قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک اُصول بیان کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ
النحل – 97
جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔
عبادت کے حوالے سے اس اُصول میں اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں کسی بھی قسم کی تفریق نہیں کی۔ یہ وہ ضابطہ ہے، وہ معاملہ ہے جس میں عورت مرد کے شانہ بشانہ ہے، جس میں شریعت نے، دینِ اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان کسی بھی قسم کی تفریق نہیں کی ۔جبکہ دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک کا یہ مہینہ جس کے فضائیل اور اہمیت سے آپ لوگ اچھی طرح سے واقف ہیں، جس میں مسلمان روزے بھی رکھتا ہے ،قیام بھی کرتا ہے، تلاوت بھی ہوتی ہے،دعائیں بھی ہوتی ہیں، اذکار بھی ہوتے ہیں، صدقہ خیرات اور دیگر مختلف قسم کی عبادات اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ساری کی ساری عبادات عام طور پر مرد حضرات کے نصیب میں ہوتی ہیں چونکہ رمضان المبارک کے مہینہ میں کام کاج کے اوقات میں کمی کر دی جاتی ہے ۔
مرد حضرات اپنے باہر کے کام کاج کو مختصر سے وقت میں پورا کرکے گھر واپس آجاتے ہیں تو ان ساری عبادات کے لیے وقت ان کو مل جاتا ہے ،اس کے برعکس آپ اگر دوسری طرف دیکھیں تو رمضان المبارک کے مہینہ میں خواتین کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ دوپہر سے ہی افطاری اور کھانے وغیرہ میں مشغول ہوتی ہیں اور افطار کے بعدپھر دیگر صفائی کے معاملات کو دیکھنا اور پھر سحری کے انتظام کی طرف توجہ دینا۔ ان ساری مصروفیات میں عورت کو اپنے رب کی عبادت کرنے کا صحیح طرح سے موقع نہیں ملتا۔ ظاہر سی بات ہے روزےکی تھکاوٹ اور دیگر کام کاج کی مصروفیات کی وجہ سے قیام کا حق ادا نہیں ہو سکتا، تلاوت نہیں ہو سکتی، دعائیں نہیں ہو سکتی۔ لہذا مردحضرات جوکہ گھر کے بڑے ہیں خواتین کو اس ماہ میں وقت فراہم کریں جس میں وہ بھی فرصت سے بیٹھ کر اپنے رب کے ساتھ باتیں کر سکیں، اپنے رب کی عبادت کر سکیں، تلاوت کر سکیں، اپنے رب کو منا سکیں۔
جہاں یہ مہینہ معافی کا مہینہ ہے، مغفرت کا مہینہ ہے تو اس مغفرت کا جتنا محتاج مرد ہے اُتنی ہی اس کی ضرورت عورت کو بھی ہے ۔ لہذا ہمیں چاہے کہ خواتین کے لیے اس ماہ میں وقت کا خاص طور پر اہتمام کریں، گھریلو مصروفیات کو کم کیا جائے جس میں عورت اپنے رب کی عبادت کو صحیح طریقے سے سر انجام دے سکے ۔تھوڑے سے کھانے پر اکتفا کر لیا جائے تو وہ کھانا ان شاءاللہ پورے گھر کے لیے کافی ہوگا۔
لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے اور یہ ایک بہت بڑا المیہ بھی ہے کہ جن گھروں میں عورتوں کے لیے فراغت کے اوقات مُیسر ہیں، گھر میں خادم موجود ہیں تو وہاں پر دوسرا رخ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ وقت جوکہ ہونا چاہئے تھا رب کو راضی کرنے میں، وہ وقت بازاروں کی زینت بن جاتا ہے ،عید کی تیاری شاپنگ میں بازار آباد ہوتے ہیں ،مساجد میں گنتی کے نمازی ہوتے ہیں۔
یہ بھی ایک انتہائی الم ناک صورتِ حال ہے کہ اس بابرکت مہینے میں خاص طور پر رمضان المبارک کا آخری عشرہ ،جس میں لیلۃ القدر ہے۔ ان سب کی اہمیت کو بھلا کر بازار کو آباد کرنا اور مسجدوں کو ویران کردینا۔ بندہ اپنے رب سے غافل ہو جاتا ہے، اپنے رب کی مغفرت کو بھول جاتا ہے، اپنے رب کی رحمت کو بھلا دینا ،یہ ساری چیزیں انسان کی تباہی اور بربادی کے اسباب ہیں۔ لہذا خواتین کو چاہئے کہ اگر گھر کی مصروفیات میں سے وقت نکال سکیں، بازار کی طرف رخ نہ کریں اور اپنے رب کو راضی کرنے کی پوری پوری کوشش کریں۔ عورت کے لیے تو ویسے ہی اسلام نے جنت میں داخلے کے لیے مختصر سی باتیں بیان کی ہیں، بہت آسان سا طریقہ ہے جنت میں داخل ہونے کا ،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إذا صلَّت المرأةُ خمسَها وصامت شهرَها وحفِظت فرجَها وأطاعت زوجَها قيل لها ادخُلي الجنَّةَ من أيِّ أبوابِ الجنَّةِ شئتِ
مسند أحمد
عورت پانچ وقت کی نماز پڑھ لے رمضان کے روزے رکھ لے اپنی عزت کی حفاظت کرلے اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے آٹھوں کے آٹھوں دروازے اس عورت کے لیے کھول کے کہا جائے گا جس دروازے سے چاہئے وہ داخل ہو جائے۔
جنت کا راستہ اور داخلے کے اسباب عورت کے لیے بہت ہی آسان کر دیئے گئے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یا تو عورت کے لیے وقت نہیں ہے یا وقت ہے تو عورت اس وقت کو ضائع کر کے اپنے رب سے غافل ہے۔ الامن الرحمہ ربی
ہاں کچھ عورتیں ایسی بھی ہیں جو ان ساری چیزوں میں سے وقت نکال کر اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ آخر میں صرف ایک بات بتا کر اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں، صحیح بخاری کا ایک نسخہ دریافت ہوا جو کہ ہاتھ سے لکھا ہوا تھا۔پرانے دور کا یہ نسخہ تھا اور اس نسخہ کے لکھنے والی ایک عورت تھی۔ اس عورت نے اس نسخہ کو لکھا اور آخر میں یہ تحریر کیا کہ اگر میری لکھائی میں کو ئی بھی کمی یا کوتاہی ہو، پڑھنے میں آپ کو الفاظ سمجھ میں نہ آرہے ہوں تو آپ مجھے معاف کر دیجئے گا کیونکہ ایک ہاتھ سے میں صحیح بخاری کی ان احادیث کے اس نسخہ کو لکھ رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اپنے بچے کو وہ گود میں ہلا رہی ہوتی تھیں جس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ لکھائی میں کوئی فرق آ گیا ہو۔ یہ بھی وہ خواتین تھیں جو ان ساری مصروفیات کے باوجود بھی اپنے رب کی یاد سے غافل نہیں تھیں ۔اپنے رب کے دین کی خدمت میں پیش پیش تھیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہ مبارک میں مغفرت کی راہوں کو حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔