خطبہ اول:

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، جو اپنی باریک تدبیر سے معاملات میں تصرف کرنے والا ہے۔ میں اس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں، تھوڑی ہو یا زیادہ نعمت، ہر ایک نعمت پر حمد اس کا حق ہے۔

 اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی بہترین صورت آرائی کی، اسے ڈرا کر اور متنبی کر کے دل کو پاک کرنے پر ابھارا۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول، اس کے چنیدہ اور خلیل ہیں، اور اس کی طرف سے خوشخبری دینے اور ڈرانے والے ہیں۔ اے اللہ درود و سلام نازل فرما اپنے بندہ رسول محمد پر، ان کے آل و اصحاب پر، جنہوں نے ان کے طریقے کی پیروی کی، ان کی سنت کو اپنایا اور ان کے بعد ان کے راستے پر چلے۔

اما بعد:

 اللہ کے بندو!  اللہ کا کما حقہ تقوی اختیار کرو، اس کی طاعت اور پسندیدہ کاموں کے حریص بنو، اور یاد رکھو کہ اس نے تمہیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، اس لیے اس کے لیے عبادت کو خالص کرو اور عمل کو بہتر بناؤ۔ نیک بخت وہ ہے جس نے اللہ کے لیے عبادت کو خالص کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کی، یہاں تک کہ اس کے پاس اللہ کی طرف سے موت کا حکم آ گیا۔

مسلمانو! نفسوں کو پاک اور درست کرنا اور دلوں کی اصلاح کرنا اور انہیں صاف ستھرا بنانا ایسا مقصد ہے جس کے لیے تمام ثقافتوں اور تہذیبوں میں عقلمند پرانے زمانے سے تگ و دو کرتے آ رہے ہیں۔ چنانچہ اسے پورا کرنے کے لیے مختلف راستوں پر چلے اور خود کے لیے طرح طرح کے طریقے اور اسلوب اپنائے اور انہوں نے گمان کیا کہ اگر انہوں نے خود کو ان کا پابند بنایا تو خوشگوار زندگی اور سعادت بھری پرلطف زندگانی سے سرفراز ہونے کی آرزوؤں اور امیدوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ جس سچی سعادت سے دنیا خوشگوار ہوتی ہے، دلوں کو سکون ملتا ہے، اور نفس پاک و بلند ہوتے ہیں، وہ ایسی سعادت ہے جس کی حقیقت کو کتاب حکیم اور سنت شریفہ نے واضح اور دقیق ترین اور مقصود کو بیان کرنے والی جامع ترین عبارت سے واضح کر دیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسولوں کو بھیجا اور اپنی کتابیں نازل کیں تاکہ لوگوں کو اپنے نفسوں کو پاک کرنے اور اپنے دلوں کی اصلاح کرنے کی طرف رہنمائی کرے اور تاکہ لوگوں کو یہ بتائے کہ یہ معاملہ تب ہی پورا ہوگا جب وہ بندگی کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اپنے اوپر اللہ کے حق کو ادا کریں۔ کیونکہ یہی ان کی تخلیق کا مقصد ہے۔

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ1

میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔

 نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں نہ یہ میری چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں، توانائی والا اور زور آور ہے۔”

اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں اس تزکیہ کے طریقے کا بیان آیا ہوا ہے جس کے ساتھ اللہ نے انسان کی کامیابی کو وابستہ کیا ہے اور جس کے منافی چیز کے ساتھ نامرادی اور ناکامی کو جوڑا ہے، جس میں نفس کو گناہوں سے آلودہ، ناپاک اور بگاڑا جاتا ہے۔

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَأفَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَأقَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَأوَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا2

 “قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی، پھر سمجھ دی اسکو بدکاری سے اور بچ کر چلنے کی، جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا، اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہے

اللہ تعالیٰ نے اور فرمایا

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى ، وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى3

ٰ بیشک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا، اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا

 اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جب موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ، فَقُلْ هَل لَّكَ إِلَىٰ أَن تَزَكَّىٰ،وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَىٰ4

 “یہ کہ تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کرلی ہے، اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے،اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھاؤں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے۔”

یہ مبارک کتاب جسے اللہ نے ایسی روح قرار دیا ہے جس سے دل زندہ رہتے ہیں اور جسے ایسا نور بنایا ہے جس سے راستوں کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں۔ “اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں، بے شک آپ راہ راست کی رہنمائی کر رہے ہیں۔”

یہ کتاب اعلان کرتی ہے کہ اسلام میں تزکیہ کی بنیاد اور اس کا ستون اور محور اللہ تعالیٰ کی توحید ہے۔ توحید کی حقیقت جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ بندہ اس بات کی گواہی دے کہ رب تعالیٰ ہی تخلیق و فیصلے میں منفرد ہے، اس نے جو چاہا وہ ہوا اور جو نہیں چاہا وہ نہیں ہوا، اس کی اجازت کے بغیر کوئی ذرہ ہل نہیں سکتا، مخلوقات اس کے قبضے میں ہیں اور پست و مغلوب ہیں، اور ہر دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے بیچ ہے، اگر اسے درست کرنا چاہے تو درست کرتا ہے، اگر اسے ٹیڑھا کرنا چاہے تو ٹیڑھا کر دیتا ہے۔ دل اس کے ہاتھ میں ہے، وہ جیسے چاہے انہیں الٹتا پلٹتا اور پھیرتا رہتا ہے۔ اور اس بات کی گواہی دے کہ اسی نے مومنوں کے نفسوں کو تقوی عطا کیا، اسی نے انہیں ہدایت دی اور پاک کیا اور فاجروں کے نفسوں کو فسق و فجور سے بھر دیا اور انہیں بدبخت بنایا۔

اللہ جسے ہدایت دے وہ ہدایت پانے والا ہے اور جسے گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل و رحمت سے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے عدل و حکمت سے اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ یہ اس کا فضل و عطا ہے اور کرم والے کا فضل منقطع نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ اس کا عدل و فیصلہ ہے۔

وہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ5

 “وہ اپنے کاموں کے لیے کسی کے آگے جواب دہ نہیں اور سب اس کے آگے جواب دہ ہیں۔”

اللہ کے بندو! توحید کا اثر تزکیہ پر بلکہ مسلمان کی زندگی پر ہدف و مقصد کے اتحاد اور علم و عمل کی یگانگت میں واضح نظر آتا ہے، یہاں تک کہ مسلمان کا فہم و عقیدہ، علم و عمل اور ارادہ اور اس کے دل کے رجحانات اور سرگرمیاں ہم آہنگ اور ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں، ان میں کوئی تعارض ہوتا ہے نہ ارتضاد، اور انسان کے کندھے سے وہ پریشان کن تنگی دور ہو جاتی ہے جس کا احساس اسے اس وقت ہوتا ہے جب اس کے نفس میں مقاصد باہم ٹکراتے ہیں اور اعمال متضاد ہوتے ہیں۔

جو چیزیں نفسوں کو پاک کرتی ہیں ان میں سے یہ ہے کہ نفسوں میں ایمان کی ہمیشہ تجدید ہو کیونکہ ایمان ویسے ہی پرانا ہوتا ہے جیسے کپڑے پرانے ہوتے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتے: “آؤ کچھ دیر ایمان تازہ کرتے ہیں”۔ سو بیٹھتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے۔

 اللہ تعالیٰ کا ذکر، اس کی کتاب کی تلاوت، اللہ کی اطاعت اور قربت وہ عظیم ترین سبب ہے جس سے اس مومن کے نفس میں ایمان کی تجدید ہوتی ہے، جو یہ جانتا ہے کہ ایمان ا طاعت سے بڑھتا ہے اور معصیت سے گھٹتا ہے۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچی التجا کے ذریعے ایمان کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتا ہے جس کا واضح ترین مبارک ثمرہ نفسوں کا تزکیہ ہے

 جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں آیا ہے:

 اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا، أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا6

اے اللہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما، اور اسے پاکیزہ کر دے، تو ہی سب سے بہتر اسے پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کا کارساز اور مددگار ہے۔

اسی طرح جن چیزوں سے نفس پاک ہوتا ہے اور دل درست ہوتا ہے، ان میں سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو ہمیشہ یاد کرنا ہے، جن سے اللہ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے، ان کا شمار کرنا انسانوں کی طاقت سے باہر ہے

 جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ7

 “اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم انہیں شمار نہیں کر سکتے، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

 ان نعمتوں کو یاد کرنے سے یاد کرنے والے کو اللہ سے کمال تعلق حاصل ہوتا ہے، اللہ کے لیے پوری توجہ، فروتنی اور عاجزی پیدا ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو زندگی، صحت، مال اور اولاد، جاہ و مرتبہ وغیرہ عطا کیا ہے، یہ سب اس کی طرف سے احسان و فضل اور انعام ہے، اللہ تعالیٰ نے جیسے چاہا اور جب چاہا عطا کیا اور اگر وہ چاہے تو اس سے جب چاہے چھین لے، وہ تمام بادشاہت کا مالک ہے، اس کے ہاتھ میں خیر ہے، جسے چاہے عنایت کرتا ہے اور جس سے چاہے پھیر لیتا ہے۔ اس بات کو پہچاننا اور اسے ہمیشہ یاد رکھنا اس بات کا محرک ہے کہ بندہ اپنی بے بسی و کمزوری اور اپنے تمام معاملات میں اپنے رب کی طرف اپنی ضرورت و محتاجگی کو جانے۔ تاہم ضروری ہے کہ نعمتوں کو یاد کرنے کے ساتھ وہ عمل بھی ہو جس سے اللہ راضی ہو، جسے وہ پسند کرے اور جس پر وہ قیامت کے دن ثواب سے نوازے۔

اس کی حقیقت اللہ کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی روشنی میں بھلائیوں کو انجام دینا اور برائیوں کو چھوڑنا ہے۔ ساتھ ہی ان فرائض پر خاص توجہ دینا جنہیں اللہ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے کیونکہ فرائض ان اعمال میں سب سے زیادہ محبوب ہیں جن سے بندہ اپنے رب کا تقرب حاصل کرتا ہے

جیسا کہ حدیث میں آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ8

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسندہیںجیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میںاس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتاہے۔

اور جو چیز نفس کو پاک کرتی ہے وہ دل کے اعمال ہیں، کیونکہ دل تمام اعضاء کا بادشاہ ہے، اعضاء کی درستگی اسی کی درستگی سے ہے اور ان کا بگاڑ اس کے بگاڑ سے ہے

 جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ9

یاد رکھو جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، جان رکھو وہ دل ہے۔

دل کے اعمال میں سب سے اہم اور سب سے عظیم عمل یہ ہے کہ بندہ کس نیت اور کس مقصد سے عمل کر رہا ہے۔

 چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»10

 “اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی ہے، پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کے کسی فائدے کے لیے ہو جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے یا کسی عورت کے لیے ہو جس سے وہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے۔

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اللہ کی رضا کی طلب میں اس کے برگزیدہ بندوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے رب کی کتاب اور اپنے نﷺکی سنت کو نفس کی پاکیزگی اور دلوں کی اصلاح کے لیے بہترین راستہ بناؤ۔

 فرمان الہی ہے:

 أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ

یہی لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقلوں والے ہیں۔(سورۃ الزمر:۱۸)

اللہ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کی ہدایت اور اپنے نبی ﷺکی سنت سے فائدہ پہنچائے، میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور اللہ عظیم و جلیل سے اپنے لیے، آپ سب کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ سے بخشش طلب کرتا ہوں، وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

خطبہ ثانی:

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو کارساز اور لائق حمد ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے، میں اس کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

 آپ اعلی کردار اور سیدھے راستے والے ہیں۔ اے اللہ اپنے بندے اور رسول محمد پر، ان کے آل و اصحاب پر روز قیامت تک درود و سلام نازل فرما۔

اما بعد:

اللہ کے بندو!  بے شک توبہ نفس کی پاکیزگی اور دل کی اصلاح کے عظیم ترین اسباب میں سے ہے کیونکہ توبہ کی عبادت جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: اللہ کے نزدیک سب سے محبوب اور سب سے معزز بندگی ہے، بلا شبہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور اگر توبہ اس کے نزدیک محبوب نہ ہوتی تو وہ اپنی سب سے مکرم مخلوق یعنی انسان کو گناہ میں مبتلا نہ کرتا، لیکن چونکہ اللہ اپنے بندے کی توبہ پسند کرتا ہے اس لیے اسے گناہ میں مبتلا کرتا ہے تاکہ اس کی محبوب شے یعنی توبہ واقع ہو اور بندے سے اس کی محبت دوچند ہو جائے۔

 اللہ تعالیٰ کے نزدیک توبہ کو وہ مقام حاصل ہے جو کسی اور طاعت کو حاصل نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر جب وہ اس سے توبہ کرتا ہے، سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا کہ ایک آدمی اپنی سواری کے مل جانے پر کس قدر خوش ہوتا ہے، جس پر اس کے کھانے پینے کی چیز ہوتی ہے، جبکہ وہ کسی ویران اور ہلاک کرنے والی زمین میں ہو، اسے کھو بیٹھے اور زندگی کے اسباب سے مایوس ہو جائے۔ چنانچہ سوائے توبہ کے اس قدر خوشی کسی بھی عبادت پر وارد نہیں ہوئی ہے، اور حقیقت توبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح رجوع کیا جائے کہ اس کے محبوب عمل کو انجام دیا جائے اور اس کے ناپسندیدہ امور کو ترک کر دیا جائے، چنانچہ ناپسندیدہ چیز سے پسندیدہ چیز کی طرف لوٹنا ہے، پسندیدہ چیز کی طرف رجوع ہونا توبہ کے نام کا ایک حصہ ہے اور ناپسندیدہ چیز سے رجوع اس کا دوسرا حصہ ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مطلق کامیابی کو اسی پر منحصر کیا ہے کہ بندہ حکم بجا لائے اور منہیات سے باز آ جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “اے ایمان والو، سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔” چنانچہ ہر توبہ کرنے والا کامیاب ہے اور کامیاب وہی ہوگا جو احکام بجا لائے اور منہیات سے باز آ جائے۔

اللہ کے بندو!اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اللہ کی رضا کی تلاش اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے لوگو، اللہ سے توبہ کرو کیونکہ میں خود دن میں سو مرتبہ اس سے توبہ کرتا ہوں۔”

اور ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خاتم الانبیاء، امام الاتقیاء اور رحمت اللعالمین پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔

 ارشاد ربانی ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا11

 “اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو، تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ :درود و سلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد پر۔ اے اللہ تو راضی ہو جا چاروں خلفاء راشدین ابوبکر، عمر، عثمان و علی سے، تمام آل و اصحاب اور تابعین سے اور آپ کی بیویوں امہات المومنین سے اور ان سے جو قیامت تک اچھی طرح ان کی پیروی کریں اور ان لوگوں کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، اپنے عفو و کرم، جود و احسان سے۔

خطبہ جمعہ مسجد الحرام

تاریخ 11 ربیع الثانی 1447 ہجری بمطابق 3 اکتوبر 2025 عیسوی

خطیب فضیلۃ الشیخ اسامہ خیاط حفظہ اللہ۔

____________________________________________________________________________________

  1. (سورۃ الذاریات:56)
  2. (سورۃ الشمس:7  تا 10)
  3. (سورۃ الاعلی:14تا 15 )
  4. (سورۃالنازعات:17 تا 19)
  5. (سورۃ الأنبیاء:23)
  6. (سنن نسائی:5460)
  7. (سورۃ النحل:18)
  8. (صحیح بخاری:6502)
  9. (صحیح بخاری:52)
  10. (صحیح بخاری:01)
  11. (سورۃ الاحزاب:56)
فضیلۃ الشیخ اسامہ خیاط حفظہ اللہ

Recent Posts

کیا اسلام سزاؤں کا دین ہے؟

کیا اسلام کا مقصد لوگوں کو سزائیں دینا ہے؟ اسلام کے تفتیشی نظام میں سخت…

3 days ago

کیا حدیث قرآن اور عقل کے خلاف ہو سکتی ہے؟

حدیث کو قبول کرنے کے لیے عقل کو معیار بنانا عقلمندی ہے یا بےوقوفی؟ غامدی…

5 days ago

توبہ و استغفار کی فضیلت اور ضرورت

خطبہ اول: ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے، وہ گناہ بخشنے والا، توبہ…

6 days ago

“کرپٹو کرنسی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟”

کرپٹو کرنسی کے حوالے سے علما کی اکثریت کا موقف کیا ہے؟ کرپٹو کرنسی کو…

6 days ago

اللہ تعالیٰ کی رحمت کتنی وسیع ہے؟

جو شخص گناہ کا ارادہ کرتا ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرشتے کو…

1 week ago

مصیبتوں پر صبر اور استقامت

زندگی میں آزمائشیں ایمان کا حصہ ہیں۔ جو بندہ صبر اور استقامت سے کام لیتا…

1 week ago