احکام و مسائل

قربانی کے احکام و مسائل قرآن و حدیث کی روشنی میں

عید الاضحی کی آمد قریب ہے ، ذو الحجہ کی دس تاریخ ہمیں اُس عظیم قربانی کی یاد دلاتی ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی صورت میں دی ، مگر بحکمِ الہی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ مینڈھے کو قربان کر دیا گیا ۔اس واقعے کی تفصیلات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ الصافات کے اندر بیان فرمائی ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے۔

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ  

(سورۃ الصافات:102 )

پھر جب وہ بیٹا ان کے ہمراہ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک دن) ابراہیم نے کہا : بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا : ابا جان! وہی کچھ کیجئے جو آپ کو حکم ہوا ہے آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔

قربانی کا معنی

قربانی فارسی زبان کا لفظ اور اسم مؤنث ہے جس کے معنی ہیں :

1۔ ذبح ِحلال یعنی وہ جانور جو خدا کی راہ میں ذبح کیا جائے ۔

2۔ عید الاضحی کوبکرے ، دنبے اور دیگر قربانی کے جانور ذبح کرنا1

عربی لغت میں قربان کا معنی اس طرح بیان ہوا ہے :

اَلْقُرْبَانُ: إِسْمٌ لِما یُتَقَرَّبُ بِهِ إِلَی اللهِ تَعَالَی مِنْ ذَبِیْحَةٍ أَوْ صَدَقَةٍ  )

(التفسیر الکبیرللرازی،  : 11/ 205

’’یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے ، چاہے کوئی جانور ذبح کیا جائے یا کوئی صدقہ دیا جائے۔‘‘

یہاں قربانی کا معنی یہ ہے کہ عید اور ایام تشریق میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی وخوشنودی اور قرب حاصل کرنے کیلئے اونٹ ، گائے ،بکری اور بھیڑ اور دنبہ ذبح کرنا ۔

قربانی کا حکم

قربانی کے حکم کے بارے میں علماءکے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ، ائمہ ثلاثہ یعنی امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حبل اور جمہور اہل علم سے سنت مؤکدہ ہونا منقول ہے ۔ دلائل کی رو شنی میں یہی مسلک قوی معلوم ہوتا ہے ،کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے :

إذا رأيتم هلالَ ذي الحجةِ ، وأراد أحدكم أن يُضحِّي ، فليُمسك عن شعرِهِ وأظفارِه 

(صحيح مسلم:1977)

جب ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔

وجه استدلال

أنَّه عَلَّقَ الأضْحِيَّةَ بالإرادةِ، والواجِبُ لا يُعلَّقُ بالإرادةِ 

(الحاوي الكبير، للماوردي :15/72)،و المحلى لابن حزم:7/ 355 رقم 973)

كیونكه نبی ﷺنے قربانی کو اراده کے ساتھ معلق کیا ہے ، اور واجب ارادے کے ساتھ معلق نہیں ہوتا۔

امام شافعی فرماتے ہیں :

في هذا الحديثِ دَلالةٌ على أنَّ الضحِيَّة ليست بواجبةٍ؛ لقولِ رسولِ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم:”فأراد أحَدُكم أن يضَحِّيَ ‘‘ ولو كانت الضَّحِيَّةُ واجبةً أشبَهَ أن يقول: فلا يَمَسَّ من شَعْرِه حتى يضَحِّيَ.(معَرَفة السنن والآثار:14/ 15،والمغني لابن قُدامة :9/ 436).

(معَرَفة السنن والآثار:14/ 15،والمغني لابن قُدامة :9/ 436).

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “پس تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو ۔ اس حدیث میں [من اراد] کا لفظ اختیاری ہے یعنی جو قربانی کرنا چاہے وہ قربانی کرے گویا قربانی واجبی حکم نہیں بلکہ اختیاری معاملہ ہے ۔اگر قربانی واجب عمل ہوتا تو یوں كهنا زیادہ مناسب تھا کہ’’ جب تک قربانی نہ کر لے اپنے بالوں کو ہاتھ نہ لگائے‘‘۔

قربانی کے سنت ہونے کی دلیل

ترمذی میں قربانی کے عدم وجوب سے متعلق جبلہ بن سحیم سے روایت ہےکہ :

أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْأُضْحِيَّةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ ؟ فَقَالَ ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ ،‏‏‏‏ فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَعْقِلُ،‏‏‏‏ ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ أَنَّ الْأُضْحِيَّةَ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ،‏‏‏‏ وَلَكِنَّهَا سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُعْمَلَ بِهَا ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،‏‏‏‏ وَابْنِ الْمُبَارَكِ  

( سنن الترمذي: 1506 )

کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی الله عنہما سے قربانی کے بارے میں پوچھا: کیا یہ واجب ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے، اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا، انہوں نے کہا: سمجھتے نہیں ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے،اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے، اور اس پر عمل کرنا مستحب ہے، سفیان ثوری اور ابن مبارک کا یہی قول ہے۔

بعض نے حدیث کے الفاط (من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا) یعنی جس کے ہاں مالی استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ‘‘ اس حدیث سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں ہے کہ جس نے لہسن کھایا ہو وہ ہماری مسجد میں نہ آئے ۔ اسی لیے جمہور کے نزدیک یہ حکم صرف استحباب کی تاکید کے لیے ہے ،اس کے علاوہ بھی جن دلائل سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا جاتا ہے وہ صریح نہیں ہیں ۔ صحیح یہی ہے کہ قربانی سنت ہے ۔

قربانی کی فضیلت

قرآن وحدیث کے دلائل کے رو سے ذو الحجہ کا مہینہ بڑی حرمت اور فضیلت والا ہے ۔ اسی ماہ کی دس تاریخ قربانی اور عید الاضحی کے نام سے مشہور ہے ، چنانچہ عید والےمہینوں کی فضیلت کے بارے میں نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

شَهْرَانِ لا يَنْقُصَانِ، شَهْرَا عِيدٍ: رَمَضَانُ، وذُو الحَجَّةِ.

( صحيح البخاري: 1912، ومسلم :1089)

کہ عید کےدو مہینوں کے اجر و ثواب میں کمی نہیں ہوتی خواہ ان کی تعداد کم ہو جائے۔ وہ دو مہینے رمضان اور ذوالحجہ ہیں ۔

حج اکبر

دس ذو الحجہ کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ دس ذو الحجہ حج اکبر کا دن ہے ، سیدنا علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

سألتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، عن يومِ الحجِّ الأَكبرِ فقالَ : يومُ النَّحرِ

(صحيح الترمذي: 308)

کہ میں نے رسول للہ ﷺ سے حج اکبر کے دن کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ قربانی کا دن ہے ۔

اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :

أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وقفَ يومَ النَّحرِ بينَ الجمراتِ في الحجَّةِ الَّتي حجَّ فقالَ أيُّ يومٍ هذا قالوا يومُ النَّحرِ قالَ هذا يومُ الحجِّ الأكبرِ

(صححه الألباني في صحيح أبي داود: 1945)

رسول اللہ ﷺ نحر کے روز (دسویں ذی الحجہ کو) حجۃ الوداع میں جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور لوگوں سے پوچھا: ”یہ کون سا دن ہے؟“، لوگوں نے جواب دیا: یوم النحر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی حج اکبر کا دن ہے ۔

حج اکبر کا مفہوم

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

الْحَجُّ الأَکْبَرُ یَوْمُ النَّحْرِ وَالْحَجُّ الأَصْغَرُ الْعُمْرَۃ ، وَقَدْ رُوِیَ فِی هذا عَنِ النَّبِیِّ ﷺ

(دارقطنی 2/ 285،صحیح)،  ابن ابی شیبۃ: 13659)

حج اکبر یوم نحر کو ہے اور عمرہ حج اصغر ہے۔اور یہ بات نبی ﷺ سے منقول ہے ۔

 قرآن مجید میں جويوم الحج الأكبر آیا ہے اس سے مراد یوم نحر ہی ہے، حج کو حج اکبر کہا جاتا ہے اور عمرہ کو حج اصغر، اور وہ جو عوام میں مشہور ہے کہ ” جمعہ کے دن یوم عرفہ پڑے تو حج اکبر ہے “ تو یہ بات بے دلیل اور بے اصل ہے۔ کیونکہ ’’حج اکبر‘‘ تو ’’یوم نحر‘‘ کو کہا گیا ہے، اسی بنا پر ہی تو اس عید کو بڑی عید بھی کہا جاتاہے۔

قربانی کی اہمیت

قربانی کی اہمیت کا اندازہ تو اسی بات سے لگایا جا سکتاہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ

(سورۃ الکوثر:۲)

’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘

قربانی ایك محبوب عمل

نبی ﷺ نے قربانی کی فضیلت کا ذِکر کرتےہوئے فرمایا:

مَا عِمَلَ اٰدَمِيٌّ مِّنْ عَمَلِ يَوْمِ النَّحْرِ اَحَبُّ اِلَي اللهِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ

(حسنه المباركفوری في تحفة الأحوذي: 4/429)

قربانی کے دن کوئی عمل اللہ کے نزدیک جانور ذبح كرنے سے زیادہ محبوب نہیں ہے ۔

رسول اللہﷺ کا دس سالہ عمل

قربانی سنتِ رسول ﷺ ہے ۔رسول اللہ مدینہ منورہ میں دس سال رہے ، آپ ہر سال قربانی کرتے رہے ۔

أقام رسولُ اللهِ ﷺ بالمدينةِ عشرَ سنينَ يُضحِّي

(تخريج المسند لأحمد شاكر: 7/71، إسناده صحيح)

کہ نبی کریم ﷺ مدینہ میں دس سال رہے اور ہمیشہ قربانی دیتے رہے۔

قربانی کی تاکید

نبی کریم ﷺ نےقربانی کی تاکید کرتےہوئےارشاد فرمایا:

يا أيُّها النَّاسُ إنَّ علَى كلِّ أهْلِ بيتٍ في كلِّ عامٍ أضحيَّةً

(حسّنه الألباني في صحيح ابن ماجه: 2550)

لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ہے۔

قربانی کا دن عظیم ترین دن

قربانی کا دن عظیم ترین دنوں میں سے ایک دن ہے ۔ نبی ﷺ نےقربانی کے دن کی عظمت وفضیلت بیان کرتےہوئے ارشاد فرمایا:

إنَّ أعظمَ الأيَّامِ عندَ اللهِ تبارَكَ وتعالَى يومُ النَّحرِ ثمَّ يومُ القُرِّ

(صححه الألباني في صحيح أبي داؤد: 1765)

اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑھ کر عظمت والا دن قربانی کا دن ( 10 ذوالحجہ ) ہے۔پھر ( 11 ذوالحجہ ) یعنی منی میں حاجیوں کے ٹھہرنے کادن ہے۔

 ان احادیث سے قربانی کی اہمیت اور فضیلت  واضح ہوجاتی ہے ۔ لہذ اللہ کسی کو توفیق دے تو قربانی ضرور کر لینی چاہیئے اور اس کا اجر وثواب حاصل کرنا چاہیئے ۔

مسافر کی قربانی

مسافر حالت سفر میں قربانی دے سکتا ہے ، نبی ﷺ نے سفر میں قربانی دی ہے چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

ذبح رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ضحيتَه ثم قال: يا ثوبانُ ! أصلِحْ لحمَ هذه، فلم أزلْ أُطْعِمُه منها حتى قدمَ المدينةَ .

(صحيح مسلم:1975)

رسول اللہ ﷺنے قربانی کا ایک جانور ذبح کرکے فرمایا:ثوبان! اس کے گوشت کو درست کرلو یعنی ساتھ لے جانے کے لیے تیار کر لو۔ پھر میں وہ گوشت آپ کو کھلاتا رہا یہاں تک کہ آپ مدینہ تشریف لے آئے۔

قربانی كرنے والوں کیلئےنبی ﷺ کی ہدایت

رسول اللہ ﷺ نےقربانی کا ارادہ رکھنے والوں کیلئےارشاد فرمایا:

مَن كانَ له ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فإذا أُهِلَّ هِلالُ ذِي الحِجَّةِ، فلا يَأْخُذَنَّ مِن شَعْرِهِ، ولا مِن أظْفارِهِ شيئًا حتَّى يُضَحِّيَ

( صحيح مسلم: 1977)

” جس کے پاس کوئی جانور ہو جسے وہ  قربانی کے لیے  ذبح کرنا چاہتا ہو تو ذوالحجہ کا چاند نظر آ جانے کے بعد اپنے بال اور ناخن ہرگز نہ کاٹے حتیٰ کہ قربانی کر لے‘‘ ۔

یہ پابندی کس کے ساتھ خاص ہے ؟

بال وناخن کی یہ پابندی صرف قربانی کرنے والوں کی طرف سے ہے، گھر کے دوسرے افراد مستثنی ہیں لیکن سبھی پابندی کرنا چاہیں تو اچھی بات ہے ۔اگرقربانی دینے والے نے بھول کر اپنا بال یا ناخن کاٹ لیا تو اس پہ کوئی گناہ نہیں لیکن جس نے جان بوجھ کربال یا ناخن کاٹا تو اس پر توبہ لازم ہے ۔

اگر کسی کے پاس قربانی کی استطاعت نہ ہو

اگر کوئی قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اگر وہ بھی عید کی نماز پڑھنے تک بال اور ناخن نہ کاٹےبلکہ عید کی نماز پڑھنے کے بعد کاٹے تو وہ بھی باذن اللہ قربانی کا اجر پائے گا ۔( نسائی ، ابوداؤد، ابن حبان ، دارقطنی،بیہقی اور حاکم سمیت متعدد کتب حدیث میں یہ حدیث موجود ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

أُمِرْتُ بِيَومِ الأضحَى، جعَلَه اللهُ عيدًا لهذه الأُمَّةِ، فقال الرَّجُلُ: أرأَيْتَ إنْ لمْ أجِدْ إلَّا مَنيحَةَ ابني، أفَأُضَحِّي بها؟ قال: لا، ولكنْ تأخُذُ مِن شَعرِكَ، وتُقلِّمُ أظفارَكَ، وتقُصُّ شاربَكَ، وتحلِقُ عانتَكَ، فذلك تمامُ أضحِيَتِكَ عند اللهِ.

(: تخريج المسند لأحمد شاكر : 10/81، إسناده صحيح،  وتخريج المسند لشعيب الأرناؤوط: 6575، إسناده حسن)

مجھے قربانی کے دن کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ اسے بطور عید مناؤں جسے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے خاص کیا ہے ۔ایک آدمی نے کہا : فرمائیے کہ اگر مجھے دودھ کے جانور کے سوا کوئی جانور نہ ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں ‘ بلکہ اپنے بال کاٹ لو ‘ ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیر ناف کی صفائی کر لو ۔ اﷲ کے ہاں تمہاری یہی کامل قربانی ہو گی ۔

قربانی کا مقصد

قربانی در اصل اپنے رب کی حکم کی تعمیل بجا لانا ہے ، اس کے ذریعے مسلمان اقرار کرتا ہے کہ میری جان ومال اور دیا ہوا سب کچھ میرے رب کیلئے ہے ۔اس فریضے کو ادا کرنے کیلئے ہمیں صرف جانور ہی ذبح نہیں کرنے بلکہ بے جا نمود ونمائش سے بھی پرہیز کرنا ہے ۔ سوسائٹی اوررشتہ داروں میں اپنا اسٹیٹس بڑھانے اور دکھاوے کی خاطراچھے سے اچھا جانور لانا ، اپنا نام اونچا کرنے اور اور علاقے میں شہرت کی خاطر دل میں اگر ذرہ برابر بھی تکبر اور بڑائی بھی آگئی تو یقینا ایسی قربانی رب کو مطلوب نہیں ہے ۔ ایسی قربانی سے رب تعالیٰ نے منع فرمایاہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

لَن يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ

( سورۃ الحج :37)

 اللہ کو قربانی کے جانوروں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اُسے تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

لہذا اس دینی فریضے کو اللہ تعالیٰ کے خوف کے ساتھ اس کی خوشنودی کے لیے ادا کرنا ہی افضل عمل ہے ۔

قربانی سے پہلے نیت کی درستگی

قربانی سے پہلے نیت کی درستگی ازحد ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالی ریاکاری اوردکھلاوے کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ  

(سورة البينة :  5)

اللہ نے یہی حکم دیاہے کہ وہ بندگی کو اللہ کیلئے خالص کرے۔

كیونكه اللہ تعالی تک صرف وہ عمل پہنچتاہےجو خالص ہو،  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنَّ اللهَ لا يقبلُ منَ العملِ إلَّا ما كانَ لَهُ خالصًا ، وابتغيَ بِهِ وجهُهُ

( صححه الألباني في صحيح النسائي: 3140)

اللہ تعالیٰ صرف اس عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لیے کیا جائے اور صرف اس کی رضا مندی مقصود ہو۔

اس لیے جو بھی عمل کرے صرف خالص اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے کرنا چاهیئے ۔

گھر والوں کی طرف سے ایک جانور کافی ہے

عطا بن یسار کہتے ہیں ،میں نے جناب ابو ایوب انصاری سے پوچھا :

كيفَ كانتِ الضَّحايا علَى عَهدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ كانَ الرَّجلُ يُضحِّي بالشَّاةِ عنهُ وعن أهلِ بيتِه فيأكلونَ ويَطعمونَ حتَّى تَباهى النَّاسُ فصارت كما تَرى

(صححه الألباني في صحيح الترمذي: 1505)

کہ پیارے نبی ﷺ کے مبارک دور میں قربانیاں کس طرح کرتے تھے ،انہوں نے بتایا کہ :  ہر آدمی ایک بکری اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف قربان کرتا تھا ،اور سب اسی کو خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے ؛لیکن بعد میں لوگوں نے فخر ونمود کا مظاهره شروع کردیا ،اور اب جو صورت ہے وہ تم دیکھ رہے ہو ۔

ایک سے زیادہ قربانی

ایک گھرانے کی طرف سے ایک سے زیادہ قربانی کرنا نبی ﷺ سے ثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

ضَحَّى النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بكَبْشينِ أمْلَحَيْنِ، فَرَأَيْتُهُ واضِعًا قَدَمَهُ علَى صِفَاحِهِمَا، يُسَمِّي ويُكَبِّرُ، فَذَبَحَهُما بيَدِهِ.

(صحيح البخاري: 5558، ومسلم :1966)

رسول اللہ ﷺ نے سینگوں والے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کیے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے ان کے پہلوؤں پر اپنا پاؤں رکھا اور ’’ بِسْمِ اللهِ وَاللهُ أكْبَرُ ‘‘ پڑھ کر ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔

میت كی طرف سے قربانی

میت کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے۔آپ ﷺ کے عمل مبارک اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل مبارک سے اس کا ثبوت موجود ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے :

أنَّ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أَمَرَ بكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ في سَوَادٍ، وَيَبْرُكُ في سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ في سَوَادٍ، فَأُتِيَ به لِيُضَحِّيَ به، فَقالَ لَهَا: يا عَائِشَةُ، هَلُمِّي المُدْيَةَ، ثُمَّ قالَ: اشْحَذِيهَا بحَجَرٍ، فَفَعَلَتْ: ثُمَّ أَخَذَهَا، وَأَخَذَ الكَبْشَ فأضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ، ثُمَّ قالَ: باسْمِ اللهِ، اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِن مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، ثُمَّ ضَحَّى بهِ.

( صحيح مسلم: 1967)

کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے مینڈھے کے متعلق قربانی کاحکم فرمایا: جس کے کھر، گھٹنے اور آنکھوں کے حلقے سیاہ تھے، چنانچہ جب وہ آپ کے پاس قربانی کے لیے لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ ! چھری لے آؤ، پھرفرمایا: اسے پتھر سے تیز کرلو، چنانچہ میں (حضرت عائشہؓ) نے چھری تیز کرلی، پھر آپ نے چھری لی اور مینڈھے کو پکڑا اور اسے پہلو کے بل لٹا کر یہ فرماتے ہوئے ذبح کیا: اللہ کے نام سے (ذبح کررہا ہوں) اے اللہ ! اسے محمد اور آل محمد اورامت محمد کی طرف سے قبول فرمالیجئے۔

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

كانَ إذا أرادَ أن يضحِّيَ، اشتَرى كبشينِ عظيمينِ، سَمينينِ، أقرَنَيْنِ، أملَحينِ موجوءَينِ، فذبحَ أحدَهُما عن أمَّتِهِ، لمن شَهِدَ للَّهِ، بالتَّوحيدِ، وشَهِدَ لَهُ بالبلاغِ، وذبحَ الآخرَ عن محمَّدٍ، وعن آلِ محمَّدٍ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ 

(صححه الألباني في صحيح ابن ماجه: 2548)

کہ رسول اللہ ﷺ جب قربانی کرنا چاہتے تو دو بڑے بڑے ،موٹے تازے ،سینگوں والے چتکبرے او رخصی مینڈھے خریدتے ۔ ایک اپنی امت کی طرف سے ذبح فرماتے ،یعنی امت کے ہر اس فرد کی طرف سے جو اللہ کی گواہی دیتا ہو اور نبی ﷺ کے پیغام پہچانے (اور رسول ہونے ) کی گواہی دیتا ہو ۔اور دوسرا محمد ﷺ کی طرف سے ، اور محمد ﷺ کی آل کی طرف سے ذبح کرتے ۔

محمد بن محمد المختار الشنقيطی حنبلی فرماتے ہیں کہ:

فالتضحية عن الميت فيها قولان مشهوران: قول جمهور العلماء، وهم على جواز التضحية عن الأموات، والدليل على ذلك ما ثبت في الحديث الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم لما ضحى بالكبشين قال عليه الصلاة والسلام: (اللهم هذا عن محمد وعن آل محمد)، قالوا: وفي آله الأحياء والأموات، وكذلك قال: (عمن لم يضح من أمة محمد)، فشمل أحياءهم وأمواتهم.

(شرح زاد المستقنع للشنقيطي: 130/ 25)

میت کی طرف سے قربانی کرنے میں دو قول ہیں: ان میں سے پہلا قول جمہور علماء کا قول ہے کہ : میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے،کیونکہ صحیح حدیث میں حضورﷺ سے اپنی طرف سے اور اپنی آل کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے،جبکہ آل میں زندہ اور فوت شدہ تمام افراد داخل ہیں،اور اسی طرح اس کی طرف  سے قربانی کی جس نے قربانی نہ کی ہو،اس میں بھی زندہ اور فوت شدہ  تمام افراد داخل ہیں۔

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 وتجوز الأضحية عن الميت كما يجوز الحج عنه والصدقة عنه.

( مجموع الفتاوى: 26/ 306)

کہ میت کی جانب سے قربانی کرنا جائز ہے جیساکہ میت کی طرف سے حج اور صدقہ کرنا جائز ہے۔

محمد بن صالح بن محمد العثيمين فرماتے ہیں کہ:

أما إدخال الميت تبعا فهذا قد يُستدل عليه بأن النبي صلى الله عليه وسلم ضحى عنه وعن أهل بيته وأهل بيته يشمل زوجاته اللاتي متن واللاتي على قيد الحياة وكذلك ضحى عن أمته وفيهم من هو ميّت وفيهم من لم يوجد

(الشرح الممتع على زاد المستقنع: 7/ 423)

تبعا میت کا حصہ داخل کرنا درست ہے ، کیونکہ اس کا ثبوت حضورﷺ کی حدیث  مباركہ میں موجود ہےکہ آپ نے اپنی اور اہل بیت کی  طرف سے قربانی فرمائی ، حالانکہ اس میں وہ ازواج بھی شامل ہیں جو فوت ہوچکی ہیں ،اور وہ بھی جو زندہ ہیں۔اسی طرح آپ نے اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی فرمائی حالانکہ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو فوت ہوچکے ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جنہیں قربانی کا جانور نہیں مل سکا۔

مفتی عام سعودی عرب شیخ عبد العزیز بن باز رحمه الله فرماتے هیں:

 ليس لهذا حد، فله أن يضحي عن الميت، وله أن يضحي عن الحي من أهل بيته كأن يذبح ضحية عنه وعن والديه الأحياء وعن أهل بيته من زوجة وأولاد، وله أن يضحي عن الميت من أبيه أو أمه أو خالته أو خاله أو نحو ذلك، وليس لذلك حد، إذا ضحى كل سنة فهذا حسن، والضحية سنّة كل سنة، النبي كان يضحي كل سنة عليه الصلاة والسلام ضحيتين: إحداهما عنه وعن أهل بيته، والثانية عمن وحد الله من أمته عليه الصلاة والسلام.

( فتاوی نور علی الدرب ، الشريط رقم: 361)

اس کی کوئی حد نہیں، لہٰذا وہ میت کی طرف سے قربانی کر سکتا ہے، اور اپنے گھر کے زندہ لوگوں کی طرف سے بھی قربانی کر سکتا ہے، یعنی وہ اپنی طرف سے اور اپنے زندہ والدین یا اپنے گھر والے جیسے کہ اس کی بیوی اور بچوں کی طرف سے کوئی قربانی ذبح کرے، اور اسی طرح وہ میت کی طرف سے بھی قربانی کر سکتا ہے جیسے اپنے والد، والدہ، خالہ، چچا یا ان جیسے لوگوں کی طرف سے قربانی کرے، اس کے لیے کوئی حد نہیں ہے، اگر وہ ہر سال قربانی کرےتو یہ اچھی بات ہے کیونکہ قربانی تو ہر سال سنت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دو قربانیاں کرتے تھے، ایک اپنی طرف سے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے اور دوسری اپنی امت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے لوگوں کی طرف سے ۔

امام بغوی رحمہ اللہ کا فتوی

ابو محمد الحسين بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوي الشافعي رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

ولو ضحى عن ميت جاز

(شرح السنة:  4/ 358)

اگر کوئی شخص میت کی طرف سے قربانی کرے تو جائز ہے اس کی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل ہے۔

علامه عبد الرحمن بن عبد الرحيم المباركفورى رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

حكى الإمام البغوي في شرح السنة عن بن المبارك قال في غنية الألمعي ما محصله إن قول من رخص في التضحية عن الميت مطابق للأدلة ولا دليل لمن منعها وقد ثبت أنه صلى الله عليه وسلم كان يضحي كبشين أحدهما عن أمته ممن شهد له بالتوحيد وشهد له بالبلاغ والآخر عن نفسه وأهل بيته ومعلوم أن كثيرا منهم قد كانوا ماتوا في عهده صلى الله عليه وسلم فدخل في أضحيته صلى الله عليه وسلم الأحياء والأموات كلهم والكبش الواحد الذي يضحي به عن أمته كما كان للأحياء من أمته كذلك كان للأموات من أمته بلا تفرقة.

(تحفة الأحوذي 5/ 66)

امام بغوی نے شرح السنۃ میں عبد اللہ ابن مبارک کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے غنیۃ الامعی میں لکھا  جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:جس شخص نے میت کی طرف سے قربانی کرنی کی رخصت دی ہے وہ  دلیل کے مطابق ہے،اور جس شخص نے منع کیا ہے اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، ثبوت کی دلیل یہ ہے کہ حضور ﷺ دو دنبے قربان فرماتے،  ایک اپنی  اور اپنے اہل بیت کی  طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے توحید اور رسالت کا اقرار کیا ہے، اور معلوم ہے کہ بہت سے افراد حضورﷺ کے عہد مبارک تک فوت ہو چکے تھے،پس حضورﷺ کی قربانی میں زندہ اور فوت شدہ سب ہی افراد داخل ہوگئے ۔ثابت ہوا کہ ایک ہی جانور زندہ اور فوت شدہ سب ہی افراد کی طرف سے تھا۔

خلاصہ کلام

احادیث مبارکہ اور ائمہ کے اقوال سے معلوم ہوا کہ مرحومین کی جانب سے قربانی کرنا جائز ہے اور خود رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کی جانب سے قربانی فرمائی ہے ۔جب آپﷺ نے یہ قربانی کی تھی تو امت میں سے بہت سے لوگ دنیا سے جا چکے تھے ، آپ ﷺنے ان کی جانب سے قربانی دی ، نیز بہت سے وہ بھی امتی تھے ،جو بعد میں ہو ئے اور ہوں گے ، آپ نے ان کی جانب سے بھی قربانی فرمائی ۔

 الغرض یہ بات واضح و ثابت ہوئی کہ زندوں اور  فوت شدہ  دونوں کی جانب سے قربانی کرنا درست و جائز ہے اور یہ کہ اس کا ثواب ان کو پہنچتا ہے ، خود اللہ کے رسول ﷺنے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا کیا ہے ۔

حاملہ جانور کی قربانی

قربانی کی جانور کا حاملہ ہونا قربانی کیلئے رکاوٹ یا مانع نہیں ہے۔ حاملہ اونٹنی، گائے اور بکری قربانی کیلئے ذبح کرسکتے ہیں ،ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

سألتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ عنِ الجنينِ فقالَ كلوهُ إن شئتُم ، وقالَ مسدَّدٌ قلنا يا رسولَ اللهِ ننحرُ النَّاقةَ ونذبحُ البقرةَ والشَّاةَ فنجدُ في بطنِها الجنينَ أنلقيهِ أم نأْكلُهُ قالَ كلوهُ إن شئتُم فإنَّ ذَكاتَهُ ذَكاةُ أمِّهِ

(صحيح أبي داود:2827)

کہ میں نے رسول اللہ ﷺسےجانور كے اس بچے کے بارے میں پوچھا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو اسے کھا لو۔ مسدد کی روایت میں ہے: ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں تو کیا ہم اس کو پھینک دیں یا اس کو بھی کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہو تو اسے کھا لو، اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا بھی ذبح کرنا ہے۔

اس حدیث سے ایک مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ حاملہ جانور (اونٹنی ،گائے،بکری)کی قربانی کرنا جائز ہے اور دوسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ حاملہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے جو بچہ نکلے گا اس کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ماں کا ذبح کرنا گویا بچے کا بھی ذبح کرنا ہےاس لئے بچے کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، بغیر ذبح کے اسے کھاسکتے ہیں خواہ پیٹ سے زندہ باہر نکلے یا مردہ ۔

دودھ دینے والے جانور کی قربانی

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ . قَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: «لَا وَلَكِنْ خُذْ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ مِنْ شَارِبِكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللهِ

(حسنه الشيخ زبير على زئي في سنن ابی داود :2789،  ومسند احمد :2/169 بإسنادحسن)

’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس امت کے لیے اضحی کے دن کو عید قرار دوں ۔‘‘ کسی آدمی نے آپ ﷺ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں اگر میں دودھ دینے والی بکری ، جو کہ مجھے کسی نے عطیہ کی ہے ، کے سوا کوئی جانور نہ پاؤں تو کیا میں اسے ذبح کر دوں ؟ فرمایا :’’ نہیں ، لیکن تم (عید کے روز) اپنے بال اور ناخن کٹاؤ ، مونچھیں کتراؤ اور زیر ناف بال مونڈ لو ، اللہ کے ہاں یہ تمہاری مکمل قربانی ہے۔

قربانی کے جانور کونسے ہیں ؟

قربانی بھیمۃ الانعام یعنی گھریلو پالتو جانوروں میں سے ہو جو کہ اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری ہیں ؛فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ  

(سورۃ الحج:34)

اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر فرما دیا ہے تا کہ وہ اللہ کے عطا کردہ بھیمۃ الانعام یعنی پالتو جانوروں پر اللہ کا نام لیں۔

اور “بھیمۃ الانعام” سے مراد اونٹ گائے بھیڑ اور بکری ہیں ،لہذاقربانی کے جانوروں میں اونٹ ، گائے ، بکری اور بھیڑ  ( نر ومادہ) شامل ہے ۔اس طرح آٹھ قسم کے جانوروں کی قربانی کی جاسکتی ہے ۔فرمان الہی ہے :

ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ  مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ، وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ)

(سورۃ الأنعام :144،143)

کل آٹھ جوڑے (نر ومادہ ) ہیں، بھیڑ کے دو اور بکری کے دو، نیز اونٹ کی جنس سے دو اور گائے کے دو جوڑے ہیں ۔

کن جانور وں کی قربانی جائز نہیں

قربانی کا جانور تازہ ، تندرست اور بے عیب ہونا چاہیئے ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ وَأَصَابِعِي أَقْصَرُ مِنْ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ يَقُولُ لَا يَجُوزُ مِنْ الضَّحَايَا: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ عَرَجُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا ، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي .

(صحيح النسائي:4383)

میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اور آپ اپنی مبارک انگلیوں کے ساتھ اشارہ بھی فرما رہے تھے:… اور میری انگلیاں رسول اللہ ﷺ کی مقدس انگلیوں سے کوتاہ ہیں… ”چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں: کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو، مریض جس کا مرض واضح ہو اور اتنا کمزور جانور کہ اس میں گودا تک نہ ہو۔“

خریدنے کے بعد اگر عیب پیدا ہوجائے

قربانی کا جانور تندرست اور بےعیب ہونا چاہیئے لیکن قربانی کا جانور خریدنے کے بعداگر اس میں عیب پیدا ہوجائے مثلا۔ ٹانگ ،سینگ ، دانت یا ہڈی ٹوٹ جائے، کان کٹ جائے،مریض ہو جائے توكوئی حرج نهیں ، اس جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے۔ سیدنا عبدا للہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں :

إن کان أصابہا بعد ما اشتریتموها فامضوها وإن کان أصابہا قبل أن تشتروها فأبدلوها

(السنن الکبری للبیہقی : 9/289 ، وسندہ صحیح)

یعنی اگر خریدنے کے بعد عیب پیدا ہو تو قربانی کر دو ، لیکن اگر عیب پہلے سے موجود ہو تو اسے بدل لو۔

امامِ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

إذا اشتری رجل أضحیة فمرضت عندہ أو عرض لہا مرض فهي جائزۃ  

(مصنف عبدالرزاق : 4/386، 8161 ، وسندہ صحیح)

”جب آدمی قربانی کا جانور خرید لے ، پھر بعد میں وہ بیمار ہو جائے تو اس کی قربانی جائز ہے۔”

خصی جانور کی قربانی

قربانی کے جانور کا خصی ہونا كوئی عیب نہیں ہے ،نبی كریم ﷺ نے خود دو خصی مینڈھوں کی قربانی کی ہے۔حضرت عائشہ اور حضرت ابو ہریرہ  رضی الله عنهما سے روایت ہے:

كانَ إذا أرادَ أن يضحِّيَ، اشتَرى كبشينِ عظيمينِ، سَمينينِ، أقرَنَيْنِ، أملَحينِ موجوءَينِ، فذبحَ أحدَهُما عن أمَّتِهِ، لمن شَهِدَ للَّهِ، بالتَّوحيدِ، وشَهِدَ لَهُ بالبلاغِ، وذبحَ الآخرَ عن محمَّدٍ، وعن آلِ محمَّدٍ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ

(صححه الألباني في صحيح ابن ماجه: 2548)

کہ رسول اللہ ﷺ جب قربانی کرنا چاہتے تو دو بڑے بڑے ،موٹے تازے ،سینگوں والے چتکبرے او رخصی مینڈھے خریدتے ۔ ایک اپنی امت کی طرف سے ذبح فرماتے ،یعنی امت کے ہر اس فرد کی طرف سے جو اللہ کی گواہی دیتا ہو اور نبی ﷺ کے پیغام پہچانے (اور رسول ہونے ) کی گواہی دیتا ہو ۔اور دوسرا محمد ﷺ کی طرف سے ، اور محمد ﷺ کی آل کی طرف سے ذبح کرتے ۔

پیدائشی طور پر سینگوں کا نہ اگنا قطعی طور پر عیب نہیں ۔ اورقربانی کے لئے متعین جانور بیچنا ،ہدیہ کرنا یا گروی رکھناجائز نہیں ہے اور نہ ہی اسے باربرداری کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے۔

جانور کی عمر

قربانی کے جانور کا دو دانتا ہونا شرط ہے ، جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تَذْبَحُوا إِلا مُسِنَّةً إِلا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ .

(صحیح مسلم :1963)

تم قربانی میں محض دو دانتا جانور ہی ذبح کرو البتہ اگر (دو دانتا کا حصول) تمہارے لیے مشکل ہو جائے تو بھیڑ کی نسل سے جذعہ ذبح کر لیں ۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

ثَنِیًّا فَصَاعِدًا وَاسْتَسْمِنْ فَإِنْ أَکَلْتَ أَکَلْتَ طَیِّبًا وَإِنْ أَطْعَمْتَ أَطْعَمْتَ طَیِّبًا .

(السنن الکبریٰ للبیہقي : 9/273، وسندہ صحیح)

”قربانی کا جانور دودانتا یا اس سے بڑا ہو ،اسے خوب فربہ کیجئے!  تم بھی اچھا کھائیں اورلوگوں کو بھی اچھا کھلائیں۔”

مسنہ کسے کہتے ہیں؟

جب جانور کے دودھ کے دانت دوسرے نئے دانت نکلنے کی وجہ سے گر جائیں تو وہ مسنہ یعنی دو دانتا کہلاتا ہے۔(المصباح المنیر: 292/1،  لسان العرب: 222/13)

امام شوکانی فرماتے ہیں کہ علماء کہتے ہیں: مُسنہ اونٹ،گائے،بھیڑ اور بکری میں سے دو دانتا یا اس سے بڑی عمر کا جانور ہوتا ہے ”( نیل الاوطار:120/5)

حافظ نووی کہتے ہیں؛

مُسِنہ دودانت والے اونٹ ،گائے اور بکری وغیرہ کو کہتے ہیں ، نیز اس حدیث میں وضاحت ہے کہ بھیڑ کے علاوہ جنس کا جَذَعَۃ بطورقربانی جائز نہیں ، بقول قاضی عیاض اس پر اجماع ہے ۔”(شرح صحیح مسلم : 2/155)

جذعہ کسے کہتے ہیں؟

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے کہ:

الجذعة من الضأن ما أكمل السنة وهو قول الجمهور

(فتح الباری، پارہ: 23، ص: 324)

“یعنی بھیڑ کا جذعہ وہ ہے جو ایک سال پورا کر لے اور یہی جمہور کا قول ہے”

بذل المجهود شرح ابوداؤد میں درج ہے کہ:

فى اللغة ما تمت له سنة

(بذل المجهود شرح أبوداؤد، ص 71، ج4)

“لغت میں جذعہ اسے کہتے ہیں جس پر ایک سال پورا ہو گیا ہو”

لغت کی مشہور اور مستند کتاب مجمع البحار میں درج ہےکہ:

الجذع من الضأن ما تمت له سنة

(مجمع البحار ص: 181، ج1)

” بھیڑ کا جذعہ وہ ہے جو ایک سال پورا کر لے”

واضح رہے کہ جذعہ من الضان(بھیڑ کا جذعہ) کی قربانی اس وقت جائز ہے جب مسنة  (دو دانتا جانور)  لینا یا ملنا مشکل ہو۔ جیسا کہ حدیث میں ہے :

لا تَذْبَحُوا إِلا مُسِنَّةً إِلا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ .

(صحیح مسلم :1963)

مسنہ ملنا دشوار ہوجائےتو بھیڑ کا جزعہ جائز ہے ۔

تم قربانی میں محض دو دانتا جانور ہی ذبح کرو البتہ اگر (دو دانتا کا حصول) تمہارے لیے مشکل ہو جائے تو بھیڑ کی نسل سے جذعہ ذبح کر لیں ‘‘

چنانچہ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ عام حالات میں بھیڑ کاجذعہ کسی صورت جائز نہیں۔ ہاں مگر جب مسنہ ملنا دشوار ہوجائےتو بھیڑ کا جزعہ جائز ہے ۔

والجزع من الضأن ماله سنة تامة ، هذا هو الأصح عند أصحابنا ، وهو الأشهر عند أهل اللغة وغیرهم ”

(شرح صحیح مسلم : ج2/ص155)

 یعنی بھیڑ کی جنس کا جزعۃ مکمل ایک سال کا ہوتا ہے ، یہی ہمارے اصحاب کے نزدیک صحیح تر ین بات ہے اور اہلِ لغت کے ہا ں مشہور ہے ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وقد أجمع أھل العلم أن لا یجزِئُ الجذع من المعز، وقالوا : إنما یجزِئُ الجذع من الضأن۔

(سنن الترمذي: 1508)

اہلِ علم کا اجماع ہے کہ بکری کی جنس کا جذعہ قربانی میں کفایت نہیں کرتا، جبکہ بھیڑ کی جنس کا جَذَعَۃٌکفایت کر تا ہے۔

حدیث میں مذکورہ حکم عام ہے اورہر جانور کو شامل ہے ، وہ بکری کی جنس ہو یا بھیڑ کی ، گائے کی جنس ہو یا اونٹ کی ، سب کا دو دانتا ہونا ضروری ہے ، وہ صحیح احادیث جن میں بھیڑ کےجزعہ کی قربانی کا جوازہے ، وہ تنگی پر محمول ہیں ، یعنی دودانتا جانور نہ ملے تو ایک سال کا دنبہ یا بھیڑ ذبح کی جا سکتی ہے ، اس طرح تمام احادیث پر عمل ہوجائے گا۔

اونٹ اور گائے میں حصے

گائےاور بیل کی قربانی میں سات اور اونٹ کی قربانی میں دس افراد شریک ہوسکتے ہیں ،حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں:

كنَّا معَ رسولِ اللهِ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ في سفرٍ ، فحضرَ الأضحى ، فاشترَكنا في الجزورِ عن عشرةٍ ، والبقرةِ عن سبعةٍ.  

(صحيح ابن ماجه: 2553)

کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کا دن آ گیا، چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ اور اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے۔

اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ اونٹ میں دس آدمی حصہ ڈال سکتے ہیں، اس کے تعارض میں ایک روایت ہے، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں

اشتركْنا مع النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في الحجِّ والعمرةِ . كلُّ سبعةٍ في بدَنةٍ . فقال رجلٌ لجابرٍ : أيشتركُ في البدنةِ ما يشترك في الجَزورِ ؟ قال : ما هي إلا من البُدنِ

(صحيح مسلم:1318)

حج کے موقع پر ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے اور ہم فی اونٹ سات آدمی شامل ہوئے ایک شخص نے جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیا گائے میں بھی سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں؟ تو جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گائے بھی اسی کے حکم میں ہے۔

یه حدیث  ”ہدی“  یعنی منیٰ میں كی جانے والی قربانی پر محمول هے، یعنی ہدی کے جانور اونٹ ہوں یا گائے سب میں سات سات افراد شریک ہوں گے ، یعنی منیٰ میں حجاجِ کرام ایک اونٹ میں سات آدمی شریک ہوں گے، جبکہ دیگر لوگ ایک اونٹ کو دس آدمیوں کی طرف سے ذبح کر سکتے ہیں۔ اس طرح ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے تعارض اور مخالفت ختم ہو جاتی ہے۔

قربانی كا وقت

 عید کی نماز پڑھنے کے فورا بعدقربانی کا وقت شروع ہو جاتا ہے ،اگر کسی نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ قربانی شمار نہ ہوگی بلکہ اس کو اس کی جگہ دوسرا جانور قربانی کرنا پڑےگا ، حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

صَلَّى النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَومَ النَّحْرِ، ثُمَّ خَطَبَ، ثُمَّ ذَبَحَ، فَقالَ: مَن ذَبَحَ قَبْلَ أنْ يُصَلِّيَ، فَلْيَذْبَحْ أُخْرَى مَكَانَهَا، ومَن لَمْ يَذْبَحْ، فَلْيَذْبَحْ باسْمِ اللَّهِ.

(صحيح البخاري: 985)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہوتو اسے دوسرا جانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہیے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیا ہو وہ اللہ کے نام پر ذبح کرے۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عید کی نماز سے پہلے قربانی صحیح نہیں ہے بلکہ عید کی نماز کے بعد قربانی کرنا صحیح ہے ۔

قربانی كےكتنے دن هیں؟

قربانی کے چار دن ہیں ،جو  10، 11، 12، 13  ذوالحجہ کے ایام ہیں۔ قربانی کے دن دس ذو الحجہ بعد نماز عید شروع ہوکر تیرہ ذوالحجہ کے مغرب کا سورج غروب ہونے پر ختم ہوجاتا ہےیعنی قربانی کے چار دن کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ثابت ہیں ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :

كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ ، وارفعوا عن عُرَنَةَ ، وكُلُّ مزدلِفَةَ موقِفٌ ، وارفعوا عن بطنِ مُحَسِّرٍ ، وكلُّ فجاجِ مِنًى منحرٌ ، وكلُّ أيامِ التشريقِ ذبحٌ

( صحيح الجامع:4537)

پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادی محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح(قربانی) کرنے کے دن ہیں۔

 علامه مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  :

(وأيام التشريق) أي اليوم الحادي عشر والثاني عشر والثالث عشر

( تحفة الأحوذي ،ج 2، ص :63)

یعنی ایام تشریق گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کو کہتے ہیں ۔

حضرت جبیر بن مطعم رضی الله عنه سے روایت هے كه نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كل أيام التشريق ذبح  

(السلسلة الصحیحة : 1022)

تمام ایام تشریق ذبح كےدن ہیں۔

 اس سے ثابت هوا كه قربانی 13 ذو الحجه تک جائزہے۔ جب یہ ثابت ہو چکا کہ 10 ذی الحجہ کے علاوہ ایام تشریق تین دن 11،12،13 ہیں تو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ متعدد مرفوع اور موقوف احادیث کے مطابق سارے ایام تشریق قربانی کے دن ہیں، جن میں قربانی کی جا سکتی ہے۔

قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا

اپنے ہاتھ سے قربانی کا جانور ذبح کرنا بہتر ہے ،  اور مستحب عمل ہے۔ ہاں اگر خود ذبح نہیں کر سکتا تو کسی اور سے ذبح کروانا بھی جائز ہے ۔حضرت جابررضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ:

ثمَّ انصرفَ إلى المنحَرِ فنحرَ ثلاثًا وستِّينَ بدَنةً بيدِهِ وأعطى عليًّا فنَحرَ ما غبرَ وأشرَكَهُ في هديِهِ ثمَّ أمرَ من كلِّ بَدنةٍ ببِضعةٍ فجَعلَت في قِدرٍ فطبَخَت فأكلا من لَحمِها وشَرِبا من مرقِها ثمَّ أفاضَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ إلى البيتِ فصلَّى بمَكَّةَ الظُّهرَ فأتى بني عبدِ المطَّلبِ وَهم يَسقونَ علَى زمزمَ فقالَ انزِعوا بَني عبدِ المطَّلبِ لَولا أن يَغلبَكمُ النَّاسُ علَى سِقايتِكم لنزعتُ معَكم فناوَلوهُ دلوًا فشربَ منْهُ

(صحيح مسلم: 1218)

 (رمی کے بعد) نبی کریمﷺ نحر کی جگہ آئے اور تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر ( یعنی قربان ) کیے، باقی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دئیے کہ انہوں نے نحر کئے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی قربانی میں شریک کیا اور پھر ہر اونٹ سے گوشت ایک ٹکڑا لینے کا حکم فرمایا ۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق  ہر اونٹ سے گوشت ایک ٹکڑا لے کر ) ایک ہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربه پیا۔

ذبح کی دعا

قربانی كے جانور كو ذبح كرنے سے پهلے مسنون دعا پڑھنی چاهیئے ۔حضرت جابر رضی الله عنه بیان كرتے هیں که نبی ﷺ نے قربانی كے دن دو سینگوں والے ابلق اور خصی دنبے ذبح كیے ، جب آپ نے ان كوقبله رخ لٹایا تو یه دعا پڑھی پھر جانور کو ذبح کیا :

 إنِّي وجَّهتُ وَجْهيَ للذي فطَرَ السمواتِ والأرضَ، على مِلَّةِ إبراهيمَ حنيفًا، وما أنا مِن المشرِكينَ، إنَّ صلاتي ونُسُكي، ومَحْيايَ ومَماتي للهِ ربِّ العالمينَ، لا شَريكَ له، وبذلك أُمِرتُ وأنا مِن المسلمينَ، اللهمَّ منك ولك، عن محمَّدٍ وأُمَّتِه، باسمِ اللهِ واللهُ أكبرُ

(تخريج سنن أبي داؤدلشعيب الأرناؤوط: 2795 ،  إسناده حسن ، و صحیح سنن أبی داؤد بتراجع الألبانی: 2491)

قصائی کو اجرت میں کھال دینا

قصائی کو اجرت میں کھال یا گوشت نہیں دینا چاہیئے بلکہ اس کو اجرت اپنی جیب سے دینی چاہیئے ، جیساکہ حدیث میں آتا ہے،  حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

أمَرَني رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أنْ أقومَ على بُدْنِهِ، وأَقسِمَ جُلودَها وجِلالَها، وأمَرَني ألَّا أُعطيَ الجزَّارَ منها شيئًا، وقال: نحنُ نُعطيهِ مِن عِندِنا

(صحيح أبي داود : 1769)

کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں قربانیوں کا گوشت اور ان کی کھالیں اور جھولیں خیرات کر دوں اور قصائیوں کو اس میں سے کچھ نہ دوں، فرمایا: ہم قصائیوں کو اجرت اپنے پاس سے دیتے تھے ۔

سنت ابراہیمی اور ہماری ذمہ داری

عید قربان پر ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرنے کا حکم ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوسکے ۔ رب العزت نے قربانی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سورۃ الحج میں ارشاد فرمایاہے: 

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ

(سورۃ الحج: 34)

اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کا دن مقرر کیا ہے، تاکہ اللہ نے انہیں جو جانور بطور روزی دیا ہے انہیں اللہ کا نام لے کر ذبح کریں، پس تمہارا معبود ایک اللہ ہے تو تم لوگ اسی کے سامنے جھکو اور اے نبی ! آپ عاجزی و انکساری اختیار کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔

اسی سورت میں مزید ارشاد فرمایا:

وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ  فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ  فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

(سورۃ الحج: 36)

 اور ہم نے قربانی کے اونٹوں کو تمہارے لیے اللہ کی نشانیاں بنائی ہیں، تمہارے لیے ان میں دین و دنیا کی بھلائی ہے، پس جب وہ پاؤں بندھے کھڑے ہوں تو انہیں اللہ کے نام سے ذبح کرو، پس جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو ان کا گوشت کھاؤ، اور نہ مانگنے والے اور مانگنے والے دونوں قسم کے فقیروں کو کھلاؤ ، ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اس طرح اس لیے تابع بنا دیا ہے تاکہ اللہ کا شکر ادا کرو۔

عید الاضحی کا بنیادی فلسفہ ہی قربانی،ایثار، خلوص اور اللہ کی راہ میں اپنی عزیز ترین چیز نچھاور کردینا ہے۔ اگر عید الاضحی سے ہرطرح کی قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحی کا مفہوم بے معنی ہوجاتا ہے ۔عید قرباں منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور اللہ کے ساتھ محبت و وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی انسان محض ایک جانور پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے جو قربانی میں مطلوب ہے۔ تو وہ ایک ناحق جاندار کا خون بہاتا ہے۔

عید قربان کی خوشیوں میں جہاں رشتہ داروں اور عزیز واقارب کو یاد رکھا جاتا ہے ، انہیں قربانی کا گوشت فراہم کیا جاتا ہے وہیں ہمارے ارد گرد موجود معاشرے کے سفید پوش خاندان بھی ہماری توجہ کے مستحق ہیں ، جو مہنگائی اور حالات کی جبر کی وجہ سے قربانی نہیں کر پاتے ۔ ہم ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ جہاں روزانہ ہزاروں خاندان نہ صرف بھوکے پیٹ سوتے ہیں بلکہ صاف پانی اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں ۔ آپ یہ جان کر حیران ہوجائیں گے کہ ملک کے مضافاتی علاقوں میں ایسے خاندان بھی بستے ہیں جنہیں پورا سال صرف عید پر ہی گوشت کھانا نصیب ہوتا ہے ۔ ان کے پاس نہ مال مویشی ہیں اور نہ ہی کوئی ذریعہ آمدن ہے ، بالکل بے یار ومددگار زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم شب وروز بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔

قربانی ان لاکھوں ضرورت مندوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے جنہیں پورا سال دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا ۔عید قربان ضرورت مندوں اور ناداروں کے لیے خوشیوں کا پیغام لے کرآتی ہے اس مذہبی تہوار کی بدولت مستحقین کو گوشت میسر آتا ہے ۔

  1. (فیروز اللغات، ص: 953، نیو ایڈیشن)
الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ

Recent Posts

منہجِ سلف سے کیا مراد ہے؟

منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…

7 hours ago

یا محمد ﷺ کہنا یا لکھنا کیسا ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…

1 day ago

ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد!؟

اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…

4 days ago

داتا اور مشکل کشا کون؟

اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…

4 days ago

مشکلات اور پریشانیوں کےحل کےلیے نسخہ؟

قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…

1 week ago

جنتی فرقہ کونسا ہے؟

فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…

1 week ago