تمام تعریفیں اللہ ربّ العالمین کے لیے ہیں، درود و سلام ہوں تمام انبیاء و مرسلین کے سردار، ہمارے نبی محمد ﷺ پر، آپ کی آل اور تمام صحابہ پر۔
اے میرے رب! میرا سینہ کھول دے، میرے کام کو آسان کر دے، اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔
امام نوویؒ کی “ریاض الصالحین” میں شامل “کتاب الادب” اسلامی اخلاق و آداب پر مشتمل اہم ابواب کا مجموعہ ہے۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں:
باب استحباب البشارة و التهنئة بالخير:
یعنی خیر و بھلائی کی خوشخبری اور مبارکباد دینے کے مستحب ہونے کا بیان۔
قرآن و حدیث میں خیر و بھلائی کی بشارت دینے کے بارے میں بہت سےنصوص وارد ہے۔
اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو بشارت دیتا ہے:
“وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ”
خوش ہو جاؤ اس جنت کے بارے میں جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔
اسی طرح فرمایا:
“فَبَشِّرْ عِبَادِ * الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ”
اے نبی ﷺ! میرے ان بندوں کو خوشخبری دے جولوگ میری بات کو سنتے ہیں اور اس کی اچھی بات پر عمل کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں فرمایا::
فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ
ہم نے انہیں ایک بردبار بیٹے کی خوشخبری دی۔
نبی کریم ﷺ بھی صحابہؓ کو خوشخبریاں دیا کرتے تھے۔
ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ستر ہزار لوگ بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جائیں گے۔
صحابہؓ نے پوچھا: وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: وہ لوگ جو کسی سے دم کروانے کا نہیں کہتے، بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے جسم کو داغتے نہیں ہیں۔
اس پر حضرت عکاشہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! دعا فرمائیے کہ میں ان میں شامل ہو جاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “أنت منهم” – تم ان میں سے ہو۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ نے آپ ﷺ سے پوچھا:
مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟
“آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟”
آپ ﷺ نے جواب دینے سے پہلے فرمایا:
’’مجھے معلوم تھا کہ سب سے پہلے تم ہی یہ سوال کرو گے‘‘۔
امام نوویؒ نے اس باب میں ایک طویل حدیث لائی ہے:
نبی ﷺ ایک کنویں (بئر اریس) کے کنارے پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے آپ کو دیکھا اور دروازے پر پہرہ دینے لگے۔ اتنے میں حضرت ابو بکرؓ آئے، اجازت چاہی، آپ ﷺ نے فرمایا: “انہیں اندر آنے دو اور جنت کی بشارت دے دو پھر حضرت عمرؓ آئے، ان کے لیے بھی یہی فرمایا۔ پھر حضرت عثمانؓ آئے، ان کے لیے بھی یہی بشارت دی۔
صحابہؓ بھی ایک دوسرے کو خوشخبریاں دیتے تھے۔
غزوۂ تبوک میں تین صحابہؓ پیچھے رہ گئے تھے، جب ان کی توبہ قبول ہونے کی وحی نازل ہوئی تو ایک صحابی گھوڑے پر دوڑ پڑے اور دوسرے نے پہاڑ پر چڑھ کر بلند آواز سے کہا:
“کعبؓ! اللہ نے تمہاری توبہ قبول کر لی ہے۔” کعبؓ کہتے ہیں
فَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ
اس کی آواز گھوڑے والے سے پہلے میرے کانوں تک پہنچی۔ میں اتنا خوش ہوا کہ میرے پاس جو دو کپڑے تھے وہ میں نے اس کو خوشی کے طور پردے دیے۔
شریعت نے خوشخبری دینے کی ترغیب کیوں دی؟
کیونکہ اس سے مسلمان بھائی کے دل میں خوشی پیدا ہوتی ہے اور کسی مسلمان کو خوش کرنا اللہ کے نزدیک بہت بڑا عمل ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا
أَحَبُّ الأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ سُرُورٌ تُدْخِلُهُ عَلَى مُسْلِمٍ
“اللہ کو سب سے محبوب عمل یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کے دل میں خوشی ڈالے۔”
غزوہ تبوک میں جب نبی کریم صلی اللہ کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔
جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کی توبہ قبول ہوگئی ہے تو طلحہ بن عبیداللہ کھڑے ہوئےاور ذرا تیز قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے کعب بن مالک کے پاس آئے اور ان گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کیا اور گلے ملے اور ان کو مبارکباد دی۔
پھر اس کے بعد کعب بن مالک بعد میں ذکر کرتے ہیں کہتے ہیں کہ
وَاللَّهِ مَا قَامَ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرُهُ
اللہ کی قسم !جتنے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے کوئی بھی شخص طلحہ بن عبیداللہ کے علاوہ اس طرح کھڑے ہوکر میرے پاس دوڑتا ہوا نہیں آیا اور اس طرح اس نے گرم جوشی کے ساتھ مجھ سے مصافحہ نہیں کیا اور اس طرح مجھے گلے نہیں لگایا۔
لَا أَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ
یہ جو عمل انہوں نے کیا ہے یہ میں کبھی بھی بھول نہیں سکتا۔
خیر و بھلائی کی بشارت کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جس بھائی کو یہ خیر کی بھلی بات جب انسان پہنچاتا ہے تو اس سےایوسی چھٹ جاتی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آل یاسر کے پاس سے گزر ہوا۔
آپ لوگوں کے علم میں ہے۔
کہ عمار اور ان کے والد اور والدہ یاسر اور سمیہ ان کو مشرکین مکہ تکلیفیں پہنچاتے رہتے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی چونکہ ابتدائے اسلام کا موقع تھا کچھ ان کے لیے زیادہ نہیں کرسکتے تھے ان کو تکلیفوں سے مشرکین مکہ کی بچا نہیں سکتے تھے۔
تو کہا کہ:
اصبِروا آلَ ياسِرٍ فَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْجَنَّةُ ۔
یاسر کے گھر والو آپ لوگ صبر کریں آپ انشاءاللہ جنت میں داخل ہوں گے
اسی طرح ایک عورت آئی کہنے لگی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مرگی کے دورے پڑتے ہیں میں بے لباس ہوجاتی ہوں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ وَلَكَ الْجَنَّةُ
اگر آپ چاہیں اس بیماری پر صبر کریں یہ اللہ کی طرف سے ہے اللہ آپ کو اس پر اجر دے گا اور جنت آپ کو ملے گی انشاءاللہ۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے لیے دعا کردوں اللہ رب العالمین آپ کو اس بیماری سے شفا یاب کردے گا آپ تندرست صحت مند ہوجائیں گی۔
تو انہوں نے کہا کہ نہیں میں جنت کو ترجیح دیتی ہوں یہ بیماری میرے ساتھ رہے۔ لیکن میں یہ چاہتی ہوں کہ جب مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے تو میں بے لباس ہوجاتی ہوں تو مجھے یہ دورہ پڑے تو میں بے لباس نہ ہو بس آپ میری یہ دعا کردیجیے۔
اس باب میں دوسری چیز ہے۔
کہ مبارکباد دینا۔
مبارکباد دینا شریعت نے کیوں اس کی تعلیم دی ہے؟
اس کی تعلیم اس لیے دی ہے کیونکہ اس میں جب کوئی مسلمان اپنے کسی دوسرے مسلمان بھائی کو مبارکباد دیتا ہے۔ کوئی اس کو نعمت حاصل ہوئی اور ہر شخص جا کے اس کو مبارکباد دے رہا ہے کہ آپ کو مبارک ہو۔ آپ امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ آپ کے ہاں اولاد ہوئی ہے۔ ہر شخص جب جا کے اس کو مبارکباد دیتا ہے تو اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ بہت بڑی نعمت ہے جو اللہ رب العالمین نے مجھے دی ہے۔ یہ کوئی چھوٹی موٹی نعمت نہیں ہے۔ یہ بہت سے دنیا کے بہت سے لوگوں کے پاس یہ نعمت موجود نہیں ہے۔ جب اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے تو پھر جو ہے وہ اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرنے والا بنتا ہے۔
ان دونوں چیزوں ہیں ایک خیر کی بھلائی کی بشارت دینا اور مبارکباد کہنا۔ ان دونوں امور سے ایک کومن فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے،
کہ شریعت نے ہمیں اس کی ترغیب اس لیے دلائی ہے کیونکہ اس سے مسلمانوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ اپس میں ایک دوسرے کے لیے دل میں جگہ پیدا ہوتی ہے اور شریعت یہ چاہتی ہے کہ ہم سب مل جل کر رہیں۔
اہل علم نے یہاں پر ایک سوال یہ بھی اٹھایا ہے:
کہ محدثین ان دونوں چیزوں کو دونوں امور کو ایک ساتھ کیوں جمع کرتے ہیں؟
خیر کی بھلائی کی بشارت دینا اور مبارکباد کہنا۔ کیوں جمع کرتے ہیں؟ اور اس کو ادب کے باب میں کیوں لے کر اتے ہیں؟
تو اہل علم نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ:
ان دونوں کی جو اصل ہے، ان دونوں کا مرجع ایک ہی نقطے کی طرف لوٹتا ہے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ1
تم میں سے جو شخص اللہ اور اخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ بھلی اور اچھی گفتگو کرے۔
تو خیر کی، بھلائی کی، اچھائی کی بشارت دینا یہ خیر کی بات میں داخل ہے۔ اور اسی طرح مبارکباد دینا یہ بھی خیر کی، بھلی اور اچھی بات میں داخل ہے۔ او لیصمت یا پھر وہ خاموشی اختیار کرے۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ رب العالمین ہمیں دین اسلام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
_________________________________________________________________
اچھی اور بری تقدیر سے کیا مراد ہے؟ کیا تقدیر محض بری ہوسکتی ہے؟ اس…
ابلیس نے سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیوں کیا؟ اللہ تعالیٰ…
"شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لیے کس درجے کی محنت کرتا ہے؟ شیطان کے…
وظائف کرنے کے باوجود پریشانیاں کیوں دور نہیں ہوتی؟ ایسی صورت میں مؤمن کو کیا…
حب الوطنی کے تعلق سے پائے جانے والے دو مشہور نظریات کیا ہیں؟ دونوں میں…
جہاد کی ترغیب دینے والی سورت کا آغاز اور اختتام کیسے کیا گیا ہے؟اس میں…