنت میں بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ درج ذیل سطور میں مسجد اقصی کے چند فضائل، برکات اور خصوصیات درج کیے جاتے ہیں جو اس کے بلند مرتبے اور عظیم قدر و منزلت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مسجد اقصی انبیاء کرام کی تعمیر کردہ
مسجد اقصی کی تعمیر انبیاء کے ہاتھوں ہوئی۔ سب سے پہلے اسے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا ۔ اس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کی تجدید کی پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو مکمل کیا۔ اس کی دلیل صحیحین میں ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ :
أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلَ ؟ قَالَ : الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قَالَ قُلْتُ : ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ : الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى ، قُلْتُ : كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا ؟ قَالَ : أَرْبَعُونَ سَنَةً ، ثُمَّ أَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ بَعْدُ فَصَلِّهْ فَإِنَّ الْفَضْلَ فِيهِ .
(صحیح البخاري :3366، ومسلم:520)
زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائ گئ ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجد حرام ( بیت اللہ ) تومیں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : مسجد اقصی ، تو میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال ، پھرجہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ۔
اس حدیث شریف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام نے “مسجد حرام” کی تاسیس کے 40سال بعد مسجد اقصی کی بنیاد رکھی۔ محدثین نے مزید وضاحت یہ کی ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیری تجدید کی، اسی طرح مسجد اقصی کی تجدید یعقوب علیہ السلام یا داؤد علیہ السلام نے کی اور سلیمان علیہ السلام نے اس کی تکمیل کی۔ یعنی اس کی بنیاد سے لیکر تکمیل تک انبیاء کرام نے حصہ لیا ہے ۔
مسجد اقصیٰ کے ارد گرد کی سر زمین بھی بابرکت ہے
مسجد اقصی کے ارد گرد مقامات کو بھی اللہ رب العالمین نے مبارک اور قابل تقدیس قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ
(سورہ ٔ الإسراء:1)
ترجمہ : پاک ہے وہ اللہ تعالی جو اپنے بندے کو رات ہی رات مسجد حرام سے مسجد ِ اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے۔
(بَارَكْنَا حَوْلَهُ )اللہ تعالی نے اس کے ارد گرد برکتیں ڈالیں ہیں ،یعنی وہاں کے باشندگان،ان کے معاش و معیشت ، رہن سہن، ان کی کھیتی باڑی ، اور ان کے روزی رزق میں برکتیں دی ہیں1
(بَارَكْنَا حَوْلَهُ ) اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ یہ جگہ انبیاء، بزرگان ِ دین اور صلحاء کا مسکن رہا ہے۔2
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے ساتھ ساتھ اس کے اردگرد سرزمین یعنی فلسطین و شام کا علاقہ بھی بابرکت ہے۔
مسجد اقصی و بیت المقدس : مسلمانوں کا قبلہ اول
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
صَلَّيْنَا مع رَسولِ اللهِ ﷺ نَحْوَ بَيْتِ المَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، أوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ صُرِفْنَا نَحْوَ الكَعْبَةِ.
(صحيح مسلم: 525، وصحيح البخاري: 4492)
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینوں تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نمازیں ادا کرتے رہے ، پھر ہمارا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔
کائنات میں اللہ کا دوسرا گھر
مسجد اقصیٰ روئے زمین پر بیت اللہ کے بعد دوسری مسجد ہے کہ جس کو عبادت الٰہی کیلئے تعمیر کیا گیا ،، حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں نے پوچھا:
قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلَ ؟ قَالَ : الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قَالَ قُلْتُ : ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ : الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى ، قُلْتُ : كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا ؟ قَالَ : أَرْبَعُونَ سَنَةً ، ثُمَّ أَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ بَعْدُ فَصَلِّهْ فَإِنَّ الْفَضْلَ فِيهِ
(رواه البخاري :3366، ومسلم:520) .
اے اللہ کے رسولﷺ ! اس روئے زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپﷺ نے جواب دیا: مسجد حرام ، میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد کونسی مسجد تعمیر کی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ، میں نے عرض کیا: ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: چالیس سال ، پھر آپﷺ نے فرمایا: جہاں نماز کا وقت ہوجائے وہیں نماز پڑھ لو، کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ۔
مسجد اقصی، سفر معراج کی یادگار
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ، وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ، فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ، يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ، قَالَ فَرَكِبْتُهُ حَتَّى أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، قَالَ فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِيَاءُ، قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ، فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرِيلُ : اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ
(صحیح مسلم :162)
”میرے پاس براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اپنا سم وہاں رکھتا ہے جہاں اس کی نظر کی آخری حد ہے۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا حتی کہ بیت المقدس آیا۔ فرمایا: میں نے اس کو اسی حلقے (کنڈے) سے باندھ لیا جس کے ساتھ انبیاء علیہم السلام اپنی سواریاں باندھتے تھے۔ فرمایا: پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر (وہاں سے) نکلا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کا لے آئے۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا۔ تو جبرئیل علیہا السلام نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أُسْرِىَ برسول الله صلى الله عليه وسلم بجسده على الصحيح من المسجد الحرام إلى بيت المقدس، راكبًا على البُرَاق، صحبة جبريل عليهما الصلاة والسلام، فنزل هناك، وصلى بالأنبياء إمامًا، وربط البراق بحلقة باب المسجد، ثم عرج به تلك الليلة من بيت المقدس إلى السماء الدنيا
(زاد المعاد:3/30)
ترجمہ:صحیح یہی ہے کہ نبی کریمﷺ کو جسم سمیت مسجد ِ حرام سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی، براق پر سوار ہو کر حضرت جبریل علیہ السلام کی صحبت میں، چنانچہ آپ وہاں اترے، انبیاء کی امامت کرائی، براق کو مسجد کے دروازے سے باندھا، پھر اسی رات بیت المقدس سے آسمانِ دنیا کی طرف معراج کرایا گیا۔
ثواب کی نیت سے سفر کرنے کی تیسری مسجد
مسجد اقصیٰ ان تین مساجد میں سے ایک ہے جس کی طرف بغرضِ عبادت سفر کرنا جائز ہے، ان تین مساجد کے علاوہ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے، جس کی طرف عبادت كی نیت سے سفر کیا جا سکے۔ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى .
(رواه البخاري :1189 ، ومسلم :1397)
تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا(زیادہ ثواب اور برکت کی نیت سے خاص) قصد کر کے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ مسجد الحرام، مسجد الرسول یعنی نبوی اور مسجد اقصیٰ ۔
مسجد اقصی میں 250 نمازوں کی فضیلت
مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس میں پڑھی جانے والی نماز کا اجر زیادہ ملتا ہے، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
أنَّهُ سأل رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ عَن الصَّلاةِ في بَيتِ المقدِسِ أفضلُ أو في مسجِدِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ فَقالَ صلاةٌ في مسجِدي هذا ، أفضلُ من أربعِ صلواتٍ فيهِ.
(صحيح الترغيب: 1179)
انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا کہ آیا بيت المقدس میں نماز افضل ہے یا مسجد نبوی میں افضل ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: میری اس مسجد میں ایک نماز وہاں کی چار نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے
مسجد اقصی: نماز پڑھنے کی بہترین جگہ
سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد اقصی کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَلَنِعْمَ الْمُصَلَّى هوَ، أرضُ المَحشرِ والمنشَرِ ، وليأتيَنَّ على النَّاسِ زمانٌ ولقَيْدُ سَوطِ أو قال : قوسِ الرَّجلِ حَيثُ يرى مِنهُ بيتَ المقدسِ ؛ خيرٌ لهُ أو أحبَّ إليه مِنَ الدُّنيا جميعًا .
(صحيح الترغيب: 1179)
اور مسجد اقصی نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے۔ حشر نشر کی سرزمین ہے، اورعنقریب لوگوں پر ایک وقت آئے گا جب ایک کوڑے کے برابر جگہ یا آدمی کی کمان کے برابر جگہ جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہو، اور بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا اس کے لئے سب چیزوں سے بہتراور ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہوگا۔”
مسجد اقصی کو دیکھنے کی فضیلت
مسجد اقصیٰ کو دیکھنا دنیا ومافیہا سے افضل ہے ،سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَلَيُوشِكَنَّ أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ مِثْلُ شَطَنِ فَرَسِهِ مِنَ الأَرْضِ حَيْثُ يَرَى مِنْهُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الدُّنْيَا جَمِيعاً
(السلسلۃ الصحیحۃ:2902 )
عنقریب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدرزمین کاایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ لے ۔ اگر اتنی جگہ بھی مل گئی تو اس کیلئے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لیناپوری دنیا سے زیادہ افضل ہوگا ۔
مسجد أقصی میں نماز پڑھنے کی منت ماننا
مسجد أقصی وہ بابرکت مسجد ہے جس میں نماز پڑھنے کی نذریا منت ماننا جائز ہے ،حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص نےعرض کیا:
يا رسولَ اللہِ إنِّي نذرتُ للہِ إن فتحَ اللہُ عليْكَ مَكَّةَ أن أصلِّيَ في بيتِ المقدسِ رَكعتينِ قالَ صلِّ هاهنا ثمَّ أعادَ عليْهِ فقالَ صلِّ هاهنا ثمَّ أعادَ عليْهِ فقالَ شأنَكَ إذَن
(صحيح أبي داود: 3305)
اے اللہ کے رسول! میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کے ہاتھوں مکہ مکر مہ کو فتح کر وادیا تو میں بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہیں نماز پڑھ لو اس نے پھر سوال کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا اس نے پھر سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی۔
مسجد اقصیٰ میں نماز ،گناہوں کی معافی
مسجد اقصیٰ میں نماز ،گناہوں کی معافی کا سبب ہے ، سیدناعبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سَأَلَ اللہَ ثَلَاثًا : حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ ، وَمُلْكًا لَا يَنْبَغِي لَأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ ، وَأَلَّا يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِيهِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أُعْطِيَهُمَا ، وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ
(صحيح ابن ماجه: 1164،وصحيح الترغيب:1178)
جب سلیمان بن داؤ علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں: (1) یا اللہ! میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق (درست) ہوں۔ (2) یا اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے (3) یااللہ! جو آدمی اس مسجد اقصی میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی پہلی دودعائیں تو قبول فرمالی ہیں(کہ ان کا ذکر توقرآن مجید میں موجود ہے)مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کرلی گئی ہوگی۔
دجال مسجد اقصیٰ میں نہیں داخل ہوگا
مسجداقصیٰ ان چارجگہوں میں سے ہے جہاں دجال داخل نہیں ہو سکے گا، حضرت جنادہ بن امیہ دوسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ذَهَبتُ أنا ورَجُلٌ مِن الأنصارِ إلى رَجُلٍ مِن أصْحابِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسَلَّمَ فقُلْنا: حدِّثْنا ما سَمِعتَ مِن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسَلَّمَ يُذكَرُ في الدَّجَّالِ، ولا تُحَدِّثْنا عن غَيرِه وإنْ كان مُصَدَّقًا، قال: خَطَبَنا النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسَلَّمَ فقال: أنذَرتُكُم الدَّجَّالَ ثلاثًا؛ فإنَّه لم يَكنْ نَبيٌّ قَبْلي إلَّا قد أنذَرَه أُمَّتَه، وإنَّه فيكم -أيَّتُها الأُمَّةُ- وإنَّه جَعْدٌ آدَمُ مَمْسوحُ العَينِ اليُسْرى، معه جَنَّةٌ ونارٌ، فنارُه جَنَّةٌ، وجَنَّتُه نارٌ، ومعَه جَبَلٌ مِن خُبزٍ ونَهرٌ مِن ماءٍ، وإنَّه يُمطِرُ المَطرَ، ولا يُنبِتُ الشَّجَرَ، وإنَّه يُسَلَّطُ على نَفْسٍ فيَقتُلُها، ولا يُسَلَّطُ على غَيرِها، وإنَّه يَمكُثُ في الأرضِ أربَعينَ صَباحًا، يَبلُغُ فيها كلَّ مَنهَلٍ، ولا يَقرُبُ أربَعةَ مساجِدَ: مسجِدَ الحَرامِ، ومسجِدَ المَدينةِ، ومسجِدَ الطُّورِ، ومسجِدَ الأقْصى۔
(تخريج المسند لشعيب الأرناؤوط: 23685: إسناده صحيح)
میں اور میرا دوست ایک صحابی کے پاس گئے اور عرض کیا:ہمیں ایسی حدیث سنائیے ، جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنی ہو ، کسی اور کی باتیں نہ سنائیں اگرچہ وہ سچا ہو،وہ کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں، تین بار ایسا ہی فرمایا، میری امت کے لوگو! وہ تم میں نکلے گا۔ وہ گھنگھریالے بالوں والا اور گندمی رنگ کا ہوگا، اس کی بائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی،(یعنی نہیں ہوگی) اس کے پاس جنت اور جہنم ہوگی۔ اس کے پاس پانی کی نہر اور روٹیوں کا پہاڑ ہوگا، اسے اتنی طاقت و قوت دے دی جائے گی کہ ایک جان کو قتل کر کے اسے زندہ بھی کر سکے گا، وہ آسمان سے بارش برسائے گا، لیکن زمین سے کوئی چیز نہیں اُگے گی، وہ زمین میں چالیس دن ٹھہرے گا، یہاں تک کہ ہر جگہ پہنچ جائے گا، وہ چار مسجدوں کے قریب بھی نہیں آسکے گا: مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجداقصیٰ اور کوہ طور۔
مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی امامت
زمین کی پشت پر مسجد اقصیٰ وہ واحد جگہ ہے جس میں ایک ہی وقت میں تمام انبیاء کرام کا اجتماع ہوا ا ور باجماعت نماز ادا فرمائی، اور امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی۔یہ اعزاز کسی اور جگہ کو حاصل نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الأَنْبِيَاءِ فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّى فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ وَإِذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَائِمٌ يُصَلِّي أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ وَإِذَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَائِمٌ يُصَلِّى أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُكُمْ ، يَعْنِي: نَفْسَهُ – فَحَانَتِ الصَّلاَةُ فَأَمَمْتُهُمْ
(صحیح مسلم :172)
میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں دیکھا تو وہاں موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، جیسے قبیلہ شنوءہ کے آدمیوں میں سے ایک ہوں۔ اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو دیکھا، وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور (وہاں) ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں، آپﷺ نے اپنی ذات مراد لی، پھر نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان سب کی امامت کی۔
اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :
فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ الْأَقْصَى قَامَ يُصَلِّي فَالْتَفَتَ ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا النَّبِيُّونَ أَجْمَعُونَ يُصَلُّونَ مَعَهُ
(رواه أحمد بسند حسن ( 4 / 167 ) (2324) وصحہحہ ابن كثير في تفسيره، وأحمد شاكر.
ترجمہ : جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصی میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے تو وہاں سارے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے۔
مسجد اقصی کا اصل حقدار کون ہے ؟
درج بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ مسجد پر اسی قوم کا حق ہے جو کہ مسلمان ہو۔ جب تک عیسائی اور یہودی مسلمان تھے اس وقت تک اس عبادت گاہ پر ان کا حق قائم تھا لیکن اللہ کے رسول ﷺکی آمد کے بعد جو بھی یہودی اور عیسائی آپ پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللہِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللہِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا
( سورۃ النساء: 150)
بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے درمیان کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ پکے کافر ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو بھی یہودی اور عیسائی اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لائے وہ پکا کافر ہے۔ اور کافر مسلمانوں کی بنائی ہوئی عبادت گاہ کا کیسے وارث ہو سکتا ہے؟ یہ توایسے ہی ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی مسجد بنائی اور اس کی بعد میں آنے والی نسلوں میں سے کوئی یہودی ہو گیا تو کیا اب اس مسجد کو یہودیوں کی عبادت گاہ بنا کر اس یہودی کے کنٹرول میں دے دیا جائے گا ؟ مسجد اقصی پر اس وقت یہودیوں کا حق تھا جب تک وہ مسلمان تھے، آج بھی اگر وہ اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لے آتے ہیں تو ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ہم مسجد اقصی کی تولیت ان کے سپرد کر دیں گے۔ لیکن اگر وہ اپنے نبی حضرت موسی علیہ السلام اور اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین سے پھر جائیں تو کس بنیاد پر ان کو مسجد اقصی کا وارث قرار دیا جائے؟
ارشاد باری تعالی ہے :
مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۔ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللہُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ
( سورہ آل عمران :68،67 )
حضرت ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی ،بلکہ موحد مسلمان تھے، اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے، ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ لوگ ہیں جو ( ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔
حضرت ابراہیم کی طرح،حضرت موسی اور حضرت سلیمان اور بنی اسرائیل کے تمام انبیاء کے اصل ورثا اور جانشین مسلمان ہیں نہ کہ یہود و نصاری۔ اگر حضرت سلیمان نے مسجد اقصی کی تعمیر کی بھی تھی تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اب یہ مسجد کافروں کی عبادت گاہ بن گئی ہے۔ حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل مسلمان تھے لہذا اس بنیاد پر اس مسجد کے وارث بھی تھے۔ اللہ کے رسولﷺ سے بغض اور کینہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے آج کل کے یہودیوں کے کافر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے بلکہ ان کے کفر پر امت کا اجماع ہے لہذا مسجد اقصی جو کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اس پرایک کافر قوم کا حق کیسے جتایا جا سکتا ہے ؟ ۔
بفرض محال اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مسجد اقصی پر یہود کا حق ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اہل کتاب میں سے جو بھی محمد ﷺ کی رسالت کا انکاری ہو وہ حضرت موسی اور تورات کا بھی انکاری ہے کیونکہ دونوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی آمد اور ان کی علامات کی خبر دی ہے۔ لہذا ایسا یہودی جو کہ اللہ کے رسول ﷺ کو نہ ماننے کے ساتھ تورات اور حضرت موسی کی بات بھی ماننے سے انکار کر دے وہ تو اپنے دین، اپنے نبی اور اپنی کتاب کا بھی انکاری ہے اور ایسا یہودی مسجد اقصی کا وارث کیسے ہو سکتا ہے ؟ ۔
امت مسلمہ کا فریضہ
آج بیت المقدس و مسجد اقصیٰ خون کے آنسو بہا رہی ہے۔ آج یہودی، صلیبی بیت المقدس کو منہدم کرکے ہیکل سلیمان کی تعمیر کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں اوراس مقصد کیلئے فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ پھر شروع ہو چکا ہے، یہودی آج اس مقدس سر زمین کے اصل مالکان کو بے گھر کرنے کے درپے ہیں۔ آج ارض فلسطین انسانیت کو پکار رہی ہے۔یہ مسئلہ صرف فلسطینی عوام کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے قبلہ اول، بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کا ہے۔ یہ ایمان کا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا میں بسنے والے تمام لااِلہ اِلااللہ پڑھنے والوں کا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا وآخرت کا مسئلہ ہے۔ یہ حق سے وفاداری کا مسئلہ ہے جس طرح کعبۃ اللہ اور مسجد نبویؐ کی طرف میلی آنکھ دیکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی حفاظت بھی امت مسلمہ کا فرض بنتا ہے۔