اہلِ تشیع صحیح بخاری شریف میں وارد ’’واقعہ قرطاس‘‘ کو بنیاد بنا کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر چند بے بنیاد الزام تراشتے ہیں – نعوذ باللہ من ذلک- ذیل کی سطور میں ہم نے ان کے مطاعن کو ذکر کر کے ان کا اجمالی اور تفصیلی جواب ذکر کرتے ہیں – وباللہ التوفیق
پہلا اعتراض:
کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے فرمان کو رد کیا جو بحکم آیت:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ
النجم – 3/4
سراسر وحی تھی اور وحی کو ٹھکرانا سراسر کفر ہے-
دوسرا اعتراض:
کہتے ہیں نبی کریم ﷺ سے متعلق عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا کہ آپ کو ہذیان اور اختلاطِ کلام کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے- حالانکہ انبیاء کرام ان امور سے مبرا ہیں-
تیسرا اعتراض:
کہتے ہیں نبی کریم ﷺ کے روبرو جھگڑا اور شور و شغب کیا حالانکہ آپ ﷺ کے پاس بلند آواز گناہ کبیرہ ہے- جیساکہ قرآن مجید کی سورہ حجرات میں ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ
الحجرات – 2
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آوازسے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو۔
چوتھا اعتراض:
کہتے ہیں امت کی حق تلفی کی اگر تحریر لکھ لی جاتی تو بعد میں امت گمراہی سے بچ جاتی، مگر اب وہی لوگ ہر وادی میں سراسیمہ اور پریشان ہیں- لہٰذا اس سارے اختلاف کا سارا وبال عمر رضی اللہ عنہ کی گردن پر ہے- وغیرہ وغیرہ
اجمالی جواب:
ان چاروں باتوں کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ یہ سارے کام اکیلے عمر رضی اللہ عنہ سے سرزرد نہیں ہوئے، موجودین حجرہ مبارک سب کےسب اس معاملے میں دو گروہ ہوگئے تھے جن میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے- اب اگر یہ دونوں حضرات منع کرنے والوں میں تھے تو گویا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق اور اُن کے شریک تھے ۔ ایسی صورت میں یہ دونوں بھی اُن مطاعن کا نشانہ بنیں گے اور اگر اجازت دینے والوں میں تھے تو پھر بھی بعض مطاعن سے نہیں بچتے ،ان کا الزام ان پر بھی آئے گا ۔ مثلاً ایسے نازک وقت میں نبی اکرم ﷺ کے روبرو اونچی آواز سے بولنا یا امت کی حق تلفی کا معاملہ کہ ساتھیوں کے منع کرنے سے رک گئے۔ نہ اس وقت لائے نہ بعد میں جبکہ موقع بھی تھا اور پوری فرصت بھی ملی تھی تو اس وقت قلم دوات لاکر لکھوادیتے ،اس وحی الٰہی کے رد میں ایک طرح سے یہ بھی شریک ہوگئے ۔ لہٰذا یہ طعن اکیلے عمر رضی اللہ عنہ پر نہیں لگتا دوسرے سب شرکاء بھی طعن میں شامل ہیں جن میں سے بعض باتفاق شیعہ و سنی مطعون نہیں ہوسکتے۔تو جب طعن مطعون اور غیر مطعون سب کو شامل ہو تو وہ غیر معتبر ہوجاتاہے۔ پھر جب وہ طعن ہی غیر معتبر ہوا تو اُس کے جواب کی ضرورت ہی کیا رہی اور اگر ذرا غور سے کام لیا جائے تو طعن کی وجہ اول بھی سب میں مشترک ہے اس لئے کہ نبی علیہ السلام کا خطاب مبارک ’’ایتونی بقرطاس‘‘ سارے ہی حاضرین سے تھا-
اور اگر آپ ﷺ کا یہ حکم وجوب و فرضیت کے لئے نہیں بلکہ ارشاد و ہدایت کےلئےتھا تو جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر موجودین اس کے ترک کی بنا پر مورد طعن نہیں کررہے اور نہ ہی کسی وجہ سے ان کو قابلِ ملامت کہا جاسکتا ہے کیونکہ محض صلاح و ارشاد پرمبنی احکام کی تعمیل بالاجماع قابلِ گرفت نہیں ہوتی-
اعتراضات کے تفصیلی جوابات
جواب اول:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے فرمان کو رد نہیں کیا بلکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو آرام و راحت پہنچانا چاہا، ان کویہ گوارہ نہ تھا کہ اس شدتِ مرض میں آپ ﷺ کو کسی قسم کی مشقت و رنج پہنچایا جائے-سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے فرمان کو رد نہیں کیا بلکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو آرام و راحت پہنچانا چاہا، ان کویہ گوارہ نہ تھا کہ اس شدتِ مرض میں آپ ﷺ کو کسی قسم کی مشقت و رنج پہنچایا جائے-
جس کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی چڑھی ہو وہ معاملے کا یہ دلآویز پہلو نہیں دیکھ سکتا- ہر محب اپنے محبوب کوہر عالم میں راحت اور آرام میں ہی دیکھنا چاہتا ہے-
اسی لئے تو امیرعمر رضی اللہ عنہ نے براہِ راست آپ ﷺ سے خطاب نہیں کیا بلکہ دوسرے احباب و رفقاء سے کہا کہ آپ ﷺ کو مزید مشقت و تکلیف میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے-
اور حسبنا کتاب اللہ کہہ کر تو آپ نے تکمیلِ دین والی آیت کی طرف بلیغ اشارہ کردیا تھا- اھلِ عقل کے نزدیک تو آپ کی یہ دقتِ نظری قابلِ تحسین و صد آفرین ہونی چاہیئے تھی نہ کہ موجبِ طعن، یہ آیت اس واقعہ سے تین ماہ بیشتر نازل ہوچکی تھی، اسی میں فرمایا گیا تھا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
المائدۃ – 3
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔
جنابِ فاروق رضی اللہ عنہ کا اشارہ اسی آیت کی طرف تھا۔ اب ظاہر ہے کہ نبی کریم ﷺ کوئی ایسی نئی چیز تو نہیں لکھنا یا لکھوانا چاہتے ہوں گے جو کتاب،شریعت میں نہ ہوتی، ہاں ممکن ہے کہ آپ ﷺ سابقہ احکام الٰہی پر کسی طرح کی تاکیدی تحریر ثبت کرنا چاہتے ہوں-
اگر امرِ پیغمبر ہر صورت میں وحی سماوی ہی باور کیا جائے اور اصحاب کی رائے ومشورہ اور ادائے محبت کے انداز کو انکارِ وحی الٰہی کہا جائے تو کیا فرمائیں گے حدیبیہ کے اس موقع پر کہ جب کفار مکہ کے اصرار پر نبی کریم ﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : محمد رسول اللہ کی جگہ محمد بن عبد اللہ ہی لکھ دو اور سابقہ عبارت کو مٹا دو تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم کے باوجود وہ لفظ نہیں کاٹا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر نعوذباللہ وحی الٰہی کے انکار یا رد کاحکم لگے گا؟ کلا
بس یہی تاویل و توجیہ ہے اور بالاتفاق ہے کہ انہوں نے یہ سب بوجہ محبتِ رسول ﷺ و بوجہ تعظیمِ رسول ﷺ کیا-
جہاں تک بات ہے ردِ وحی کی ہے تو سن لیجئے کہ شیعہ و سنی کے نزدیک مصلحت پیش کرنا ،مشقت سے بچنے کی صورت نکالنا اور حکم ِالٰہی بلاواسطہ کو جو قطعی طور پر وحی منزل من اللہ ہے خلاف اصرار اور بار بار اس میں ترمیم کی درخواست ردِ وحی شمار نہیں ہوتا-
چنانچہ شبِ معراج بسلسلہ نماز کی فرضیت ، نبی کریم ﷺ اور بارگاہِ الٰہی میں عرض گزار ہوئے کہ اس حکم کو میری امت برداشت نہ کرسکے گی، اس میں تخفیف فرما دیجئے-
اگر یہ امر ردِ وحی ہوتا توپیغمبرانِ عظام علیھما السلام سے اس کا صدور کیسے ممکن ہوتا؟
دوسرا جواب:
لفظ ھجرا کی نسبت امیر عمر رضی اللہ عنہ کی طرف صحیح نہیں ہے اور نہ ہی اس کا خود ساختہ معنیٰ ’ھذیان‘ وغیرہ اس جگہ پر قابلِ قبول ہے کیونکہ معاملہ امام الانبیاء محمد ﷺ کا ہے-
اکیلے عمر رضی اللہ عنہ اس جملے کے ادا کرنے والے قرار نہیں دئے جاسکتے کیونکہ بعض روایات میں قالوا ھجراً وارد ہوا ہے جو متقاضی ہے کہ اس کی نسبت تمام حاضرینِ مجلس کی طرف کی جائے۔
اور اھجر کا صحیح ترین معنیٰ یہی ہے کہ آپ ﷺ کے جدا ہونے کو صحابہ کرام نے بصیغہ استفہام بیان کیا ہے اور بس-1
تیسرا جواب:
یہ وجہ سراسر غلط ہے اور حق سے چشم پوشی پر مبنی ہے اس لئے کہ نبی علیہ السلام کی آواز پر اپنی آواز بلند کرنا بے شک ممنوع اور ناجائز ہے، مگر اس قصے میں تو کہیں سے یہ حرکت سرزد نہیں ہوئی نہ سیدنا عمر رضی اللہ سے اور نہ ہی کسی اور سے-
غور سے کام لیں تو بات واضح ہی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے یاآپ ﷺ کی گفتو مبارکہ کے درمیان بلند آواز منع ہے نہ کہ آپس میں گفتگو کرتے ہوئے اور ایسا تو ہوہی جاتا ہےکہ جب چند اشخاص باہم گفت و شنید کریں تو آواز تو بلند ہو ہی جاتی ہے نادانستہ طورپر ہی صحیح-
لہٰذا وہاں رفع صوت وہ نہیں تھا کہ جسے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ
الحجرات – 2
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آوازسے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو۔
سے تعبیر کرکے تنقید و طعن کیا جائے۔ نیز نبی کریم ﷺ نے بھی فقط سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ’قم عنی‘ نہیں فرمایا تھا بلکہ ’قوموا عنی‘ فرما کر تمام حاضرین کو اٹھ جانے کا حکم فرمایا تھا-
اب نہ جانے وہ کونسی دوربین و خوردبین ہے جو ’قم یا عمر‘ بغیر کہے بھی لکھا ہوادکھاتی ہے اور ’قوموا عنی‘ کے بمصداق قم یا عباس اور قم یا علی کو شامل ظاہر لکھا ہونے کے باوجود نہیں دکھاتی؟
چوتھا جواب:
معترضین کی وجہ چہارم بھی خیالِ باطل پر مبنی ہے کہ جی حق تلفی ہوئے ہے۔ کیونکہ یہ تو اس وقت ہوتا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نئی بات آئی ہوتی اور اس کوباوجود منفعت کے لکھنے لکھوانے سے روک دیا جاتا۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ
المائدۃ – 3
کی بنیاد پر معلوم تھا کہ اب کوئی دین و شرع کی نئی بات نہیں ہوگی-
اس اعتراض کے باطل اور لغو ہونے کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اگر نبی کریم ﷺ اس تحریر کے لکھنے یا لکھوانے پر منجانب اللہ حتمی طور پر مامور ہوتے اور پھر بعدازاں 4 دن کا وقت ملنے کے باوجود آپ ﷺ نے اس طرف توجہ نہ فرمائی تو کیا نعوذ باللہ اس وجہ سے فریضہ تبلیغ کی ادائیگی میں تساہل کا الزام نہیں آتا؟ وہ کون بدبخت ہوگا جو ایسا خیال بھی دل میں لائے جبکہ وہ یہ آیت بھی تلاوت کرتا ہے کہ:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ
المائدۃ – 67
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی-
پھر یہ بھی غور کیا جائے کہ بعض روایات میں وہ بات آگئی ہے جو لکھوانا مقصود تھا مثلاً مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو، قاصدوں کو انعام و اکرام جاری رکھنا اور تیسری بات تو جیشِ اسامہ کی روانگی یا اوصیٰ بالقرآن کے زمرے میں آتی ہے-
اگر کوئی یہ کہے کہ ’لن تضلوا بعدی‘ سے معلوم ہوتا ہے وہ ایک ایسا امر لازم تھا کہ جس سے امت کی ہدایت بندھی ہوئی تھی؟ تو جواب یہ ہے کہ فقط ترجمہ الفاظ میں ہیرا پھیری سے ایسا سمجھا جارہا ہے وگرنہ تو اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ تم میرے لکھوادینے کے بعد بھولوگے نہیں-
اور یہ اس لئے کہ لفظ ’ضل یضل‘ ’نسی ینسی‘ کے معنی میں بھی آتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا:
فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ
البقرۃ – 282
تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گوہوں میں سے پسند کر لو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے-
حاصل کلام یہ کہ کسی بھی صورت میں اس تحریر سے روک دینے میں امت کی حق تلفی نہیں ہوتی-2
- (تفصیل کے لئے تحفہ اثنا عشریہ، تفھیم الاسلام اور تحفہ المسلم شرح صحیح مسلم وغیرہ دیکھئے)
- (ملخصاً من التحفہ الاثنا عشریہ )