ذمہ داران اور ملازمین کے لئے قیمتی نصیحتیں

پہلا خطبہ :

بے شک تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ  کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اس سے مدد، مغفرت اور ہدایت طلب کرتے ہیں، ہم اپنے نفس اور برے اعمال سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے وہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ بے شمار درود و سلام نازل ہوں آپ ﷺ پر، آپ  کی آل پر اور صحابہ کرام پر۔

حمد و صلاۃ کے بعد!

شریعت اسلامیہ کے اغراض و مقاصد میں یہ داخل ہے کہ اس کائنات کو ہر اس چیز سے آباد کیا جائے جو انسانیت کے لیے نفع بخش ہو، جس میں سماج اور افراد کے شخصی اور عوامی مفادات مضمر ہوں اور جو لوگوں سے فساد وبگاڑ کو روکنے میں معاون ہو۔ اس لیے ضرورت اس بات کی متقاضی ہے کہ بعض ایسی ذمہ داریوں کے بارے میں یاد دہانی کرائی جائے جن کا تعلق معاشرے اور افراد کی زندگی کے مصالح و مفادات سے ہے اور یہ ذمہ داریاں ان لوگوں سے متعلق ہیں جو معاشرے کے مصالح کی تکمیل کے لیے سرکاری یا پرائیوٹ سیکٹر میں بر سر روزگار ہیں، کیوں کہ ان ذمہ داریوں میں کمی و کوتاہی تعمیر وترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اور اس گفتگو کو ہم چند نقاط کی روشنی میں رکھنا چاہتے ہیں۔

پہلا نقطہ : سرکاری، یا غیر سرکاری ہر ملازم کو چاہیے کہ وہ اپنے دل میں اللہ عزوجل کے سامنے اپنی جواب دہی کا احساس تازہ رکھے اور یہ جان لے کہ وہ اللہ کے سامنے بہت بڑی امانت کا ذمہ دار ہے، پھر اپنے حاکم کے سامنے ، پھر پورے سماج کے سامنے ، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص اپنی رعیت کے بارے جواب دہ ہے “۔ (متفق علیہ)۔

لہذا اے ملازم! یادرکھو کہ تمہیں اللہ کے سامنے کھڑا ہو کر جواب دینا ہے اور مسلمانوں کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ جہاں عہدہ اور منصب میں تمہارے لیے لذت کا سامان ہے ، وہیں پر اس کی ذمہ داریاں بھی بہت عظیم ہیں، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اس سے آگاہ کیا ہے ، جب ابو ذررضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا: ”کیا آپ ﷺ ہمیں کسی جگہ کی امارت، یا ولایت پر مامور نہیں کریں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کہ اے ابوذر! بے شک تم ایک ناتواں انسان ہو، اور یہ ایک امانت ہے اور بروز قیامت رسوائی اور ندامت کا باعث ہے سوائے ایسے آدمی کے  جس نے بطور استحقاق اس کو حاصل کیا ہو اور اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح ادا کیا ہو“۔ (مسلم)۔

اللہ تعالیٰ  نے تمہیں جس ملازمت و نوکری سے بھی نوازا ہے کیا تمہیں اس کی سنگینی کا احساس ہے؟ کیا تم نے سماج کے عمومی اور بڑے منافع و مفادات کو بروئے کار لانے کے لیے محنتیں صرف کی ہیں؟

امام احمد رحمہ اللہ  نے آپ ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے: ” افسروں اور کارندوں کے لیے ہلاکت ہے، جن لوگوں کو امین سمجھ کر امانات ان کے سپرد کی گئیں، ان کے لیے ہلاکت ہے، یہ لوگ قیامت کے دن تمنا کریں گے کہ کاش ان کے سر کے بال ثریا ستارہ کے ساتھ باندھ دیے جاتے اور یہ آسمان اور زمین کے درمیان لٹکتے رہتے اور یہ ذمہ داری قبول نہ کرتے“۔ (اسے ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور حاکم نے (مستدرک میں ) روایت کیا ہے اور حاکم نے کہا کہ اس کی سند صحیح ہے)۔

دوسر انقطہ : ملک میں عمومی مصالح و مفادات کے لیے بنائے گئے پروجیکٹ و منصوبے کو مکمل اور بہترین انداز میں نافذ کرنا اعلی سے ادنی ہر ایک ذمہ دار کے کندھے پر ایک امانت ہے۔ لہذا تمام ذمہ داروں پر واجب ہے کہ وہ امانت کی ادائیگی کو لازم پکڑیں، امانت داری کے وصف سے مزین رہیں اور دھوکہ دھڑی سے دور رہیں، کیوں کہ امانت کی ادائیگی کے حکم اور اس میں لا پروائی برتنے کی سنگینی پر قرآن وسنت میں بے شمار نصوص وارد ہیں۔

اے صاحبانِ قیادت وسیادت! یہ جان لو کہ جن معاہدوں پر تم آپس میں اتفاق کرتے ہو، جن کی تم نگرانی کرتے ہو اور جن منصوبوں اور پروجیکٹ کی تمھیں ذمہ داری سونپی گئی ہے اللہ عزوجل کے حضور ان سب کے متعلق تم سے پوچھا جائے گا، کیا تم اپنے ذاتی مفادات میں کو تاہی برداشت کرو گے؟ اگر نہیں تو پھر عمومی مفادات میں کو تا ہی کیوں کرتے ہو؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ تم لوگ امارت کی چاہت رکھو گے، پھر وہی امارت قیامت کے دن تمھارے لیے ندامت کا سبب بنے گی، کیا ہی اچھی ہوتی ہے دودھ پلانی والی اور کیا ہی بُری لگتی ہے دودھ چھڑانے والی“۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)۔

یہ جان لو کہ مسلمانوں کے اموال اور ان کے پروجیکٹ اور منصوبوں میں کو تاہی برتنا اللہ کے نزدیک انتہائی مہلک امور میں سے ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں۔ چنانچہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے“۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)۔ایک مسلمان اس فانی دنیا کے بدلے میں اُس عظیم سزا کو کیسے پسند کر سکتا ہے؟

 تیسر انقطہ: رشوت کا لین دین کرنا اور اس کے سدباب میں کو تاہی برتنا، خطر ناک تباہی اور سنگین شر و فساد کے اسباب میں سے ہے، یہ وہ گھناؤنا جرم ہے جوحق کو باطل اور باطل کو حق بنا دیتا ہے اور جو ذمہ دار کو اس پر آمادہ کر دیتا ہے کہ وہ رشوت دینے والے کے ایسے برے مقاصد اور فاسد اہداف کی تکمیل کرے جو عوامی مفادات کے خلاف ہوتے ہیں۔ یہ وہ حرام اور خبیث مال ہے جس کے لینے دینے پر اللہ تعالی نے نبی اسرائیل کی مذمت کی ہے۔

یہ رشوت خوری انسان پر لعنت نازل ہونے کا سبب ہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: “رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر اللہ کی لعنت برستی ہے“۔ اسے ترمذی، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 اور مسند احمد میں یہ بھی ہے کہ : ” ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر بھی اللہ کی لعنت ہے“۔ ( یہ حدیث صحیح ہے)۔ ایک اور حدیث میں ہے جسے ابن جریر رضی اللہ عنہ  نے روایت کیا ہے کہ: ”جسم کا ہر وہ گوشت جو سخت سے بڑھا ہو ، آگ ہی اس کی زیادہ حقدار ہے، پوچھا گیا: سحت کیا ہے؟ تو فرمایا: فیصلے میں رشوت لینا“۔

کسی بھی نوکری میں لی جانے والی رشوت بھی اسی قبیل سے ہے۔ شرعی اور نافذ العمل قانون کی رو سے رشوت میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی ملازم اپنا کام اس وقت تک نہ کرے جب تک کہ وہ ضرورت مند سے متعلقہ کام کے بدلے پیسے وصول نہ کرلے، یا اپنی ڈیوٹی کی ذمہ داریوں میں کمی بیشی کرنے کے بدلے روپے لے، اور رشوت خوری صرف روپے پیسے پر ہی منحصر نہیں ہے، بلکہ یہ ہر اس فائدہ یا خصوصیت کو شامل ہے جو رشوت خور اپنی ڈیوٹی کے فرائض میں ہیر پھیر کرنے کے لیے حاصل کرتا ہے، اسی طرح رشوت یہ بھی ہے کہ کوئی ملازم کسی کو حق سے محروم کر دے، یا کسی باطل چیز کو منظوری دے دے۔

لہذا ہر ذمہ دار پر، بلکہ پورے سماج پر، خصوصا میڈیا پر واجب ہے کہ اس گھناؤنے جرم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، رشوت خور کی تشہیر کر کے اسے رسوا کریں اور اس کو ایسی سزا دیں کہ وہ اس فعل سے باز آجائے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

المائدۃ – 63

بھلا ان کے مشائخ اور علما انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بلاشبہ وہ بھی برا کرتے ہیں۔

 بربادی اس معاشرے کا مقدر ہے جو ایک دوسرے کو رشوت سے منع نہیں کرتے اور اس سے لڑنے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر ایک دوسرے کا تعاون نہیں کرتے۔

امام احمد رحمہ اللہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ”جس قوم میں بھی سود عام ہو جاتا ہے  تو وہ  قوم قحط سالی کا شکار ہو جاتی ہے،اور جس قوم میں بھی رشوت عام ہوتی ہےتو  وہ قوم  خوف اور ڈر میں مبتلا ہو جاتی ہے“۔

چو تھا نقطہ : عہدے و منصب کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنا اور عوامی پیسوں میں ہیر پھیر کرنا ایک سنگین جرم اور کھلا گناہ ہے، ارشاد باری تعالى ہے:

وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

آل عمران – 161

اور جو شخص خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اسی خیانت کر دہ چیز سمیت حاضر ہو جائے گا۔

اورفرمان نبوی ﷺ ہے: ”تم میں سے جسے ہم کسی کام کی ذمہ داری سونپیں، پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا   اس سے بھی کوئی کم تر چیز چھپائے، تو وہ خیانت ہو گی، جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہو گا“۔ یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری، جنھیں گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں، کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ یارسول اللہ ﷺ! آپ نے مجھے جو کام سونپا تھا، اس سے مجھے مستعفی ہونے کی اجازت دے دیجیے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ تمھیں کیا ہو گیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے آپ کو ایسے فرماتے ہوئے جو سن لیا ہے! توآپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! میں اب اسے پھر کہتا ہوں کہ جسے ہم کسی کام کی ذمے داری سونپیں، وہ کم یا زیادہ سب کچھ لے کر آئے۔ جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے منع کر دیا جائے اس سے رک جائے“ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔

آپ ﷺ نے اور ایک موقع پر فرمایا: ”ہم جس کو کسی کام کی ذمہ داری سونپیں اور ہم اس کی کچھ روزی ( تنخواہ) مقرر کردیں پھر وہ اپنے مقررہ حصے سے جو زیادہ لے تو وہ (مال غنیمت میں) خیانت ہے۔ (سنن ابی داؤد – صحیح)۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی پیغام اور کوئی بیان اس سے زیادہ واضح ہو سکتا ہے؟

رسول اللہ ﷺنے اس سے ڈراتے ہوئے فرمایا: ”جب اللہ (روز قیامت) اگلوں اور پچھلوں کو جمع کرے گا تو ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈ ابلند کیا جائے گا، اور کہا جائے گا: یہ فلان بن فلاں کی عہد شکنی (کانشان) ہے۔“ (بخاری و مسلم)۔

پانچواں نقطہ : ہر ملازم پر فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں اللہ سے ڈرے، ان پر سختی نہ کرے، اور سماج کے مفادات کے حصول کے لیے حاکم کی طرف سے بنائے گئے نظام کے مطابق ان کے معاملات میں آسانی پیدا کرے۔ اللہ رب العالمین نے موسی علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ

الاعراف – 142

اور موسٰی نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری قوم میں میرے جانشین رہو اور اصلاح کرتے رہو اور مفسدوں کی راہ پر مت چلو۔

بغوی رحمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ  عنہما نے کہا: یعنی ان کے ساتھ نرمی اور احسان و بھلائی کا برتاؤ کرو۔ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یعنی بہترین تدبیر ، نرمی اور شفقت اور احوال کی خبر گیری کے ذریعے بنی اسرائیل کے امور کی اصلاح کرتے رہو۔

اور عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے اس گھر میں فرماتے ہوئے سنا: ”اے اللہ !جو شخص بھی میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی فرما اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ ان کے ساتھ نرمی کرے تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما“۔ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔

چھٹا نقطہ: اے عوامی منصوبوں میں کام کی باگ ڈور سنبھالنے والی کمپنیوں کے مالکان! تم سب اللہ تعالی کے سامنے جوابدہ ہو ہر اس کام اور منصوبے کے سلسلے میں جس کی ذمہ داری تم لیتے ہو اور عنقریب ایک دن آئے گا جب تم اپنی کو تاہی پر ندامت کے آنسو بہاؤ گے۔ چنانچہ جان لو کہ سخت ترین حرام کاموں میں سے یہ ہے کہ کسی عوامی منصوبے کو حاصل کرنے کے لیے جس کی فنڈنگ بیت المال سے کی جانی ہو ، اس کا ٹینڈر پاس کرتے وقت کمپنیوں کی طرف سے حد سے زیادہ قیمتیں پیش کی جائیں اور پھر مبالغہ آمیز قیمتوں میں مقابلہ آرائی ہونے لگے صرف اس وجہ سے کہ یہ پروجیکٹ عوامی مصلحت سے جڑا ہوا ہے۔

یہ کام مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے، بروز قیامت مسلمان اس کے حق دار ہوں گے، اور ایسے عمل کو شرعی نصوص حرام ٹھہراتی ہیں اورعام قوانین کے مقاصد کے بھی یہ خلاف ہے۔ اور اس سے بھی بدترین امر یہ ہے کہ پروجیکٹ اور منصوبوں کو دھو کہ دہی، جعلسازی اور اور جھوٹ کے ذریعہ انجام دیا جائے۔نبی اکرم ﷺکا ارشاد ہے: ”جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں“۔ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔

کمپنی والو! نبی اکرم ﷺ کا وہ فرمان یا د رکھو، جس میں آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلے انسان کے جسم میں اس کا پیٹ سڑتا ہے، پس جو کوئی طاقت رکھتا ہو کہ پاک و حلال کے سوا اور کچھ نہ کھائے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہئے“۔ ( بخاری نے اسے روایت کیا ہے)۔

 بڑے ظلم میں سے یہ بھی ہے کہ عوامی منصوبوں کے نفاذ میں تاخیر کی جائے اور مسلمانوں کے مفادات اور ان کے فائدے کی چیزوں کو ان کے حوالے کرنے میں ٹال مٹول کیا جائے۔ نبی اکرم ﷺکا ارشاد ہے: ”مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے“۔

آخری نقطہ: حاکم وقت نے جن نگراں اداروں کو یہ ذمہ داری سونپ رکھی ہے ، ان پر فرض ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں، اور ہر چھوٹے بڑے کام کی ہر ممکن نگرانی کریں، اور ہر ذمہ دار ادارے کا تمام پروجیکٹ میں انتہائی وقت کے ساتھ محاسبہ کریں اور اس میں تحقیق و تفتیش اور پوچھ تاچھ کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھیں جو حقائق سے پردہ اٹھانے، غلطیوں، کمیوں اور بد عنوانیوں کو ظاہر کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔

نبی اکرم ﷺ نے ابن کتیبہ نامی شخص کا محاسبہ کیا جب وہ زکاۃ وصول کرکے واپس آیا اور کہنے لگا: یہ (مال) تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ (تحفہ) دیا گیا ہے۔ یہ سن کر نبی اکرم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”اس عامل کا کیا حال ہو گا جسے ہم تحصیل کے لیے بھیجتے ہیں، پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے: یہ (مال) تمہارے لیے ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے ، وہ اپنے باپ، یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا اور وہ دیکھتا کہ آیا اسے ہدیہ (تحفہ) ملتا ہے یا نہیں“۔متفق علیہ۔

 اور بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺنے اس شخص کا محاسبہ بھی کیا۔ یہ نبی اکرم ﷺ کی سنت ہے اور ان کے بعد ہدایت یافتہ خلفا کی سنت ہے، تمھیں یہ نام نہاد ترقی یافتہ تہذیب و ثقافت کے اصول و مبادی میں کہاں سے مل سکتی ہے؟

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے اور اس میں موجود ذکروآیات سے نفع پہنچائے۔ یہ بات کہتے ہوئے میں اللہ تعالی سے اپنے لیے، آپ سب کے لیے اور بقیہ تمام مسلمانوں کے لیے ہر ایک گناہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ آپ بھی ان سے مغفرت طلب کریں، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

رجب کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ دیگر حرمت والے مہینوں کی طرح اس میں بھی اللہ رب العالمین کے نزدیک حرمت والی چیزوں کی تعظیم ، اوراللہ رب العالمین کی جانب سے مقرر کردہ حدود کی پاسداری نہایت ضروری ہے۔ ان حرمت والے مہینے کی اللہ کے نزدیک بڑی خصوصیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ

التوبة – 32

 ” بے شک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں ، جس دن سے اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کیے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی سیدھا دین ہے، سوان میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو“۔

جان لو کہ اس مہینے میں کوئی مخصوص عبادت ثابت نہیں ہے اور ہم پر سنت کی اتباع اور بدعت سے احتراز ضروری ہے ، ابن حجررحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ بعض روایتوں میں ہے کہ رجب مہینے میں بڑے بڑے حوادث وقوع پذیر ہوئے، لیکن ان میں سے کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے، اور صلاة رغائب کی فضیلت کے تعلق سے جو مرویات ہیں وہ سب جھوٹ اور باطل ہیں، صحیح نہیں ہیں ، اور جہاں تک رجب مہینے میں عمرہ کرنے کی بات ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کی نفی کی ہے کہ نبی  اکرم ﷺ نے رجب مہینہ میں عمرہ کیا ہے، اس لیے یہ بھی دیگر مہینوں کی طرح ہے، اور جہاں تک روزے کا تعلق ہے تو نبی اکرم ﷺ سے رجب کے مہینے میں روزے کی خصوصی فضیلت کے تعلق سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے اور نہ ہی آپ کے صحابہ کرام سے ، اور یہی بات حافظ ابن رجب، نووی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شاطبی  رحمہم اللہ وغیرہ بہت سارے علما نے کہی ہے۔

اسی طرح اس مہینے کی فتیح بدعات میں سے اسرا ومعراج کی رات کا جشن منانا ہے، کیونکہ اس رات کی تعیین کے سلسلے میں کوئی معتبر دلیل نہیں ہے، اور اگر اس رات کی تعیین ہو بھی جاتی تو اس رات جشن منانا اور اس میں کوئی مخصوص عبادت کرنے کی شریعت میں کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے جیسا کہ بہت سارے علما نے کہا ہے۔ لہذا رب کی قربت حاصل کرنے کے لیے ایسے اعمال انجام دو جو دلیل سے ثابت ہوں اور بدعات و محدثات سے اجتناب کرو، کیوں  کہ سنت پر عمل کرنے سے ہی دنیا و آخرت کی سعادت و کامرانی نصیب ہو سکتی ہے۔

اے اللہ !تو مسلمان مردو عورت، فوت شدہ وزندہ ہر کسی کو بخش دے۔

اے اللہ! تو مسلمان مریضوں کو شفا دے، ان کی مصبیتوں کو دور فرما، ان کے غموں کو زائل کر دے، اپنے فضل و کرم سے ان کی مددفرما۔

اے اللہ! تو تمام مسلم حکمرانوں کو ایسے کاموں کی توفیق دے جن میں ان کی رعایا کی مصلحت ہے۔

اے اللہ! تو ہماری مدد فرما، ہمیں سیراب کر، تیری ذات پاک ہے اور تمام عیوب سے پاک ہے جن سے کفار متصف کرتے ہیں، اور تمام انبیا پر سلامتی نازل ہو، اور تمام قسم کی حمد وستائش سارے جہانوں کے پالنہار کے لیے ہیں۔

خطبة الجمعة مسجد النبویﷺ : فضیلة الشیخ حسین آل الشیخ حفظه اللہ
27 جمادی الثانی 1444 ھ بمطابق 20 جنوری 2023

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ: آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔