اسلام ، پردہ اور لبرل مافیا۔!

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو سراپا خیر ہی خیر ہے۔ اس لیے اسلام نے ان تمام امور کو جائز اور مباح قرار دیا جو خیر کا باعث ہیں۔ اور ہر اس کام کی حوصلہ شکنی کی جو موجب تکلیف ہیں۔یہ وطن عزیزاسلام کے نام پر بنا اور انھیں خیر کے کاموں اور اسلامی شعائر کا دفاع اس کا اولین مقصد تھا۔ لیکن یہاں ہر نئی طلوع ہونے والی صبح ایک نئے غم سے ہمکنار کر دیتی ہے کیونکہ ہم اس میں ریاست میں جی رہے ہیں جہاں اسلام پر طعن و تشنیع ، اہل علم کا مذاق اڑانا، اسلامی شعائرکا استھزا کرنا،حدود اللہ پر آوازے کسنا،اسلام  کو قدامت پرستی کی بنیاد ٹھہرا کر تخریب کاری کا لیبل لگانا اور احکام الٰہی کو اپنی من پسند ترقی اور مغربی افکار کے فروغ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے تضحیک کا نشانہ بنانا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔ حالانکہ اس ریاست کے قیام کی بنیادی وجہ اسلام کےزریں اصولوں کا فروغ تھااس کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں ،اسلام کی توقیر پر گھر بار لٹے،عزتیں قربان ہوئیں لیکن اس ریاست میں ایک طبقہ ہمیشہ یہاں اسلام کا مخالف رہا۔ سو یہاں لبرل ازم کے نعرے بلند ہوتے رہے اسلامی قوانین کی دھجیاں بکھرتی رہیں ،لبرل مفکرین اور آنٹیوں کی خدمات کے باوجود اسلام کو رسوا کرنے کے  لیے لبرلز کو اشتہاری مہم کے سہارے بھی لینے پڑے۔

دل خون کے آنسو روتا ہے اس حالت زار پر کہ کہ پہلے تو چیزیں بیچنے کے لئے عورت کو سر بازار لایا گیا، ہر پراڈکٹ کی فروخت کے لیے عورت کو رسوا کیا گیا۔ کیا ہماری لبرل مافیا کے لیے اتنی خدمات کافی نہیں تھیں جو مزید آگے بڑھ کر اپنی رسوائیوں کے داغ کو دھونے کی بجائے انھوں نے ماضی میں پردہ جیسے حکم الٰہی اور عورت کے تحفظ کے مضبوط حصارکوداغ کہہ کر گرانے کی کوشش کی۔اور ہر موڑ پر ان کی کوششیں جاری و ساری ہیں۔

پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر اس کے خلاف مہم چلانے والو سن لو!!! آسمان کارب اس سب کے  ٹھیکے داروں کو کیا وعید سنا رہا ہے جو بے پردگی کو فروغ دے کر مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانا چاہتے ہیں ۔رب  العزت کا فرمان ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

النور – 19

 جو اہل ایمان میں بے حیائی کو فروغ دینا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا وآخرت میں  درد ناک عذاب ہے۔

ان سب کے پیچھے ایک ہی مہم ہے جس کا مقصد اسلام کے مقدس اور پاکیزہ معاشرے کو پامال کر کے مادر پدر آزاد معاشرہ قائم کرنا ہے۔ لیکن لبرل ازم کے خواب دیکھنے والے آگاہ رہیں کہ جب تک اس ملک میں محمد عربی ﷺ کےغلام موجود ہیں، ان کے ناپاک ارادوں کو یہاں پنپنے نہیں دیا جائے گا۔ (ان شاءاللہ)

ایک مرتبہ ایک مسلمان ہونے والی ہندو صحافی عورت کا انٹرویو پڑھنے کا موقع ملا جو کملا داس سے اب ثریا بن چکی ہیں۔ کہتی ہیں:” پردہ عورت کے لیے بلٹ پروف جیکٹ ہے”۔  در حقیقت اس دفاعی  جیکٹ سے خار ان لوگوں کو ہے جواپنی معاشرتی محرومیوں کا بدلہ ہم سے لیناچاہتے ہیں اس مقصد کی تکمیل کے لیے ان کے زرخریدغلام دن رات کوشاں ہیں۔حالانکہ رب العزت کا دوٹوک اعلان ہے:

یا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

الاحزاب – 59

اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہے۔

اس آیت کریمہ کو مفسرین نے ” آیت حجاب“ سے موسوم کیا ہے اور اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے:

اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ:

يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ

الاحزاب – 59

وہ اپنی چادریں اوڑھ کر گھونگٹ نکال لیا کریں۔

(جِلبْاَب) وہ کپڑا ہے جو عام لباس کے اوپراوڑھ لیا جاتا ہےمثلاً دوپٹا، اوڑھنی اور چادر ، یعنی چادر وغیرہ سے اپنے چہروں اورسینوں کوڈھانپ لیا کریں، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا :

ذٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ

الاحزاب – 59

یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔

آیت کریمہ کا یہ جملہ عدم حجاب کی صورت میں وجوداذیت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اگر وہ پردہ نہیں کریں گی تو بسا اوقات ان کے بارے میں کوئی شخص اس وہم میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ یہ پاک باز عورتیں نہیں ہیں اور کوئی بدکردار شخص، جس کے دل میں مرض ہے، آگے بڑھ کر تعرض کر کے ان کو تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ ان کی اہانت بھی ہوسکتی ہے۔ شرارت پسند شخص ان کو لونڈیاں سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ برا سلوک کرسکتا ہے، اس لئے حجاب بدطینت لوگوں کی لالچ بھری نظروں سے بچاتا ہے۔

درحقیقت تمام معاشرتی برائیوں کا آغاز بے پردگی سے ہوتا ہے۔ پردہ ہی وہ حفاظتی حصار ہے جس کی وجہ سے شرم و حیا کے سوتے پھوٹتے ہیں اور خوب صورت با حیا معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اور یہی خوب صورت معاشرہ اہل مغرب کی آنکھ میں کھٹکتا ہے کیونکہ مغربی معاشرے کے خاندانی نظام کی تباہی کا بڑا سبب آزادی کے نام پر عورت کو چادر اور چار دیواری سے نکال کر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا ہے۔ اور اب اس ناسور نے ان کے خاندانی نظام کومکمل تباہ کر دیا ہے۔ہمارے لبرلز ان سے عبرت پکڑنے کی بجائے آئے روز اس کی حمایت میں احکامِ الٰہی کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔

 پرویز ہود بھائی جیسے “جرأت مند” ایسی عورتوں کو ایب نارمل قرار دیتے ہیں، جو پردہ کرتی ہیں اور چادروچار دیواری کے تقدس کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ شکوہ ان جیسے لوگوں سے نہیں یہ اصل طمانچہ تو ان لبرلز کے منہ پر ہے جو حقوقِ نسواں کے دعووں کی پاس داری کرتے نہیں تھکتے ۔ اب ایسے مفکرین کو لگام دینے کے لیے ان کی زبانیں کیوں گنگ ہو جاتی ہیں۔ان کی خاموشی اس بات کی آئینہ دار ہے کہ اصل مسئلہ عورت کے حقوق کا نہیں اسلامی شعائر کا ہے۔  اس تحریر کی وساطت سے میری درخواست اپنی قوم سے اور خصوصا خواتین سے ہے کہ آئیں جہاں ان کے اشتہار ،بلاگز، وی لاگز اور احتجاج  کام کر رہے ہیں وہاں ہم خود اپنے عمل کے ذریعے اسلام کی تشہیر کا فریضہ سر انجام دیں ہم اس حکم الٰہی کو اپنے اوپر نافذ کرلیں تاکہ اس کو داغ اور قدامت پرستی کہنے والے دیکھیں کہ انھیں اپنی رسوائیوں کے داغ کو کیسے دھونا ہے؟؟۔

باقی رہا معاملہ ان لوگوں کا جو چندٹکوں کے عوض اہل مغرب کی حمایت میں اسلامی نظام کو فرسودہ  کہتے ہیں تو ان کا فیصلہ خود وہ  ذات کرے گی جو علی کل شئ قدیر ہے۔

وما توفیقی الا باللہ۔

بنتِ بشیر: